ڈمپل کپاڈیہ (پیدائش: 8/جون 1957، بمبئی)مدھوبالا کی طرح تماشائیوں کے دلوں میں امنگوں کا طوفان جگانے والی ایک کمسن الہڑ حسین ڈمپل "بوبی" میں اپنے پہلے سین میں شانِ بےنیازی کے ساتھ نمودار ہوئی تو تماشائی مبہوت سے ہو کر رہ گئے تھے۔ فلم کے ختم ہوتے ہوتے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ ڈمپل کپاڈیا نے کتنی فنکارانہ مہارت کے ساتھ اداکاری کی ہے؟ بڑی حد تک اس کی اداکاری کی بدولت ہی وہ فلم وجود میں آئی تھی جس کے لیے بڑے بڑے فلمی ناقدین نے کہا کہ یہ فلم فلمی دنیا کو اس کا کھویا ہوا اعتماد واپس بخشے گی۔
نے بالی ووڈ فلمی دنیا میں اپنی پہلی ہی فلم "بابی" (ریلیز: 1973) کے ذریعے دھماکہ خیز داخلہ لیا تھا اور اس قدر فنکارانہ مہارت کے ساتھ اداکاری کی کہ بڑے بڑے فلمی ناقد یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ نئی اداکارہ بالی ووڈ کے گرتے ہوئے باکس آفس اپیل کو بحال کرے گی۔ مگر انہوں نے اس فلم کی ریلیز کے بعد ہی اس وقت کے معروف سپراسٹار راجیش کھنہ (وفات: 18/جولائی 2012) سے شادی کر کے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ مگر یہ شادی 1982 میں دونوں کی علیحدگی پر منتج ہوئی۔ اور ڈمپل کپاڈیا نے فلم ساگر (ریلیز: 1985) کے ذریعے دوبارہ بالی ووڈ میں داخلہ لیا۔ بابی کے بعد اپنی اسی دوسری فلم "ساگر" پر بہترین اداکارہ کا فلم فئر ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔ فلم "ردالی" میں انہیں بہترین اداکارہ کا قومی سطح کا ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ ان کی یادگار فلموں میں بابی اور ساگر کے علاوہ کاش، درشٹی، لیکن، گردش، کرانتی ویر، دل چاہتا ہے، پیار میں ٹوئسٹ، دبنگ شامل ہیں۔ امسال اگست 2020 میں ریلیز ہونے والی ایکشن تھرلر سائنس فکشن انگریزی فلم ٹینیٹ [Tenet] میں ایک نمایاں کردار نبھایا ہے۔
تقریباً تین دہائی قبل، مشہور فلمی و نیم ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ نومبر-1987 میں ڈمپل کپاڈیا کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے مختلف نسائی، ازدواجی اور نفسیاتی موضوعات پر اپنے نقطہ نظر سے واقف کرایا ہے۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پہلی بار اردو سائبر دنیا میں یہی انٹرویو پیش خدمت ہے۔
ایسے دھماکے کے ساتھ ڈمپل کے کیریر کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن پھر عورت کا ازلی ارمان اس پر غالب آ گیا اور اس نے راجیش کھنہ سے شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ فلموں سے دور ہو گئی، مگر ایک حسین سپنے کی طرح شروع ہونے والی شادی شدہ زندگی جب کچھ وجہوں سے ایک مسلسل عذاب بننے لگی تو دونوں ایک دوسرے سے الگ رہنے لگے۔
ڈمپل پھر فلموں کی دنیا میں لوٹ آئی۔ اور مہیش بھٹ کی فلم "کاش" اور آر کے نیر کی فلم "پتی پرمیشور" میں اس کی اداکاری نے اسے سال کی اسٹار تو بنا ہی دیا ہے، یہ گواہی بھی دے دی ہے کہ وہ اپنے دور کی سب سے زیادہ ولولہ انگیز اداکارہ کار تبہ حاصل کرنے والی ہے۔ کسی بھی لمحہ وہ دھوم مچاتی ہوئی سری دیوی کو مات دے سکتی ہے۔ کسی بھی پل وہ سب سے اونچی چوٹی پر پہنچ سکتی ہے، اس کے پاس وقت کافی ہے۔ ابھی تو اس کے کیریر کی شروعات ہی ہوئی ہے۔
ڈمپل پہلی ہندوستانی ادکارہ ہے جس نے ہندوستانی فلموں کی بے جان سی خوبصورت گڑیا اور بین الاقوامی پردہ فلم کی بھرپور شباب سے سرشار عورت کی درمیانی خلیج کو پاٹ دیا ہے، ویسے وہ مکمل طور پر ہندوستانی ہے۔ اس کی جڑیں بمبئی میں ہیں۔ وہیں اس کا لڑکپن عیش و آرام میں گزرا ہے۔ اس کی شخصیت میں معصومیت ہے ، بے باکی ہے، چھا جانے کی ادا ہے، گھائل کرنے اور گھائل ہونے کا انداز ہے۔ اس کی آنکھوں میں ستارے جھلملاتے ہیں۔ لیکن وہ کوئی گونگی، غبی مورت نہیں۔ اس کا سراپا نفاست، وقار، ہوش مندی، جذبوں کی آنچ اور تجربے کے ہالے میں گھر ا ہوا ہے۔
وہ اسٹار کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ وہ ایک اسٹائل ، ایک اسلوب ہے ، ایک علامت ہے۔ ڈمپل جیسی اسٹار بننے کے لئے ایک اداکارہ کو خوبصورتی، صلاحیت، پہل کرنے اور آگے بڑھنے کی اہلیت اور انفرادی اسٹائل درکار ہوتا ہے۔ صرف پہل کرنے اور آگے بڑھنے کی اہلیت کسی کو چوٹی تک تو پہنچا سکتی ہے مگر کافی عرصے تک اس کے قدم وہاں نہیں جما سکتی۔ صلاحیت ذرا بہتر سہارا ہے ، لیکن دوسری خوبیوں کے بغیر اس کی اہمیت بھی زیادہ نہیں۔ خوبصورتی کچھ دن تک ہنگامہ بپا کر سکتی ہے ، جب تک رخصت نہ ہو جائے، انفرادی اسٹائل اکثر صرف گپ شپ کے کالموں کا موضوع بنتا ہے۔ پھر ان چاروں خوبیوں کے علاوہ ایک اور خوبی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، اگر موقع نہ ملے یا قسمت ساتھ نہ دے تو سارے جوہر خاک میں مل جاتے ہیں۔ لیکن ڈمپل پر بھی قسمت مہربان ہے۔ یہاں تک کہ بری فلمیں بھی قسمت کو اس پر مہربان ہونے سے نہیں روک سکتیں۔
کھار (ممبئی) میں جب آر کے نیر کے دفتر میں ڈمپل سے میری تفصیلی بات چیت شروع ہوئی تو سب سے پہلے اس کی شادی شدہ زندگی اور کئی برس سے راجیش کھنہ سے اس کے الگ رہنے کا ذکر آیا۔ ایسا ذکر کسی عام عورت کے لئے تکلیف دہ ہو سکتا تھا ، لیکن ڈمپل کسی بھی لحاظ سے عام عورت نہیں ہے، وہ جذباتی سہاروں سے اوپر اٹھ چکی ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ اپنی ہر منزل کو خود ہی سر کرنا چاہتی ہے۔
سوال:
تم دونوں کے درمیان باضابطہ طلاق کب ہو رہی ہے؟
جواب:
اس سوال کی بوچھار مجھ پر لگاتار ہوتی رہتی ہے اور ہر بار مجھے یہی جواب دینا پڑتا ہے کہ کیسی طلاق؟ کہیں بھی طلاق کی کوئی کارروائی نہیں چل رہی ہے، اس طرح کا مقدمہ نہ کہیں راجیش نے دائر کیا ہے نہ میں نے۔
سوال:
یعنی علیحدگی ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ کیا یہ ایک عجیب سا تضاد نہیں ہے؟
جواب:
بالکل نہیں، شادی شدہ عورت کے ذہن میں طلاق یافتہ عورت کے بارے میں عموماً ست رنگے سپنے ہوتے ہیں۔ لیکن طلاق کے بعد یہ سارے سپنے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اصل تضاد قانون اور سماج کے رویوں کا ہے۔ یہی تضاد عورت کو شروع میں نظر نہیں آتا۔
قانون تو عورت کے حق میں ہو سکتا ہے، مگر سماج ہمیشہ مرد کا ساتھ دیتا ہے۔ شادی شدہ جوڑے سابق جیون ساتھی عورت کے متعلق منطقی مربوط قائم رہنے والی رائے اور رویہ نہیں رکھتے، وہ اس کی عزت کر سکتے ہیں، اسے سراہ سکتے ہیں، یہاں تک کہ اس پر شک بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کی نجی زندگی میں وہ بے محل ہی رہتی ہے۔ اس کے لئے سماج کے نہ لگے بندھے ضابطے ہیں، نہ طور طریقے ، کنواریوں کے لئے ، بیویوں کے لئے، یہاں تک کہ بیواؤں کے لئے بھی سماجی رویوں کی تفصیل موجود ہے ، لیکن یہ صراحت کہیں نہیں کہ طلاق یافتہ عورت سے کس طرح پیش آیا جائے۔ اس کا کوئی طے شدہ مقام نہیں، اس کے لئے روا رکھے جانے والے سلوک کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے میں نے سوچا کہ معاملہ یوں ہی لٹکنے دو، نہ ادھر نہ اُدھر۔
سوال:
تو پھر تم دونوں الگ ہی کیوں ہوئے؟
جواب:
وہی پرانی کہانی ہے ، ہماری شادی ناکام ہو گئی تھی ، اس رشتے کے قائم نہ رہنے کا سبب کوئی نئی قسم کی ان بن یا ٹکراؤ نہ تھا۔ ان بن بھی پرانے ڈھنگ کی تھی، ٹکراؤ بھی پرانے انداز کا تھا۔ صرف اسے گھٹ گھٹ کر سہتے رہنے کو آمادہ نہ ہونا ذرا نیا رویہ تھا۔ جب گھریلو زندگی کی نیا برابر ہچکولے کھاتی رہی تو میں اس صدیوں پرانے تصور کا ساتھ نہ دے سکی کہ "خاندان کو بکھرنے سے بچانے کے لئے اپنی ہر خوشی کو تیاگ دینا چاہئے"۔ میں بہرحال آج کی عورت ہوں اور آج کی عورت حالات کو جانچے پرکھے بغیر صبر اور بے چارگی کے عالم میں آئے دن کی اَن بن کو برداشت کرنے کے لئے کم ہی آمادہ ہوتی ہے ، میں ان میں سے نہیں جو یہ بھی مان لیں کہ ان کی شادی شدہ زندگی خوش گوار نہیں ہے اور اس کے باوجود اسے قائم رکھنے کے لئے سب کچھ جھیلتی رہیں۔
سوال:
پچھلے دنوں تم نے بچیوں کے ساتھ کچھ وقت راجیش کھنہ کی رفاقت میں گزارا تھا ، کیا یہ نباہ کی راہ تلاش کرنے کی کوشش تھی؟
جواب:
جی نہیں۔ ویسے یہ سچ ہے کہ چند روز کے لئے ہم سب نیروبی میں ایک ساتھ رہے تھے، وہاں میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہی کینٹ کی فلم "نمبر-1" کی شوٹنگ کے لئے گئی تھی لیکن شوٹنگ کا انتظام صحیح نہ ہو سکا۔ بھیڑ اتنی زیادہ جمع ہو جاتی تھی کہ شوٹنگ کرنا ناممکن ہو گیا۔ راجیش کو پتہ چلا تو انہوں نے فون کیا کہ بچیاں کچھ دن کے لئے لندن آ کر ان کے پاس رہ لیں۔ چونکہ بچیوں کے پاس لندن کا ویزا نہ تھا اس لئے راجیش خود ہی نیروبی آ گئے۔
سوال:
راجیش کی زندگی سے ٹینا منیم کے نکل جانے کے بعد تم نے دوبارہ ملن کے بارے میں نہیں سوچا؟
جواب:
فی الحال میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ لیکن یہ طے ہے کہ اگر کبھی میں ان کے پاس واپس گئی تو صرف اپنی دونوں بچیوں کی وجہ سے جاؤں گی۔ اور ایسا امکان دو چار سال بعد ہی سامنے آ سکتا ہے ، ابھی نہیں۔
سوال:
کیا اس صورت میں شادی شدہ زندگی کو دوبارہ آزمانے سے سکون تمہاری زندگی میں لوٹ آئے گا؟
جواب:
میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ جب میں نے انہیں چھوڑا تھا تو بظاہر میری ہار ہوئی تھی۔ اب میں اگر (اور جب کبھی) ان کے پاس جاؤں گی تو میری یقینی جیت ہوگی۔
سوال:
اچھا یہ بتاؤ، اس علیحدگی کی مدت میں بچیوں پر کیا اثر پڑا؟
جواب:
عام طور پر علیحدگی سے بچوں پر برا ہی اثر پڑتا ہے۔ لیکن ہم نے جتن کر کے ان کی خوشیوں کی راہ میں کسی نفسیاتی الجھن کو آڑے نہیں آنے دیا ہے۔ باپ بیٹیاں آزادی سے ، بے روک ٹوک ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں، ہم نے یعنی راجیش نے اور میں نے پوری کوشش کی ہے کہ بچیوں کو زندگی میں کسی کمی کا یا اکھڑے اکھڑے رہنے کا احساس نہ ہو۔ اس کوشش میں زیادہ بار مجھ کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔ میں نے ان کو ماں کی ممتا، ہمدردی اور گرم جوشی، باپ کا ڈسپلن اور رفاقت ایک ساتھ فراہم کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ اہتمام بھی کیا ہے کہ میں چڑچڑی نظر نہ آؤں۔
سوال:
آخر ہماری فلمی دنیا میں شادیاں اتنی زیادہ ناکام کیوں ہوتی ہیں؟
جواب:
بہت سی وجہیں ہو سکتی ہیں، لیکن شاید سب سے بڑا سبب عورت کا محتاج نہ ہونا ہے۔ فلمی دنیا میں لڑکیاں کام کرتی ہیں،کیریر کو اپناتی ہیں، پیسہ کماتی ہیں، ان کے لئے گزر بسر کا ذریعہ شادی نہیں ہوتی ، اس لئے وہ ناانصافیوں کو چپ چاپ نہیں سہہ سکتیں، وہ آزاد ہیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہیں، کسی سہارے کے بغیر جی سکتی ہیں، پھر وہ ستم اور دھاندلی کیوں برداشت کریں؟
میری اپنی مثال دلیل کے طور پر موجود ہے ، میری طرح کام کرنے والی لڑکیاں جو لگ بھگ اپنے شوہر کے برابر ہی کماتی ہوں لازماً جانیں گی کہ شادی شدہ زندگی میں انہیں برابری کا درجہ حاصل ہو، اور اگر ذہنوں اور مزاجوں کا اختلاف اتنا زیادہ ہو کہ شادی شدہ زندگی اجیرن بن جائے تو وہ ایسے رشتے کو توڑنا ہی بہتر سمجھتی ہیں۔
سوال:
شادی کے بعد تم کئی برس تک فلموں سے الگ رہین، اس وقت کے رائیگاں جانے پر تمہیں پچھتاوا نہیں ہوتا؟
جواب:
میں نے اگر وقت کھویا ہے تو صرف لڑکپن کا وقت کھویا ہے۔ اسی لئے اگر آج مجھ سے کوئی بے وقوفی ہو جاتی ہے تو میں اپنے آپ سے یہی کہتی ہوں کہ اس طرح میں کھوئے ہوئے وقت کی تلافی کر رہی ہوں اور عمر کی راہ پر بڑھ رہی ہوں۔۔۔ پیچھے کی طرف۔
سوال:
کم سن جوانی کی رت کو خیرباد کہنے کا کیا تمہارے کیریر پر بھی اثر پڑا ہے؟
جواب:
جی نہیں، جو عورتیں کم سن جوانی کی رت کو پیچھے چھوڑ چکی ہیں، اپنی صلاحیتوں سے بہتر طور پر آگاہ ہوتی ہیں، اور ان صلاحیتوں سے کام لینا بھی جانتی ہیں، اسی طرح انہیں اپنی خامیوں کا بھی علم ہوتا ہے اور وہ انہیں دور کرنے کا گُر بھی سیکھ لیتی ہیں۔ وہ دن گئے جب تیس سال سے آگے کی عورتوں کو بجھا ہوا شعلہ سمجھاجاتا تھا ، آج کی نسبتاً زیادہ عمر کی عورتیں زیادہ آزاد بھی ہیں، اب تیس برس کی عورتوں کو جن کے ساتھ چند برس کے ہوش مندانہ تجربوں کی دولت ہے، وہی اونچا مقام ملا ہوا ہے جس کی وہ حق دار ہیں۔
سوال:
کیا تم اپنے رولز چھان پھٹک کر لیتی ہو؟
جواب:
یہ میرا کمرشل دور ہے، اس لئے ابھی میں دونوں ہاتھوں سے کمرشل فلمیں سمیٹنا چاہتی ہوں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے چند برس پہلے میرا کہیں نام نہ تھا۔ میں ایک بھولی بسری ادکارہ تھی، جس کے پاس صرف ایک فلم "بوبی" کا تجربہ تھا ، مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ شادی کی ناکامی سے سمجھوتہ کیا، اپنا اور اپنی دونوں بچیوں کا سہارا خود بننے کی ٹھانی اور آج فلموں میں میری بہت مانگ ہے، کیا یہ کامیابی قابل ذکر نہیں؟
سوال:
تم نے اتنی ڈھیر ساری فلمیں کر رکھی ہیں، آخر تم انہیں سنبھالتی کیسے ہو؟
جواب:
بڑی آسانی سے اور بہت اچھی طرح۔ کام کرنے سے میرا جوش، میر ا ولولہ اور بھی بڑھتا ہے ، اس وقت میں شاید سب سے زیادہ خوش قسمت ہستی ہوں ، جب میں اپنی ہی سنگت میں ہوں ، پرائیویسی مجھے بہت عزیز ہے ، ادکارہ کے طور پر مجھے ان غیر معمولی لوگوں سے ملنے اور انہیں برتنے میں بہت لطف آتا ہے جو انڈسٹری کا حصہ ہیں۔
ڈمپل کپاڈیا کے چند یادگار فلمی نغمے:
جھوٹ بولے کوا کاٹے، کالے کوے سے ڈریو (فلم: بابی)
چھوٹی سی ہے بات کوئی نہیں جانے (فلم: کاش)
او یارا تو پیاروں سے ہے پیارا (فلم: کاش)
سرمئی شام اس طرح آئے (فلم: لیکن)
تیرا نام لیا تجھے یاد کیا (فلم: رام لکھن)
***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: نومبر 1987
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: نومبر 1987
Dimple Kapadia, an interview from Nov.1987 issue of Shama Magazine.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں