چہرہ چہرہ داستاں - خاکے از سلیمان اطہر جاوید - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-26

چہرہ چہرہ داستاں - خاکے از سلیمان اطہر جاوید - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

chehra-chehra-dastan-sulaiman-ather-jaweed
سلیمان اطہر جاوید (پ: 9/اپریل 1936 ، م: 15/اگست 2018)
حیدرآباد (دکن) کے نامور محقق، نقاد، ادیب، شاعر اور انشا پرداز رہے ہیں جو جنوبی ہند میں پروفیسر مغنی تبسم کے بعد تنقید و تحقیق کے حوالے سے ایک ممتاز و مقبول شخصیت بھی رہے۔ خاکہ نگاری پروفیسر صاحب کا محبوب میدان تھا جس میں ان کی دو تصانیف "چہرہ چہرہ داستان" اور "بزم چراغاں" شامل ہیں۔ ان کی خاکہ نگاری کا اہم وصف دکن کی شخصیتوں کا تعارف اور دکن کی تہذیب کا تحفظ تھا۔
صنف خاکہ نگاری کے مطالعے میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں سلیمان اطہر جاوید کی پہلی کتاب "چہرہ چہرہ داستاں" پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 7 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

ڈاکٹر ابرار الباقی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اپنے عہد کے نامور محقق ہیں۔ ان کی تحقیقی کتابوں میں رشید احمد صدیقی شخصیت اور فن ، تاریخ تلگو ادب اور فنون لطیفہ مکاتیب رشید ، اردو شاعری میں اشاریت ، عزیز احمد کے افسانے شامل ہیں۔ "رشید احمد صدیقی شخصیت اور فن " ان کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جس میں فن تحقیق کے اصولوں کی روشنی میں رشید احمد صدیقی کی حیات اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی تحقیق واضح اور مدلل ہے۔ وہ تنقیدی انداز میں بات کو پیش کرتے ہیں۔تاریخ تلگو ادب اور فنون لطیفہ کتاب میں انہوں نے اردو میں تلگو ادب کی مختصر تاریخ بیان کی ہے۔ اس سے اردو قارئین کو تلگو ادب کے مختلف ادوار کا پتہ چلتا ہے۔ اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اردو کے علاوہ تلگو ادب کی تحقیق میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ مکاتیب رشید نامی کتاب میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے ایک مقدمہ کے ساتھ رشید احمد صدیقی کے تحریر کردہ خطوط کو جمع کیا ہے۔ یہ خطوط انہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے جمع کئے اور تاریخ و ار کتابی شکل میں شائع کیا۔ ان خطوط سے رشید احمد صدیقی کے عہد کے حالات اور ان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید مشہور محقق، نقاد، ادیب و شاعر کے علاوہ ایک اچھے خاکہ نگار و مرقع نگار بھی ہیں۔ ان کے خاکوں و مرقعوں کے دو مجموعے "چہرہ چہرہ داستان" اور " بزم چراغاں" ہیں۔ چہرہ چہرہ داستان مجموعہ جون 1977ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوچکا ہے۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی خاکہ نگاری کا خاص وصف یہ ہے کہ وہ شخصیت کے ساتھ اپنے تعلقات و روابط ، ملاقاتوں ، یادوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حالات لکھتے ہیں اور بعض دفعہ خاکہ میں بیان کردہ شخصیت سے زیادہ اپنی شخصیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے حیدرآباد کی نمایاں شخصیات کی زندگیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور یہ خاکے حیدرآباد کی ادبی زندگی کی تاریخی دستاویز ہیں۔تحقیق ،تنقید،سوانح نگار ی اور خاکہ نگاری کے علاوہ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے کئی ادیبوں کے کتابوں کے پیش لفظ لکھے۔ اردو کی بے شمار کتابوں کا تعارف اور تبصرہ لکھا۔ ادبی ڈائری کے عنوا ن سے روزنامہ سیاست میں کئی سال تک ادبی محافل کی رپورٹ پر مبنی مضامین لکھے۔

حیدرآباد اور اس کی پہچان قرار دئیے جانے والی یادگاروں کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید لکھتے ہیں
"حیدرآباد میرے نزدیک ایک استعارہ ہے۔ ایک علامت ہے ایک اشارہ ہے۔ حیدرآباد میرے نزدیک چارمینار کا نام بھی ہوسکتا ہے جو سالہا سال سے سربلند و سرفراز، قطب شاہوں کی عظمت و شکوہ کی شہادت دیتاہے۔ حیدرآباد کو رودموسی بھی سمجھتا ہوں جو ہردم رواں دواں ہے اور آج بھی مختلف حکمرانوں کے عروج و زوال کی داستانیں اپنی مثل آئینہ سطح آب پر منعکس کرتی ہیں۔ حیدرآباد میرے خیال میں کتب خانہ آصفیہ بھی ہے۔ جہاں علم و ادب کے قارون کا خزانہ محفوظ ہے۔ جہاں آگہی آج بھی تسکیں جاں پاتی ہے۔ حیدرآباد میرے لئے جامعہ عثمانیہ بھی ہے جو کئی نسلوں کی خالق ہے رنگ و روشنی کا سرچشمہ ہے۔ آج نہ صرف حیدرآباد بلکہ ہندوستان بھر میں علم کی جتنی روشنی ہے وہ کسی نہ کسی طرح اور کچھ نہ کچھ اسی جامعہ کی شمع فروزاں کی مرہون منت ہے اور ان سب سے بڑھ کر حیدرآباد ایک گنگاجمنی تہذیب کا نام ہے جو بڑی دلنوازاوردلداہ ہے۔ اپنا ایک وزن وقار اور حجم رکھتی ہے۔ حیدرآباد میرے نزدیک حضور نظام آصف سابعؒ کا نام بھی ہے میں حیدرآباد اور حضورنظام کو ایک دوسرے سے جدا قرار نہیں دے سکتا"۔

اس طرح حیدرآباد اور اس کی یادگاروں کا تعلق آصف سابع سے جوڑتے ہوئے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے کہاکہ اگر آصف سابع نہ ہوں تو حیدرآباد بھی ادھورا ہے۔ خاکہ میں آگے انہوں نے لکھا کہ بیرون ملک لوگوں میں آصف سابع سے متعلق چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن حیدرآبادی لوگ جب ان کے کارنامے بیان کرتے ہیں تو لوگ ان کی شخصیت پر تعجب کرتے ہیں۔ خاکہ لکھنے سے 19 سال قبل آصف سابع کی حکومت کو زوال ہوتا ہے اور خاکہ نگار ان 19سالوں میں ہونے والے زمانے کے اونچ نیچ پر افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمانہ میں کیسے کیسے انقلابات آتے ہیں اور ایک فرماں رواکا عہد لوگوں کے ذہنوں سے مٹتا جاتا ہے۔ 24؍فروری کو آصف سابع کی رحلت کے حادثے سے مضمون نگار سنبھل نہیں پاتے ہیں۔ چنانچہ انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کسی کی عظمت و مقبولیت کا اندازہ، اس کے عروج و اقبال کے دور میں اس کی زندگی میں نہیں، اس کے عہد زوال میں، اس کی موت کے بعد کیا جاسکتاہے۔ جن آنکھوں نے آصف سابع کو اس جہاں فانی سے وداع ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ ان کے مقام و مرتبہ کا صحیح اندازہ لگاسکتے ہیں۔ یہ منصب جلیل دنیا کی بہت کم شخصیات کے حصہ میں آیا ہے"۔

***
نام کتاب: چہرہ چہرہ داستاں (خاکے)
از: سلیمان اطہر جاوید
تعداد صفحات: 140
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Chehra Chehra Dastan Sulaiman Ather Jaweed.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید - مضمون از ڈاکٹر محمد ابرار الباقی
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی خاکہ نگاری :- ڈاکٹر امجد علی بیگ
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید - صابر علی سیوانی
جامعہ عثمانیہ مرحوم - مضمون از سلیمان اطہر جاوید

چہرہ چہرہ داستاں - خاکے از سلیمان اطہر جاوید :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
الفپیش لفظ8
1ایک تہذیب ایک موت11
2جامعہ عثمانیہ مرحوم20
3زور صاحب28
4سروری صاحب38
5مولاناؒ50
6غروب آفتاب63
7۔۔۔ جنگل اداس76
8انا للہ و انا الیہ راجعون90
9رفعت صاحب107
10یونس صاحب119
11دلداری عروسِ سخن127


Chehra chehra Daastaan, literary sketches, by Sulaiman Ather Jaweed, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں