بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ غزل گو شاعر آج سے دو سو برس پہلے جس مغموم اور افسردہ آواز سے حسن و عشق کی داستان بیان کررہے تھے اسی کی تقلید اب بھی ہورہی ہے۔ گویا آرٹ کی تخلیقی آزادی سلب ہوچکی۔ وہی چبے چبائے نوالے ہیں جنہیں برابر چبایاجارہا ہے۔ چاہے ان میں کچھ مزہ ملے یا نہ ملے۔ وہی شاہدوشراب، زلف و گیسو، مئے و میخانہ اور شمع و پروانہ کی داستان ہے جو ذرا سے لفظوں کی الٹ پھیر کے ساتھ صدیوں سے بیان ہوتی رہی ہے اور آج بھی بیان کی جارہی ہے۔ یہ درست ہے کہ غزل کے رموز و علامات میں کوئی فرق نہیں آیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی توجیہ بھی وہی ہے جو سدیوں پہلے تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ ان رموز و علامات کی توجیہ زندگی کے ساتھ ساتھ اس عرصے میں بہت کچھ بدلتی رہی ہے۔ شاعری نے دنیا میں ہر جگہ لوگوں کے بدلتے ہوئے شعور و احساس کا ساتھ دیا ہے تاکہ وہ ذہنی زندگی سے بے تعلق نہ ہوجائے ۔ غزل کا آرٹ بھی سکونی آرٹ نہیں کہ جہاں تھا وہیں رہے ۔ زندگی کی طرح وہ حرکت اور نمو میں رچا ہوا ہے۔ اسی واسطے اس کی معنی آفرینیوں کی کوئی حد نہیں ، علم و حکمت کی ترقی کے ساتھ جوں جوں ذہن کی جلا بڑھے گی اس کا اثر ضرور ہے کہ ہمارے احساس و تخیل پر پڑے۔ جب احساس و تخیل متاثر ہوں گے تو غزل کے محرکات بھی بدلیں گے اور اس کے رموز و علامات کی توجیہ بھی بدلے گی اور اس طرح نئے نئے خیالی اور جذباتی حقائق کی باز آفرینی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ گزشتہ دو سو سال کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ غزل کے بظاہر بندھے ٹکے محاوروں اور اشاروں میں معانی کی کس قدر وسعتیں پنہاں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزل نگاروں کے پرانے تجربوں کی نئی آگاہیاں آئندہ بھی تخلیق ہوتی رہیں گی اور اس طرح ہمارے ادبی شعور کی نشوونما جاری رہے گی۔
میں یہ مانتا ہوں کہ اس وقت ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ میں غزل کو وہ حسن قبول حاصل نہیں رہا جو نظم کو حاصل ہے ۔ جدید مغربی تعلیم کے اثر سے ہمارے یہاں نظم نگاری کو رواج ہوا اور پچھلے پچاس سال میں اس میں قابل قدر اضافے ہوتے رہے ہیں۔ حالی اور اقبال نے اس کو اپنے اصلاحی خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ دونوں کو اپنی قوم کو پیغام دیناتھا جس کے لئے یقینا نظم کا وسیلہ زیادہ موثر اور مفید تھا۔ قوموں کو درس عمل دیاجاتا ہے وہ اشاروں کنایوں میں نہیں دیاجاسکتا ۔ وہ وضاحت اور تفصیل اور تکرار چاہتا ہے۔ چنانچہ یہ کام غزل کے مقابلہ میں نظم ہی کے ذریعے سے اچھی طرح انجام پاسکتا تھا۔ میں اس موقعہ پر دیدہ و دانستہ اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ کہ ہمارے ادب میں غزل کو ترجیح دیجانی چاہئے یا نظم کو۔ دراصل دونوں اپنا اپنا مقام اور اپنا اپنا حق رکھتی ہیں جس سے انہیں محروم نہیں کرنا چاہئے۔ جس وقت سے مولانا حالی نے"مقدمہ شعروشاعری" میں غزل پر نکتہ چینی کی اس وقت سے آج تک برابر وہی پرانے اور فرسودہ دلائل غزل کے خلاف لائے جارہے ہیں، ان سب دلائل کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ غزل زندگی کے نئے تقاضوں کی حریف نہیں ہوسکتی اس واسطے اس صنف سخن میں خیال کو اظہار کی پوری آزادی نہیں ملتی۔ اس کی ریزہ کاری کلام کے منطقی تسلسل کو برقرار نہیں رکھ سکتی جس کا نتیجہ خیالات کا انتشار ہے ۔غرضکہ غزل اب اعتبار اور قدر کی چیز نہیں رہی، لہٰذا اس کا ختم ہوجانا ہی اچھا ہے ۔
مولانا حالی نے غزل پر جو نکتہ چینی کی وہ اصلاحی محرکات کے تحت تھی نہ کہ ادبی مقاصد کے تحت۔ انہیں غزل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ یہ حسن و عشق کے معاملات کی شاعری ہے ۔ عشق عقل اور اخلاق کو خراب کرنے والی چیز ہے۔ اس سے جتنا بھی اجتناب کیاجائے اتنا ہی قومی مصالح کی ترقی کا موجب ہوگا، کہ یہ بیکاری کا مشغلہ ہے ۔ لیکن یہ نقطہ نظر سطحی ہے۔ مولانا حالی کی نیک نیتی اور انکے اخلاص میں شبہ نہیں ، لیکن اس ضمن میں ان کا مشورہ قابل قبول نہیں۔ یہ بات ہمارے ادبی مزاج کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ مولانا حالی کے مشورہ کو قبول نہیں کیا گیا ۔ اگر قبول کیاجاتا تو ہماری زبان حسرت اور جگر اور فانی اور اصغر کی زمزمہ سنجیوں سے محروم رہتی جو ایک ناقابل تلافی نقصان ہوتا۔
مولانا حالی کی رباعی ملاحظہ ہو
ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا
یا خود ہے یہ گھر ہزار آزاروں کا
ہم کچھ نہیں جانتے پر اتنی ہے خبر
اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا
اس رباعی میں مولانا روم کے اس شعر کی تردید کی گئی ہے:
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
دراصل معاملہ اتنا آسان اور سادہ نہیں جتنا کہ غزل کے معترضین نے سمجھ رکھا ہے غزل کی جڑ میں ہماری تہذیبی اور اخلاقی زندگی کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ انہیں اکھاڑ پھینکنا سہل نہیں۔ مولانا حالی اردو زبان و ادب کی اور عام طورپر مسلمانوں کی قومی زندگی کی اصلاح چاہتے تھے ۔ اصلاحی جوش میں انہوں نے غزل کے نقائص چن چن کر دکھائے اور قومی اخلاق کو سدھارنے کے لئے سادہ اور عام فہم نظمیں لکھیں اور دوسروں کو لکھنے کی دعوت دی ۔ پھر ان کے پیش نظر غزلوں میں بھی خاص طور پر وہ تھیں جن سے فحش اور رکاکت کی ترویج کا اندیشہ تھا۔ لیکن کیا سب غزلیں ایسی ہوتی ہیں؟
عیب مئے جملہ بگفتی ہنرش نیر بگو
نفی حکمت مکن از بہر دل عامے چند
(حافظ)
اگر مولانا حالی آج زندہ ہوتے تو خو د اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ پچھلے چند سالوں میں فحش کی ترویج اور اس کی قدر افزائی نثر اور نظم کے توسط سے زیادہ ہوئی ہے ، یا غزل کے ذریعے۔ مولانا حالی کی رائے آج دلیل کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ۔ وہ محض عارضی اور ہنگامی حالات کا نتیجہ تھی۔ انہوں نے غزل کے جو نقائص بتائے ہیں ان میں سے بعض کو غزل کے حامی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ غزل جو محض قافیہ بندی کے لئے ہو موجب فخر نہیں ہوسکتی۔ بلا شبہ غزل صرف اعلیٰ درجہ ہی کی ہونی چاہئے ۔ نظم اوسط درجے کی گوارا کرلی جاسکتی ہے لیکن غزل نہیں کی جاسکتی۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ "بلندش بہ غایت بلند و پستش بہ غایت پست"غزل پر ہو بہو صادق آتا ہے۔ غزل ہمیشہ بلند ہی ہوگی، اگر واقعی وہ تغزل کے آداب کی حامل ہے۔ اوسط درجے یا ادنی درجے کی غزل مکر وہ چیز ہے جس سے گھن آتی ہے۔ ادبی لطف حاصل ہونا تو کجا۔ اس کی غلط تعبیر و توجیہ کا اندیشہ رہتا ہے جو ممکن ہے بعض طبائع پر برا اثر ڈالے ۔ غزل کے پست ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ شعروسخن سے دلچسپی رکھنے والے پہلے پہل اسی کو اپنا تختہ مشق بناتے ہیں۔ عروض کی چند کتابیں پڑھیں اور اپنے آپ کو غزل کہنے کا اہل سمجھنے لگے ۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ غزل گو ہونا علم مجلسی کا جز تصور کیاجاتا تھا صنائع لفظی اور ضلع جگت ذہانت کی دلیل سمجھی جاتی تھی ۔ امراء کے طبقہ میں خاص طور پر اس کا رواج تھا۔ جس طرح گھر کے انتظام کے لئے ایک داروغہ رکھاجاتا تھا اسی طرح غزل کی اصلاح کے لئے ایک استاد رہتے تھے جو اکثر کوئی پھٹے حالوں بزرگ ہوتے تھے۔ جنہیں اصلاح شعر کے معاوضہ میں کھانا اور کپڑا مسیر آجاتا ۔ غدر سے پہلے اور غدر کے کچھ عرصہ بعد تک غزل لکھنے والے امیر زادے اور ان کی غزلوں پر اصلاح دینے والے استاد شمالی ہند کے ہر شہر اور قصبے میں موجود نظر آتے تھے ۔ ان سب بے فکروں کے لئے شعروسخن بیکاری اور خوش وقتی کے مشغلہ سے زیادہ وقعت نہ رکھتاتھا۔ یہ زمانہ ہماری اجتماعی اور جذباتی زندگی کی انتہائی بے مقصدی اور انتشار کا زمانہ تھا جس سے سیاست و معیشت کی طرح ادب بھی متاثر ہوا ۔ کسی کو بھی نہیں معلوم تھا کہ اسے کدھر جانا ہے۔ اور کس کے ساتھ جانا ہے ؟ ہماری قوم کی حالت غالب کے تھکے ہارے مسافر کی سی تھی جس کی زبانی اس نے یہ شعر کہلوایا
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اس آڑے وقت میں ہماری خوش قسمتی تھی کہ سر سید اور مولانا حالی جیسے رہبر ملے۔ ان کے دلوں میں درد اور نیتوں میں خلوص تھا ، مولانا حالی نے ادبی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ یہ ان کا انتہائی ایثار تھا کہ باوجود اعلیٰ درجہ کے تغزل کی صلاحیت کے انہوں نے نظم کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔ ان کے تغزل کا اندازہ چند شعروں سے ہوسکتا ہے ۔
کس طرح اس کی لگاوٹ کو بناوٹ سمجھوں
خط میں لکھا ہے وہ القاب جو عنوان میں نہیں
بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں
دی ہے واعظ نے کن آداب کی تکلیف نہ پوچھ
ایسے الجھاؤ تری کاکل پیچاں میں نہیں
*****
ہے جستجو کی خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
اک عمر چاہئے کہ گوارا ہونیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
یہ آخری شعرمولانا حالی کے حقیقی اندرونی احساس کی غمازی کرتا ہے ۔ انہوں نے ترک عشق کی جو دعا کی وہ اوپری دل سے تھی۔ اسی لئے بے اثر رہی ۔ عشقیہ شاعری کی ترقی رکنے والی نہ تھی نہ رکی۔ چنانچہ آج اس صنف سخن کا ایک زبردست علمبردار آزار عقل اور مداوائے عشق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مطلق پس و پیش نہیں کرتا۔
ارباب ہو جتنے ہیں بیمار عقل ہیں
ان کے لئے ضرور مداوائے عشق ہے (حسرت)
مولانا حالی اور ان کے بعد اقبال نے اردو نظم نگاری کو اس اعلیٰ مرتبہ پر پہونچیا جس پر ہم اب اس کو دیکھ رہے ہیں، لیکن غزل بھی اس عرصے میں بیٹھی نہیں رہی، غالب کے بعد داغ ، امیر، شاد، حسرت، فانی ، اصغر اور جگر نے اپنے اپنے انداز میں اسے سنوارا اور نکھارا اور اس کے مقام کو بلند تر کیا۔
ہمارے زمانے کے ترقی پسند نوجوانوں کو غزل کے مقابلے میں نظم اس لئے بھی پسند ہے کہ اس کا لکھنا نسبتاً آسان ہے ۔ غزل جتنی ریاضت چاہتی ہے و ہ ان کے بس کی بات نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس طبقہ میں غزل کی پابندیاں اور آداب مقبول نہیں اس لئے کہ انہیں برتنیکا ان لوگوں میں جیسا چاہئے ویسا سلیقہ اور ذوق نہیں۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنے ادب اور اپنی ذہنی روایات سے ناواقف ہیں۔ وہ مغربی ادب کی ریس میں آزاد اور عاری نظمکو اردو میں بھی رواج دینا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہر زبان کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ ہر صنف سخن کو ہر زبان میں نہیں برتا جاسکتا اور نہیں برتنا چاہئے تخلیقی ادب ذوقی چیز ہے ۔ جہاں ذوق مجروح ہوگا وہاں تخلیقی ادب تخلیقی نہیں رہے گا بلکہ کسی دوسرے کی نقالی ہوگی۔ جس سے ادب کی سیرت مسخ ہوجائے گی۔ اندیشہ ہے کہ ترقی پسند ادیبوں کی یہ ناپختگی اور بے راہ روای ان کی رفتار ترقی کے لئے زنجیر پا نہ بن جائے اور ان کے تخلیقی مساعی بے اثر ہوکر نہ رہ جائیں جو کسی تحریک کے لئے سب سے بڑی افتاد ہے ۔
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ادب کے اثر سے ہمارے یہاں جو نئے رجحانات پیدا ہورہے ہیں وہ غزل کے لئے ناموافق ہیں، لیکن میرا یہ خیال ہے کہ اس صورت حال کے خلاف جلد رد عمل رونما ہوگا اور ہمارا ادبی ذوق ہمیں بہت دنوں تک ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دے گا۔ جس طرح مغربی تعلیم کے اس ملک میں رائج ہونے پر مشرقی علوم و فنون، ناقدری کے نذر ہوگئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد ان کے صحیح مقام کو تسلیم کیاگیا۔
اسی طرح مغربی ادب کے زیر اثر ممکن ہے غزل نگاری کو عارضی طور پر روز بد دیکھنا پڑے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ غزل اس جوکھم کو جھیل جائے گی۔ اس میں اتنی قوت حیات موجود ہے کہ تھوڑا بہت ظاہری روپ بدل کر پھر اپنی گدی پر براجمان ہوجائے۔ ناٹک اور ناول کی طرح نظم بھی عوامی ضروریات پوری کرتی رہے گی اور اس طرح ہمارے ادب میں نظم اور غزل دونوں کو اپنا اپنا مقام مل جائے گا لیکن عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نظم کو غزل سے موسیقیت کا رس مستعار لینا ہوگا ورنہ خود اس کی قبولیت خطرہ میں پڑجائے گی ۔ ہم زندگی کی تاریکیوں سے موسیقی کے ذریعہ ہی گریز کرسکتے ہیں۔
اور شعرتو بغیر موسیقی کے بقول غالب "مینائے بے شراب و دل ہے ہوائے گل" سے زیادہ قعت نہیں رکھ سکتا۔
غرضیکہ مجھے غزل کا مستقبل اس کے امکانات کی وجہ سے روشن نظر آتا ہے ۔ اس لئے کہ اس صنف سخن سے ہمارے بعض اہم اور دور رس ادبی اور جذباتی تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے غزل ہمارے ادبی مزاج میں اتنی دخیل ہوچکی ہے کہ اس سے قطعی طور پر بے تعلق ہوجانا ممکن نہیں معلوم ہوتا ۔
ماخوذ از کتاب: اردو غزل مع انتخاب (اشاعت: دسمبر 1948ء)
مصنف: ڈاکٹر یوسف حسین خاں (صدر شعبۂ تاریخ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن)
مصنف: ڈاکٹر یوسف حسین خاں (صدر شعبۂ تاریخ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن)
Urdu Ghazal - Change and Development, Article by: Dr. Yousuf Hussain Khan.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں