جامعہ عثمانیہ مرحوم - مضمون از سلیمان اطہر جاوید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-25

جامعہ عثمانیہ مرحوم - مضمون از سلیمان اطہر جاوید

jamia-osmania-marhoom
جامعہ عثمانیہ کی تاسیس کا تصور کرتے ہی ذہن میں ایک چاندنی سی چٹک جاتی ہے۔ تخیل لالہ کار ہوجاتا ہے، شعور کی بزم میں کیف و کم کا سماں بندھ جاتا ہے، فکر و فن کے دریچوں سے مہک سی آنے لگتی ہے، غرض عالم تمام مطلع انوار ہو جاتا ہے۔
اور جب جامعہ کے "دم واپسیں" کا خیال آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے ، شش جہت سے خوفناک اور مہیب آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ آگ سی لگ گئی ہے اور ہر سمت شعلے ہی شعلے ہیں، گویا زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب ہے۔۔
جامعہ کی کہانی بس اتنی سی ہے:
شفق، جو چند ثانیوں کے لئے اپنی بہار دکھاکر غائب ہوگئی۔ ایک نور کا لہرا کہ جو اب رفت گیا، اور بود، تھا، کی تفسیر بنا ہوا ہے۔ ایک مترنم آواز جو فضا میں بکھری اور کھو گئی۔ ایک حقیقت جس کو افسانہ بنا دیا گیا۔ ایک تعبیر، جو اب خواب کا روپ دھار چکی ہے!

ہر ادارہ کسی نہ کسی مقصد کو روبہ عمل لانے کے لئے قائم کیا جاتا ہے اور اس کے مقصد معینہ کی تکمیل نہیں ہو پاتی یا وہ اپنے مقصد حقیقی سے منہ موڑ کر اور مقاصد میں الجھ جاتا ہے تو گویا وہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے وہ بظاہر کاروبار انجام دیتا ہے لیکن حقیقت بین نگاہوں کے نزدیک وہ بے جان ہوتا ہے ، اپنی لاش اپنے کاندھوں پر اٹھائے۔۔
جامعہ عثمانیہ کا بھی یہی حال ہے۔ آج جامعہ کی سنگین، پرشکوہ اور پروقار عمارت اپنا مرثیہ آپ پڑھتے ہوئے استادہ ہے۔ وہ محو حیرت ہے، عالم سکتہ میں ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی کہ یہ کیا ہو چکا ہے، وہ کیا تھی اور کیا ہو گئی جیسے اس کی روح پرواز ہو چکی ہے، جیسے اس کی ہر رگ سنگ سے لہو ٹپک رہا ہے، جیسے۔۔۔۔۔۔۔ جیسے۔۔۔۔ جیسے۔۔

پنچشنبہ 4/رجب المرجب 1335 ہجری (1918ء) کو فرمان خسروی کے ذریعہ جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔۔ یہ کوئی نادر بات نہیں۔ بے شمار افراد، اداروں اور حکمرانوں نے کئی تعلیمی اداروں ، کئی جامعات کو قائم کیا ہے کہ اپنے معاشرہ میں تعلیم کو عام کیا جائے، عوام میں بیداری پیدا کی جائے اور ملکی و قومی ترقیات کے لئے راہیں وا کی جائیں۔
خود ہمارے ملک کی کئی جامعات کی بنا اسی خیال کے پیش نظر ڈالی گئی۔ اگر اسی زاویہ سے جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں لایا جاتا تو یہ حضرت آصف سابع کا کارنامہ نہ ہوتا اور نہ ہی جامعہ کے حق میں انفرادی بات!
جامعہ محض اس لئے قائم نہیں کی گئی تھی کہ تعلیم کو عام کیا جائے بلکہ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ریاست کی نئی نسل کی صلاحیتوں کو اجاگر اور اس کے شعور کو صیقل کیا جائے۔ تعلیم کی ترویج و اشاعت کسی بھی زبان میں کی جا سکتی ہے۔ لیکن طالب علموں کی صلاحیتوں کو زیادہ سے بروئے کار لانا صرف ان کی مادری زبان میں ممکن ہے۔ آج کرہ ارض پر کون ہے جو اس دعوی کو تسلیم نہیں کرتا؟

ہندوستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ، پہلا اقدام تھا، جراتمندانہ والہانہ بلکہ عاشقانہ کہیے! اس آگ میں عشق بے خطر کود پڑا تھا اور خرد مند سوچ رہے تھے کہ آیا ایک علاقائی زبان میں جامعاتی سطح پر تعلیم ممکن ہے؟ بیشتر انگشت بدندان تھے کہ اردو جیسی "کم مایہ"زبان اور جامعاتی تعلیم؟
ثبوت حق کے لئے عرصہ درکار نہ ہوا۔ بہت جلد اردو نے ثابت کردیا کہ وہ ان تمام صلاحیتوں کی حامل ہے جو اعلی تعلیم کے لئے ضروری ہیں۔ دارالترجمہ قائم ہوا اور تدوین اصطلاحات کا کام بھی شروع ہوا وہ مہم جو جمہوری حکومتیں اور زیادہ وسائل رکھنے کے باوجود برسوں میں سر انجام نہیں دے سکتیں، ایک شاہی حکومت نے جلد ہی اور کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کو پا لیا۔ آرٹس اور کامرس ہی کیا، طب، انجینئرنگ اور جملہ سائنسی علوم کی تعلیم اسی اردو میں دی جانے لگی جو آج اپنوں میں غیر اور اپنے وطن میں اجنبی بنی ہوئی ہے اور جس کی عظمت و رفعت اور شوکت و حشمت سے مجرمانہ انکار کیا جا رہا ہے۔
یہ تجربہ کہاں تک کامیاب ہوا اس خصوص میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہر اس شخص نے جو تعلیم کے مقصد اور منہاج کو صحیح طور پر سمجھا ہے اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور آج جب کہ علاقائی اور مادری زبانوں میں تعلیم کی باتیں زور و شور اور جوش و جذبہ سے کی جا رہی ہیں، دوست دشمن سب اردو اور جامعہ عثمانیہ کا حوالہ دئے بغیر اپنے موقف کو مضبوط نہیں پاتے۔
علاقائی اور مادری زبان میں تعلیم پر زور دیتے ہوئے آج بھی یہی دلیل دی جاتی ہے کہ طالب علم ، تعلیم سے اسی وقت زیادہ اور بہتر استفادہ کرسکتا ہے جب کہ اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔
جب بات یہی ٹھہری تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قومی زبان کو جو ایک بھاری اقلیت (جس کو ملک کی دوسری بڑی اکثریت کہنا زیادہ صحیح ہوگا) کی مادری زبان بھی ہے اور جس کے بولنے والے ملک کی کئی علاقائی زبانوں کے بولنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں، ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے کیوں ختم کر دیا گیا؟ اردو کو جامعہ عثمانیہ میں اسی منزل سے گزرنا پڑا ہوگا جس منزل سے کہ سقراط کو زہر کا پیالہ پیتے ہوئے اور یسوع مسیح کو صلیب پر دوچار ہونا پڑا ہوگا۔

آج ملک میں آزادی کے (21) سال بعد (نوٹ: یہ مضمون اکتوبر-1968 کا تحریرکردہ ہے) علاقائی زبانوں میں تعلیم کا رجحان ترقی پاتا جا رہا ہے تو اردو کو جب یہ موقع حاصل تھا اور وہ کامیابی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہی تھی اس کا حق کیوں سلب کر دیا گیا؟ آج اردو ذریعہ تعلیم کے اس شاندار اور قابل فخر تجربے کو سراہتے ہوئے کیا اپنے اور کیا غیر کوئی نہیں تھکتے۔ اس سلسلے میں اردو کی مثال اس وقت پیش کی جاتی ہے جب مادری اور کسی علاقائی زبان میں تعلیم کی اہمیت جتانی مقصود ہوتی ہے لیکن اس کا جواب دینے کی کسی میں جرات نہیں کہ جب اردو کا تجربہ کامیابی کے ساتھ جامعہ عثمانیہ میں کیا جا رہا تھا اس کا گلا گھونٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ اردو کا اسی کے وطن میں بے وطن کرنے کا کیا موقع تھا؟
یہ اردو ہی کے حق میں ناانصافی نہیں، جمہوریت کے گلے پر بھی چھری تھی۔ لسانی اقلیتوں کے ساتھ مساوی برتاؤ کے بلند باگ دعوؤں کی تکذیب، عالی اقدار کا قتل، اور وہ سب کچھ جو ایک متمدن اور مہذب سماج کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا جا سکتا ہے، ایک مکروہ داغ!

بعض حلقوں میں سمجھا جاتا ہے کہ اردو کو دستور کی مسلمہ زبانوں میں شامل کیا گیا گویا اس کو اس کے حق سے بڑھ کر دے دیا گیا۔ یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں اردو میں جوابات لکھنے کی سہولت دے کر گویا سخاوت کی انتہا کر دی گئی اور پھر ادھر ادھر اردو والوں کے لئے تھوڑا بہت جو ہو جاتا ہے بس اردو والوں کے لئے اور کیا رعایت دی جا سکتی ہے ؟
ان سب کی حقیقت اس کے سوائے اور کچھ نہیں کہ صیاد نے پر کتر کے طائر اردو کو قفس سے آزاد کر دیا ہے۔ اردو کے لئے کبھی کبھار دی جانے والی رعایت اول تو ملک کے ان گنے چنے علاقوں میں دی جاتی ہیں جہاں اردو والے اپنی آواز بلند کرنے کے قابل ہیں۔ جہاں ان مٰں ابھی کچھ دم خم باقی ہے۔ لیکن یہ رعایات بھی ہوتی ہیں مبہم اور موقتی! کیوں کہ ان کو کوئی قانونی صورت حاصل نہیں ہوتی۔ شمال کی کئی ریاستوں میں جہاں اردو کے لئے جو بھی کیا جاتا کم ہوتا، آج تک کچھ نہیں کیا گیا ہے اور ادھر جنوب میں ریاست آندھرا پردیش کے زبان کے قانون میں اردو کا تذکرہ نامکمل اور ہزاروں وضاحتوں کا طالب ہے۔

یونین پبلک سرویس کمیشن کے امتحانات میں اور زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جوابات لکھنے کی گنجائش فراہم کرکے گویا اپنے طور پر لسانی مساوات کی اونچی مثال قائم کر چکے ہیں لیکن اردو والوں کو اس سے فزوں اور کیا فریب دیا جا سکتا ہے؟ اردو میں جب کہ اعلی تعلیم کے مواقع ہی محدود کردئے گئے ہیں بلکہ اگر موجودہ پیشرفت جاری رہے تو اردو تعلیم کا میدان اور کوتاہ ہو جائے گا۔
ظاہر ہے اس پیچ و خم میں مستقبل میں یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں اردو میں جوابات کون تحریر کرے گا اور اگر تحریر کئے بھی جائیں تو تحریر کرنے والوں کی تعداد (انگلیوں پر شمار کی جا سکے گی) اردو تعلیم کے مواقع ایک طرف تو ختم کر دئے جائیں اور دوسری طرف کمیشن کے امتحانات میں سہولتیں؟ اردو والوں سے ایسے مذاق کئے ہی نہ جائیں تو زیادہ مناسب ہے۔
کمیشن میں اردو میں جوابات کی گنجائش پر ارباب بست و کشاد کی ستائش اس وقت کی جاسکتی تھی اور جمہور نوازی اقلیت دوستی اور مساوات کے دعوئے اس وقت قابل قبول ہوتے جب کہ مدارس کالجوں اور جامعات میں اردو تعلیم کے مواقع موجود ہوتے۔ یہاں تو ایک ایک مدرسے اور کالج سے اردو کو دیس نکالا دیا جا رہا ہے اور جامعات میں اردو تعلیم محدود کی جا رہی ہے۔ ایسی مہربانی اور نامہربانی میں امتیاز ہی کیا؟ جنوں کا نام خرد پڑ گیا، خود کا جنوں، جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

اب رہا یہ کہ دستور کی مسلمہ زبانوں میں اردو بھی شامل ہے ، ایک عجیب سی بات ہے، اردو کی راہ میں جب کہ نیچی سطحوں پر ان گنت دشواریاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عملاً اس کو اس کا حق نہیں دیا جا رہا ہے ، دستور کی مسلمہ زبانوں میں اس کا وجود اور عدم کیا معنی؟ سچ پوچھئے تو حکومت کی لسانی پالیسی ایک ایسی جھوٹی قسم ہے جس کو اردو والوں کا ایمان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، ایک زہر ہے جو بنام آب حیات پیش ہے۔

یوں تو ملک کے تمام حصوں میں لیکن حیدرآباد اور جامعہ عثمانیہ میں خصوصیت کے ساتھ اردو سے ایسا سلوک ایک سوالیہ نشان اور ایک لمحہ فکر ہے۔ معمولی سے معمولی اخلاقی نقطہ نظر سے بھی یہ بات روا نہیں رکھی جا سکتی کہ ایک ایسی جامعہ میں جو اردو بنیاد ہے اردو ہی کو حرف غلط کی طرح مٹایا جا رہا ہے۔ سیاسی مصالح موقتی ہوتے ہیں۔ آنی و فانی!
اخلاقی قدریں، دیرپا، اٹل اور آفاقی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ کل کے سیاستداں، آج اور آج کے سیاستداں کل مجرم قرار دئے گئے ہیں لیکن اخلاقی قدریں، خواہ کل کی ہوں یا آج کی ہر دور میں محترم رہی ہیں۔ ہر معاشرہ میں اور ہر وقت ان کو سینے سے لگایا گیا ہے۔ سر آنکھوں پر رکھا گیا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے ان صفحات کو نظر انداز کر دیں تو مستقبل ہم سے کیا سلوک کرے گا۔ کس طرح پیش آئے گا اس کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔
کرنا چاہئے کوئی عجب نہیں، بہت جلد ریاست کی دیگر جامعات کی طرح جامعہ عثمانیہ میں بھی تلگو ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے۔ تلنگی ریاست کی سرکاری زبان ہے ، اس کو اس کا حق دیا جانا چاہئے لیکن آیا یہ ایک تہذیبی اور لسانی سانحہ نہ ہوگا کہ جامعہ عثمانیہ میں تلنگی ذریعہ تعلیم کے بعد اردو کے مواقع محدود تر ہو جائیں گے۔ لسانی جمہور نوازی اور انصاف تو اس امر کے متقاضی تھے کہ ریاست کی تین جامعات میں سے ایک کو اردو قرار دیاجائے لیکن اردو والوں کی اس سادہ لوحی کے کیا کہنے کہ ان کو ان سے وفا کی امید ہے جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔
اردو جامعہ کے امکانات تو کجا، پہلے تو ارباب یونیورسٹی کی جانب سے ایسے تیقنات دئے گئے تھے کہ زنانہ کالج کے علاوہ ایک اور یونیورسٹی کالج میں اردو ذریعہ تعلیم کی جماعتیں ہوں گی لیکن اب ایسے تیقنات بھی اپنی موت آپ مر چکے ہیں اور غالباً ارباب حل و عقد یہ موقف اختیار کر چکے ہیں یا کرنے والے ہیں کہ یونیورسٹی کے کالجوں میں اردو ذریعہ تعلیم کی جماعتوں کا سوال خارج از بحث ہے۔ ہاں اردو والے مساعی کریں تو اصول و ضوابط کی روشنی میں تعاون کیا جائے گا۔ کیا عصر حاضر میں اس سے بڑا لسانی المیہ ممکن ہے؟ آج گولڈن جوبلی کی بات حاشیہ خیال میں بھی نہ آتی اگر اردو ذریعہ تعلیم کے مقصد و حید کو ملحوظ رکھتے ہوئے جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں لایا نہ جاتا۔ لیکن آج اردو سے وہ سلوک کیا جا رہا ہے کہ جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔

اس پس منظر میں ہر اردو دوست اس استفسار کا حق محفوظ رکھتا ہے کہ: آج کس جامعہ کی طلائی جوبلی منائی جا رہی ہے؟
اگر یہ جوبلی تقاریب، اس جامعہ کی ہیں جس کے نام میں لفظ "عثمانیہ" شامل ہے، جس کے مونو گرام میں اور سب ختم کر کے بادل ناخواستہ صرف "ع" رکھا گیا ہے اور باب الداخلہ میں سامنے شکستہ حال مونو گرام موجود ہے، جس کے سینٹ ہال میں آج بھی حضور نظام اور سر اکبر حیدری کی تصاویر موجود ہیں ، جس کی پرشکوہ عمارت آج بھی مضبوط و مستحکم ہے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن اگر آج اردو بنیاد جامعہ عثمانیہ کی طلائی جوبلی تقاریب منائی جا رہی ہیں جس کی تاسیس 1918ء میں عمل میں آئی تھی تو یہ گولڈں جوبلی منانے والوں کی غلط فہمی ہے۔ وہ اردو بنیاد جامعہ تو کبھی کے سیاسی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لسانی جارحانہ عصبیت کی شکار ہو چکی ہے ، اس کا کبھی کا قتل کیا جا چکا ہے۔ وہ مرحوم ہو چکی ہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

(یکم اکتوبر 1968ء)

ماخوذ از کتاب: چہرہ چہرہ داستان
مصنف: سلیمان اطہر جاوید (اشاعت: جون 1977)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں