فصیح اردو بولیے اور حوالات کی ہوا کھائیے - از مجتبی حسین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-31

فصیح اردو بولیے اور حوالات کی ہوا کھائیے - از مجتبی حسین

faseeh-urdu
انگریزی روز نامہ 'ٹائمس آف انڈیا' نے عوام الناس اور خاص طور پر اردو بولنے والوں کی سہولت کے لئے یہ خبر شائع کی ہے کہ اگر آپ کبھی دہلی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر کسی کام سے جائیں تو خدارا فصیح و بلیغ اردو میں بات نہ کریں کیونکہ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کو حوالات میں نہ بند کر دیا جائے۔ مانا کہ اردو کے بہت سے دشمن ہیں اور اس بیچاری زبان کے ساتھ ہمارے ملک میں پچھلے پچاس برسوں سے معاندانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ لیکن معاندانہ رویے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی یہ زبان بولے تو اسے پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا جائے۔

'ٹائمس آف انڈیا' نے اپنی تفصیلی خبر میں بتایا ہے کہ پچھلے دنوں تین نوجوان مسعود، ارشد اور محمد اپنے استاد مولوی عبدالعزیز ندوی کا استقبال کرنے کے لئے بطور خاص رام پور سے دہلی آئے تھے۔ چونکہ مولوی عبدالعزیز ندوی، دوبئی سے واپس ہونے والے تھے اس لئے یہ تینوں نوجوان رات میں دوبئی کی پرواز کی آمد کے وقت اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔
بڑی دیر تک وہ اپنے استاد کے ایر پورٹ سے باہر نکلنے کا انتظار کرتے رہے لیکن جب وہ ہوائی اڈے سے باہر نہیں نکلے تو ان نوجوانوں میں سے ایک نے کہا:
"پتہ نہیں کیا مسائل ہیں، یہاں تو ایک نہیں کئی مسائل ہیں۔ پہلا کسٹم، دوسرا ایمگریشن۔ ہمارے ہاں مسائل کی کوئی کمی تھوڑی ہے۔"
جب یہ باریش نوجوان اپنے دیگر باریش ساتھیوں سے "مسائل" کی بات کر رہا تھا تو برابر میں بیٹھا ہوا ایک حساس نوجوان بھی ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اسے فصیح و بلیغ اردو نہیں آتی تھی۔ اس نے جب یہ جملہ سنا کہ "ہمارے ہاں مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے" تو اس نے یہ سمجھا کہ ان نوجوانوں کے پاس 'مزائیلوں' کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہ کہ وہ ان مزائیلوں کی مدد سے ہوائی اڈے کو اڑا دینا چاہتے ہیں۔
اس ذمہ دار نوجوان نے فوراً پولیس کو اطلاع دے دی کہ یہ نوجوان مزائیل کی مدد سے ایر پورٹ کو اڑا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری پولیس کے بارے میں آپ تو جانتے ہیں کہ جہاں فوری کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تو کوئی کارروائی نہیں کرتی لیکن غیر اہم معاملوں میں بڑی چاق و چوبند ہو جاتی ہے۔ چنانچہ چند ہی منٹوں کے اندر پولیس نے ان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا اور بارہ گھنٹوں تک ان سے شدید باز پرس کی گئی۔ پہلے تو ان کی جامہ تلاشی لی گئی کہ کہیں مزائیل ان کی جیبوں میں تو نہیں رکھے ہوئے ہیں۔
نوجوانوں نے وضاحت کی کہ وہ تو صرف ان 'مسائل' کی بات کر رہے تھے جو ہوائی اڈہ پر مسافروں کو پیش آتے ہیں۔ پھر یہ بھی سمجھایا گیا کہ فصیح اردو میں "مسائل" کا مطلب Problems ہوتا ہے اور ہم تو صرف مسئلوں کی بات کر رہے تھے۔ مزائیل سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر پولیس تو صرف ڈنڈے کی زبان جانتی ہے۔ اردو وہ کیا جانے۔
ان نوجوانوں سے پوچھا جانے لگا کہ وہ کتنی بار پاکستان جا چکے ہیں اور "جیش محمد" سے ان کا کیا تعلق ہے؟ ان نوجوانوں کے انگوٹھوں کے نشانات لئے گئے اور مختلف زایوں سے ان کی تصویریں کھینچی جانے لگیں۔ ہوائی اڈہ کی پولیس نے چار گھنٹوں تک ان سے باز پرس کی اور بعد میں انہیں انٹلی جنس بیورو کے عہدیداروں کے حوالہ کر دیا گیا۔ لگاتار بارہ گھنٹوں تک ان نوجوانوں کو پولیس نے اپنی حراست میں رکھا۔
ان نوجوانوں نے ہزار بار کہا کہ رام پور پولیس سے ان کے کردار کی توثیق کر لی جائے لیکن ہوائی اڈے کی پولیس کو "مسائل" اور "مزائیل" کا فرق معلوم نہ ہو سکا۔ بعد میں ان نوجوانوں کو 'مسائل' سے نجات اس وقت ملی جب ان میں سے ایک نے اپنے چچا حافظ عمر صادق سے رابطہ قائم کیا جو اتر پردیش کے سابق وزیر اور سابق رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔
حافظ عمر صادق صاحب نے مرادآباد میں پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں سے بات کی تب کہیں جاکر ان نوجوانوں کی رہائی عمل میں آئی۔ بارہ گھنٹوں کی شدید باز پرس کے بعد یہ نوجوان اتنے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ جب انہیں رہا کرنے کا مرحلہ آیا تو انہیں یہ اندیشہ بھی ہوا کہ رہائی کے وقت کہیں کسی فرضی انکاؤنٹر میں انہیں ہلاک نہ کر دیا جائے۔ لہٰذا انہوں نے ایک ممتاز مسلم رہنما سے رابطہ پیدا کیا کہ وہ انہیں اپنی نگرانی میں رہائی دلوائیں۔

بہرحال بارہ گھنٹوں کی طویل آزمائش کے عبد جب وہ باہر نکل آئے تو انہیں پتہ چل گیا کہ اردو کے 'مسائل' بھی 'مزائیل' سے کچھ کم نہیں ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ آج کے زمانہ میں فصیح و بلیغ اردو بولنے کے کتنے نقصانات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عام بات چیت میں کبھی فصیح و بلیغ اردو کا استعمال نہیں کرتے۔ اگر آپ کہیں سانس کے 'زیر و بم' کا غلطی سے ذکر کر دیں تو کیا عجب کہ پولیس آپ کو بم رکھنے کے جرم میں پکڑ لے اور بارہ گھنٹوں کی تفتیش کے بعد ہی چھوڑے۔
بہت عرصہ پہلے ہمارے ایک شناسا بیمار ہوئے تو ہم ان کی مزاج پرسی کرنے کے لئے گئے اور آداب کے مطابق جب ان سے کہا:
" سنا ہے کہ مزاج دشمناں ناساز ہے"
تو اتنا سنتے ہی موصوف خوشی سے اچھل کر بستر علالت پر اٹھ بیٹھے اور بصد اشتیاق پوچھنے لگے:
"بتائیے میرے کس کس دشمن کی طبیعت ناساز ہے۔ ان بدمعاشوں کی وجہ سے ہی تو میں بیمار ہو گیا ہوں۔ اگر میرے سارے دشمن بیمار ہو جائیں تو مجھے بیمار پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔"
پھر وہ اپنے ایک ایک دشمن کا ذکر تفصیل سے کرنے لگے کہ کس کس نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ہم گئے تو تھے ان کی مزاج پرسی کرنے لیکن واپسی میں ان کے دشمنوں کی تعداد معلوم کر کے آگئے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم عام بات چیت میں اردو محاوروں اور استعاروں وغیرہ کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں۔ ہمارے ایک پہلوان دوست سے ہمیں اپنا کوئی مدعا بیان کرنا تھا۔ ہم نے احتراماً جب ان سے کہا:
"حضور آپ کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو ایک بات عرض کریں۔"
اتنا سنتے ہی وہ بپھر گئے اور بولے:
"میاں! میں نامی گرامی پہلوان ہوں، میری شہرت کے ڈنکے ہر جگہ بجتے ہیں۔ میں سراسر طاقت اور توانائی ہوں۔ میرے بدن میں کوئی چیز نازک ہے ہی نہیں۔ پھر تم کس طبع نازک کی بات کر رہے ہو۔"
ان کی یہ بات ہماری طبع نازک پر اتنی گراں گزاری کہ ہم اپنا مدعا بیان کئے بغیر ہی وہاں سے واپس آ گئے۔

فصیح و بلیغ اردو بولنے کے نقصانات سے تو ہم واقف ہی ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اردو بولنے کے بعد آدمی کو حوالات کی ہوا بھی کھانی پڑتی ہے۔ اب وہ زمانے گزر گئے جب لوگ طلسم ہوشربا اور فسانہ عجائب کی زبان میں بات کیا کرتے تھے۔ ہمیں اس وقت ساغر نظامی مرحوم یاد آگئے جو عام بات چیت میں بھی اردو کے طوطا مینا بنایا کرتے تھے۔
سنا ہے کہ نوجوانی میں وہ ایک خاتون کے عشق میں گرفتار ہو گئے تھے لیکن اس سے اپنے دل کا مدعا بیان کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ یہ خاتون اردو زبان اور تہذیب سے بالکل نابلد تھیں۔ ایک دن ساغر نظامی نے وفور جذبات سے مغلوب ہو کر اپنی فصیح و بلیغ اردو میں اپنے دل کا مدعا کچھ اس طرح بیان کیا:
"محترمہ! میں ہجر کی جان لیوا کیفیت سے عاجز آ گیا ہوں۔ ہجر کے عذاب نے میری راتوں کی نیند حرام کر دی ہے۔ اب میں وصل کی راحتوں اور لذتوں سے ہمکنار ہونا چاہتا ہوں اور آپ کی آغوش میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام گذارنا چاہتا ہوں۔"
خاتون کو پتہ نہیں تھا کہ ہجر کس چڑیا کا نام ہے اور وصل کس کو کہتے ہیں؟ جب اس نے ساغر نظامی سے کہا:
"کیا آپ مجھے اپنی مشکل اردو کا آسان مطلب سمجھا سکتے ہیں؟"
تو اس پر ساغر نظامی نے کہا: " کیا آپ میرے بچوں کی ماں بننا پسند کریں گی؟"
اس آسان سوال کے جواب میں خاتون کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر بڑی معصومیت سے پوچھا:
" پہلے یہ تو بتائیے کہ آپ کے بچے کتنے ہیں تاکہ میں ان کی ماں بننے کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔"

گویا مشکل اردو بولنے کے نقصانات ہی نقصانات ہیں۔
بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اردو تو نہیں جانتے لیکن انہیں اردو کے مشکل الفاظ بولنے کا بڑا جنون ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک صاحب نے ہمیں کسی ادبی تقریب میں بلایا تھا۔ انہیں کسی نے بتا دیا تھا کہ "بدعنوانی" اور 'کم ظرفی' کے الفاظ کسی کی اعلیٰ صفات کو بیان کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے ہمارے لئے جو تعارفی تقریر کی وہ کچھ اس طرح تھی:
" آپ نے ہمارے جلسہ میں شرکت کر کے اپنی 'کم ظرفی' کا ثبوت دیا ہے۔ مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں آپ کا تعارف کراؤں حالانکہ آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ کم ظرفی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ کی ذات بابرکات میں کم ظرفی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور جگہ جگہ آپ کی 'بد عنوانیوں' کے چرچے ہیں۔ آپ اپنی بدعنوانیوں کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔"
لوگ ان کی تقریر کو سن کر ہنسنے لگے اور ہم شرم سے پانی پانی ہوتے چلے گئے۔

***
اشاعت: روزنامہ 'سیاست' (10/فروری 2002ء)

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
اپنی یاد میں - خود وفاتیہ از مجتبیٰ حسین
زبیر رضوی: ہے دیکھنے کی چیز بار بار دیکھ - مجتبی حسین
بیگ احساس تم ہی ہو - مضمون از مجتبیٰ حسین

ماخوذ از کتاب:
مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم (اشاعت: 2004)
مرتبہ: حسن چشتی

Faseeh Urdu boliye aur Hawalaat ki hawa khaieye. - Humorous Essay: Mujtaba Hussain

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں