امجد خاں - مشہور بالی ووڈ ویلن جب موت کے پنجے سے بچ نکلے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-25

امجد خاں - مشہور بالی ووڈ ویلن جب موت کے پنجے سے بچ نکلے

Amjad Khan Bollywood Actor Villian
امجد خاں (پ: 12/نومبر 1940 ، بمبئی - م: 27/جولائی 1992 ، بمبئی)
بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے نامور ویلن اور کیرکٹر آرٹسٹ تھے جن کی شہرت فلم "شعلے" (ریلیز: 1975) کے لازوال کردار "گبر سنگھ" کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں پہنچی۔ شعلے کے فوراً بعد اپنے عروج کے دور میں امجد خاں 1976ء میں ممبئی-گوا شاہراہ پر ایک حادثے میں اس قدر شدید زخمی ہو گئے تھے کہ طویل عرصہ کوما میں گرفتار رہے اور اسی حادثے کے علاج کے دوران مسکن دواؤں کے ردعمل میں ان پر مٹاپا طاری ہونا شروع ہو گیا تھا۔ جولائی/1992 میں محض 51 سال کی عمر میں ان کے انتقال پر ماہنامہ "شمع" نے ان پر ایک خصوصی گوشہ شامل کیا تھا جس میں ان کا ایک ایسا قدیم انٹرویو بھی شائع کیا گیا تھا جو متذکرہ حادثے کے علاج سے شفایاب ہونے پر امجد خاں نے خود رسالہ "شمع" کو دیا تھا۔ وہی انٹرویو یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
جنوری 1977ء کی سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ امجد خاں اب بالکل تندرست ہے۔
وہ ڈاکٹر جو یہ کہتے تھے کہ امجد کو بستر سے اٹھنے میں کم از کم چھ مہینے لگیں گے اور فلم میں کام کرنے کے لئے تین چار مہینے رکنا پڑے گا۔ وہ سب حیرت زدہ ہیں۔ امجد کا موٹر ایکسی ڈنٹ میں بچنا ہی معجزہ سے کم نہیں تھا اب اتنی جلدی صحت یاب ہونا بھی ایک دوسرا معجزہ ہی کہاجاسکتا ہے۔
یہ تو مسافر نے آپ کو بتایاہی تھا کہ عید منانے کے لئے امجد ہسپتال سے رخصت لے کر اپنی سسرال چلا گیا ہے۔ اس کا مکان تیسری منزل پر ہے اور وہاں لفٹ نہیں ہے۔ جب کہ اس کے سسرال والے بینڈ سٹینڈ باندرہ میں جس بلڈنگ میں رہتے ہیں وہاں لفٹ لگی ہوئی ہے۔
ابھی چند روز ہوئے خبر ملی تھی کہ امجد نے اپنے آرام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کام شروع کردیا ہے۔ آج کل وہ فلموں کی ڈبنگ DUBBING میں حصہ لے رہے ہیں۔ پہلی فلم "آخری گولی" تھی جس کی ڈبنگ میں امجد نے حصہ لیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ سدھارتھ کے گولی لگنے کے بعد لینا چنداورکر نے فلموں میں کام شروع کردیا تو وہ بھی یہی فلم"آخری گولی" تھی۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ سدھارتھ کی موت ہوگئی ہے، لینا ابھی تک اس صدمے کو دل سے لگائے بیٹھی ہے۔ لینا پھر سے فلموں میں کام کرے گی یا نہیں، یہ وقت ہی بتا سکے گا کیوں کہ ابھی وہ اس حالت میں نہیں ہے کہ کام کر سکے۔

مسافر امجد سے ملنے کے لئے اس کی سسرال گیا تو پتہ چلا کہ آج پہلی بار وہ اپنے گھر گیا ہے۔ وہ سیڑھیاں جن سے وہ 14؍اکتوبر کو بھاگتا دوڑتا اترا تھا آج21,دسمبر کو وہ چھڑی کی مدد سے ان پر آہستہ آہستہ قدم رکھ کر چڑھا ہو گا۔
مسافر اسی وقت امجد کے ہاں گیا۔ پورا گھر خوشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہر شخص کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا۔ امجد کے بڑے بھائی امتیاز نے مسافر کا خیر مقدم کیا، پھر امجد کی والدہ بیگم جینت آئیں اور پھر امجد آیا ، اور مسافر نے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ مسافر کی آنکھوں میں وہ تمام مناظر ایک فلم کی طرح گھومنے لگے جب بمبئی کے سانتا کروز ہوائی اڈے پر وہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں اسٹریچر پر لٹا کر گوا سے آیا تھا۔ اس کے حلق کے نیچے چھید تھا جس میں سے آکسیجن دی جارہی تھی۔ پھر ناناوتی ہسپتال کا کمرہ جہاں وہ چپ چاپ لیٹا ہوا تھا۔ وہ بول نہیں سکتا تھا۔ بس آنکھوں کے اشارے سے بات کرتا تھا۔ پھر وقت گزرا اور امجد نے بولنا شروع کر دیا۔ طبیعت اور بہتر ہوئی تو اٹھنا بیٹھنا شروع ہوگیا اور اب وہ بالکل تندرست اور صحت مند مسافر کے سامنے کھڑا تھا۔
امجد نے گہرے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں لکڑی کی خوبصورت چھڑی تھی۔
گلے میں ہیروں کا ایک خوبصورت لاکٹ لٹکا ہوا تھا جس پر اللہ لکھا ہوا تھا۔ امجد نے بتایا:
" یہ میری بیوی شہلا کی طرف سے سال گرہ کا تحفہ ہے۔"

سوال:
"امجد وہ حادثہ اس قدر خوفناک اور خطرناک تھا کہ تم اسے بھلا دینا چاہتے ہو گے اس کا ذکر بھی تمہیں پسند نہیں ہوگا مگر میں چاہتا ہوں کہ۔۔ مسافر ابھی اپنی بات پوری بھی نہیں کرپایا تھا کہ امجد نے بیچ میں کہا "بھائی صاحب! آپ جو چاہیں پوچھیں میں اس حادثہ کو ہرگز بھلانا نہیں چاہتا۔ اسے ہر وقت یاد رکھنا چاہتا ہوں۔ اس حادثہ نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ دعا میں دوا سے زیادہ طاقت ہے۔ دعا گو زیادہ ہوں تو خدا بھی بندوں کی بات مان لیتا ہے۔ اس حادثہ نے مجھے نئی زندگی دی ہے ،زندگی کی قدرومنزلت سکھائی ہے۔ مقصد سکھایا ہے ، مجھ میں پہلے سے زیادہ انکساری پیدا کی ہے۔"

"حادثہ کے فوراً بعد تمہارے ذہن میں کیا خیال آیا؟ مسافر نے پوچھا۔
"یہ حادثہ صبح سویرے ہوا تھا جب سورج کی سنہری کرنیں مشرق سے آہستہ آہستہ نکل رہی تھیں۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے اور یہ کرنیں ان بادلوں کی نقاب سے آنکھ مچولی کررہی تھیں، بہت پیاری ہوا چل رہی تھی کہ اچانک راستہ میں ایک بڑا سا پتھر آگیا۔ شاید کوئی ٹرک ڈرائیور پنکچر لگانے کے بعد اسے سڑک پر چھوڑ گیا تھا۔ سڑک تنگ تھی، اس پتھرسے بچانے کی کوشش میں گاڑی ایک پیڑ سے ٹکرا گئی اور حادثہ ہو گیا۔
حادثہ کے فوراً بعد یہ بات ذہن میں آئی کہ یا اللہ۔ اتنی خوبصورت پہلی سنہری صبح اور یہ خراب چیز کیسے ہو گئی؟ امجد نے بتایا۔

"کیا آپ کی گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی؟"مسافر نے پوچھا۔
" جی نہیں، بس وہی رفتار جو عام طور پر ہونی چاہئے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس گاڑی میں میری بیوی ہے جس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے ، میرا بچہ ہے ، اس کی آیا اور ڈرائیور بھی ہے۔ اس لئے زیادہ رفتار کسی طرح بھی مناسب نہیں تھی۔
میری دانست میں Punctuality یعنی وقت پر پہنچنے کااحساس اس حادثہ کی وجہ تھی، فلم "گریٹ گیمبلر" کے لئے میں نے 15؍اکتوبر سے 19؍اکتوبر تک کی ڈیٹ دی ہوئی تھیں۔ جانے سے پہلے میں صبح وطن اور پھر امتیاز بھائی صاحب کی فلم"پتھر کی مسکان" کے لئے کام کررہا تھا۔ وطن والے چاہتے تھے کہ میں 14؍اکتوبر کو شام چار بجے کی فلائٹ سے گوا نہ جاؤں بلکہ رات کو ان کے سیٹ پر کام کروں اور 15؍ کی صبح کی فلاٗت سے چلا جاؤں۔ میں نے سوچا کہ اگر صبح کی فلائٹ سے گوا گیا تو دو بجے تک وہاں پہنچوں گا۔ کام چونکہ آؤٹ ڈور کا ہے اس لئے سورج ڈھلنا شروع ہو جائے گا اور وہ دن بے کار ہوجائے گا۔ ظاہر ہے ان کا ایک دن بے کار ہوجائے گا تو وہ 19؍ کی بجائے 20 تک رکھیں گے۔ اگلا دن یہاں کسی دوسرے پروڈیوسر کو دیا ہوا تھا۔ اس لئے میں نے یہ سوچا کہ شام چار بجے کی فلائٹ کی بجائے میں چند گھنٹے یہاں اور کام کرلوں اور پھر رات کو بذریعہ کار بیوی بچوں کے ساتھ چلا جاؤں گا۔ بس یوں سمجھئے کہ Punctuality کے خیال نے مارا۔"

"لوگ کہتے ہیں کہ آپ کار سے صرف اس لئے گئے تھے کہ ان دنوں بمبئی سے مدراس جانے والے جہاز کا کریش ہوگیا تھا اور آپ ہوائی سفر سے ڈر گئے تھے؟" مسافر نے پوچھا۔
امجد نے ایک زور دار قہقہ لگایا،بالکل گبر سنگھ سٹائل کا، پھر سگریٹ کا زور دار کش لیا اور کہا:
"نہیں جناب میں ہوائی حادثہ سے بالکل نہیں ڈرا۔ حادثہ ہوا، بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ کچھ لوگ یقینا کچھ عرصہ کے لئے ہوائی جہاز سے ڈر گئے تھے مگر میں نہیں ڈرا۔ لوگوں نے میرا نام یوں ہی مشہور کردیا۔ میں تو کار سے صرف اس لئے گیا تھا کہ 14؍اکتوبر کی شام تک یہاں بمبئی میں کام کرتا رہوں گا اور اگلے روز یعنی 15۔ اکتوبر کو گریٹ گیمبلر کے لئے وقت پر پہنچوں گا۔ اگر میں 14؍اکتوبر کو شام چار بجے کا جہاز لیتا تو مجھے تین بجے ہوائی اڈے پہنچنا پڑتا۔ ہوائی اڈے جانے کے لئے بہت پہلے نہ سہی کم از کم دو بجے تو سامان باندھنے کے لئے گھر پہنچنا پڑتا۔ اس طرح میرا آدھا دن بے کار ہو جاتا۔ میں نے کوشش کی کہ بمبئی میں کام کروں اور گوا بھی وقت پر پہنچ جاؤں۔
لوگوں نے یہی نہیں اڑایا کہ امجد ہوائی سفر سے ڈر گیا ہے بلکہ اور بھی غلط قسم کی باتیں اڑائی ہیں۔ ان میں سب سے افسوسناک گپ یہ ہے کہ امتیاز بھائی نے اپنی مصروفیت کی وجہ سے گوا جانے سے انکار کردیا ہے حالانکہ بات یہ ہے کہ امتیاز بھائی نے گوا کے نہ جانے کتنے پھیرے کئے ہیں۔ یہ بات کوئی ایسی نہیں تھی کہ اسکے ڈھول بجائے جاتے۔ اخباروں میں بیانات دئے جاتے۔ یہاں بمبئی میں بھی ان کا ہونا بہت ضروری تھا، مقامی ڈاکٹروں سے مشورہ اور ادویات کا انتظام ان ہی کے سپرد تھا۔ بہت سی دوائیںایسی تھیں جو وہاں گوا میں نہیں ملتی تھیں۔ اس لئے فون پر اطلاع ملتے ہی وہ بذریعہ جہاز یہ دوائیں بھجواتے تھے۔
لوگوں نے یہ بھی مشہور کیا کہ میرے علاج پر جو پونے دو لاکھ روپے خرچ ہوئے وہ پروڈیوسر سرشاستری نے اپنے پاس سے دئے ہیں۔ حالانکہ تمام اخراجات ہم نے خود برداشت کئے ہیں۔ چار ٹرڈ جہازوں کا آنا جانا ڈاکٹر،نرس، دوا، ٹیکسی یہاں تک کہ جس ہوٹل میں میرا کمرہ بک تھا اس کا خرچہ بھی ہم نے ہی دیا۔
لینا اور سدھارتھ گوا میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور کہا کہ یہ شہر ہمارا ہے ، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف بتادینا۔ کسی قسم کی فکر نہ کرناجلد ہی اچھے ہو جاؤ گے۔ میں خود مہینوں بستر پر لیٹا رہا ہوں، اس لئے جانتا ہوں کہ مریض کی کیا حالت ہوتی ہے۔"

سدھارتھ کا انتقال ہوا تو میں ہسپتال میں ہی تھا، لوگوں نے کہا کہ گوا کا ایک وکٹ تو گر گیا اب دوسرا وکٹ کب گرتا ہے۔ یہ ان کا اشارہ میری طرف تھا۔ کیسے کیسے لوگ ہیں دنیا میں جو دوسروں کا برا چاہتے ہیں ان کے زخموں پر نمک مرچ چھڑکتے ہیں۔
ایک طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو کسی کے پھانس بھی چبھ جائے تو اسے اپنا ہی دکھ سمجھ لیتے ہیں ، جن دنوں میں ہسپتال میں تھا وہاں ایک بوڑھا اندھا شخص آیا۔ ان کی بس اتنی ہی خواہش تھی کہ وہ میری آواز سننا اور مجھ سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا۔ وہ کوئی بیس میل سے آیا تھا۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور باتیں کی تو اس نے بتایا کہ اس نے منت مانی تھی جس روز امجد اچھا ہوجائے گا وہ خدا کے حضور میں سو نفل شکرانے کے ادا کرے گا۔ ایسے معصوم لوگوں کی محبت کا ہی پھل ہے کہ میں آج اتنی جلدی ٹھیک ہو گیا ہوں۔
یہ چھڑی بھی بس آٹھ دس دن کے بعد پھینک دوں گا۔ آج دو ڈھائی مہینے بعد خود چل کر یہاں اپنے گھر میں تیسری منزل تک آیا ہوں، کار خود چلانے لگا ہوں۔ گھومنے پھرنے بھی جاتا ہوں۔ بس یوں سمجھئے کہ ڈاکٹروں کے بجائے فرشتوں نے میری دیکھ بھال کی ہے۔ وہ شخص جو ہلدی کی طرح پیلا ہوگیا تھا جو چھ مہینے ہسپتال کے بستر سے اٹھنے کی نہیں سوچ سکتا تھا آج خود چل کر تیسری منزل پر آیا ہے۔ یہ خدا کا کرم ہے۔ لوگوں کی دعائیں اور پیار ہے جس نے مجھے نئی زندگی دی۔

بددعا دینے والوں اور برا چاہنے والوں کی میں نے نہ کبھی پروا کی ہے اور نہ آج کرتا ہوں۔
سچ پوچھئے تو حالات میرے خلاف تھے۔ صبح سویرے سے سات بجے کار کا حادثہ، کئی گھنٹوں تک طبی امداد کا نہ ملنا، بس میں کنکولی لے جایا گیا اور وہاں سے ساونت واڑی ، پیارومحبت میں پورا گاؤں ہسپتال کے باہر آگیا اور شور مچایا کہ گبر کو باہر لاؤ۔ ہسپتال کے شیشے توڑ دئے، ان بیچاروں کو پتہ نہیں تھا کہ مجھے کس قدر چوٹ آئی ہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ میں ایسے ہی یہاں کسی شوٹنگ کے لئے آیا ہوں۔ سچ پوچھئے تو مجھے بھی چوٹ کا پورا اندازہ نہی تھا۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ ٹانگ میں چوٹ آئی ہے ، ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ مگر میری بیوی شہلا نے نوٹ کیا کہ مجھے سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہے۔ اس نے ڈاکٹروں سے کہا کہ پاؤں کی چوٹ کا سانس سے کیا تعلق ہے تو انہوں نے سینہ کا ایکسرے لیا تو پتہ چلا کہ پسلیاں ٹوٹ کر ایک دوسرے میں پھنس گئی ہیں جس سے پھیپھڑوں پر دباؤ پڑ رہا ہے اور سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے۔"

"آپ جب بمبئی میں ناناوتی ہسپتال آئے تو بستر پر لیٹے لیٹے کیا سوچتے تھے؟"
"موت کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، مجھے یقین تھا کہ مجھے ابھی موت نہیں آسکتی۔ ہاں بے چارگی اور بے بسی کا خیال بار بار آتا اور باربار تڑپتا تھا۔ دن میں بیس بائیس گھنٹے کام کرنے والا آدمی ایک دم بے کار ہوکر بستر پڑ گیا۔ کام نہ کاج۔ پھر اس پر مشکل یہ کہ حلق میں سوراخ کیا ہوا تھا اس لئے بول بھی نہیں سکتا تھا۔
طبیعت میں ضدی پن بہت آگیا تھا، ضد کرتا تھا چائے پینے کی چائے دراصل میری کمزوری ہے۔ شراب نہیں پیتا، مگر سگریٹ اور چائے خوب دبا کے پیتا ہوں۔ ایک ضد یہ بھی تھی کہ باتھ روم جاؤں گا خود چل کر اور حکم یہ تھا کہ چلنا تو در کنار بستر پر سے ہلو بھی نہیں۔
ایک روز اپنی بےچارگی پر بہت غصہ آگیا، جی میں آئی کہ قینچی اٹھا کر ان ڈاکٹروں کو گھونپ دوں، جنہوں نے مجھے قید کررکھا ہے ، قینچی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر کمزوری کی وجہ سے آدھے راستے میں ہی ہاتھ گر گیا۔"

امجد کا بیٹا شاداب پاس ہی اپنی والدہ شہلا کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ شہلا نے کہا:
" شروع شروع میں ان کی ضد کا عالم نہ پوچھئے ، بول نہیں سکتے تھے مگر اشاروں میں مجھ سے کہتے تھے کہ جوہو چلو، گھومنے چلو۔ انہیں منانا بہت مشکل کام تھا۔ ایک رات 12؍ بجے نرس میرے کمرے میں بلانے کے لئے آئی کہ صاحب بہت ضد کر رہے ہیں۔ آپ چلئے۔۔ میں نیچے ان کے کمرے میں گئی، رات کے بارہ بجے سے صبح کے 9 بج گئے مگر ان کی ضد ختم نہیں ہوئی۔ کبھی باہر گھومنے کے لئے کہتے تو کبھی گھر چلنے کے لئے۔ پھر یہ ضد کہ مجھے کسی اچھے کمرے میں رکھو، جنرل وارڈ میں کیوں رکھا ہوا ہے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ جنرل وارڈ نہیں ہے بلکہ ہسپتال کا سب سے اچھا کمرہ ہے ، مگر وہ کوئی بات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔"

امجد کی والدہ بیگم جینت نے کہا:
"امجد کو شروع سے ہی انگریزی فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اپنے باپ سے ہر روز فلم دکھانے کی ضد کرتا تھا۔ وہ اسکول چلے جاتے تھے اور کسی نہ کسی بہانے سے اسے کلاس میں سے بلاکر پکچر دکھانے کے لئے لے جاتے تھے۔ میں منع کرتی تھی وہ کہا کرتے تھے کہ یہ فلمیں ہی اس کا سب سے بڑا اسکول ہیں۔ ان بچوں کو فلموں مین کام کرنا ہے ، ابھی سے انہیں یہ سب باتیں سکھانا چاہئیں۔"

"آپ کو امجد کے حادثہ کی خبر کب ملی؟"مسافر نے امجد کی والدہ سے پوچھا۔
"15؍اکتوبر کی صبح سات بجے ایکسی ڈنٹ ہوا تھا۔ ہمیں شام کو اس کی خبر ملی۔ بس یوں سمجھئے کہ بالکل فلمی کہانی کی طرح۔ ہمارے گھر کے سامنے محبوب اسٹوڈیو میں امتیاز کی فلم کی شوٹنگ ہورہی تھی ، اس روز اس کا برتھ ڈے تھا۔ بڑا سا کیگ منگوایا ہوا تھا۔ پھولوں کے ہار تھے۔ کیک کاٹنے سے ذرا پہلے اچانک امتیاز غائب ہوگیا۔ پتہ چلا گھر گیا ہے۔ امتیاز کو بلانے کے لئے جسے بھیجا واپس نہیں آیا۔ اسی وقت میرے دل نے کہا کہ امجد کا ایکسی ڈنٹ ہوگیا ہے میں بھاگی بھاگی اپنے گھر میں آئی۔ امتیاز نے کہا امجد کو معمولی سی چوٹ آئی ہے ، میں نے فون اٹھایا اور امیتابھ سے بات کی جو گوا سے بول رہا تھا۔
"بیٹا ہر بری خبر کے لئے تیار ہوں۔ میں پتھر بن چکی ہوں، تم صاف صاف بتاؤ کیا ہوا ہے؟"
پھر امیتابھ نے پوری تفصیل بتائی اور کہا کہ شام کو سات بجے سے ڈاکٹر آپریشن میں لگے ہوئے ہیں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔"

شہلا نے کہا:
مدن پوری صاحب کا کہنا ہے کہ مریض سے زیادہ تو امیتابھ نے پریشان کررکھا تھا کہ وہ چلا چلا کر کہتا تھا کہ اگر امجد کو کچھ ہو گیا تو اس سالے ہسپتال میں آگ لگا دوں گا۔ امیت بھائی اور جیہ بھابی نے جتنی محبت ہمیں دی ہے ہمارا جتنا خیال رکھا ہے وہ کوئی نہیں کر سکتا۔"
"کوئی دو ہفتوں کے بعد میں نے بولنا شروع کردیا تو کچھ جان میں جان آئی۔ پھر طبیعت ٹھیک ہوتی گئی تو مجھے بیساکھیاں دے دی گئیں۔ بیساکھیاں لیتے ہی مجھے "اپکار" کے پران صاحب یاد آگئے۔ اور کانوں میں ان کا گان قسمیں ودے پیار وفا گونجنے لگا۔ اب یہ چھڑی ہے جو بس چند روز کی اور ساتھی ہے۔ ڈبنگ شروع کردی ہے۔ یکم فروی سے خدا نے چاہا تو شوٹنگ بھی شروع کردوں گا۔ شروع شروع میں صرف صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک کی سنگل شفٹ کروں گا۔ پھر آہستہ آہستہ پرانے معمول پر آؤں گا۔ بہت فلمیں رکی ہوئی ہیں۔ میری وجہ سے بہتوں کا نقصان ہوا ہے۔ اس کا مجھے افسوس ہے۔ " امجد نے بتایا۔
"ہسپتال میں بھی آپ نے کچھ فلمیں سائن کی ہیں؟"

" جی ہاں چھ فلمیں سائن کی ہیں لوگوں کے اس پیار نے مجھے حوصلہ دیا ہے۔ ستیہ جیت رے صاحب ملنے خاص طور پرآئے تھے۔ مجھے اس وقت ہوش نہ تھا۔ بعد میں تہران سے واپسی میں ایر پورٹ سے سیدھے ہسپتال آئے۔ انہوں نے کہا"تم کو اگر صھت مند ہونے میں چھ مہینے لگیں گے تو ہم چھ سال تک انتظار کریں گے، تم ہی میرے واجد علی شاہ ہو۔ میری فلم"شطرنج کے کھلاڑی" تمہارے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔"

ہم لوگ باتیں کررہے تھے کہ اسی بلڈنگ میں رہنے والی ایک لڑکی دلہن کا جوڑا پہنے ہوئے آئی۔ امجد کی والدہ نے بتایا کہ یہ شگفتہ ہے۔ ملنے کے لئے آئی ہے امجد نے مسافر سے ہنستے ہوئے کہا:
" یہ زنجبار کی رہنے والی ہے۔ اب زنجیروں میں جکڑی گئی ہے۔"

امجد نے مسافر کو بتایا کہ وہ دہلی جا رہا ہے ، جہاں ایک ہفتہ فلم فیسٹیول کی فلمیں دیکھنے میں گزارے گا۔
"آپ ڈبنگ تو شروع کر دی ہے۔ اب شوٹنگ کب سے شروع کریں گے؟" مسافر نے پوچھا۔
"خیال ہے کہ فروری سے شوٹنگ شروع کردوں گا۔ مگر شروع شروع ایسے سین کروں گا جن میں زیادہ بھاگ دوڑ نہ ہو۔" امجد نے بتایا۔
"گریٹ گیمبلر" میں کام کرنے کے لئے گوا کب جائیں گے؟"
"میں اب "گریٹ گیمبلر" میں کام نہیں کروں گا۔ میرا اس فلم میں کوئی آٹھ دس دن کا کام ہے۔ گیسٹ رول کررہا تھا، صرف شکتی سامنت کی وجہ سے۔ ہمارے لئے یہ فلم منحوس ہے۔ جب فلم سائن کی تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اب شوٹنگ کے لئے گیا تو یہ حادثہ ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ فلم کے پروڈیوسر سے ہمارے ستارے نہیں ملتے۔"
"مگر آپ نے کچھ کام کیا تو ہے۔"
"بس ایک روز کا۔ وہ بھی کٹ جائے گا اور فلم میں نہیں رہے گا۔ اس شوٹنگ میں کافی مار دھاڑ تھی جسے اب سنسر کی موجودہ پالیسی کے مطابق فلم میں نہیں رکھاجاسکتا۔ میرے بھائی امتیاز بھی اس فلم میں کام کرنے والے تھے وہ رول اب پریم چوپڑہ نے کیا ہے۔ ویسے میں نے پروڈیوسر شاستری سے معافی مانگی کہ میر ی وجہ سے ان کے کام میں رکاوٹ پڑی۔"

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: ستمبر 1992

Amjad Khan, who once defeated death.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں