کسانوں کی محاذ آرائی اور حکومت کا غرور - تجزیہ از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-13

کسانوں کی محاذ آرائی اور حکومت کا غرور - تجزیہ از معصوم مرادآبادی

farmers-protest-government-arrogance
اگر یہ کہا جائے کہ اونٹ پچھلے ساڑھے چھ سال میں پہلی بار پہاڑ کے نیچے آیا ہے تو بےجا نہیں ہوگا۔
کسانوں نے راجدھانی کا محاصرہ کر لیا ہے اور وہ نئے زرعی قوانین کی واپسی کے مطالبے پر مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ حکومت ان قوانین میں ترمیم پر تو راضی ہو گئی ہے مگر ان کی واپسی پر تیار نہیں ہے۔ مذاکرات کی نصف درجن کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والے صاحب بہادر بےبسی اور بےکسی کی حالت میں ہیں، لیکن وہ اب بھی اقتدار کے گھمنڈ سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں۔
انھیں کوئی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ حکومت کا کاروبار صرف عددی طاقت کے بل پر نہیں چلتا بلکہ اس کے لئے عوامی مقبولیت درکار ہوتی ہے۔ اصل حکومت وہ نہیں ہوتی جو ڈنڈے کے زور پر چلائی جاتی ہے بلکہ اصل حکمراں وہ ہوتا ہے جو عوام کے دلوں پر راج کرتا ہے۔

متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے کے لئے کسانوں کے احتجاج نے ملک گیر شکل اختیار کرلی ہے۔ پنجاب ، ہریانہ ،اترپردیش اور مدھیہ پردیش سمیت ملک بھر کے کسان دہلی کی سرحد پر ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کی تحریک دن بہ دن آگے بڑھ رہی ہے۔ کسانوں کے مطالبات کو بین الاقوامی تنظیموں کی حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ کسانوں کے احتجاج کو دو ہفتے پورے ہو چکے ہیں۔ ان کے حوصلے اور انتظامات اتنے بلند ہیں کہ وہ مہینوں ڈٹے رہ سکتے ہیں۔ ان کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوششیں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ حکومت کے کارندوں سے چھ دور کی بات چیت بے نتیجہ رہی ہے۔ مذاکرات ناکام ہونے کی بڑی وجہ صاحبان اقتدار کا وہ گھمنڈ ہے جو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت کے خمار سے شروع ہو کر اسی پر ختم بھی ہوتا ہے۔

جس وقت کسانوں نے ہریانہ سرحد پر اپنا احتجاج شروع کیا تو سرکاری مشینری نے اسے لاٹھیوں اور پانی کی بوچھاروں سے سرد کرنے کی کوشش کی ، لیکن ایک بزرگ سکھ کی طرف اٹھنے والی لاٹھی حکومت کو اتنی بھاری پڑی کہ اب تک اس کا بھگتان کرنا پڑ رہا ہے۔ آنسو گیس اور پانی کی بوچھاریں بھی ناکافی ثابت ہوئیں۔
پھر شاہین باغ کی طرح کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے اور انھیں خوفزدہ کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ جس طرح شاہین باغ کے مظاہرین کو دہشت زدہ کرنے کے لئے ان پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے تھے، اسی طرح پنجاب کے کسانوں کو "خالصتانی" کہہ کر پکارا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ احتجاج کرنے والے کسان نہیں بلکہ ایک سیاسی پارٹی کے کارکنان ہیں اور ان کا کسانوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن گراؤنڈ رپورٹوں نے ثابت کیا کہ نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے دراصل کسان ہی ہیں اور انھوں نے مجبوری کی حالت میں اس راہ کا انتخاب کیا ہے۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کے گزشتہ اجلاس میں حکومت نے زرعی قوانین پاس کرانے کے لئے چور راستوں کا استعمال کیا تھا۔ جس انداز میں ان قوانین کو پاس کرایا گیا، اس کی جمہوری تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان قوانین کو نافذ کرنے سے قبل کسانوں کے کسی گروپ سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ محض سرمایہ داروں کے مفادات کی تکمیل کے لئے ان قوانین کو کسانوں پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کسانوں نے امبانی گروپ کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے اور اب ان کا ارادہ ملک بھر میں ریل روکو تحریک شروع کرنے کا ہے۔

یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آ سکی ہے کہ موجودہ حکومت آخر کس کے مفادات کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ جن لوگوں نے اسے ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ہے، انھیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عام آدمی کی آزمائشوں اور مشکلات کا دائرہ مسلسل وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایسے قوانین اور ضابطے وضع کئے جارہے ہیں کہ عوام کی کمر ٹوٹتی چلی جارہی ہے۔ وزیراعظم بار بار یہی کہتے ہیں کہ ان کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کی نئی اور انتہائی مہنگی عمارت کے "بھومی پوجن" کی تقریب میں گرونانک کے اس قول کا حوالہ دیا کہ :
"جب تک دنیا رہے تب تک مذاکرات جاری رہنے چاہئے۔"
لیکن یہ کیسی حکومت ہے کہ کسی بھی قسم کا قانون بنانے سے پہلے متعلقہ لوگوں سے مذاکرات کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی۔ جب کشتی منجدھار میں پھنستی ہے تو اسے مذاکرات کی یاد آتی ہے۔

حکومت کے کارندوں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ کسانوں کی تحریک کے پیچھے کانگریس کا ہاتھ ہے۔ اس تحریک کی قیادت کیونکہ پنجاب کے کسان کر رہے ہیں اور وہاں کانگریس برسراقتدار ہے، اس لئے اس خیال کو زیادہ تقویت ملتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس تحریک کے کچھ سیاسی مقاصد بھی ہوں۔ کسانوں کی اس تحریک کو اپوزیشن جماعتوں کی تائید اور حمایت کے خلاف بھی حکومت اور گودی میڈیا نے اپنی بھڑاس نکالی ہے۔ لیکن اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب بھی حکومت کے خلاف کوئی تحریک زور پکڑتی ہے تو اسے اپوزیشن کی حمایت حاصل ہونا ایک فطری بات ہے۔ خود بی جے پی جب اپوزیشن میں تھی تو وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی تھی۔ اب اگر یہی کام کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں کر رہی ہیں تو اس پر بی جے پی لیڈروں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہا ہے؟

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر کسانوں کی یہ تحریک کانگریس نے شروع کرائی ہے تو حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ نئے زرعی قوانین کے خلاف سب سے پہلا احتجاج اس کی سب سے مضبوط حلیف پارٹی اکالی دل (بادل) نے کیوں کیا؟ اور اس مسئلہ پر حکومت سے اپنی حمایت کیوں واپس لی ؟
ظاہر ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بی جے پی کے پاس نہیں ہے۔ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ملک دشمنی سے تعبیر کرنا جانتی ہے۔ یہ کسی کو دبانے اور کچلنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج اور ان کی پرامن تحریک کو کچلنے کے لئے حکومت نے یہی حربہ اختیار کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس تحریک میں سرگرم حصہ لینے والوں کو شمال مشرقی دہلی کے فسادات کا کلیدی مجرم قرار دے کر سنگین دفعات کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں انھیں ایک بین الاقوامی سازش سے جوڑنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی گئی۔ آج بھی اترپردیش اور ملک کے دیگر حصوں میں اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی قرقیاں اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔

گزشتہ جمعرات کو کسانوں کی تحریک کے دوران دہلی کے ٹیکری بارڈر پر اس وقت عجیب وغریب منظر دیکھنے کو ملا ، جب کسانوں نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری اور ان کی ہراسانی کے خلاف احتجاج کیا۔ اس اعتبار سے کسانوں کا یہ احتجاج حکومت کی ظالمانہ روش کے خلاف ایک مضبوط آواز کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ایک بڑی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے سیکریٹری جوگندر سنگھ نے کہا کہ:
" آج زندہ رہنے کا حق، زندگی کی بہتری کے لئے لڑنے کا حق اور انسانیت کے وقار کے لئے سنگھرش کرنے کا دن ہے۔ یہ دن وہ کسان منا رہے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں۔ "

مجموعی طور پر کسانوں کی یہ تحریک حکومت کی جابرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف ایک مضبوط محاذ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس کا دائرہ دن بہ دن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ ساڑھے چھ سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ صاحب بہادر کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ کسانوں نے اب کی بار ایسے بیج بوئے ہیں کہ ان کے پھل مظلوموں کو ضرور ملیں گے۔

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Farmer's confrontation and Government's arrogance. - Column: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں