تاج محل اور بالی ووڈ کی فلمیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-18

تاج محل اور بالی ووڈ کی فلمیں

tajmahal-and-bollywood-movies
تاج محل۔۔۔ نقش حسن ازل کا مظہر ، قوس و قزح لہروں پر لشکارے لیتا پیکر صدق و صفا۔ روپ کی جگمگاہٹ میں کھلکھلاتی ریشمی مسکراہٹ، آفتاب کی کرنوں کو بوسہ دیتی نور قمر کی لطافت ، نرم اجالوں میں سرسراتی زیر لب داستان ، شب کے ماتھے پر دمکتا مہتاب ، چشم مخمور میں کھنکتی مہک آفریں صبح، نغمگی سے گنگناتی بہاروں کے گیتوں کا جمال، قرب و نظر کا معلم ، مہر و الفت کا آئینہ، عجز و صبر کی معراج، جیسے پھول کو شعلہ بدنی مل گئی ہو۔ جیسے آسمان کا نیلا سمندر انگڑائی لیتا زمین پر اتر آیا ہو۔ جیسے مادر فطرت کا دریائے شفقت موجزن ہو اٹھا ہو اور جیسے محبتوں کا کارواں صدیوں کی مسافت طے کرتا دریائے جمنا کے تٹ پر خیمہ زن ہو گیا ہو۔

خالق اکبر کے اس لازوال عطیہ کو میں نے ایسے ہی محسوس کیا۔
تاج محل ، ایک ایسی قبرگاہ جس کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں سب سے اول مانا گیا۔ ایسی قبرگاہ جس پر عقیدت کی کوئی پیشانی نہیں جھکی۔ کسی اعتقاد نے منت و مراد کی گردان نہیں کی۔ ایک ایسی قبرگاہ جے شاعروں نے الفاظ کی طلسماتی قوت سے قرطاس سخن پر صورت گر کیا۔
اردو شعر و ادب کے ساتھ کئی دوسری زبانوں نے بھی اسے مظبر الفت ہی مانا، معراج محبت ہی تسلیم کیا۔ ماسوا ساحر لدھیانوی کے، جن کے اشتراکی ذہن میں اس عظیم عمارت کی بنیادوں میں ان مزدوروں کے پسینوں کو خون بن کر سموتے محسوس کیا اور اس درد، اس برسہا برس کی محنت شاقہ کو تصور کی نگاہ میں عصمت دریزہ دیکھا اور جن ہاتھوں نے اسے قصر شفق عطا کیا، ان ہاتھوں کو جب چشم بصیرت سے جسم بریدہ دیکھا تو ان کا لہجہ برگشتہ ہو کر پکار اٹھا:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم
غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ان کا محبوب تاج کو مظبر الفت مان کر ساحر سے وہیں ملنے کا آرزومند ہے۔ مگر ساحر مجبور علم و مہجور غربت ہیں۔ وہ واضح الفاظ میں محبوب کو تلقین کرنے سے نہیں جھجکتے کہ میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے۔
لیکن شکیل بدایونی نے تاج کو درد کی تحریر تصور نہیں کیا ، انھوں نے تاج محل کو زینت آشنائے عشق کا فطرت شناس تصور کیا اور بوئے گل کا سرمگیں خمار مان کر دو محبت کرنے والے دلوں کو فرش تاج پر نغمگی کے پیراہن میں ملبوس کر دیا:
ایک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
(قلم : لیڈر۔ 1964ء - موسیقی : نوشاد)

دنیا کا کوئی ایسا سیاح نہیں جس نے ہندوستان میں قدم رکھا ہو اور تاج محل کی فنی تزئین اور اس کی آفاق آشنا تقدیر سے محبت کا اعتراف نہ کیا ہو۔ صرف ہند و پاکستان ہی نہیں دنیا کی ہر زبان کے ادب، شاعری تحقیق اور تاریخ کے صفحات تاج محل کی صناعی کے معترف ہیں۔ فنون لطیفہ میں انھوں نے ہر زاویہ سے رنگوں کی صداؤں میں قید کیا ہے۔

خالق اکبر نے انسان کے وجود میں جو حساس ترین عنصر تخلیق کیا وہ محبت اور عشقِ بے پناہ کا عنصر ہے۔ اس عنصر میں جذب و کیف بھی ہے، طلسم بھی ہے، اسرار بھی ہے، اصرار و ضد بھی ہے، ذہن و دل و دماغ کو مغلوب کر لینے کی شوریدہ مزاج برق سامانی بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعری میں یہ عنصر گل نشاط اور جذب انبساط کی کبھی شبنمی ٹھنڈک، کبھی شعلہ بکف ساعت ، کبھی باغیانہ آوارہ مزاجی اور کبھی راگ بداماں ، معطر خوشی کی مانند وارد ہوتا رہا ہے۔ جب یہ عنصر انسان کی سپاس میں محبت کی آیات کا دل بن کر دھڑکتا ہے تو تاج محل عمارت جیسی عمارت خطۂ ارض پر زندہ ہو اٹھتی ہے۔

پروفیسر رشید احمد صدیقی نے کہا تھا:
مغلوں نے ہمیں تین چیزیں دی ہیں: اردو، غالب اور تاج محل۔ لیکن ان کے علاوہ مغلوں نے ہندوستان کو اور بھی بہت کچھ دیا تھا۔ مہذب طرز زندگی، معاشرہ اور ذائقہ بھی انھیں کی دین ہے۔
ہندوستان پر مغلوں نے 317 سال (1540-1526 اور 1857 - 1554) حکومت کی۔ شجاعت، رواداری، رعایا پروری، عدل و انصاف اور قومی یکجہتی کردار جہاں ان کی حکمرانی کی علامتیں رہیں ، وہاں انھوں نے محبت و عشق کو رفعت آشنا کیا۔ انھوں نے ہندوستان کو نہ صرف ان صفتوں سے مالا مال کیا بلکہ ان کی تعمیرات دنیا کے ہر سیاح کو ہندوستان کی جانب راغب کرنے کا باعث بھی ہیں۔ تاج محل کو وہ مقام حاصل ہے جو دنیا کی کسی بھی تاریخی عمارت کو حاصل نہیں۔ یہ دنیا کی پہلی ایسی قبرگاہ ہے جو نذر و نیاز سے محروم محبت اور صرف محبت کا مظہر ہے۔

مغلوں کے عدل و انصاف اور ان کے مرتبۂ حکمرانی پر بے شمار تاریخی ، نیم تاریخی کہانیاں، افسانے اور ناولیں لکھی گئیں۔ وہیں ان کی داستان عشق و محبت اور عدل و انصاف پر فلمیں بھی تخلیق ہوئیں۔ شاہزاده اور محل کی ادنی کنیز نادرا کی فرضی ناکام محبت پر انارکلی کے عنوان سے کئی فلمیں بنائی گئی تو جہانگیر کے عدل انصاف پر اور ان کی نور جہاں سے عشقیہ وابستگی پر بھی فلمیں بنیں۔ بابر ، ہمایوں، اکبر، شاہجہاں اور بہادر شاہ ظفر کی زندگیوں پر بھی فلمیں تخلیق کی گئیں۔

تاج محل کیونکہ ایک طلسمی کیفیت لیے ہوئے ہے، اس لیے شاہجہاں کی اپنی بیاہتا بیوی سے بے پناہ عشق کو بنیاد بنا کر ہمارے فلم سازوں نے مختلف زمانوں میں فلمیں تخلیق کیں اور سبھی نے شاہجہاں اور ممتاز مغل کی پاکیزہ محبت کو ہی اپنی کہانی کی اساس بنا کر فلموں میں مبالغے کی حد تک حقیقت کا رنگ بھرا۔ یہ ساری فلمیں میوزیکل تھیں کیونکہ محبت کے اظہار کے لیے نغمہ و موسیقی ایک کارگر حربہ ثابت ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فلم پر نغمہ و موسیقی اس حد تک حاوی کیا گیا کہ دیکھنے والی نگاہ کسی اور طرف بھٹکنے کا ارادہ بھی نہیں کر پائی۔

1931 میں فلموں کو زبان ملی تھی۔
انارکلی کی داستان پر متکلم و غیر متکلم دور میں فلمیں تخلیق کی جا چکی تھیں۔ لہذا فلم سازوں نے نئے موضوع کی تلاش کی جو انارکلی کے طلسم کو توڑ سکے۔ تاج محل سے بہتر داستان عشق کیا ہو سکتی تھی جو فلم شائقین کو نہ صرف سنیما کی قطاروں میں لا کھڑا کرتی بلکہ ذہنوں پر لیلی مجنوں، شیریں فرہاد اور سوہنی مہیوال کی طرح ہی ایک انوکھی کہانی مرتسم کر جاتی۔ جس میں محلات بھی ہوں ، شہنشاہی دیدبہ بھی ہو، اندرونی و بیرونی سازشوں کے درمیان پنپتی محبت بھی ہو اور جب وہ اختتام کو پہنچے تو ایک لازوال و باکمال عمارت میں مقید رہ کر صدیوں کے اوراق پر خواب زار عبارتیں رقم کرتی رہے۔

اب تک اس داستان پر صرف چھ بار مختلف دور میں اردو اور ایک بار جنوبی ہند کی زبان میں فلمیں تخلیق ہوئی ہیں۔

1941 "تاج محل" فلم ساز : موہن پکچرس بمبئی۔ ہدایت: نانو بھائی وکیل۔ موسیقی : مادھو لال ڈی ماسٹر۔ نغمہ نگار: بہزاد لکھنوی، پنڈت انوج اور ایس خلیل۔ کل گیت : 17 - ستارے: سروجنی ، ایم کمار، اندو رانی ، مبارک، خلیل احمد، ایس نذیر ، گلاب ، اے آر پہلوان ، مشرا اور بے بی ثریا۔ (یہ ثریا کی پہلی فلم تھی)

1944 ممتاز محل ۔ فلم ساز : رنجیت مووی ٹون بمبئی۔ ہدایت : کیدار شرما۔ موسیقی: کھیم چند پرکاش، نغمہ نگار : ولی صاحب اور حضرت بے دم شاہ وارثی۔ کل گیت : 11 - ستارے: خورشید، چندر موہن ، کجن ، یعقوب ، شبنم، برج مالا اور سلوچنا چٹرجی۔

1946 "شاہجہاں"۔ فلم ساز : کاردار فلم پروڈکشن بمبئی۔ ہدایت: اے آر کاردار۔ موسیقی: نوشاد علی۔ نغمہ نگار: مجروح سلطان پوری اور خمار بارہ بنکوی۔ کل گیت : 10 - ستارے: کندن لال سہگل، راگنی، نسرین، جے راج، ہمالیہ والا، نذیر بیدی ، ازوری ، کیسر بائی ، انوری، منیر سلطانہ، رحمٰن اور پیر جان۔

1957 "ممتاز محل"۔ فلم ساز: نگم فلمس بمبئی۔ ہدایت : رام دریانی - موسیقی : ونود۔ نغمہ نگار: حسرت جے پوری ، کیف عرفانی، پنڈت پر یہ درشن۔ کل گیت : 7 - ستارے: شیلا رمانی، جے راج ، وینا، آغا ، جی ایم درانی اور نذیر کشمیری۔

1974 "تاج محل"۔ فلم ساز : پشپا پکچرس بمبئی۔ ہدایت : ایم صادق۔ موسیقی : روشن۔ نغمہ نگار : ساحر لدھیانوی۔ ستارے: پردیپ کمار، پینا رائے، جبیں جلیل ، جیون ، رحمٰن اور وینا۔
2003 "تاج محل" (مونومنٹ آف لو ، جنوبی ہند سے ہندی میں ڈب کی گئی)۔ فلم ساز : اے وی سی اور آر اے انٹرنیشنل مدراس۔ ہدایت : رمیش کھوسلہ، روبن کھوسلہ۔ موسیقی : سنتوش نایر۔ نغمہ نگار: راجیش جوہری۔ ستارے: رگھوراج، پورنیما، من مین سین، کل بھوشن کھربنڈہ ، شاہباز خان ، اخلاق خان ، راجہ چودھری ، بشیر شیخ اور سبرینا اویلا۔

2005 "تاج محل"۔ فلم ساز و ہدایتکار: اکبر خاں۔ موسیقی: نوشاد علی۔ نغمہ نگار: گلریز اور نقش لائلپوری۔ ستارے: زلفی سید، سونیا جہاں، کم شرما اور کبیر بیدی۔
(نوٹ: اس فلم کی خصوصیت یہ تھی کہ فلم 'جگنو' 1947ء میں نورجہاں ہیروئین تھیں اور اس فلم میں ان کی پوتی سونیا جہاں ہیروئین بن کر نمودار ہوئیں۔ بدقسمتی سے یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی۔ نوشاد کی یہ آخری فلم تھی اور نوشاد کے پورے کیرئر کی یہ وہ پہلی فلم تھی جس کا کوئی گیت کہیں نہیں سنا گیا۔ حتیٰ کہ نوشاد صاحب کے انتقال پر بھی اس فلم کی موسیقی کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔

بشکریہ مصنف: رشید انجم
ماخوذ از کتاب: جہانِ فلم (سینما اور فلم کا تاریخی جائزہ، حصہ دوم) (سن اشاعت: 2017)

Taj Mahal and the movies of Bollywood.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں