ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 19 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-12

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 19

kali-dunya-siraj-anwar-ep19


پچھلی قسط کا خلاصہ :
فیروز اور اس کی ٹیم جیگا کی زمین دوز کالی دنیا میں پہنچ کر جیگا کے قیدی ہو گئے۔ پھر جیگا نے نجمہ سے آفاقی ہار اور سوبیا کی دھات زبردستی حاصل کر لی۔ اس کے بعد جیگا کے ملازم روبوٹس نے ان تمام کو اپنے گھیرے میں لے کر ایک کیبن میں بند کر ڈالا۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔
ہم جیگا کاحکم ماننے پر مجبور تھے۔ اس لئے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کرسیوں پر بیٹھتے ہی ایک مدھم سا شور ہمیں سنائی دینے لگا۔ اور پھر یہ شور بڑھتے بڑھتے گڑگڑاہٹ میں تبدیل ہوگیا۔ شیشے کے جس کیبن میں بیٹھے تھے اس کی دیواریوں اچانک انگاروں کی طرح سرخ ہوگئیں اور پھر اوپر چھت میں لگے ہوئے بہت بڑے لینس میں سے ایک سبز روشنی نکل کر ہمارے اوپر پڑنے لگی۔ اچانک میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ ایک عجیب قسم کی بے کلی اور بے چینی مجھے محسوس ہونے لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ہڈیاں اندر ہی اندر چٹخ رہی ہیں۔ خون کی گردش تیز ہو گئی اور میری کھال جگہ جگہ سے کھنچنے لگی۔ میرے ساتھ ہی دوسروں کا بھی یہی حشر ہورہا تھا۔ اور پھر جب میں نے ذرا غور سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا تو حقیقت معلوم ہوئی۔۔۔ اف میراے خدا، یہ کیسا عذاب تھا۔ ہم لوگ سکڑ رہے تھے، ہمارے قد گھٹ رہے تھے، آہستہ آہستہ ہم زمین سے لگتے جارہے تھے۔ خوف اور دہشت کی چیخیں ہمارے مونہہ سے نکل رہی تھیں۔ اور ہم بالکل بے بس تھے۔۔۔!

تقریباً ایک منٹ تک سبز روشنی اس لینس میں سے نکلتی رہی اور اس کے بعد بند ہوگئی۔ ہم نے جب اپنے اوپر نظر ڈالی تو ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔ ہمارے قد گھٹ کر صرف ڈھائی انچ رہ گئے تھے۔ بالکل ہاتھ کی بیچ کی انگلی کے برابر۔۔۔ !
یہ وقت ایسا تھا کہ ہمارے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اور ہم بری طرح رو رہے تھے۔ شیشے کے کیبن کی ہرچیز ہمیں بہت بڑی نظر آرہی تھی۔ جس کرسی پر ہم بیٹھے تھے وہ اب اتنی اونچی لگتی تھی کہ معلوم ہوتا تھا جیسے ہم کئی ہزار فٹ اونچے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوں۔۔ ابھی ہم اپنی حالت کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ ہمیں جیگا کی ہنسی سنائی دی ، وہ کہہ رہا تھا:
"دیکھی آپ نے میری طاقت! میں نے آپ لوگوں کو ایک حقیر کیڑے جیسا بنادیا ہے۔ ان بونوں سے بھی پانچ حصے چھوٹا جو آپ کو یہاں آنے سے پہلے ملے تھے اور جن کی چھوٹی سی دنیا میں آپ نے پورے دو دن بسر کئے تھے۔ میں نے آپ کے قد ان ایک فٹ کے انسانوں سے بھی چھوٹے کردئیے ہیں۔ یہ زندگی کتنی عجیب لگے گی آپ کو۔ آپ کے ساتھ ہی آپ کا سب سامان بھی چھوٹا ہو گیا ہے۔ اس کرسی سے اترنے کے لئے اب آپ کو اپنی اپنی رسیاں نکالنی ہوں گی اور تب آپ ان سے لٹک کر نیچے اتر سکیں گے۔ اور اگر اتفاق سے آپ نے کودنا چاہا تو پھر آپ کی ہڈی پسلی کی خیر نہیں۔۔ کیوں ہے نا مزے دار بات!"

" کم بخت تجھے شرم نہیں آتی ہم سے مذاق کرتے ہوئے، ہماری بے بسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔"
جان نے غصے سے لرزتے ہوئے کہا:
"میں کہتا ہوں فوراً ہمیں بڑا کر دے ورنہ۔"
"ورنہ آپ کیا کریں گے؟" جیگا نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
"میں۔۔۔ میں۔۔۔۔، جان نے کچھ کہنا چاہا مگر پھر فوراً ہی بے بسی سے کہنے لگا:
"میں کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔۔ ہاں میں کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ زندگی بڑی بھیانک ہے جیگا خدا کے لئے ہمیں بڑا کر دو۔"
جیگا کے قہقہے کی آواز بڑی دیر تک اس کیبن میں گونجتی رہی۔ اس کے بعد اس نے کہا۔
"آپ کے ساتھ کافی عرصے تک رہنے کے بعد خدا کو کچھ کچھ میں بھی ماننے لگاہوں۔ اس لئے آپ کی یہ آرزو ضرور پوری ہوگی۔ مگر ابھی نہیں۔ ابھی تو پہلے آپ مجھ سے ملاقات کیجئے۔ اچھا یہ بتائیے کہ میں آپ کے سامنے اپنی زہروی شکل میں آؤں یا آپ کی پارٹی کے ایک ساتھی کی شکل میں۔۔۔ آپ میری اصلی شکل تو دیکھ ہی چکے ہیں ، اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں آپ کی پارٹی کے ایک ممبر کی شکل میں سامنے آؤں۔ اس طرح آپ کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جیگا کس شکل میں آپ حضرات کے ساتھ ہے۔ بہت اچھا ذرا انتظار کیجئے۔"

دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا شیشے کا کیبن آہستہ آہستہ زمین میں دھنسنے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم لفٹ میں بیٹھے ہوئے نیچے جارہے ہیں۔ چند لمحوں کے بعد یہ کیبن رک گیا اور پھر یکایک نگاہوں کو چندھیادینے والی روشنی چاروں طرف پھیل گئی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے کیبن کے برابر ہی ایک دوسرا کیبن ہے او ر اس کیبن میں ایک خاص میز کے آگے کوئی شخص بیٹھا ہوا سگریٹ پی رہا ہے۔ اس کی کمر ہماری طرف تھی اس لئے ہم اس کی شکل نہیں دیکھ سکتے تھے ہم میں سے ہر شخص ڈر رہا تھا کہ خدا جانے وہ کم بخت ہم میں سے کون ہو؟ جس میز کے آگے وہ بیٹھا تھا اس پر ہزاروں بٹن، کمانیاں اور ہینڈل لگے ہوئے تھے۔ اس میز کے پیچھے ہی ٹیلی ویژن کے سیٹ رکھے ہوئے تھے۔ ان کی اسکرین پر پہ لے ہال کا وہ منظر نظر آرہا تھا جہاں جکاری او ر آدم خور کام کررہے تھے۔ اس کے علاوہ کیبن کی چھت پر کچھ رنگ برنگی روشنیاں ناچ رہی تھیں۔ کیبن کیا تھا ایک اچھا خاصا طلسمی عجائب گھر تھا۔

جیگا کی پشت اس وقت ہمارے سامنے تھی اور اس کے سر اور جسم سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ امجد ہے۔ امجد نے بھی یہ بات محسوس کر لی تھی، اس لئے وہ خوف کی وجہ سے کپکپا رہا تھا۔ ہمیں اپنی جسامت کے لحاظ سے جیگا ایک دیو نظر آتا تھا اور ہم حیرت اور خوف سے اسے دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ اب تھوڑی ہی دیر میں اس راز کا پردہ فاش ہونے والا تھا جس کی وجہ سے ہم لوگ بڑے پریشان تھے اور ایک دوسرے پر شک کر رہے تھے۔ جیگا نے بھی شاید ہمارے خیال کو بھانپ لیا ، اس لئے بولا۔
"میں اب آپ کے سامنے آتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے دیکھ کرحیرت میں پڑ جائیں گے"۔
جیگا کی آواز اب مجھے جانی پہچانی معلوم ہوئی اور میں سوچنے گا کہ میں نے اس آواز کو پہلے کہاں سنا ہے مگر اس سے پہلے کہ میرا دماغ مجھے صحیح بات بتاتا۔ جیگا نے اپنی گھومنے والی کرسی کو موڑنا شروع کردیا اورپھر فوراً ہی اس کی شکل ہمارے سامنے آگئی۔ مجھے یوں لگا جیسے اچانک زبردست زلزلہ آگیا ہو یا جیسے وہ شیشے کا کیبن گھومنے لگا ہو۔ میرا سر چکرانے لگا ، اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ دہشت اور تعجب کی آوازیں ہمارے مونہہ سے ایک ساتھ نکلیں۔
"کون۔۔۔! بلونت!"

جی ہاں، میرا پرانا ساتھی اور میرا دوسرا بازو بلونت۔ ہو شخص جسے میں مرا ہوا سمجھتا تھا۔ اس وقت میرے سامنے بیٹھا ہوا مسکرا رہا تھا۔ وہ سو فیصدی بلونت تھا۔ اس کے کہنے کے مطابق میرے خطرناک سفر کے شروع میں واقعی وہ میرا ساتھی تھا اور میں اس حقیقت سے کسی طرح انکار نہیں کر سکتا تھا۔ کہ ایک ہی وقت میں وہ دو جگہ موجود ہو سکتا تھا۔ مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔ کہاں تو اس کے ڈھانچے کا ملنا اور کہاں اس کا زندہ سلامت اس زمین دوز دنیا میں موجود ہونا۔

"جی ہاں میں بلونت ہوں۔۔۔ آپ کی پارٹی کا ایک ممبر۔"
جیگا نے کہنا شروع کیا:
" اس سے پہلے کہ آپ کے سامنے میں آپ کی پیاری دنیا کو ختم کروں، میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنے بارے میں شروع سے لے کر آخر تک سب باتیں، مختصراً بتا دوں تاکہ آپ کے دل میں جو سوال اٹھ رہے ہیں، ان کے جواب آپ کو مل جائیں۔۔
سنئے۔۔ شاگو نے جب مجھے زہرہ سے نکال دیا تو میں نے اس جزیرے پرقبضہ کرلیا جس کے اندر اس وقت آپ موجود ہیں۔ یہاں میں نے اپنی عقل اور سائنس کے بل بوتے پر یہ دنیا بنائی۔ اس جزیرے سے کافی دور ایک جزیرہ اور ہے جسے میں نے اپنے طریقوں سے ملا لیا ہے۔ یہ وہی جزیرہ ہے جہاں پہلے پہل آپ کی ملاقات جکاریوں سے ہوئی تھی۔ اور جہاں جکاریوں نے جیک کو بھینٹ چڑھانا چاہا تھا اور جہاں آپ کو جان اور جیک پہلی بار گھنٹے کو بجاتے ہوئے ملے تھے۔ اس جزیرے کو اپنی خاص آبی مشینوں کے ذریعے میں نے اس کالی دنیا سے ملا رکھا ہے۔ خیر تو مجھے اپنے ذرائع سے معلوم ہوا کہ شاگو نے مسٹر جان کو اس کام کے لئے منتخب کیا ہے کہ وہ میرا اور میری اس کالی دنیا کا خاتمہ کردیں۔
خوش قسمتی سے میں فیروز صاحب کے پاس بہت پہلے ملازم تھا۔ ان کی ملازمت میں نے اس لئے کی تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ یہ ایک بار اس جزیرے میں ہو آئے ہیں جہاں سوبیا بہت بڑی مقدار میں موجود تھی۔ فیروز مجھ پر بڑا اعتماد کرتے تھے اور میں ان کی لاعلمی میں بارہا سوبیا والے اس جزیرے میں آتا جاتا رہا۔ سوامی کو مجھ پر شک تو ہو گیا تھا۔ اور وہ مجھ سے نفرت بھی کرتا تھا مگر وہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
خیر تو ایک دن میں نے مسٹر جان کا بھیجا ہوا خط راستے ہی میں اڑا لیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ وہ فیروز صاحب سے ملنے بمبئی آ رہے ہے۔ میری خوش قسمتی سے راستے میں طوفان آیا اور جان صاحب ایسے جزیرے میں پہنچ گئے جو میرے قبضے میں تھا۔ اس عرصے میں فیروز صاحب بمبئی سے روانہ ہو چکے تھے۔ اور ان کے ساتھ نجمہ اور اختر بھی تھے۔ نجمہ کی آمد کو میں نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ لڑکی میرے ارادوں میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے اور جیسا آپ کو معلوم ہے اس نے رکاوٹ ڈالی۔ راستے میں میں نے اختر کو ڈرایا اور ساتھ ہی فیروز صاحب کی بیوی زرینہ کو بھی۔ مجھے دیکھ لینے کے بعد یہ دونوں میری مرضی کے مطابق صاف مکر گئے کہ انہوں نے کوئی خوفناک سایہ دیکھا ہے۔ میں یہی چاہتا تھا کہ فیروز صاحب سمجھ لیں کہ خطرے کا آغاز ہوگیا ہے لہذا سفر ملتوی کر دیں۔
مگر فیروز دھن کے پکے ہیں۔ انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ راستے میں جب طوفان آیا تو میں نے سوامی کو جان بوجھ کر سمندر میں دھکا دے دیا اور خود حفاظتی کشتی میں پہنچ گیا۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ سوامی بہت سخت جان ہے اور ایک دن وہ امجد کو ساتھ لے کر آپ سب کو بچانے کے لئے جکاریوں والے جزیرے میں آجائے گا ، جکاریوں کو میں نے ا پنے کام کرانے کے لئے سیارہ زہرہ سے بلایا تھا اور ان کی دیکھ بھال کے زوکوں کو بھی لے آیا تھا۔

جکاری آپ کی آمد کی اطلاع مجھے دے رہے تھے۔ میں آپ کے ساتھ تھا اس لئے میں نے دماغ کے ذریعے ہی جکاریوں کو حکم دیا کہ وہ مجھے نہ پہچانیں۔ ایسا ہی ہوا۔ آپ مجھے اپنا ساتھی سمجھتے رہے لیکن میں دراصل جکاریوں کا آقا تھا۔ میں جھوٹ نہ بولوں گا۔ درحقیقت قدم قدم پر میری یہی خواہش رہی کہ آپ لوگوں کو ختم کردوں مگر مجھے اس کا موقع نہ مل سکا اور پھر آپ لوگ بھی کافی سخت جان واقع ہوئے ہیں۔ میری مرضی کے مطابق جکاریوں نے آپ کو پکڑ لیا اور پھر جیک کی بھینٹ دینے لگے میں آپ لوگوں سے چھٹکارا پانے ہی والا تھا کہ اچانک سوامی سوبیا لے کر آگیا۔ مجھے اس کا گمان بھی نہ تھا کہ سوبیا اس طرح جکاریوں کو ختم کردے گی۔ اپنی شکست قبول کرکے میں آپ کے ساتھ ہی بھاگا۔ دانستہ میں ذرا پیچھے رہ گیا اور اتنی دیر میں میں نے جکاریوں کو ہدایتیں دیں، بعد میں آپ سے آکر مل گیا۔ شکر ہے کہ اس وقت بھی آپ کو شبہ نہیں ہوا۔ گو مسٹر جان نے میرے پیچھے رہ جانے کا بہت برا منایا۔

پھر کشتی میں آپ کو شاگو کا پیغام اور آفاقی ہار ملا۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں نکہ آفاقی ہار میری موت کا پیامبر ہے اس لئے میں جان بوجھ کر پانی میں کود پڑا اور آپ کی نظروں سے غائب ہو گیا۔ میں آفاقی ہار کے ساتھ کسی صورت سے بھی نہیں رہ سکتا تھا اس لئے میں نے روپوش ہوجانا ہی بہتر سمجھا۔ ایک مچھلی کی شکل میں آنے کے بعد میں نے آپ سے آفاقی ہار چھیننے کی بہتیری کوششیں کی مگر میں اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ آفاقی ہار کی موجودگی سے میرا جسمانی نظام درہم برہم ہورہا تھا میں زیادہ دیر تک مچھلی نہیں بنا رہ سکتا تھا اس لئے جیسے ہی آپ نے آفاقی ہار کشتی میں پھینکا میں وہاں سے غائب ہوگیا۔ آپ لوگ سمجھے کہ میں ڈوب گیا ہوں۔ میں بھی یہی چاہتا تھا۔
کچھ عرصے کے بعد میں نے آپ کی کشتی کے نصف فرلانگ دائرے کا پانی برف بنادیا اور پھر اپنے تخیل کی مدد سے برف کو ایک دیو کے قالب میں ڈھال دیا۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی تھی کہ آفاقی ہار نجمہ کے گلے میں نہیں بلکہ اختر کے گلے میں ہے۔ اختر کے گلے میں ہونے سے اس کا زیادہ اثر مجھ پر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے میرا تخیلی دیو آپ سب کو پریشان کرنے لگا۔ اس نے آپ کو اپنے برف کے پیٹ میں قید کرلیا۔ مگر چوں کہ میری قسمت خراب تھی اس لئے میں یہاں بھی مات کھا گیا۔ ہار اختر کے گلے میں سے نکل کر نجمہ کے گلے میں جا پڑا اور پھر فتح آپ لوگوں ہی کی ہوئی۔ میرا تخیلی دیو ختم ہوگیا اور آپ بڑی مشکل اور پریشانیوں کے بعد اس جزیرے میں آگئے۔
یہاں بھی میں نے اپنے تخیل کا سہارا لے کر ایک انسانی ڈھانچے کے ساتھ اپنی کچھ نشانیاں رکھ دیں تاکہ آپ سمجھ لیں کہ وہ ڈھانچہ میرا ہے اور ہوا بھی یہی۔ آپ نے میرے مرنے کا بہت افسوس کیا اور پھر آپ آدم خوروں کے چنگل میں پھنس گئے۔ ان آدم خوروں کو میں نے ابھی تک اپنے قبضے میں نہیں کیا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر انہیں باہر چھوڑ رکھا ہے۔ ان میں سے کچھ کو میں نے اپنے کام کاج کے لئے اپنی لیباریٹری میں رکھا ہوا ہے۔
خیر میں چاہتا تھا کہ آدم خور آپ کو ختم کردیں۔ مگر یہاں بھی سوامی آپ کے کام آیا۔ اس کم بخت نے میرا سب کام چوپٹ کردیا اور آپ کو کالی دنیا کا راستہ بتادیا۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ آپ مجھ تک پہنچنے کے لئے ہزاروں، مصیبتوں سے گزریں گے اور ہوا بھی یہی، مگر آپ حضرات کی بہادری نے مجھے پھر زک پہنچائی۔ میں آپ کی قدر کرتا ہوں۔ آپ کی بہادری نے میرا دل جیت لیا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ آپ لوگ راستے ہی میں ختم ہوجائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے مجھے مجبوراً آپ کو اپنے خاص علاقے میں لے کر آنا پڑا۔ اور اب جو کچھ بھی آپ کے ساتھ پیش آرہا ہے، وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ شیشے کے جس خاص کیبن میں اس وقت میں بیٹھا ہوا آپ سے باتیں کررہا ہوں وہ دراصل ایک فورس شیلڈ ہے۔ آفاقی ہار اور سوبیا اگر آپ کے پاس ہوتے، تب بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ یہ فورس شیلڈ ان کی زہریلی کرنوں کو مجھ تک نہیں پہنچنے دیتی۔ میرے خاص روبوٹ ہی اس کیبن کو توڑ سکتے ہیں۔ ان کا جسم جس دھات سے بنا ہے وہ دھات اس فورس شیلڈ میں سے آسانی سے گزر سکتی ہے۔ میرا مشن اب ایک حد تک پورا ہوچکا ہے۔ بس کل تک کا وقت میرے پاس اور ہے۔ کل میں اپنے اسی بوتھ میں بیٹھ کر یہ دو بٹن دباؤں گا اور آپ کی دنیا چشم زدن میں روئی کے گالوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اڑنے لگے گی۔ کیوں، کیسی مزے دار بات ہے؟"

جیگا اتنا کہہ کر پھر ہنسنے لگا۔ اس کی کم ظرفی اور چالاکیوں پر مجھے طیش تو بہت آرہا تھا مگر میں بے بس تھا۔ اس لئے خون کا گھونٹ پی کر خاموش ہوگیا۔ امجد جیک اور سوامی نفرت بھری نگاہوں سے اسے گھوررہے تھے۔ خوب دل کھول کر ہنس لینے کے بعد جیگا نے پھر کہا۔
"نجمہ اور اختر کے دل میں اپنی ماں کو دیکھنے کی بڑی خواہش ہوگی کیوں نجمہ اپنی ممی کو دیکھو گی؟"
"ہاں ہاں۔۔۔ کیوں نہیں، کہاں ہیں وہ؟" نجمہ نے بے قراری سے کہا۔
وہ اپنے گھر میں ہی ہیں، مگر میرا ٹیلی ویژن سیٹ تمہیں وہاں کا منظر دکھائے گا۔ لو غور سے اس سیٹ کو دیکھو۔۔۔ تم بھی کیا یاد کرو گی کہ کسی با اخلاق انسان سے واسطہ پڑا تھا۔"

اختر اور نجمہ بے چینی سے سیٹ کو دیکھنے لگے۔ میرا دل بھی بلیون اچھل رہا تھا اور میں بھی بے قراری سے سیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیگا نے کوئی بٹن دبایا اور پھر سیٹ کے اسکرین پر آڑی ترچھی لکیریں ناچنے لگیں۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے اپنے کمرے میں زرینہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ اپنے بچوں کے فرق میں وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔ بار بار وہ رومال سے آنسو پونچھتی تھی اور پھر رونے لگتی تھی۔
"امی۔۔۔ امی۔۔۔ تم کہاں ہو پیاری امی۔۔۔"
امجد اور نجمہ بری طرح چیخنے اور رونے لگے۔
"بلونت۔۔۔ بلونت اسے بند کر دو" میرا گلا بھی اچانک بھر آیا۔
"خدا کے لئے اسے بند کردو۔ ہم سے اتنا بڑا انتقام نہ لو ، کم از کم اتنا ہی خیال کرلو کہ تم نے میرا نمک کھایا ہے۔"
"خوب خوب۔۔۔" جیگا ہنسا۔
"آپ نے بڑی اچھی بات کہی ہے، واقعی مجھے آپ کا خیال کرنا چاہئے۔ یہ لیجئے میں اسے بند کردیتا ہوں لیکن آپ پر یہ مصیبت آپ کے دوست شاگو کی وجہ سے آئی ہے، نہ آپ شاگو کی مدد کرتے نہ آپ کا یہ حشر ہوتا۔"
"ایک احسان ہم پر اور کر دو۔۔۔" میں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا:
"ہمیں بڑا کردو۔۔۔ اس ڈھائی انچ کے قد سے ہمیں بڑی وحشت ہو رہی ہے"۔
"ضرور ہو رہی ہوگی" جیگا نے کہا:
"میں آپ کو ضرور بڑا کردوں گا مگر ایک شرط ہے۔ میری تجویز ہے کہ آپ کے اس کمرے میں آپ ہی کی دنیا کا ایک ننھا سا جانور چھوڑ دوں ، اور آپ کی پارٹی کے دو آدمی یعنی جیک اور سوامی اس سے لڑیں۔ لڑنے کے لئے میں ان دونوں کو ایک ایک انچ لمبی دو تلواریں بھی دوں گا۔ کہئے منظور ہے؟"
"مگر وہ جانور کون سا ہے؟" میں نے گھبر ا کرکہا۔
"بہت ہی حقیر اور ننھا سا جانور ہے۔ آپ کی دنیا کے بچے اس کی دم پکڑ کر اسے زمین پر پٹخ کر مار دیتے ہیں۔ یعنی ایک ننھا سا چوہا ، کہئے کتا مزے دار کھیل رہے گا یہ۔"

ظالم کتنی خوبی کے ساتھ ہم سے کھیل رہا تھا ، اپنے اس وقت کے قد میں چوہے سے مقابلہ کرنا ہمارے لئے بہت مشکل تھا۔ یہ مقابلہ ایسا ہی ہوتا جیسے کسی انسان کو شیرسے لڑنے کے لئے کہاجائے۔ جیگا ہماری بے بسی کا مذاق اڑا رہا تھا۔ اورہم اس کو کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ شاید اس نے سب پروگرام پہلے ہی سے طے کررکھا تھا۔ اس لئے اس نے کہا۔
"سوامی اور جیک سنو۔۔۔ تم دونوں اپنی رسیاں نکال کر کرسی کے کسی بھی ڈنڈے سے باندھ دو اور پھر اس رسی سے لٹک کر فرش تک پہنچو۔ اس کے بعد سامنے رکھی ہوئی میز کی سب سے چھوٹی دراز میں سے دو تلواریں نکالو۔ دونوں ایک ایک تلوار لے لو اور چوہے کے آنے کا انتظار کرو۔"

جیگا کا حکم نہ ماننا دراصل اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ اس لئے جیک اور سوامی نے ایسا ہی کیا۔ ایک عام سائز کی کرسی سے رسی کے سہارے وہ یوں اتر رہے تھے جیسے کسی پہاڑ سے اتر رہے ہوں۔ کسی سے لے کر فرش تک کا فاصلہ اگر اپنے حساب سے ناپا جائے تو صرف چوبیس انچ تھا۔ مگر اپنی اس وقت کی جسامت کے اعتبار سے یہ فاصلہ تقریباً ساٹھ فٹ تھا۔ اسے یوں سمجھے جیسے ساٹھ فٹ اونچی کسی چٹان سے چھ فٹ لمبے قد کا کوئی انسان رسی کے ذریعے نیچے اتر رہاہو۔ جیک اور سوامی باری باری اسی طرح فرش پر اتر آئے اور پھر انہوں نے میز کی دراز سے ایک ایک انچ لمبی دو تلواریں بھی نکال لیں۔ جیگا نے یہ دیکھ کر کہا۔
"بہت اچھے، تم تیار ہو گئے۔۔ خوب! اچھا اب اس میدان میں چوہا آتا ہے۔ تم نے اگر چوہے کو مارلیا تو تمہارے قد بڑے ہو جائیں گے ورنہ مجھے افسوس ہے کہ تمہارے بقیہ ساتھی ہمیشہ اسی قد کے رہیں گے، اچھا ہوشیار!"

شیشے کے اس کیبن میں فرش کے پاس ہی ایک طرف سے چھوٹا سا کواڑ کھٹاک کی آواز کے ساتھ کھل گیا اور پھر ہمیں اس میں سے ایک موٹا تازہ چوہا اندر داخل ہوتا ہوا نظر آیا۔ جیک اور سوامی کو دیکھتے ہی وہ ان پر اس طرح جھپٹا جس طرح بلی چوہے پر لپکتی ہے۔
آپ حضرات جو میری اس داستان کو پڑھ رہے ہیں، ذرا تصور کریں کہ وہ وقت کیسا ہوگا؟ ہمارے قد ڈھائی انچ کے تھے اور چوہا ہمیں اپنے سے تین گنا بڑا نظر آتا تھا۔ ہماری بے بسی کی یہ انتہا تھی اور ہماری اس بے بسی کو جیگا اپنے کیبن میں سے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی خونخوار دیو ہم سے کھیل رہا ہو۔
اچانک جیک اور سوامی کے چیخنے کی آوازیں آئیں اور میں نے جلدی سے نیچے دیکھا۔ چوہا ان دونوں پر بار بار حملہ کررہا تھا اور وہ پینترے بدل بدل کر اس کے حملے کو ناکام بنا رہے تھے۔ کبھی کبھار دونوں میں سے کوئی اپنی تلوار کی نوک چوہے کے جسم میں بھونک دیتا اور چوہا غضبناک ہوکر اس پر ایک زور دار حملہ کرتا۔ جیگا اپنے کیبن میں بیٹھا ہوا تالیاں بجا رہا تھا اور بار بار چوہے کو شاباشی دیتا جاتا تھا۔ چوہے کے پنجوں سے جیک اور سوامی کافی زخمی ہوچکے تھے۔ اور چوہا بھی تلوارں کے گھاؤ کھا کھاکر کافی ادھر مرا ہو گیا تھا۔
چوہے نے ایک بار سوامی پر ایسا حملہ کیا کہ سوامی زمین پر گر پڑا۔ یہ دیکھ کر جیک نے جلدی سے آگے بڑھ کر چوہے کے جسم پر تلوار سے ایک وار کیا۔ چوہا بلبلا گیا اور اس نے سوامی کو چھوڑ کر جیک پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ اتنا سخت تھا کہ جیک اپنا بچاؤ بھی نہ کرسکا اور چوہے نے اسے بھنبھوڑ نا شروع کردیا۔ جیک کی چیخیں سن کر سوامی جلدی سے اٹھا اور اس نے لپک کر اپنی تلوار چوہے کے پیٹ میں داخل کردی۔ اس نے جلدی جلدی تلوار چوہے کے مختلف حصوں پر مارنی شروع کردی۔ پھر ایک وار تو اتنا کاری پڑا کہ چوہا تڑپ کر جیک سے الگ ہوگیا اور زمین پر گر بری طرح تڑپنے لگا۔ اس کے خون سے آس پاس کا فرش لال ہوگیا۔
ادھر سوامی نے دوڑ کر جیک کو اٹھایا۔ چوہے نے اس کا بازو کافی زخمی کردیا تھا۔ اور کمزوری کی وجہ سے وہ اب نڈھال ہو رہا تھا۔ یکایک چوہے نے تین چار جھٹکے لئے اور پھر وہ مر گیا۔ یہ دیکھ کر جیگا نے اپنے کیبن میں سے تالیاں بجائیں اور کہا۔
"بھئی واہ۔۔۔ بہادر ہوں تو ایسے۔۔۔ کمال کر دیا، کس ہمت اور شجاعت کے ساتھ چوہے کو ختم کیا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ تم دونوں زخمی ہوگئے ہو۔ مگر تمہارے یہ زخم ایک سیکنڈ میں بھرجائیں گے بے فکر رہو میں اپنا وعدہ نہیں بھولا ہوں۔ وعدے کے مطابق میں ابھی آپ سب کو بڑا کر دیتا ہوں۔"

اچانک ویسا ہی مدھم سا شور ہمیں پھر سنائی دیا۔ شیشے کے کیبن کی دیواریں سرخ ہو گئیں۔ اور اوپر چھت میں لگے ہوئے لینس میں سے سبز روشنی نکل کر ہمارے اوپر پڑنے لگی۔ میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا ، پہلے کی طرح رگیں کھنچنے اور ہڈیاں چٹخنے لگیں۔ خون کی گردش تیز ہوگئی اور کھال کھنچنے لگی۔ اور پھر مجھے یہ دیکھ کربے حد خوشی ہوئی کہ ہمارے جسم آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد ہم پہلے جیسے ہی ہوگئے۔ سوامی اور جیک بھی اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ ان کے زخم بالکل غائب ہوگئے تھے اور کپڑوں پر خون کا ایک دھبہ بھی نہ تھا۔ شاید یہ سب اس سبز روشنی کا کرشمہ تھا، جیگا اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا:

"میراشکر ادا کیجئے کہ آپ پھر اپنی اصلی حالت پر آگئے۔ اب آپ حضرات اسی جگہ آرام کیجئے۔ شیشے کے کیبن کا دروازہ آپ کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ آپ کو اجازت ہے کہ آپ یہاں جس جگہ بھی چاہیں گھوم پھر سکتے ہیں۔ اتنی گزارش ہے کہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ کسی سے کچھ پوچھیں۔ یہاں کے عجائبات ، مشینیں اور دوسری چیزیں دکھئے اور میری تعریف کیجئے۔ یہ اجازت آپ کو اس لئے ملی ہے کہ کل اسی وقت میرا مشن پورا ہو جائے گا اور میں اسی کمرے میں بیٹھ کر آپ کی نظروں کے سامنے آپ کی دنیا کو ختم کردوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ خوفناک منظر دیکھنے سے پہلے آپ میری عظمت اور بڑائی کو جان لیں اور میری عزت کریں۔۔۔ بس اب میں چلتا ہوں۔"

جیگا کے جان کے بعد ہم لوگ سوچنے لگے کہ اب کیا کریں؟اپنی جانوں کی تو ہمیں پروانہ تھی مگر اپنی حسین اور پیاری دنیا کا خیال تھا۔ یہ دنیا کل روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں بکھر جانے والی تھی۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اپنی دنیا کو کس طرح بچائیں۔ کون سا وہ کام کریں جو جیگا کے اس خوفناک ارادے کو پورا نہ ہونے دے؟ سمجھ میں کچھ نہ آیا اس لئے یہ طے پایا کہ اتنے عرصے میں جیگا کی اجازت کا فائدہ ہی اٹھایاجائے اور کیبن سے باہر نکل کر جیگا کی لیباریٹری دیکھی جائیں کیونکہ اس کیبن میں بیٹھے بیٹھے تو ہم اب اکتا چکے تھے۔
چوہا ہمارے سامنے اب مرا ہوا پڑا تھا۔ چوں کہ ہم بڑے ہوچکے تھے، اس لئے ہمیں وہ ایک معمولی چوہا ہی نظر آتا تھا، نجمہ نے اس کی دم پکڑ کر کیبن کے دروازے سے باہر پھینک دیا اور پھر ہم سب پروگرام کے مطابق دروازے سے نکل کر باہر لیباریٹری میں آگئے۔ دیکھنا تو ہمیں کیا تھا۔ جو کچھ دیکھنا تھا وہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ مقصد تو صرف گھومنا تھا۔ عجائبات کا ظاہر ہے کہ وہاں کچھ شمار نہ تھا۔ ہر سمت مشینیں ہی مشینیں نظر آتی تھیں۔
اس ہال کی دیواروں میں کچھ جگہیں ایسی تھیں جن میں سے دودھیار رنگ کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ راستے میں ہمیں جگہ جگہ کئی روبوٹ ملے مگر انہوں نے ہمیں کچھ نہ کہا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پہلے ہی سے ان کو ہدایتیں مل چکی ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کہیں۔ نجمہ اور اختر سب سے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ جب بھی کوئی روبوٹ سامنے سے چلتا ہوا آتا وہ دونوں اسے حیرت سے دیکھنے لگتے۔ اس ہال میں ہر طرف سرنگوں کے دروازے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کہ تمام سرنگیں اسی ہال میں آخر ختم ہوتی ہیں۔ ہال میں جو مشینیں تھیں وہ اپنے آپ ہی چل رہی تھیں۔ خدا جانے یہ مشینیں کیا چیز بنارہی تھیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ مشینیں سوبیا کو صاف کر کے کوئی عرق یا تیل جیسی چیز بنا رہی تھیں۔

ہال کا چکر لگا کر جیسے ہی میں پلٹ کر واپس آنے لگا تو یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ نجمہ اور اختر ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ میں نے جلدی جلدی ہر سرنگ کے دہانے پر دوڑ کر انہیں دیکھا مگر وہ دونوں کہیں نظر نہ آئے۔ ان کے اچانک اس طرح غائب ہوجانے سے سب بڑے پریشان ہوئے۔ ہر شخص باری باری مختلف سرنگوں میں کافی دور تک انہیں ڈھونڈ آیا مگر خدا جانے انہیں زمین کھاگئی یا آسمان!
میرا دل گھبرانے لگا۔ دل میں برے برے خیال آنے لگے کہ کہیں ان کے ساتھ کوئی حادثہ تو پیش نہیں آگیا۔ بڑی دیر تک ہم ہال میں چاروں طرف انہیں ڈھونڈٹے رہے مگر وہ ہوتے تو ملتے۔ مجبور ہوکر میں واپس اپنے اسی قید خانے میں آگیا۔ خیال یہ تھا کہ شاید وہ دونوں وہیں نہ پہنچ گئے ہوں۔ مگر شیشے کے کیبن میں ہر طرف دیکھ لینے کے باوجود بھی ان کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ اس خطرناک جگہ پر اختر اور نجمہ کی گمشدگی سے میں اتنا رکھی ہوا کہ میرے آنسو بہنے لگے۔میں ہچکیوں کے ساتھ رونے لگا اور جان مجھے تسلی دینے لگا۔ بہت دیر تک یہی ہوتا رہا۔ باری باری ہر ایک مجھے تسلی دے رہا تھا مگر میرا دل کسی صورت سے نہ مانتا تھا۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ جیگا نے جان بوجھ کر میرے بچوں کو مجھ سے علیحدہ کردیا ہے۔

اندازاً آدھے گھنٹے کے بعد نجمہ اور اختر کیبن کی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ میں دیوانوں کی طرح ان کی طرف بڑھا اور انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔ امجد کا اترا ہوا چہرہ بھی نجمہ کو دیکھتے ہی بشاش ہو گیا۔ میں نے ان دونوں سے جب یہ پوچھا کہ وہ کہاں غائب ہوگئے تھے تو اختر نے مجھے جواب دیا کہ وہ ایک سرنگ میں داخل ہونے کے بعد راستہ بھول گئے تھے اور کافی دیر تک پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر پھرتے رہے۔ بڑی مشکل کے بعد ایک روبوٹ سے انہوں نے راستہ پوچھا اور تب وہ یہاں واپس آئے ہیں۔ بچوں کو صحیح سلامت پاکر میں کافی خوش ہوگیا۔ مگر میں یہ جانتا تھا کہ میری یہ خوشی عارضی ہے کیونکہ کل شام کو ہماری دنیا ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ جب ہماری دنیا ہی نہ ہوگی تو پھر بھلا ہم کہاں ہوں گے!

شیشے کے اس قید خانے میں ایک طرف بجلی سے چلنے والی گھڑی بھی لگی ہوئی تھی۔ جس میں اس وقت سات بج رہے تھے۔ ہماری آنکھیوں چونکہ بوجھل بوجھل سی تھیں اس لئے ہم نے اندازہ لگالیا کہ یہ دراصل نیند کا خمار ہے، اور گھڑی شام کے سات بجا رہی ہے۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیبن میں کس طرح سویا جائے کہ اچانک مجھے ایک روبوٹ اپنے اس قید خانے کے باہر کھڑا ہوا نظر آیا۔ اس کی آنکھوں کے بلب جل اور بجھ رہے تھے فوراً ہی مجھے کیبن کے اندر سے اس کی آواز آتی ہوئی سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
"براہ کرم دیوارمیں لگے ہوئے سات سرخ رنگ کے بٹن دبائیے۔ آپ کے لئے بستروں کا انتظام ہوجائے گا۔"
روبوٹ کے اتنا کہتے ہی میں نے جلدی سے بٹن دبا دئیے۔ گڑ گڑاہٹ کی آواز آئی اور پھر زمین میں سے سات نرم نرم گدوں والے بستر نمودار ہونے لگے اور پھر میرے دیکھتے دیکھتے سات عمدہ قسم کی مسہریاں فرش کے اوپر نظر آنے لگیں۔ ہم لوگ جلدی سے ان پر جاکر لیٹ گئے اور تب روبوٹ واپس چلا گیا۔
جیگا نے بے شک ہمارا دشمن تھا مگر ہم سے جس طرح وہ پیش آ رہا تھا اور جیسا برتاؤ وہ ہم سے کر رہا تھا وہ درحقیقت اس کے عمدہ اخلاق کی دلیل تھی۔ بعض دفعہ تو ہمیں شبہ ہونے لگتا تھا کہ ایسا اچھا آدمی بھلا کس طرح ہمارا دشمن ہوسکتا ہے !
میرا ذہن بستر پر لیٹتے ہی بمبئی شہر کے اوپر پرواز کرنے لگا۔ مجھے زرینہ بری طرح یاد آنے لگی۔ سوچ رہا تھا کہ اب اسے زندگی میں دیکھوں گا بھی یا نہیں؟ اپنے بچوں کی جدائی میں وہ کتنی پریشان ہوگی۔ ایسی باتیں سوچتے سوچتے میرا دل بھر آیا اور پھر نہ جانے کب میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:19

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں