غلام مصطفی شاہ - علی گڑھ کی تعلیم بھی جن کا کچھ بگاڑ نہیں سکی - خامہ بگوش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-13

غلام مصطفی شاہ - علی گڑھ کی تعلیم بھی جن کا کچھ بگاڑ نہیں سکی - خامہ بگوش

ghulam-mustafa-shah-by-mushfiq-khwaja

آج کل اخباروں میں وفاقی وزیر تعلیم غلام مصطفی شاہ کا بڑا چرچا ہے ، کہیں ان کے خلاف مضامین چھپ رہے ہیں اور کہیں ان کے حق میں۔
ہمیں شاہ صاحب کے مخالفوں اور ہمدردوں دونوں سے شکایت ہے کہ رائی کا پہاڑ بنا رہے ہیں۔ ہمارے اس جملے کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔ ہم شاہ صاحب کو "رائی" سے تشبیہ دینے کی جسارت نہیں کر سکتے۔ البتہ انہیں "رائے کا پہاڑ" کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ہر اس مسلئے پر رائے دینے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں، جو اُن کی چوٹی یعنی سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ مثلاً اردو، مہاجر، اقبال اور قائد اعظم وغیرہ کے بارے میں انہوں نے وقتاً فوقتاً جن آراء کا اظہار کیا ہے ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ علی گڑھ کی تعلیم بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکی!!
البتہ وفاقی وزارت نے ان کی شخصیت کو بگاڑنا اور مسخ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اقبال اکیڈمی کے بورڈ آف گورنرز کی صدارت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
"علامہ اقبال بین الاقوامی اور قومی سطح کی چند اہم شخصیتوں میں سے ایک تھے اور پاکستان تاریخ کے ایسے مقتدر مفکرین پر بلا شبہ فخر کر سکتا ہے۔۔ پاکستان کے جغرافیائی ، مذہبی اور سماجی اور ثقافتی وجود کا سب سے پہلے علامہ اقبال نے تصور پیش کیا ، اور یہ وہ قرض ہے جوقوم کبھی ادا نہیں کر سکتی۔"

معلوم ہوتا ہے ، حساب کتاب کے معاملے میں شاہ صاحب خاصے بےپرواہ واقع ہوئے ہیں۔ اقبال کے جس قرض کی ادائیگی کا وہ ذکر فرما رہے ہیں وہ تو خود شاہ صاحب ہی کے ذریعے ادا کیا جا چکا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ شاہ صاحب نے خود اپنے رسالے "سندھ کوارٹرلی" میں وقتاً فوقتاً لکھ کر قسطوں میں یہ قرض ادا کیا ہے۔ قرض کی صرف تین ابتدائی قسطیں ملاحظہ کیجئے۔

"پاکستان کو اقبال کے فلسفے سے ہوشیار رہنا چاہئے، جس نے پنجاب کو فاشزم، دہشت گردی اور مطلق العنانیت دی ہے، جو بدلے میں اسے اور بقیہ پاکستان کو تباہ کردے گی۔ اقبال محبت، خیر خواہی اور وطن دوستی کا شاعر نہیں تھا۔ وہ تکبر، نفرت، فرقہ واریت اور نسلی تفاخر کا شاعر تھا۔ وہ صرف پنجاب کے نفسانی اور حیوانی کنجر پن کا عاشق تھا۔ اس کے افکار کسی قوم کی تخلیق اور بقا کے لئے نہیں تھے ، بلکہ قوم کو تباہ کرنے کے لئے تھے۔ وہ عام آدمی اور عوام الناس پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ تو خواص کا چیمپئن اور ہیرو اور لٹیروں کا لیڈر تھا۔"
(سندھ کوارٹرلی، 89-1987ء)

"وہ بےہودگی، بازاری پن اور زبان و بیان کے بھونڈے پن کا بادشاہ بنا رہتا تھا۔ اقبال قابل ذکر نوعیت اور اہمیت کا شاعر ضرور تھا، لیکن فکری اعتبار سے بہت معمولی اور عامیانہ ، میرا خیال ہے کہ ساری زندگی اسے بطور عالم عزت نفس اور فخر کا احساس تک نہیں ہو سکا۔ اپنی زندگی کے آخر تک وہ انگریزوں کا درباری بنا رہا۔ ہندوستانی رجواڑوں ، دہلی، لاہور، حیدرآباد ،بھوپال اور لندن سے ہمیں اس کی گداگری ، ناداری اور بدچلنی کے وافر ثبوت ، شواہد اور ریکارڈ دستیاب ہوتے ہیں۔"
(ایضاً،جلد12،شمارہ40)

"اقبال فاشزم کا شاعر تھا، جو استعماریت کے گرگے اور پروردہ اور ہندوستانی راجواڑوں کے درباری اور چاپلوس کے طور پر پروان چڑھا۔ اس کی تعریف میں ہم خواہ کتنی غزلیں، ترانے پڑھا کریں اس کی شاعری کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت اور نسل پرستی کا آغاز ہوا۔ قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹا، ملک دو ٹکڑوں میں بٹا اور آج کا پاکستان پیدا ہوا۔۔۔ اقبال صحیح معنوں میں فاشسٹ تھا اور اپنے استاد نطشے کی طرح پاگل۔"
(ایضا، جلد10،شمارہ20)

افسوس صد افسوس کہ ۔۔۔ حیوانی کنجر پن کے عاشق، بازاری پن کے بادشاہ، عزت نفس سے محروم شاعر اور بدچلن شخص کے نام پر قائم ہونے والی اکیڈمی کا صدر غلام مصطفی شاہ کو بنا دیا گیا، اور شاہ صاحب نے اپنے ضمیر کے خلاف اور محض سیاست کی خاطر، اس عہدے کو قبول کر لیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ یہ عہدہ ان کی عالی نسبی کے شایانِ شان نہیں ہے۔ گویا:
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت اور نسل پرستی کا آغاز ہوا۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ اس فرقہ واریت اور نسل پرستی کو فروغ کس نے دیا۔ ہمارے خیال میں اس "قومی خدمت" کا سہرا سوائے شاہ صاحب کے، کسی اور کے سر نہیں بندھ سکتا۔ تخریب کاری کلاشنکوف ہی سے نہیں ہوتی، قلم سے بھی ہوتی ہے۔ شاہ صاحب کے قلم کی زہر چکانی کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

"اردو ایک ایسی زبان ہے جسے سماجی اور فکری غلامی کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔"
(سندھ کوارٹرلی، جلد9،شمارہ10)

"ہم اردو کو پاکستان کے قومی لوگوں کے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں۔ اردو نے پاکستان میں فکری، سماجی، اخلاقی اور سیاسی طالع آزمائی کے امکانات ہی پیدا نہیں کئے بلکہ اسے زندگی کی ایک حقیقت اور المیہ بنادیا۔"
(ایضاً)

"اردو کو اپنی قومی زبان مان کر ہمیں پاکستان دشمن روایتوں، اداروں، طرز معاشرت اور درباری رسوم و آداب کے خطرات کی پیش گوئی کر دینی چاہئے۔"
(ایضا،جلد11،شمارہ2)

"موجودہ اردو میں وہ ساری کمزوریاں موجود ہیں، جن کی وجہ سے وہ پاکستان کی قومی زبان کے طور پر باقی نہیں رہ سکتی۔ یہ تو پنجابی فوج، پنجابی نوکر شاہی اور پنجاب کے ناشروں اور تاجروں کی کوششیں ہیں ، جن کی وجہ سے اردو کو مصنوعی طور پر باقی رکھا جا رہا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو پنجاب کے عوام کو قابو میں رکھنے کے لئے اور ان کی تذلیل کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اردو درباری ، نسائیت زدہ ، رومان پرست، مبالغہ آرائی کا شکار اور تصنع زدہ زبان ہے۔۔ اردو برہمنوں، ناچ گانے اور دل لگی کی زبان بن گئی ہے۔۔ غل غپاڑہ، مبالغہ آرائی ، تصنع ،تکلف، آرائش اور دھوکا بازی پاکستان کے لوگ کبھی قبول نہیں کریں گے۔"
(سندھ کوارٹرلی،89۔1987ء)

"سندھ کو ہند کا تعارف، ناچ گانے اور عصمت فروشی سے ہوا تھا۔ سندھ میں دلی والے کا مطلب تھا دھوکے باز یا دلال یا جیب کترا۔ یو۔پی سے چوڑی دار پاجاموں یا غراروں میں ملبوس آنے والی عورتیں زیادہ تر خادمائیں تھیں یا گانے والیاں یا طوائفیں۔ انہیں "کبوتریاں" کہا جاتا تھا۔"
(سندھ کوارٹرلی،89۔1987ء)

"1949ء کے بعد پاکستان میں داخل ہونے والا ہر ہندوستانی شہری، بھارت کا ایجنٹ ہے یا امریکہ کا، جسے یہاں اس منصوبے کے تحت بھیجا گیا ہے کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار خراب کرے اور اس کے ایک قوم بننے کی کوششوں میں رخنہ ڈالے اور خاندانی اور فرقہ وارانہ بالا دستیاں زندہ اور مضبوط رکھے۔"
(سندھ کوارٹرلی، جلد5،شمارہ4)

"ہندوستان سے ہجرت کے وقت اہل فکر اور صاحب کردار لوگ مہاجرین میں شامل ہیں ہوئے۔ وہ ہندوستان ہی میں رہے۔ صرف گنواروں کا ریوڑ اور کنجڑے ، قصائی اور نوکر شاہی ، پناہ اور تماشے کی خاطر پاکستان بھا گ آئے۔ ہندوستان کی تقسیم سے فی الحقیقت ہندوستان کے مسلمانوں میں سے جھوٹے عناصر اور گندگی کی چھانٹی ہو گئی اور وہ پاکستان چلے آئے۔"
(سندھ کوارٹرلی،جلد5،شمارہ4)

"کیا ہمارے مہاجر ساتھی دیانت سے اپنے ضمیر کے سوالات کا جواب دے سکتے ہیں اور کوئی توجیہہ اپنے اعمال اور ارادوں کی کر سکتے ہیں؟ وہ سندھ میں تباہ حال آئے تھے، لیکن انہیں اقتدار ، قوت، لوٹ کھسوٹ کے آسان مواقع اور چوری کے ذرائع مل گئے۔ سندھ نے ان کے لئے کیا نہیں کیا۔ کیا نہیں دیا۔ لیکن کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ انہوں نے سندھ کو چالیس سال میں سوائے سازش گداگری، بدکرداری اور فساد کے اور کیا دیا ہے ؟ سندھ کو کون کون سے فائدے اور مواقع جان بوجھ کر نہیں دئے گئے اور کون سی خفیہ اسکیمیں اس کے عوام میں تلخی ، لڑائی جھگڑا اور بے یقینی پیدا کرنے کے لئے بروئے کار نہیں لائی گئیں۔ کیا سندھ کی زندگی ان کے مفادات اور ضرورتوں کے مطابق نہیں ڈھل گئی اور کیا وہ ان لوگوں کے گماشتے نہیں بن گئے، جو پاکستان کو ہڑپ کرنا چاہتے تھے اور سندھ کو نگل جانا چاہتے تھے۔"
(سندھ کوارٹرلی،89۔1987ء)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اردو زبان ، جس نے پاکستان کی جنگ لڑی اور مہاجر ، جنہوں نے پاکستان بنایا، ان دونوں کے لئے اس قسم کے زہریلے اور متعصبانہ خیالات کا اظہار کوئی پڑھا لکھا آدمی تو کیا کوئی ناخواندہ شخص بھی نہیں کر سکتا۔ شاہ صاحب ایک کالج میں استاد، ڈائریکٹر آف ایجوکیشن اور ایک یونیورسٹی میں وائس چانسلر رہے ہیں اور اب وزیر تعلیم ہیں۔ تعلیم سے اتنے گہرے تعلق کے بعد بھی وہ بصیرت سے محروم ہیں۔
ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ شاہ صاحب مذکورہ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد بصیرت سے محروم نہیں ہوئے بلکہ اس محرومی کی وجہ سے انہیں یہ عہدے ملے۔ لہٰذا ان کی کسی بات کا برا نہیں ماننا چاہئے۔
مقتضائے طبیعتش اینست

شاہ صاحب کے متعصبانہ خیالات کے خلاف اخباروں میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں ان کے رد عمل کے طور پر شاہ صاحب کے حواریوں نے بھی طبع آزمائی شروع کردی ہے۔
"سندھ کوارٹرلی" کے عملہ ادارت کے ایک رکن سراج میمن کا ایک مضمون اخبار "جنگ" (29/اگست/1989) میں شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے غلام مصطفی شاہ کا دفاع ان الفاظ میں کیا ہے :
" ان کے خیالات اور افکار سے مجھ سمیت کئی حضرات کو اختلاف ہو سکتا ہے ، لیکن چونکہ ان کی تنقید اصلاح احوال کے مقصد کے تحت ہوتی ہے ، اس لئے اختلاف رائے کے باوجود اس کی کئی ایک سچائیوں کا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔۔
قائد اعظم یا علامہ اقبال کے نظریات ، افکار اور سیاسی اقدامات پر اگر برصغیر ہندو پاک کے جغرافیائی اور تاریخی تناظر میں کچھ لکھا جائے تو اس پر طوفان بدتمیزی کھڑا کرنا انتہائی جہالت اور کوتاہ نظری ہے۔۔ شاہ صاحب نے خود لکھا ہے کہ صاف گوئی اور کھری بات کرتے ہوئے ممکن ہے ان کا لہجہ درشت اور سخت ہو، لیکن وہ ان تنقیدی مضامین کو عمرانی تحقیق کا آئینہ سمجھتے ہیں۔"

اوپر شاہ صاحب کے مضامین کے جو اقتباسات پیش کئے گئے ہیں، ان کو سامنے رکھتے ہوئے سراج میمن سے گزارش ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ شاہ صاحب نے اردو، مہاجر اور اقبال کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، اگر وہ عمرانی تحقیق کا آئینہ ہیں تو خبث باطن کا آئینہ کسے کہا جائے گا؟
عمرانی تحقیق کے اس آئینے میں صرف شاہ صاحب ہی کے روئے زیبا کی زیارت کی جا سکتی ہے ، دیکھنے والے کو اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔

عزیز میمن نے اپنا سارا غصہ گیارہ سالہ آمریت کے پروردہ دانشوروں پر نکالا ہے، اور یہ کہا ہے کہ شاہ صاحب کو قربانی کا بکرا بنا کر پیپلز پارٹی کی حکومت کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ اس کو کہتے ہیں "ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ"۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے خود پیپلز پارٹی کیا کم ہے، جو کسی نام نہاد دانشور کو قربانی کو بکرا بنایا جائے۔

اب آخر میں ایک لطیفہ بھی سن لیجئے۔
پچھلے دنوں شاہ صاحب نے اسلام آباد میں ایک مشاعرے میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ یہ مشاعرہ اسی زبان میں تھا، جو شاہ صاحب کے نزدیک "برہمنوں کی اور ناچ گانے اور دل لگی" کی زبان ہے۔ اس مشاعرے میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
"میں جب کراچی میں ڈائریکٹر ایجوکیشن تھا، امیر محمد خان گورنر تھے ، فیض احمد فیض کو بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس وقت یوسف ہارون نے سر عبداللہ ہارون کالج میں فیض صاحب کو پرنسپل لگا دیا، جس پر امیر محمد خان بہت سیخ پا ہوئے۔ میں نے گورنر صاحب کو لکھ بھیجا کہ اگر فیض صاحب سے کوئی نقصان پہنچا تو میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ آپ انہیں یہیں رہنے دیں۔"
(روزنامہ"حریت" کراچی، یکم ستمبر89ء)

ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ شاہ صاحب کی اپنی نوکری نواب کالا باغ کے رحم و کرم پر تھی، ان جیسا اوسط درجے کا کوئی سرکاری ملازم نواب کالا باغ کو اس قسم کا خط لکھنے کی جسارت عالم خواب میں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ ممکن ہے شاہ صاحب نے عالم خواب ہی میں نواب کالا باغ کو خط لکھا ہو۔
(14/ ستمبر 1989ء)

ماخوذ از کتاب:
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق

Ghulam Mustafa Shah on Allama Iqbal. Column: Mushfiq Khwaja [khama-bagosh].

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں