تذکرہ مجتبائیہ فرحتیہ - مضمون از: خواجہ حسن ثانی نظامی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-10

تذکرہ مجتبائیہ فرحتیہ - مضمون از: خواجہ حسن ثانی نظامی

tazkara-mujtaba-khaja-hasan-sani-nizam
اب سے دور، 1947ء کے فسادات کی آندھی میں اللہ جانے کتنے دہلی والے اڑ گئے اور کہاں سے کہاں جا پڑے۔ رسالہ ساقی کے اڈیٹر اور ڈپٹی نذیر احمد صاحب علیہ الرحمہ جیسے نامور دادا کے پوتے شاہد احمد دہلوی بھی کراچی میں پائے گئے۔ مگر اپنے پرانے نام کے نئے اوتار کے ساتھ ! یعنی ایس اے دہلوی کی نقاب ڈال کر۔ مدتوں بعد دہلی آئے بھی تو ایسے بے آہٹ اور چپ چپاتے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ مجھے سن گن خود کراچی والوں سے لگی۔ فوراً اپنے مرحوم چھوٹے بھائی خواجہ مہدی نظامی کو دوڑایا کہ پتا نشان نکالو۔ سب سے پہلے کتب خانہ نذیریہ میں جانا۔ شاہد صاحب کے بھائی مسلم نظامی صاحب اب وہاں کم بیٹھتے ہیں۔ مگر دکان میں کسی نہ کسی کو خبر ہوگی ہی کہ شاہد صاحب خیر سے کہاں اترے ہیں؟ دکان والوں نے واقعی رہبری فرمائی مگر صرف اس قدر کہ چتلی قبر کے پاس فلاں گلی میں ٹھہرے ہیں۔ میزبان کے نام کا علم ہیں۔ مکان کا نشان یہ ہے کہ دروازے پر ایک بکرا بندھا ہوا ہے۔

مہدی میاں نے بکرے والا مکان تو ڈھونڈ لیا مگر وہاں پہنچ کر کیا دیکھتے ہیں کہ ہر مکان کے سامنے بکرے موجود ہیں۔ بقر عید کا قرب تھا۔ آخر اللہ کا نام لے کر اور بکرے کے سینگوں سے بچ کر پہلے مکان ہی پر دستک دے ڈالی اور جواب میں خیر سے شاہد صاحب خود بہ نفس نفیس برآمد ہوئے۔ پتے کا لطیفہ سنا تو سنجیدگی سے بولے:
میاں بتانے والے نے پتا تو خیر ٹھیک ہی بتایا۔ بس یہ کہنا بھول گیا کہ مکان میں ایک نیم کا درخت بھی ہے اور اس پر ایک کوا بیٹھا ہے!

کچھ لوگ تو کچھ کچھ جانتے ہیں۔ باقی بالکل نہیں جانتے کہ شاہد احمد دہلوی نے دادا کے جس گھر میں ہوش سنبھالا تھا وہیں برسوں پہلے اردو کے مشہور مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی نے بھی ڈپٹی نذیر احمد صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ مرزا صاحب نے جب اپنی خوشبو سے تیسری پیڑھی کے شاہد احمد دہلوی تک کو مہکائے رکھا تو حیدرآباد سدھارے اور گلبرگہ شریف، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی نگری میں سشن جج کی کرسی سنبھالنے کے بعد وہاں کی فضا کو بھی ادب آلود کیا۔ چنانچہ گلبرگہ شریف،جس نے حضرت خواجہ کی ایک سو پانچ یادگار کتابوں کے بعد لمبی چادر تان لی تھی، ایک دفعہ، پھر انگڑائی لی۔ لکھنے والوں کا جنم ہوا۔ مرزا صاحب کی ادبی چھتر چھاؤں ماحول مہیا کرنے کے لیے پہلے سے موجود تھی۔ وہاں کے نو بھائیوں میں سے تین نے فوراً قلم سنبھال کر ان تین بندوق برداروں کی حیثیت اختیار کر لی جنہیں لوگ Three Musketeers کے نام سے جان سکتے ہیں یعنی: محبوب حسین جگر، ابراہیم جلیس اور میرے آج کے ممدوح یادش بخیر مجتبی حسین مدظلہ۔
بڑے دونوں بھائیوں نے بس مرزا صاحب کی چھتری سے فائدہ اٹھانا کافی سمجھا، محبوب حسین صاحب کا تخلص "جگر" مرزا صاحب کا عطیہ ہے، مگر مجتبی حسین صاحب کے بارے میں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے مرزا صاحب کے خاص الخاص سلسلۂ عالیہ فرحتیہ میں نہ صرف باقاعدہ بیعت کی بلکہ خلافت بھی پائی اور اپنے مجاز ہونے کو فرشتوں کے رجسٹریشن آفس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے درج کرا کے کسی نہ کسی طرح پیٹنٹ بھی کرا لیا بلکہ
پدر نہ تو اند پسر تمام کند
پر بھی عمل کر دکھایا۔
روحانی باپ نے تو سو پچاس مضمون، چند کتابیں لکھ کر چھٹی کی۔ بس ججی کرتے رہے! مگرمجتبی صاحب واقعی مرزا صاحب کے روحانی فرزند رشید بن کر ماشاء اللہ لکھے چلے جاتے ہیں۔ مضامین اور کتابوں کے ڈھیر لگا دیے۔ حد ہے کہ بالکل مشین کی طرح جی چاہا نہ چاہا معیاری مال بناتے رہتے ہیں۔ فرمایشی مزاح پارے ڈھالتے وقت آورد کو کبھی پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔ جب دیکھو جہاں دیکھو آمد ہی آمد۔
انشاء اللہ خاں انشا نے ہار تھک کر لطیفے سنانے سے توبہ کر لی تھی۔ مجتبی صاحب نے نہ کبھی کسی سے مدد مانگی نہ کبھی کسی کی فرمائش ٹالی۔ تازہ بتازہ۔ نو بہ نو۔ ہر طرح کا طنز اور مزاح سدا حاضر اور موجود!
حالانکہ بعض بعض موقعے ہر مزاح اور طنز نگار کی زندگی میں ضرور ایسے آتے ہوں گے، خاص کر ان ادیبوں کی زندگی میں جن کی روزی روٹی ان کے فن سے جڑی ہوئی ہو کہ دلچسپ تحریر فراہم کرنے کی جگہ فرمائش کرنے والے کو سولی پر چڑھا دینے کو جی چاہے۔ مگر مجتبی صاحب نے انسانی عظمت کی رکھوالی اس طرح بھی کی کہ رات کو لخت جگر پیاری بیٹی اللہ کو پیاری ہوئی اور صبح انہوں نے اخبار کا مزاحیہ کالم لکھنے کا زہر پیا۔ یہ روایت بڑے صوفیوں جیسی روایت ہے۔ مجتبی حسین صاحب نے اچھا کیا کہ اس سب سے اونچی روایت کا حق جی جان سے ادا کیا۔

مجتبی صاحب ادب کے میدان کے جیسے شہسوار ہیں، اس پر تو یقین سے آگے تک لوگ جانے کو بلا جبر و استکراہ اور بقائمی ہوش و حواس تیار ہیں مگر یہ اطلاع ملنے پرمیرے تو واقعی ہوش اڑ گئے اور یقین تو بالکل نہیں آیا کہ انہوں نے واقعی "یہ قصہ ہے جب کا" کے زمانے میں بالکل اصلی گھوڑے کی سواری بھی کی تھی۔ مگر یہ کمال بھی مجتبی صاحب ہی کر کے دکھا سکتے تھے کہ انہوں نے ثبوت کے بطور بوقت ضرور کام آنے کے لیے اپنے گھٹنے کی اس ہڈی کو بصد احترام سنبھال کر رکھا جو گھڑ سواری کے دوران واقعی ماؤف ہو چکی تھی مگر پھر انہوں نے میدان جیتنے کے لیے یہ ترپ چال چلی کہ ملک کے نامور وزیر اعظم عزت مآب اٹل بہاری باجپئی کے ساتھ ساتھ چپنی کی ہڈی کا آپریشن کرا لیا اور اس کو ناکام کرانے سے بھی نہیں چوکے۔ خوب خوب تکلیف اٹھائی۔ تا کہ کہہ سکیں کہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں اور پھر دوبارہ سوار ہو کر ایک اور میدان جیتنے کے لیے کمرکس لی ہے۔ اللہ نظر بد سے بچائے!

ابن انشا علیہ الرحمہ نے اردو کی مزاحیہ ڈکشنری تیار کی تھی۔ اس میں لفظ "دائرے" کا احوال کچھ اس طرح تھا:
"دائرہ" - 'دائرہ اسلام' اسی سے نکلا ہے۔ پہلے لوگ اس میں داخل کیے جاتے تھے۔ اب نکالے جاتے ہیں!
طنز و مزاح کو بھی زاہدان خشک نے بڑی حد تک دائرہ اسلام سے بارہ پتھر باہر اور دور رکھا تھا۔ مجتبی حسین صاحب کے سر یہ سہرا بھی ہے کہ وہ اسے دوبارہ مشرف بہ اسلام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی ان کی کسی تحریر کو شوخ و شنگ ہونے کے باوجود غیر شایستہ پایا ہو۔ خوش طبعی کے حوالے سے جو احادیث ہمیں نظر آتی ہیں وہ صاف بتاتی ہیں کہ شرافت و شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے تو طنز اور مزاح دونوں واقعی مہذب مسلمان بن کر بھی نظر آ سکتے ہیں۔ ثقہ بھی ہاوزن بھی۔ مزاح کا یہ رنگ مجتبی صاحب کی تحریروں میں کہیں نہیں دیکھا کہ:
رات وہ بولے مجھ سے ہنس کر چاہ میاں کچھ کھیل نہیں
میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطع میرا تیرا میل نہیں

"ہنسوڑ" قماش کا کوئی لفظ آپ مجتبی صاحب کے ہاں کہیں سے نکال کر نہیں دکھا سکیں گے کہ شعر کو مدرسے میں لے جانے کا گمان گزرے۔ شاید یہ ثمرہ گلبرگہ اور حیدرآباد کی شایستگی کا ہے۔ میں نے یہ بات اس لیے کہی کہ میں نے اس حیدرآباد کو خود اپنی آنکھوں دیکھا تھا جس میں دنیا بھر کے چنندہ لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ اصفہان نصف جہان ہوگا جب ہوگا۔ میں نے تو حیدرآباد کو نصف جہان کی طرح نہیں پورے جہان کی طرح دیکھا تھا اور اب اس طرح بھی دیکھ رہا ہوں کہ پورا جہان نصف حیدرآباد کم ازکم میرے لیے تو ہے۔ خواجہ بندہ نواز، خواجہ دکن ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ
کس چیز کی کمی ہے خواجہ تری گلی میں!

دنیا کا کون سا حصہ ہے جہاں حیدرآبادیوں کی بستیاں نہیں ہیں اور کیسے حیدرآبادیوں کی بستیاں؟ یہ منعم خاں کہیں بھی مسافر اور غریب نہیں ہوتے۔ جہاں جاتے ہیں خیمہ لگاتے اور بارگاہ بنا ڈالتے ہیں! گلبرگہ بھی دراصل حیدرآباد ہی تھا مگر ابراہیم جلیس کو کراچی جانا پڑا۔ مجتبی صاحب نے دہلی میں ڈیرا ڈالا۔ ان کے والد نے اگلے وقتوں میں گلبرگہ کے ایوان شاہی میں نظام حیدرآباد کو مہمان کیا تھا اور اعلاحضرت کے خاص قلم سے دو صفحے کا تعریف نامہ پایا تھا۔ مجتبی صاحب بظاہر دہلی کے مہمان ہیں۔ یہاں لٹے پٹے دلی والے تو کیا کسی ایوان شاہی میں ان کی پذیرائی کرتے۔ لیکن ایک ایوان شاہی ایسا ہے جو خود انہوں نے اپنے قلم سے تعمیر کر رکھا ہے۔ اس میں دور دور سے سرو قد کھڑے ہو کر آداب بجا لانے والے نہ سہی، یہ خود اپنے ایوان کو جاپان تک وسیع کر کے ان بوٹا قامتوں کے مجرے قبول کرنے اور سفر نامے لکھنے جاپان تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں حیدرآباد کے سات فرشی سلام ہے کمری کو کمر بنائے دکھائی دیتے ہیں۔ خدا معلوم اعلی حضرت نظام دکن کی طرح مجتبی صاحب بھی وہاں کچھ محبت نامے تقسیم کر کے آئے یا نہیں۔
میں نے شروع میں مجتبی صاحب کو میرزا فرحت اللہ بیگ کا جانشین لکھا ہے۔ اب یاد آیا کہ مشہور صوفی بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر کی خانقاہ میں دو فرد "نظام الدین" نام کے تھے۔ ایک ان کے سگے بیٹے، دوسرے روحانی فرزند حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء۔ ایک روز یہ دونوں سامنے تشریف رکھتے تھے کہ یکایک حضرت نے فرمایا: تم دونوں میرے فرزند ہو۔ بس اتنا ہے کہ ایک "فرزند نانی" (بحوالہ روٹی۔نان) اور دوسرا فرزند جانی (روحانی) ہے۔

اللہ تعالی مجتبی صاحب کے مربی اور سرپرست فرحت اللہ بیگ صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کے سگے بیٹے مرزا رفعت اللہ بیگ اور مجتبی صاحب کے بے رضاعی بھائی بھی چشم بدور اس شان کے ہیں کہ راقم الحروف لندن گیا اور ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب نے اپنا مہمان کیا تو اپنے گھر کے سامنے استادہ ان تین Maple کے درختوں کو پتہ بتانے کے لیے ناکافی سمجھا جو خبر نہیں کب سے کھڑے ہیں۔ لہذا میرے لیے دن گزارنے کے لیے اپنے دوست فخرالدین برنی صاحب کے گھر میں مسجد کے سامنے بندوبست کیا۔ جانتے تھے کہ لوگوں کو خدا ملے نہ ملے گھر تو مل ہی جاتا ہے۔ ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ دو صاحبان لشتم پشتم چلے آتے ہیں۔ آتے ہی بولے۔ میاں کہاں ہو، میں اور عدیل ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے۔ پھر پتہ چلا کہ کوچہ نان بائیان کے نکڑ پر ٹھہرے ہوئے ہو۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا یہاں کوئی کوچہ نان بائیان بھی ہے؟
بھول پن سے بولے: میاں تم ہی بتاؤ۔ بیکرز اسٹریٹ Bakers Street کا اور کیا ترجمہ کروں؟

اللہ تعالی میرزا فرحت اللہ بیگ کے فرزند نانی اور جانی دونوں کو سلامت رکھے۔ پہلے باپ کی طرح سرخ و سفید اصلی میرزا اور کھرے بیگ نظر آنے والے۔ دوسرے گھڑی بھر پہلے تک ایسے باتمکین اور سنجیدہ جیسے واقعی خانقاہ سے اٹھ کر آئے ہوں۔ مگر گھڑی بھر بعد جہاں ماحول نے کسی لاحول کا موقع فراہم کیا، ایسے شگفتہ جیسے ہونٹ کسی پھول سے مانگ لیے ہوں۔
ایسی رنگا رنگی میں نے کم لوگوں میں دیکھی لیکن اس رنگا رنگی کے لیے ان کے مضراب کو بروقت ہدفِ ساز کی ضرورت رہتی ہے۔ لمحہ بھر میں کھل اٹھتے ہیں۔ پاس بیٹھنے والوں کو ان کے زیرلب تبصرے، ان کی درون پردہ طنز آزمائی اور مزاح نگاری سے اس طرح واقف کراتے ہیں جیسے بھادوں کی بارش نے یکایک آ لیا ہو یا بقول حضرت امیر خسرو مطرب نے ترانوں کی بوچھار کر دی ہو۔
مجتبی صاحب کے لیے ان کا ماحول بہت ہی بھری پری شکار گاہ اور بے حد زرخیز زمین کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ وہ پتھر پھینکے بغیر شکار کو جھاڑی میں سے باہر نکال لاتے ہیں اور ایسی زمین میں سے بیج اگا دیتے ہیں جو بظاہر بنجر نظر آتی ہے۔ گھٹنے کی تکلیف نے چھڑی کے سہارے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ مگر ان کے قلم کا گھوڑا بغیر چابک ایسے دوڑتا ہے جیسے غالب کے خامے پر نوائے سروش نازل ہو رہی ہو۔ تھوڑا لکھے کو بہت جانئے۔ ابھی لکھنے کو اور بہت کچھ باقی ہے۔ یار زندہ صحبت باقی۔

ماخوذ از مجلہ : چہار سو (راولپنڈی ، پاکستان) [مجتبیٰ حسین نمبر]
جلد: 24 ، شمارہ (جنوری-فروری 2015)

Sketch of Mujtaba Hussain, Article by: Khaja Hassan Sani Nizami.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں