لغات النسا - نسوانی کہاوتیں اور محاورے از وحیدہ نسیم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-27

لغات النسا - نسوانی کہاوتیں اور محاورے از وحیدہ نسیم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

وحیدہ نسیم (پ: 9/ستمبر 1927، حیدرآباد دکن - م: 27/اکتوبر 1996، کراچی)
اپنے دور کی ایسی مشہور شاعرہ اور افسانہ/ناول نگار تھیں جن کا تعلق فتح پور پسواں (ضلع بارہ بنکی، اترپردیش) کے ایک علمی اور تہذیبی خانوادہ سے رہا۔ انہوں نے 1930ء تا 1940ء تک سہیلی، حریم (لکھنؤ) اور دیگر خواتین کے رسائل میں کئی مضامین شمع اعجاز کے نام سے لکھے تھے۔
انہوں نے عثمانیہ گرلز کالج حیدرآباد دکن سے 1951ء میں نباتیات میں ایم ایس سی کیا اور اگست 1952ء میں پاکستان منتقل ہو گئیں۔ وہ نباتیات کی تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں اور 1987ء میں کراچی کے ایک کالج سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئی تھیں۔
تحقیق کے حوالے سے وحیدہ نسیم کی دو بہت مشہور کتابیں ہیں۔ "لغات النساء" : ان تمام کہاوتوں اور محاوروں کی لغت جو روزمرہ بول چال میں ہندوستانی خواتین استعمال کرتی ہیں۔ اور "اردو زبان اور عورت": اردو زبان و ادب کی تشکیل و تہذیب میں خواتین کے کردار پر تحقیقی مضامین کا مجموعہ۔
ان کی چوبیسویں برسی پر اردو لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کی خدمت میں وحیدہ نسیم کی یہی یادگار لغت پیش ہے۔

ڈاکٹر رؤف پاریکھ وحیدہ نسیم کی تحقیقی کتاب "اردو زبان اور عورت" کے تجزیے کے طور پر اپنے ایک طویل مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔
کتاب کے کچھ ابواب میں انہوں نے عورتوں کے " ایجاد کردہ" الفاظ عورتوں کی زبان پر معاشرت کے اثرات ، عورتوں کی زبان میں طنز و مزاح اور عورتوں کے ہاتھوں تبدیل ہونے والے الفاظ کا ذکر کیا ہے ۔
یہ سارا کام بہت محنت ، باریک بینی اور ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اس میں محترمہ وحیدہ نسیم نے بعض ایسے الفاظ بھی لکھے ہیں جو شاید اردو کی کسی لغت میں نہ مل سکیں مگر انہوں نے اپنے خاندان کی بڑی بوڑھیوں سے سنے اور اس کے مفہوم اور محل استعمال کے تعین کے بعد انہیں پیش کر دیا ۔ ہماری نا چیز رائے میں اب یہ الفاظ اردو کی مستند لغات میں شامل ہونے چاہیے ۔ البتہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس لغت پر حیدرآباد دکن اور دکنی اردو کے اثرات زیادہ ہیں جو قطعی فطری بات ہے ۔ اس کتاب سے کچھ جستہ جستہ نکات:
٭بہت سے محاورات اور ضرب المثال باورچی خانے سے نکل کر کتب خانوں تک پہنچے ہیں ۔ مثلاً سات توئوں سے منہ کالا( یعنی کمال رسوائی و بدنامی) جو ہانڈی میںہوگا ڈوی میں نکل آئے گا ) یعنی جو بات پس پردہ ہے ظاہر ہو گی )، آٹے کی آپا(سادہ لوح عورت) وغیرہ ۔
٭ عورت کی زبان میں ایسے محاورے و الفاظ ہیں جن کے مترادف ملنا مشکل ہیں ۔ مثلاً الکسانا، تتھو تھمبو کرنا ، اٹنگا، ڈھیلا( برتن ڈھالنے والا)، انگھڑ کھنگھڑ(کاٹھ کباڑ)۔
٭ اس کے بر عکس کچھ الفاظ ایسے ہیں جن سے عورتوں کے نزدیک مفہوم ادا نہیں ہوتا لہٰذا ان کی جگہ وہ بعض مخصوص الفاظ بولتی ہیں جیسچ پیٹ پونچھنا(آخری اولاد)، سوارت( اکارت کی ضد)، چگ چھوٹا( پچھتاوا) ،تانتا پواڑا( کچا چٹھا)۔
٭ بعض کیفیات کو ظاہر کرنے کے لیے کئی الفاظ ہیں مثلاً رونے کے لیے سات آٹھ الفاظ دیے ہیں جیسے ٹہوں ٹہوں رونا، بلک بلک کر رونا ، نس نس کر رونا ،ٹھس ٹھس رونا ، ٹسوے بہانا ، چہکوں پہکوں رونا ، دھاروں دھاروں رونا ، آٹھ آٹھ آنسو رونا وغیرہ ۔ ( یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ عورتیں رونے دھونے کی " ماہر " ہوتی ہیں)
٭ اس کتاب کا ایک بہت اہم باب وہ ہے جس میں مصدر سے اسم اور صفت یا اسم سے مصدر اسور اسم سے فاعل بنانے کا ذکر ہے ۔ صفت یا اسم سے مصدر بنانے کی مثال کے طور پر دیکھیے گدر سے گدرانا ، کیچڑ سے کیچڑانا ، تجویز سے تجویزنما ، پیتل سے پتلانا… وغیرہ ۔
٭ عورتوں نے بعض الفاظ کے معنی اور بعض کا تلفظ بدل دیا ہے ۔ مثلاً لفظ" نوج"عورتوں میں عام ہے۔ اصل میں یہ " نعوذ باللہ" کی ایک شکل ہے اور"خدانخواستہ" کے معنوں میں مستعمل ہے ۔ اسے اظہار تنفر یا کلمۂ نفی کے طور پر بھی برتا جاتا ہے ۔
٭ بعض اوقات عورتوں کی کم فہمی اور لا علمی نے بھی نئے الفاظ بنائے ہیں مثال کے طور پر مغروری(غرور)، کان گوشی(گوش مالی)ناموسی (بدنامی)، نہار پیٹ( خالی پیٹ؟)
٭ عورتوں کی روایتی توہم پرستی اور شرم انہیں بعض الفاظ کے استعمال سے روکتی ہے ۔ چنانچہ ایسے موقعوں پر اشارے کنائے میں بات ہوتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کچھ نئے لفظ بن گئے مثال کے طور پر اجلی( بعمنی دھوبن کیونکہ دھوبن ایک سیاہ چڑیا کو بھی کہتے ہیں جو جادو ٹونے میں کام آتی تھی )‘ اوپر والیاں( بمعنی پریاں ۔ مبادا نام لینے ہی سے سایہ ہو جائے)‘ ان گنا مہینہ( حمل کا آٹھواں مہینہ منحوس سمجھا جاتا تھا لہٰذا اسے نہیں گنا جانتا تھا)، رسی( سانپ)‘ آس والی( بمعنی حاملہ)‘ اندر والا( جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو)، آنچل دبانا( نو زائیدہ بچے کا دودھ پینا)، چھوٹے کپڑے(ظاہر ہے )، اس آخری لفظ سے آگے وہ معاملات شروع ہوتے ہیں جن کے لیے کنائے بھی نا مناسب سمجھے جاتے تھے ۔ چونکہ یہ کتاب بھی ایک خاتون کے قلم سے ہے لہٰذا اس سے زیادہ کی توقع رکھنا بھی بد تہذیبی ہے ۔ البتہ چند کنائے جو قریب قریب" خفیہ زبان" بن گئے ہیں ، یہ ہیں صحنک سے اٹھ جانا ، خبر ہونا ، دن آنا ، پیالہ بہنا ، دن ٹلنا ، میلے سر سے ہونا ، اٹکنا ، خاموشی یا خاموشیاں ، کسم کا آزار ، صندل گھسنا( یہاں ذہن سلینگ کی طرف جاتا ہے ۔
در حقیقت یہ عورتوں کا سلینگ ہے)
٭ عورتوں کی زبان میں جو مخصوص محاوے یا الفاظ ہیں ان کا مخصوص استعمال ہے وہ طنز یا مزاح کا بھی پہلو رکھتا ہے ۔ اس کا ایک طریقہ اسماء کی تصغیر یعنی چھوٹا بنانے کا طریقہ ہے ۔ مثلاً چھوٹی پوٹلی کو پوٹلیاں کہنا ، جی کو جیوڑا کہنا ، ذرا سے روپوں کو روپلی کہنا ، کلیجے کو کلیجوا کہنا وغیرہ ۔ اسی طرح عورتوں کی زبان میں بعض الفاظ طنزاً یا مزاجاً استعمال ہوتے ہیں جیسے ننھا چھٹولنا( نا سمجھی کی باتیں کرنے والا)، نو لکھا ہار پہنانا ( ذلیل کرنا یا جوتیوں کار ہار پہنانا)، پھول سونگھ کر جینا( کم کھانے کا ڈھونگ رچانا)، نیک بخت(یعنی کم بخت)، تڑخ تڑخ نور برسنا(بد صورت عورت کے لیے ) ، خالہ کی خل بچی یا نند کانندوئی( جس سے کوئی رشتہ نہ ہو)
٭عورتوں نے بعض مشکل الفاظ کی جگہ آسان الفاظ گھڑ لیے ایسے ہیں مثلاً صفر کے مہینے کے لیے تیرہ تیزی ربیع الاول کے لیے بارہ وفات، ربیع الثانی کے لیے گیارہویں ، ذی قعد کے لیے "خالی" سہ ماہی کے لیے تماہی، ششماہی کے لیے چھ ماہی ، وغیرہ ۔

***
نام کتاب: لغات النسا - نسوانی کہاوتیں اور محاورے
مصنفہ: وحیدہ نسیم
تعداد صفحات: 145
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Lughaat Un Nisa.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Lughaat un Nisa, Dictionary of Female words and proverbs by Waheeda Naseem, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں