ممتاز شاعر اور نقاد وحید اختر کی حیدرآباد دکن سے وابستگی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-13

ممتاز شاعر اور نقاد وحید اختر کی حیدرآباد دکن سے وابستگی

waheed-akhtar
وحید اختر (پ: 12/اگست 1935 ، م: 13/دسمبر 1996)
ممتاز شاعر اور نقاد اور اردو شاعری میں منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ جدیدیت کی تحریک کو انہوں نے نہ صرف اپنی شعری خدمات عطا کیں بلکہ اپنے مضامین کے ذریعے بھی انھوں نے جدیدیت کی تعبیر و تشریح کی کوشش کی۔ ان کی تخلیقات ہندوستان اور پاکستان کے معیاری رسالوں میں شائع ہوتی رہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں اورنگ آباد کالج کے رسالہ "نورس" اور مجلہ "عثمانیہ" کے مدیر رہے اور رسالہ "صبا" کے ادارتی رکن کے فرائض بھی آپ نے نبھائے ونیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبۂ فلسفہ بھی رہے۔ ان کی چوبیسویں (24) برسی پر کوثر مظہری کا مرتب کردہ ایک مضمون پیش ہے۔

وحید اختر کا اصل نام سید وحید اختر نقوی تھا۔ سید نذر عباس ان کے والد تھے۔ ان کی پیدائش مومن پورہ، اورنگ آباد میں 12/اگست 1935 کو ہوئی تھی۔
(بحوالہ: آج کل اور غبار کارواں، ص:200)

ان کا آبائی وطن نصیر آباد، جائس (اترپردیش) تھا۔ وہ انٹرمیڈیٹ تک اورنگ آباد میں رہے تھے لیکن ان کی ادبی و علمی زندگی کو جو توانائی حیدرآباد میں ملی وہ قابل رشک رہی۔ البتہ علی گڑھ کا زمانہ بھی دلچسپ اور فعالیت سے پر تھا۔ اپنی جائے پیدائش کا ذکر بھی وہ افتخار کے ساتھ کرتے تھے۔
وحید اختر کو خاندانی طور پر فارغ البالی حاصل نہیں تھی۔ ان کا بچپن، لڑکپن اور جوانی تینوں سخت دشواریوں سے گزرے۔ انہوں نے خود ہی لکھا ہے کہ پرائمری اسکول کے زمانے سے ہی زندگی کی سختیوں، دشواریوں اور جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ وحید اختر کے علاوہ ان کے پانچ بھائی اور تھے، ایک بہن بھی تھی۔ اس طرح چھوٹی سی رقم پر آٹھ افراد کی زندگی موقوف تھی۔ اس دورِ آزمائش کے بارے میں انہیں اپنے پرائے کی حقیقت کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع بھی ملا۔ غیروں کی محبت اور اپنوں کی بےمروتی سے بھی واسطہ پڑا جس کا ذکر انہوں نے کئی جگہوں پر کیا ہے۔

وحید اختر ایک ذہین و فطین شخص تھے۔ ایک تو ایام طفولیت سے لے کر جوانی تک انہوں نے دکھ اٹھائے تھے، دوسرے یہ کہ اپنوں کی بےمروتی نے انہیں اناپرست بھی بنا دیا تھا۔ یوں بھی ان کی طبیعت میں ایک طرح کی تندی و تلخی تھی۔ وہ آسانی سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
قدیر زماں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وحید اختر اور وہ دونوں قرۃ العین حیدر سے ملنے گئے۔ وہاں وحید اختر نے جس جرات اور اعتماد کے ساتھ قرۃ العین سے گفتگو کی، وہ سب کے بس کی بات نہیں۔ ادبی دنیا جانتی ہے کہ خود قرۃ العین حیدر کس قدر اناپرست اور تندخو تھیں۔ قدیر زماں نے اس گفتگو کو یوں مقتبس کیا ہے:
"ہم نے آپ کے ناول 'آگ کا دریا' کو ایک بڑے ناول کی حیثیت سے اردو دنیا میں واقف کروایا۔ شعور کی رو کو ہم نے جس طرح سے پیش کیا کوئی دوسرا نہ کر سکتا تھا۔ ہماری وجہ سے آپ کے ناول کو بڑی شہرت ملی۔"
(شعر و حکمت، کتاب:8 دور سوم، دسمبر 2006، ص:129)

وحید اختر کی طبیعت کی تیزی، انانیت اور ایک طرح کے خلاقانہ تیور کا اندازہ ان کی شاعری اور تنقیدی مضامین سے بھی ہوتا ہے۔ گرچہ ان کی زندگی پریشانیوں میں گزری مگر انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ وہ کمزور لوگوں کی طرح جبیں سائی کرنے کے سخت مخالف تھے۔ وہ چونکہ ایک ذہین اور باصلاحیت انسان تھے، اس لیے ان میں خود اعتمادی بھی پیدا ہو گئی تھی۔ وحید اختر نے بھی کسی مقام پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ نام نہاد بڑے لوگوں اور اہل اقتدار کے آگے جھکے نہیں۔ اگر کسی سے وعده کر لیتے تو اسے نبھانے کی پوری کوشش کرتے۔ ادبی نشستوں اور مشاعروں میں خراب اشعار سن کر بہت جلد بدحظ ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر شہپر رسول نے بتایا کہ ایک طرح کی کجی ان کے اندر تھی اور خراب شاعر کی ہوٹنگ بھی کرتے تھے۔ لیکن یہ ان کی طبیعت کا میلان تھا۔ چونکہ وہ خود اچھے شاعر تھے، اور صاف ستھرا ادبی ذوق رکھتے تھے، اس لیے بری شاعری سن کر وہ بد حظ ہو جایا کرتے۔ لیکن یہ کوئی برائی کا پہلو نہیں، بلکہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ادھ کچرے اور غیر معیاری ادب کی حوصلہ افزائی کرنے کے خلاف تھے۔
وارث علوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔۔۔
وحید اختر نے کلاسیکی اور جدید شعرا اور ان کے ادوار میں بدلتے شعر کے تصورات اور نظریات پر جو کچھ لکھا، ژرف نگاہی اور خلوص اور جرات مندی کے ساتھ لکھا۔ کلاسیکی شعرا خصوصاً غالب، انیس اور اقبال ان کے خاص موضوع رہے ہیں، جو ان کے بہترین تنقیدی مضامین میں شمار ہوتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر انہوں نے کل آٹھ مضامین لکھے اور اپنے ایک مضمون میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اقبال کی شاعری نے ان میں فلسفہ کا شوق پیدا کیا۔
وحید اختر 1952 میں بی۔اے میں داخلے کی غرض سے حیدرآباد تشریف لے گئے۔ اس وقت ان کی ماں بستر مرگ پر تھیں۔ انہوں نے اس واقعے کو بہت ہی دلدوز انداز میں پیش کیا ہے۔ جب وہ گھر سے نکلے تھے تو ماں بیمار تھیں اور ان کے حیدرآباد پہنچنے سے پہلے ان کی ماں کے انتقال کی خبر پہنچ چکی تھی۔ اس کے کچھ مہینوں بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ حیدرآباد میں اپنی بے سروسامانی کا ذکر وہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:
دور دور تک کوئی شجر سایہ دار مسافر نوازی کے لیے نہ تھا، چاروں طرف زندگی کا تپتا اور آگ برساتا ہوا صحرا تھا۔ حیدرآباد کی متنوع، رنگا رنگ اور چمکتی دمکتی زندگی کے ہجوم میں اپنی بے سروسامانی اور تنہائی کا شدید احساس ہی میرا شریک تھا۔ اس احساس تنہائی کو میں نے تعلیم اور شاعری میں گم کر دیا۔
(پیش لفظ، پتھروں کا مغنی، ص 10)

حیدرآباد کی ادبی فضا میں وحید اختر نے کم و بیش آٹھ برس گزارے۔ چونکہ وہ بہت ذہین اور اسکالرشپ سے معمور شخصیت کے حامل تھے اس لیے جلد ہی انھیں شہرت ملی اور حیدرآباد کے حلقہ ادب میں شامل ہو گئے، جہاں انھیں شاذ تمکنت ، سلیمان اریب، صفیہ اریب، عالم خوندمیری ، حسن عسکری، مجتبی حسین، مغنی تبسم وغیرہ جیسے احباب ملے۔ دوستوں کی محبتوں، قربتوں، عداوتوں اور وہاں کی ادبی فضا کے آدرش کو اپنے دامن میں بھر لیا۔ خود انہوں نے اس شہر کے بارے میں جو تاثر پیش کیا ہے، آپ بھی ملاحظہ کر لیں :
"ان آٹھ برسوں میں اس حسین شہر نے مجھے تعلیمی زندگی کی شاندار کامیابیاں بھی دیں۔ عملی زندگی کی تلخ ترین ناکامیاں بھی ، خوشگوار لمحوں کی جاں نواز یادیں بھی دیں اور جاں گداز شب و روز کی سختیاں بھی۔ شہرتیں بھی ملیں اور رسوائیاں بھی۔ جامعہ عثمانیہ کی فضا میرے لیے کعبہ بھی رہی اور بت خانہ بھی، میرا ایمان بھی رہی اور کفر بھی، میرا ذہنی وطن بھی رہی اور جلا وطنی کا حکم دینے والی تعزیرگاه بھی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے میرے ادبی شعور کی تربیت کی۔ یہاں میں نے بہتر اجتماعی اور سماجی زندگی کے لیے قلم سے جہاد کرنے والوں کا مقدس فلسفہ بھی اپنایا۔۔۔ تنقید کی بے باکی، بے مروتی اور بے لوثی بھی سیکھی اور تنقید کو بندھے ٹکے ضابطوں اور اصطلاحات میں الجھا ہوا بھی دیکھا۔"

مزید انہوں نے لکھا ۔۔۔
"ادب میں سطحی اصطلاحات پرستی کا تلخ تجربہ اس وقت ہوا جب میں نے صبا کی ادارت سے وابستگی کے زمانے میں 'سخن گسترانہ بات' کے عنوان سے ادب و شعر کے مسائل پر مضامین کا ایک مستقل سلسلہ شروع کیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب ادب میں ترقی پسندی کا مفہوم معرض بحث میں آیا۔ زندگی، سماجی رویے اور فکر میں ترقی پسندی انسان کا بھی لازمہ ہے اور ادب کا بھی خاصہ ، لیکن میں اس کا وہ تنگ اور محدود سیاسی مفہوم، ادب کے لیے مضر سمجھتا ہوں جس سے ادب کی اپنی شریعت پر حرف آئے اور ادب وقت ہنگامی سیاست کا حلقہ بگوش بن کر رہ جائے۔۔۔ اس نقطۂ نظر نے مخالفت کا وہ طوفان کھڑا کیا جس کے سامنے مجھے اپنے قدم استوار رکھنے کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔ البتہ اس مباحثے نے میرے تنقیدی شعور کو ایک واضح سمت دی اور میں نے ہم عصر اور قدیم ادب کے بعض مسائل و موضوعات کو اپنی نظر سے دیکھنا اور اپنے ذہن سے پرکھنا شروع کیا۔"
(پیش لفظ، پتھروں کا مغنی ، ص: 10 ، 11)

'صبا' میں شائع ہونے والے وحید اختر کے مستقل فیچر 'سخن گسترانہ' سے نظریاتی اور ادبی نکات کے حوالے سے جو بحثیں اٹھیں، ان میں ترقی پسند تحریک کے روح رواں سید سجاد ظہیر بھی تھے، بلکہ پیش پیش تھے۔
حیدرآباد آنے سے پہلے اورنگ آباد کے دوران قیام ہی وحید اختر ترقی پسند تحریک کے رجحانات سے متاثر ہو چکے تھے۔ حیدرآباد ہی میں انہوں نے 'خواجہ میر درد، تصوف اور شاعری' کے موضوع پر جامعہ عثمانیہ سے ڈاکٹر میر ولی الدین کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیمی کاموں سے زیادہ وحید اختر کا وقت اس زمانے میں ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں میں گزرتا تھا۔
'صبا' کے دفتر میں شہر کے معروف قلم کاروں کی آمد و رفت رہا کرتی تھی۔ 'سخن گسترانہ' کے تحت لکھے گئے ادبی اور تجزیاتی نوعیت کی تحریروں سے پیدا ہونے والے اختلافات سے وحید اختر بہت پریشان بھی ہوئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ دوستوں اور بعض رفیقوں کی مخالفت بلکہ دشمنی تک مول لینی پڑی۔ یہی زمانہ میرے لیے آدرشوں کی شکست اور رومانی وابستگیوں کے ٹوٹنے کا بھی زمانہ تھا. تب یہ عقدہ کھلا کہ جو لوگ آدرشوں اور خوابوں کا زبان سے ورد کرتے ہیں عمل میں وہی ان کے سب سے بڑے قاتل بھی ہیں"
(آج کل ، اور غبار کارواں ، ص: 205)

ستمبر 1995 میں جب ان کو قلب کا عارضہ ہوا اور گردے خراب ہوئے تو اپولو اسپتال حیدرآباد میں داخل کرایا گیا۔ وہاں علاج ہوتا رہا۔ بقول قدیر زماں وہاں ان کا قیام ڈیڑھ ماہ تک رہا۔ وہاں ان کا ڈائلائسس ہوتا رہا۔ واپسی سے دو روز قبل ایک ادبی محفل منعقد کی گئی۔ وہاں بہت سے اہم ادیب و شاعر تشریف فرما ہوئے۔ وحید اختر نے اچھی اچھی باتیں کیں اور کلام بھی سنایا۔ دکن سے اور خصوصاً حیدرآباد سے انھیں قلبی لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ ان کی ایک غزل کا شعر ہے
دشت غربت میں دکن سے جو بھی آئے ہوا
تیرے آوارہ کی مٹی نہ پریشان رہے

***
ماخوذ از کتاب:
وحید اختر (ہندوستانی ادب کے معمار سیریز از ساہتیہ اکادمی)
مرتب: کوثر مظہری (سن اشاعت: 2008)

A monograph on Waheed Akhtar by: Kausar Mazhari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں