کسان کو "ان داتا" کہا ہے ، کسان اور کاشت کار کی شریعت میں بے انتہا اہمیت ہے ، کیوں نہ ہوں کہ کیوں کسان اور کاشت کار حضرات ہی وہ ہوتے ہیں جو سارے سماج اور معاشرے کے لئے دو وقت کی روٹی اور انسان کی بھوک کو مٹانے کے لئے رات ودن جدوجہد اور تگ و دو کرتے ہیں۔ زمین کے سینہ چیر کر غلوں کو برآمد کرتے ہیں، رات و دن غذائی اجناس کو اگائی پکائی میں محنت و مشقت اٹھاتے ہیں، نہ تو انہیں سردی کی کوئی پرواہ ہوتی ہے ، نہ گرمی کا کوئی اندیشہ ، نہ آندھی طوفان ان کے راہ کے روڑے ثابت ہوتے ہیں۔
نہ بجلیاں اور طوفان ان کے قدموں کو روکتے ہیں، رات کا اندھیرا ان کے لئے کوئی حارج ہوتا ہے، نہ تڑکے جاگنا اور دن کی تپش اور سخت سردی بھی ان کو اپنے کاز سے روکتی ہے۔ ہر دم عمل ، پیہم جدوجہد کے وہ پیکر ہوتے ہیں، خدا کی نعمتوں کو زرعی پیداوار کی شکل میں ہر وقت در آمد کرتے ہیں، انسانیت کی بھوک وپیاس کا سامان کرتے ہیں، روٹی چاول اور ،دال ، اجناس، پھل فروٹ کی شکل میں ہر دم وہ انسانیت کی حیات وبقاء کے لئے اپنے کو تج دیتے ہیں، اس لئے کہ جو زرق ہمیں پہنچتا ہے کہ یہ اتنے آسان سہل انداز میں ہم تک نہیں پہنچاتا ہے ، کسان کے زمین ہموار کرنے ، بوج بینے ، پانی پہنچانے اوراس کے نگہداشت کرنے اوراس کے نشوونما کیلئے جدوجہد کرنے، پھر اس کے پکنے کے بعد اس کی کٹائی پسائی سے لے کرپھر انسان کے لئے پک کر غذا کی شکل میں اس کے فراہمی تک مختلف مراحل ہوتے ہیں، جس میں کسان کاشت کار اپنے آپ کو تھکاتے ہیں، تب کہیں جاکر یہ خدائی نعمتیں اجناس جس کو اللہ عزوجل اس زمین کے اندر پہناں کررکھا ہے ، اس قدرت خدا وندی کے مظاہر کو زمین سے چیر کر نکالتے ہیں۔
کوئی پیشہ خواہ وہ زراعت ہی کیوں نہ ہو ممنوع نہیں ہے ، اگر احکام خداوندی کی ادائیگی کے ساتھ اس پیشہ کو اپنایا جائے، فرائض وعبادات کی تکمیل کے ساتھ زرعی مصروفیات میں لگے رہے تو در اصل یہ خود عبادت ہے ، انسانیت کی خدمت ہے ، مخلوق خدا اور ہر ذی روح کے لئے اس کی آسودگی کا سامان فراہم کرناہے ، حقیقت میں یہ کسان اور کاشت کار ہی وہ ہوتے ہیں جو در اصل روئے زمین میں قدرت خداوندی کے مظاہر کو نمایاں کرنے میں مدد ومعاو ن ہوتے ہیں، اس لئے شریعت نے بھی نہ صرف زراعت کی اہمیت وافادیت کو بتلایا ، بلکہ زرعی پیشہ اختیار کرنے والے کسانوں کے بھی حقوق اوران کی معاشرے میں اہمیت وافادیت کو بیان ہے۔
پیشہ زراعت کی اہمیت
انسانی زندگی اوراس کی بقاء کے لئے پیشہ زراعت کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ مسلم ہے ، اس کی نافعیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، خود قرآن کریم نے پیشہ زراعت کی اہمیت کو بتلانے کے لئے جگہ جگہ پر زراعت اور اس کے پس منظر کو ذکر کیا ہے ، زراعت کے ذریعے جو غلے ، اجناس، پھل، پھول اور فروٹ زمین سے در آمد کئے جاتے ہیں اس کو اللہ عزوجل نے بطور اپنی نعمت اور انعام کے ذکرکیا ہے۔
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
"اور ان لوگوں کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے، ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس سے غلے نکالے سو وہ اس میں سے کھاتے ہیں،اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور ہم نے اس میں چشمے جاری کردئیے،تاکہ وہ اس کے پھلوں سے کھائیں اور اسے ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، سو کیا وہ شکر ادا نہیں کرتے"
(سورہ یس : 33، 35)
اور ایک جگہ زراعت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری عز وجل ہے :"اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا اور اس میں پینے کا پانی ہے اور اس کے ذریعے درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں تم چراتے ہو،وہ تمہارے لیے اس کے ذریعہ کھیتی اور زیتون اور کھجوریں اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں(النحل: 11، 12)۔
زراعت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد خداوندی ہے :
"اللہ کی ذات وہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ ہر قسم کی اگنے والی چیزیں نکالیں، پھر ہم نے اس سے سبزہ والی چیزوں کو نکالا۔ ہم نکالتے ہیں اس سے دانے جو ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہیں۔ اور کھجور کے درخت یعنی اس کے کھپوں سے خوشے نکالے جو جھکے ہوئے ہیں، اور انگوروں کے باغ اور زیتوں کے باغ نکالے اور انار جو آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو ملتے جلتے نہیں ہیں۔ اس کے پھلوں کی طرف دیکھ لو اور اس کے پکنے کی طرف۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔"
(سورۃ الأنعام: 99)۔
ان آیات مبارکہ میں اللہ عزوجل نے مختلف غلے، اجناس، پھل فروٹ ، ان کی رنگ برنگی مختلف انواع واقسام کا ذکر کیا ہے کہ یہ ساری چیزیں زمین سے در آمد ہوتی ہیں، زراعت اور کاشت کاری کے لئے یہ کھتیاں اس سے مختلف اجناس ، اغذیہ، ترکاری ، پھل ، فروٹ، دانے ، غلے وغیرہ نکلتے ہیں، جس سے انسان مستفید ہوتا ہے ، ا پنی بقاء اورجان کی حفاظت کا سامان کرتا ہے ، یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں کہ اللہ عزوجل ایک ہی زمین سے ایک ہی جگہ مختلف قسم کے انواع واقسام، رنگ برنگے ، مختلف مٹھاس، کٹھاس، کرواہٹ اور پھیکے نمکین ، ترش پھل فروٹ نکالتے ہیں، یہ ساری چیزیں یہ نعمتیں زراعت اور کاشتکاری کے ذریعہ ہی زمین سے در آمد ہوتی ہیں۔
کاشت کاری کی ترغیب
اللہ عزوجل نے نہ صرف زراعت کی فضیلت کو بیان کیا ہے بلکہ پیشہ زراعت کو اپنانے کاحکم دیا ہے ، اوراپنی جدوجہد اور زمین کی نقب زنی اور اس کے تہوں میں پہنچ کر زمین کی خیرات وبرکات سے اخذ واستفادہ پر انسان کو مامور کیا ہے ، ارشاد باری عز وجل ہے :
"وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخر بنا دیا سو تم اس کے راستوں میں چلو اور اس کی روزی میں سے کھاؤ، اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے"
(الملک: 15)۔
خود احادیث مبارکہ میں بھی قرآن کے مفہوم کی تائید میں مضامین وارد ہوئے ہیں، جس میں مسلمانوں کوکاشت کاری کو اپنانے کاحکم دیا ہے ، اوراس کے منافع اور فوائد کا ذکر کیا گیا ہے ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
"اطلبوا الزرق فی خبایا الأرض " (رزق کو زمین کی پنہائیوں میں تلاش کرو)
(الجامع الصغیر للسیوطی، حدیثے 1109)
اورایک روایت میں فرمایا:
" کسان اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتا ہے " (الزارع یتاجر مع ربہ)
(الفائق فی غریب الحدیث: 1؍350)
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے کسی بھی زمین کو بغیر زراعت کے یوں ہی چھوڑ دینے سے منع کیا ہے :
"من کانت لہ أرض فلیزرعھا، أو لیمنحہا أخاہ، فإن أبی فلیمسک أرضہ"
( جس کسی کے پاس زمین ہے ، تووہ اس میں زراعت کرے یا اپنے کسی بھائی کو دے دے ، اگر وہ بھائی لینے سے انکار کرے تواس زمین کو روکے رکھے)۔
(صحیح البخاری، حدیث: 2493)
ان احادیث سے کاشت کاری کی اہمیت وافادیت کا علم ہوتا ہے ، کسان اور کاشت کار سے یہ کہا جارہا ہے ، زمین کے تہوں ، اس کے سینہ میں جو اللہ نے تمہارا رزق رکھا ہے، اس کے اسباب کو اپنا کر اس رزق کو اس کی پنہائیوں سے برآمد کرو، اللہ کے ساتھ کاشت کاری کی شکل میں تجارت کرو، جو تجارت تمہارے لئے نہایت زیادہ نفع بخش ہوتی ہے ، کہ تھوڑی سے دانوں کے زمین پر دالنے منوں ٹنوں دانے نکل آتے ہیں، اس لئے کبھی بھی زمین کو بغیر کاشت یوں ہی چھوڑا نہ جائے ، اگر خود کاشت کاری نہیں کرسکتے تو دوسرے بھائیوں کو کاشت کار ی کے لئے دو۔
کسان کی جدوجہد کا بدلہ دنیا و آخرت میں
پیشہ زراعت ایک ایسا پیشہ ہے ، جس کے دنیوی منافع بھی ہیں، اخروی بھی، زرعی پیشہ اگر خداوندی احکام کی بجاآوری کے ساتھ ہو تو یہ تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے ، اس لئے کہ کاشت کار کاشت کاری کرتا ہے تو اس سے اللہ کی تمام مخلوق مستفید ہوتی ہے ، بلکہ اس کے اس عمل کو اتنا محبوب ومرغوب گردانا گیا کہ ہر درخت سے نکلنے والے پھل اور دانے پر ثواب اور نیکی کا وعدہ کیا گیا، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
" ما من مسلم یزرع زرعا او ریغرس غرسا فیأکل منہ طیر أو إنسان أو بہیمۃ، إلا کان لہ بہ صدقۃ" (جو مسلمان بھی کاشت کاری کرتا ہے ، پودا لگاتا ہے ، اس سے پرندے ، انسان یا جانور کھاتے ہیں تو وہ اسکے حق میں صدقہ ہوتا ہے )
(صحیح البخاری: 2152)
بلکہ کاشت کاری اور شجر کاری میں سستی اور کاہلی کی ممانعت وارد ہوئی ہے "إن قامت الساعۃ وفی ید أحدکم فسیلۃ ، فاستطاع ألا تقوم حتی یغرسھا، فلیغرسھا، فلہ بذلک أجر"
( اگر قیامت قائم ہوجائے ، تمہارے ہاتھ میں کوئی پیڑ یا پوداہو، اگر تم اس پودے کو لگا سکتے ہو تو لگاؤ ، اس سے تم کو اجر وثواب ملے گا)۔
(مسنداحمد: حدیث: 12512)
اور ایک روایت میں فرمایا:
" من غرس غرسا، کتب اللہ عز وجل لہ من الأجر ببقدر ما یخرج من ثمار ذلک الغرس"
( جو شخص کوئی پودا لگائے، تو اللہ عزوجل اس پودے سے نمودار ہونے اور برآمد ہونے والے پھل کے برابر ثواب عنایت فرماتے ہیں )
(مسند احمد: 22420)
اور یہ بھی ارشاد گرامی ہے :
" من نصب شجرۃ، فصبر علی حفظہا والقیام علیہا حتی تثمر، کان لہ فی کل شی یصاب من ثمرتھا صدقۃ عند اللہ عزوجل " (جو شخص کوئی درخت لگائے ، ا سکی نگہداشت اور دیکھ بھال میں اہتمام کرے، اس کے پھل آنے تک اس کی نگرانی کرے ، اس درخت کو جو بھی پھل لگے گا، اللہ عزوجل اس کو ثواب عنایت فرمائیں گے )۔
(مسند احمد : 13391)
رسول کریم ﷺ اس آخری حدیث مبارکہ میں فرماتے ہیں کہ شجرکاری کاعمل ترک نہ کرے، قیامت قائم ہونے سے پہلے اس درخت کے نتائج اور ثمرات ظاہر ہوسکتے ہو ں توبھی اس کا انتظار کرے
(المبادی الاقتصادیہ فی الاسلام: 16)
کاشت کاری کا عمل گناہوں کی کفارہ ہوجاتا ہے فرماتے ہیں:
"من بات کالا من عمل یدہ، امسی مغفورا لہ" ( جو شخص اپنے ہاتھ کی محنت سے بوجھل ہو کر شام کرے تو اللہ عزوجل اس کی مغفرت فرماتے ہیں)۔
(فتح الباری: 1ے 306)
زراعت پر آفات سماوی پر ثواب
کاشت کاری کے اپنانے پر کبھی آفات سماوی ، بارش کی کمی ، کثرت، ہواؤں ، طوفانوں کے چلنے ، یا کیڑے اور دیگر آفات سے زراعت کو جو نقصان پہنچتا ہے ، دیگر پیشوں کے مقابلے میں زراعت کو یہ نقصان زیادہ درپیش ہوتا ہے، اس پر نبی کریم ﷺ نے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے :
" ما من شیء یصیب زرع أحدکم من العوافی، إلا یکتب لہ بہ أجر"
(اگر زراعت اور کاشت کو نقصان کسی بھی قسم کا نقصان پہنچتا ہے ، اس کے بدلے اجر لکھا جاتا ہے)۔
(الآحاد والمثانی: 4؍173)
الغرض کسان اور کاشت کار سماج اور معاشرہ کا ایک جزء لازم ہوتا ہے، ان کی سماجی ومعاشی اہمیت معاشرہ میں مسلم ہوتی ہے ، یہ قابل قدر طبقہ ہوتا ہے، جو لائق احترام اور قابل قدر طبقہ ہوتا ہے، ان کی محنت وجدوجہد قابل رشک ہوتی ہے ، یہ انسانیت کے بقاء کے لئے اللہ کی سرزمین پر جدوجہد اور محنت کرتے ہیں، غلہ اجناس، پھل فروٹ، میوے ، ترکاریاں، انواع و اقسام کے منافع بخش پیڑ پودے لگاتے ہیں، ان کا یہ عمل شرعی نقطہ نظر سے بھی قابل قدر وہمت افزا ہوتاہے۔یہ مظلوم نہیں یہ محبوب طبقہ ہوتا ہے ، جس پر کسی بھی ملک اور سماج کی معیشت اور کامیابی اور ترقی مضمر ہوتی ہے۔
***
رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم و عرفان ، حیدرآباد
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم و عرفان ، حیدرآباد
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی |
The importance and value of a farmer in Islam, Article by: Rafiuddin Hanif Qasmi
ماشااللہ بڑی عمدہ تحریر بارک اللہ فیہ
جواب دیںحذف کریں