عبرانی افسانہ از ایٹگر کریٹ - ایک اردو ترجمہ اور ایک استفادہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-25

عبرانی افسانہ از ایٹگر کریٹ - ایک اردو ترجمہ اور ایک استفادہ

Suddenly a knock on the door, short story by Etgar Keret

نوٹ از: مکرم نیاز (حیدرآباد، انڈیا)۔
فیس بک کے ایک پرائیویٹ ادبی گروپ "عالمی اردو فکشن" میں افسانوں کا ایک مقابلہ دسمبر-2018 میں منعقد ہوا تھا۔ اول انعام یافتہ افسانے کو (پاکستانی کرنسی) تیس ہزار روپے، دوم کو بیس ہزار اور سوم کو پندرہ ہزار کی رقم پیش کی گئی۔
دوم انعام یافتہ افسانہ جناب عاکف محمود کا تھا بعنوان "گونگی کہانی"۔ آج تقریباً دو سال بعد، متذکرہ مقابلے کے اول انعام یافتہ ادیب جناب قیصر نذیر خاور نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر ایک عبرانی افسانے کا ترجمہ (امکان ہے اصل عبرانی افسانے کے انگریزی ترجمے سے اردو ترجمہ کیا گیا) پیش کیا ہے۔ جس سے قارئین کو اندیشہ ہوا کہ عاکف محمود کی کہانی ان کی اوریجنل تخلیق نہیں بلکہ متذکرہ عبرانی افسانے کا ترجمہ ہے۔
جبکہ عاکف محمود صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے عبرانی افسانے کے موضوع سے استفادہ کیا ہے۔ جوں کا توں مکمل ترجمہ نہیں کیا، ہاں اصل افسانے کے کچھ پیرا شامل کر لیے ہیں۔

ادب دوست قارئین کے لیے درج ذیل تینوں متن پیش ہیں:
  • عبرانی افسانے کا انگریزی ترجمہ (کاپی رائٹ قانون کے سبب، صرف انگریزی ترجمہ کے متعلقہ ویب صفحہ کا لنک پیش ہے)۔
  • گونگی کہانی (افسانہ از: عاکف محمود)
  • دستک (عبرانی افسانے کا اردو ترجمہ)، از: قیصر نذیر خاور

گونگی کہانی
افسانہ از: عاکف محمود
بشکریہ: عالمی اردو فکشن

" مجھے کہانی سناو " میرے مہمان خانہ میں سجے صوفے پر بیٹھے دڑھیل نے حکم دیا۔ مجھے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ صورتحال کسی بھی طرح خوشگوار نہیں ہے۔ "میں " کہانیاں لکھتا ہوں، مگر کہانیاں کہنا میرا فن نہیں ہے۔ اور پھر۔۔ میں کہانیاں مطالبات پر نہیں لکھتا۔
آخری بار جب مجھے کسی نے کہا تھا کہ میں اسے کہانی کہوں تووہ میرا بیٹا تھا۔ دو چار منٹ بعد ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔میں نے اس سے پری اور بونے کی کہانی کہی تھی۔جو اب مجھے یاد نہیں۔ مگر صورتحال بہت مختلف تھی ، اساسی طور پر مختلف۔کیونکہ میرے بیٹے کے داڑھی نہیں ہے۔اس کے پاس کوئی پستول بھی نہیں تھا اور اس نے یہ درخواست نہایت سلیقے سے پیش کی تھی ، یہ شخص سادہ ترین الفاظ میں مجھے ایک کہانی سے محروم کرنے آیا تھا۔
میں نے داڑھی والے پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے درمیان یہ پستول نہ رہے تو صورتحال میں خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے۔ یہ ہم دونوں کے لیے بہت مفید ہو گا۔ایسے عالم میں جب ایک پستول کی نال آپ کے سر کی طرف اٹھی ہوئی ہو ، کہانی گھڑنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر اس شخص نے اپنا اصرار جاری رکھا۔
اس نے وضاحت کی کہ "اس ملک میں سیدھی انگلیوں سے گھی نکلنا ممکن نہیں اگر آپ کو کسی چیز کی طلب ہے تو آپ کو انگلیاں ٹیڑھی کرنا ہوں گی "۔
وہ پچھلے دنوں ہی انگلینڈ سے یہاں ٹپکا تھا۔
" وہاں "صورتحال " بہت مختلف ہے۔ تم نرمی سے کسی چیز کا مطالبہ کرو تو وہ تمہیں مل جائے گی مگر اس جنگجو ،سخت کوش ملک میں ایسا ہونا ممکن نہیں"
" تم صرف ایک ہفتہ یہاں آنکھیں کھول کر گھومو تو تمہیں علم ہو جائے گا کہ یہاں کا چلن کیا ہے۔با ہوش حقوق مانگتے رہے نرمی سے ،سیاسی ذرائع سے اور تم، انہیں ان کے ملکیتی وسائل سے محروم کرتے چلے گئے۔پسماندگی میں دھکیل دیا۔پھر انہوں نے دھماکوں سے گیس کی پائیپ لائینز اڑانا شروع کر دیں۔ اور ہتھیار بند لڑائی کرنے لگے۔ اس سے یہ ہوا کہ تم نے ان کی باتوں پر کان دھرنا شروع کر دیے۔ "
"باغیان اسی سر زمین سے استعمار وقت کی مدد کے خلاف تھے انہوں نے اپنی رائے تمہارے سامنے رکھی۔لیکن تم نے وہی کیا جو "تمہارا "فیصلہ تھا۔ نتیجہ ! انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے، بسیں اڑانا شروع کر دیں خود کش حملوں سے پورا ملک ہلا کر رکھ دیا اور تم انہیں مذاکرات کی دعوت دینے لگے۔ اس ملک میں طاقت ہی وہ حق ہے جس کا چرچا ہے "۔
"چاہے وہ سیاست ہو ،معیشت یا پھر پارکنگ کے لیے جگہ کا دنگا طاقت ہی وہ حق ہے جس کا یہاں چرچا ہے۔ یہی وہ زبان ہے جو یہاں سمجھی جاتی ہے "
" انگلینڈ '"،دڑھیل گورے نے ہاتھ سے رفعت کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ،ترقی یافتہ ہے۔ ایسا بکھنگم پیلس، لندن آئی یا نوبل انعامات کی وجہ سے نہیں ، انگلینڈ اپنے اندر ایک مختلف دنیا ہے ،وہاں اگر آپ کسی گلوکارہ سے دو بدو اس کا گانا سننا چاہیں ، تو وہ انکار نہیں کرے گی ، وہ آپ کو خوش آمدید کہے گی ، چائے کا گرما گرم کپ پیش کرے گی ، بیڈ کے نیچے یا کارنس سے اپنا گٹار اٹھا کرآپ کی گانا سننے کی فرمائش پوری کرے گی"۔
دیکھو !
میں نے اس کی منطق کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،
"تم اپنے آپ کو دیکھو "
داڑھی والا ہنکارا بھرتاہے ا ،اپنے پستول کی نال میں گولی چڑھا تاہے۔
" تم مجھے کہانی سناو گے یا میں اس گولی سے تمہارے سر میں روشن دان کردوں؟ "
میں سمجھ گیا کہ میرے پاس انتخاب کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔آدمی اپنی خواہش پوری کرنے میں بہت سنجیدہ تھا۔
میں کہانی شروع کرتا ہوں۔
دو آدمی ایک کمرے میں بیٹھے ہیں ، اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ داڑھی والا اچانک اکڑ جاتا ہے۔ میں پہلے تو یہ سمجھا کہ وہ کہانی کے اندر اتر رہا ہے ،مگر ایسا نہیں تھا۔ وہ کچھ اور سن رہا تھا۔
"دروازے پر دستک ہو رہی ہے۔ وہ مجھے دروازہ کھولنے کو کہتا ہے۔ وہ جو کوئی بھی ہے ، اس سے جان چھڑاو، اور جلدی کرو ، اس نے بیزاری سے کہا "
دروازے پر موجود نوجوان ایک سروے کر رہا ہے۔سروے کا موضوع یہ ہے کہ یہاں گرمی اور نمی کی زیادتی کس طور سے لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔میں نے اسے بتایا کہ مجھے اس کے سوال نامے میں کوئی دلچسپی نہیں مگر وہ مجھے دھکیل کر اندر گھس آیا۔
"یہ کون ہے ؟"
اس نے داڑھی والے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
"یہ ، میرا بھتیجا ،انگلینڈ سے آیا ہے، اس کا باپ برف گرنے کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا اور یہ اسے دفنانے یہاں آیا ہے۔ہم ابھی وصیت کی تفصیلات کو ایک نظر دیکھ رہے تھے۔کیا تم ہمارے نجی معاملات کا احترام کرتے ہوئے ہمیں تخلیہ فراہم کرو گے ؟ "
"مان جاو!"
سروئیر کہتا ہے اور اندر جاتے ہوئےمیرا داہنا کاندھا تھپکتا ہے۔صرف چند سوالات ہیں۔ایک غریب آدمی کو کچھ روپے کمانے دو۔ وہ مجھے فی جواب کنندہ پیسے دیتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی پلاسٹک کی فائل کو سختی سے گرفت میں لیے صوفے پر جا گرتا ہے۔گورا اس کے ساتھ جا بیٹھتا ہے۔ میں ابھی تک کھڑا ہوں۔تا کہ اسے یہ یقین دلا سکوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔
"میں تمہیں جانے کو کہہ رہا ہوں مسٹر " میں اسے بتاتا ہوں۔
تم بہت بے وقت آئے ہو۔
" بے وقت " اونہہ !
وہ پلاسٹک سے بنی فائل کھولتے ہوئے اس میں سے ایک ریوالور برآمد کرتا ہے۔
"میں کیوں بے وقت آیاہوں ؟ شاید اس لیے کہ میری رنگت کالی ہے۔جب بات گورے کی ہو تو تمہارے پاس دنیا کا سارا وقت ہے مگر ایک کالے یا بھورے آدمی کے لیے ، اس جہادی کے لیے جو اپنی تلی کے ٹکڑے کشمیر اور افغانستان میں چھوڑآیا۔تمہارے پاس ایک لمحہ نہیں !"
میں اس سے عاقلانہ گفتگو کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جیسا وہ محسوس کرتا ہے، ویسا نہیں ہے ،یہ کوشش کرتا ہوں کہ اس سے بات کر سکوں مگر اس نے اپنے ریوالور کی نال اپنے ہونٹوں کے سامنے رکھتے ہوئے مجھے خاموش کروا دیا۔ گورا مخل ہوتا ہے۔
"بہانے بنانا بند کرو،وہاں بیٹھ جاو اور اسے بک دو"
"کسے؟ کیا بک دوں ؟"
میں پوچھتا ہوں۔ حقیقیت یہ ہے کہ میں بری طرح پھنس چکا ہوں۔گورے کے پاس بھی پستول ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔مغرب ،مغرب ہے اور مشرق ،مشرق۔مختلف الذہن لوگ ہیں یا کچھ اور کسی بھی وجہ سے کسی بھی لمحے آگ بھڑک سکتی ہے۔صرف اس وجہ سے بھی کہ ان میں سے کوئی اکیلے بیٹھ کر خود کہانی سننے کی ضد ہی کر بیٹھے۔
"مجھے بولنے پر مجبور مت کرو" رائے شمار مجھے دھمکاتا ہے۔
"مجھ میں تحمل نہیں ہے،کہانی بکو اور ایسا جلدی کرو "
"ہاں !"
گورا بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اپنا پستول باہر نکال لیتا ہے۔
میں اپنا گلا صاف کرتا ہوں اور کہانی دوبارہ سے شروع کرتا ہوں۔
تین آدمی ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔
"نہیں !"
گورا مداخلت کرتا ہے۔

"دروازے پر کوئی دستک نہیں ہوگی "۔
رائے شمار ، ہماری بات سمجھ نہیں پاتا مگر اس کا ساتھ دیتا ہے۔وہ بھی کہتا ہے "دروازے پر دستک نہیں ہونی چاہیے۔ "
میں رک جاتا ہوں اور ایک لمبا سانس لیتا ہوں۔
میں خود کو ہمیشہ ایسی صورتحال میں کیسے پھنسا لیتا ہوں ؟
مجھے یقین ہے جان گریشم ،مارکیز یا بورخیس نے ایسی صورتحال کا سامنا کبھی نہیں کیا۔اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔دونوں کے گھورنے کا انداز اب دھمکی آمیز تھا۔ میں شانےاچکاتا ہوں۔ میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ میری کہانی میں کوئی چیز ایسی نہیں جو دروازے پر ہونے والی دستک سے متعلق ہو۔
"اس سے جان چھڑاو۔ وہ جو کوئی بھی ہے۔"
میں دروازے سے ایک جھری بنا کر دیکھتا ہوں وہ پزا پہنچانے والا لڑکا ہے۔
"کیا تم فلاں مصنف ہو؟"
اس نے مجھ سے سوال کیا۔
"ہاں " مگر میں نے پزا آرڈر نہیں کیا۔
اس نے پزا کے باکس پر پڑی ڈیلیوری کی پرچی پر زور سے ہاتھ مار کر کہا۔
"یہ سلپ کہتی ہے کہ ایڈریس یہی ہے۔اور اس کے ساتھ ہی دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہو گیا۔
"تو کیا ہوا ؟ میں نے پزا آرڈر نہیں کیا۔"
میں نے کہا۔
وہ اصرار کرتا ہے کہ پائین ایپل ، مکئی ،پیاز اور زیتون کی ٹاپنگ کے ساتھ پزا کا آرڈر یہیں سے گیا ہے۔ جس کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے فلاں نمبر سے پہلے ہی کر دی گئی ہے۔ اب میں اسے اس کی ٹپ دوں تا کہ وہ جائے۔
"کیا تم بھی کہانی سننے آئے ہو ؟ "
گورے نے پوچھا۔
"کون سی کہانی؟"
لڑکے نے انجان بنتے ہوئے کہا۔ مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
" جو کچھ ہے باہر نکالو "
رائے شمار ریوالور باہر نکالتے ہوئے کہتا ہے۔
"میرے پاس آتشیں اسلحہ نہیں ہے "
پزے والا لڑکا اقرار کرتا ہے۔اور گتے کی ٹرے کے نیچے سے ایک تیز دھار لمبا چاقو برآمدکرتا ہے۔
"مگر میں اس پر دوہری شرط لگانے کو تیار ہوں کہ اگر اس نے مجھے کہانی نہ سنائی تو میں اس کے گوشت کے نہایت نفیس قتلے بناوں گا "
اب تینوں صوفے پر بیٹھ چکے ہیں۔ گورا دائیں ہاتھ بیٹھا ہے ،پزے والا لڑکا بیچ میں اور رائے شمار بائیں طرف۔
"میں اس طرح کہانی نہیں سنا سکتا"
میں انہیں مطلع کرتا ہوں۔
اس صورت میں جب تم تینوں میرے سر پر، ہتھیار لیے بیٹھے ہو ، کوئی کہانی میرے ذہن میں نہیں آ سکتی۔ تم سب جاو اور قرب و جوار کا ایک چکر لگا کر واپس آو۔تب تک امید ہے کہانی تیار ہو گی۔
" یہ چوتیا ! پولیس والوں کو بلانا چاہتا ہے۔رائے شمار گورے کو بتاتا ہے۔یہ کیا سمجھ رہا ہے ؟ کہ ہم ابھی کل کی پیداوار ہیں ؟"
"مان جاو بھائی ، ہمیں کہانی سنا دو ہم سب چلے جائیں گے "
پزے والا لڑکا التجا کرتا ہے۔
"ایک مختصر کہانی ، اتنے بخیل مت بنو ، حالات بہت سخت ہیں تم جانتے ہو ، بے روزگاری ،خود کشیاں ،بموں کے دھماکے ،افغان لوگ کچھ اور سننے کے لیے ترس رہے ہیں۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ ہم جیسے قانون کے تابع لوگوں کو کیا چیز یہاں کھینچ لائی ہے ؟"
"ہم مشتعل لوگ ہیں ، بری طرح سے برافروختہ ، سمجھے !"
میں اپنا گلا صاف کرتا ہوں اور پھر سے کہانی شروع کرتا ہوں۔
چار لوگ ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔ گرمی شدید ہے۔ وہ سب بوریت کا شکار ہیں۔ ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈک آخری دموں پر ہے۔ کمرے میں نیم تاریکی پھیلی ہے۔ ان میں سے ایک کہانی سنانے کو کہتا ہے۔ پھر دوسرا اس مطالبے میں شریک ہوجاتا ہے۔اور پھر تیسرا۔۔۔۔۔۔

"یہ کہانی نہیں ہے ! آنکھوں دیکھا واقعہ ہے رپورتاژ ہے۔ یہ سب ، ٹھیک ٹھیک وہی ہے جو ابھی یہاں ہو رہا ہے۔وہی سب جس سے ہم بھاگنے کی کوشش میں ہیں۔ اس سب کو کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہم پر مت پھینکو ، اپنا تخئیل شامل کرو۔کچھ تخلیق کرو ،کچھ ایجاد کرو اور اسے انجام تک لے کر جاو۔"
میں اثبات میں سر ہلاتا ہوں۔ اور دوبارہ سے شروع ہو جاتا ہوں۔
ایک آدمی کمرے میں بیٹھا ہے۔ بالکل اکیلا ، وہ ایک مصنف ہے اور ایک کہانی لکھنا چاہتا ہے۔کافی وقت بیتا کہ اس نے اپنی آخری کہانی سپرد قلم کی تھی۔اور اب وہ تخلیق کے اس لمحے کی غیر موجودگی سے بے چین ہے۔ کوئی ایسی تخلیق جسے کسی دوسری شئے سے نکالا گیا ہو۔ نا کہ ایسی تخلیق جسے ہوا سے پکڑا گیا۔ ایسی تحاریر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔کیونکہ ان کا کوئی پس ِ منظر نہیں ہوتا۔کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ہر شخص ایسی کہانی لکھ سکتا ہے۔مگر جب ایک چیز سے ، دوسری چیز تخلیق کی جاتی ہے تو اس کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھی صرف تم نے اسے پہلی بار دیکھا اور دریافت کیا۔تمام وقت وہ وہاں موجود رہی ، چٹان کے اندر ، تمہارے اندر !ایسا نیا پن جس پر پہلے کسی کی نظر نہیں پڑی۔مصنف فیصلہ کرتا ہے کہ وہ صورتحال کے متعلق ایک کہانی لکھے گا۔مگر معاشی یا سیاسی صورتحال کے متعلق نہیں بلکہ انسانی صورتحال کے متعلق ، ایک کہانی ! وہ انسانی صورت حال جس سے وہ خود گذر رہا ہے۔مگر اس کے سامنے ایک خالی صفحہ دھرا ہے۔ کوئی کہانی خود کو پیش نہیں کرتی۔کیونکہ وہ جس صورت حال کو سہہ رہا ہے۔ اس کی قدر و قیمت ایسی نہیں کہ اسے ایک کہانی میں ڈھالا جا سکے اور جب وہ حوصلہ ہار بیٹھا تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
گورا مجھے ٹوکتا ہے۔"میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کیا تھا۔ کہ دروازے پر دستک نہ ہو۔مجھے یہ کرنا ہے۔میں نے اصرار کیا۔
"دروازے پر دستک کے بغیر کوئی کہانی نہیں "
"اسے کرنے دو"
پزے والا لڑکا نرمی سے کہتا ہے۔
"تم دروازے پر دستک کے متمنی ہو ؟ ٹھیک ہے ! تم اسے کہانی کا حصہ بنا سکتے ہو ، تاوقتیکہ ہمیں اس کی مدد سے ایک کہانی سننے کو ملتی رہے۔"

عبرانی افسانہ: دَستک ( Suddenly، A Knock on the Door )
ایٹگر کریٹ ( Etgar Keret )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
بشکریہ: قیصر نذیر خاور فیس بک ٹائم لائن

" مجھے کہانی سناؤ " ، میرے لیونگ روم میں پڑے صوفے پر بیٹھے باریش بندے نے حکم دیا۔ مجھے یہ بتانا ہے کہ صورتحال کسی بھی طرح خوشگوار نہیں ہے۔ میں وہ تو ہوں جو کہانیاں لکھتا ہے ، لیکن وہ نہیں جو کہانیاں سناتا ہے۔ اور پھر ایسا بھی ہے کہ کوئی مجھے حکم دے اور کہانی لکھوا لے یا مجھ سے سُن لے۔
آخری بار جب مجھے کسی نے کہا تھا کہ میں اسے کہانی سناؤں تو وہ میرا بیٹا تھا۔ یہ سال پرانی بات ہے۔۔۔ میں نے اسے پری اور نیولے کی کہانی سنائی تھی۔ یہ کیا تھی۔۔۔ اب مجھے یاد نہیں۔۔۔ اور وہ دو منٹ میں ہی گہری نیند سو گیا تھا۔ لیکن موجودہ صورتحال بنیادی طور پر بہت مختلف ہے کیونکہ میرے بیٹے کے داڑھی نہیں اور نہ اس کے پاس کوئی پستول تھا اور ایسا بھی تھا کہ اس نے نرم اور نفیس لہجے میں مجھ سے درخواست کی تھی لیکن یہ شخص تو ، سیدھے سادے لفظوں میں مجھ سے ایک کہانی چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔
میں نے اس داڑھی والے شخص پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ اپنا پستول پرے کر دے تو اس کے لیے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے بلکہ یہ ہم دونوں کے لیے ہی بہتر ہے۔ ایسے عالم میں ، جب ایک بھری پستول کی نال آپ کے سر کی طرف اٹھی ہو ، کہانی گھڑنا اور کہنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر وہ شخص مُصر ہے۔
" اِس ملک میں "، وہ کھل کر کہتا ہے ، " اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو آپ کو طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔"
وہ چند روز قبل ہی سویڈن سے یہاں آیا ہے۔
" وہاں سویڈن میں تو صورت حال ہی بہت مختلف ہے۔ آپ نرمی سے کسی چیز کا مطالبہ کرو تو اکثر اوقات وہ آپ کو مل جاتی ہے۔ مگر اس سخت کوش اور گرم مرطوب مشرق وسطیٰ میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ یہاں ایک ہفتہ یا کچھ اتنا ہی وقت لگتا ہے اور آپ یہ جان لیتے ہیں کہ یہاں چیزیں کیسے کام کرتی ہیں۔ فلسطینی خوش روی اور اخلاق سے ایک ریاست کا مطالبہ کرتے رہے۔ کیا یہ انہیں ملی ہے ؟ انہوں نے کیا کچھ کرکے نہیں دیکھ لیا۔ پھر انہوں نے بسوں میں بیٹھے بچوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کر دیا اور لوگوں نے ان کی باتوں پر کان دھرنا شروع کر دئیے۔ پناہ گزین مکالمہ کرنا چاہتے تھے ، کیا کسی نے اس پر دھیان دیا ؟ بالکل نہیں۔ اس لیے وہ جسمانی لڑائی پر اتر آئے اور باڑوں پر گشت کرنے والوں پر اُبلتا تیل پھینکنے لگے جس نے انہیں اچانک سامعین مہیا کر دئیے۔ اس خطہ ِزمین پر جس کی لاٹھی ، اسی کی بھینس ہے۔۔۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس بات کا تعلق سیاست سے ہے ، معاشیات سے یا صرف گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ سے ہے۔ یہاں فقط بہیمانہ طاقت کی زبان ہی سمجھی جاتی ہے۔
" سویڈن " ، دڑھیل نے ہاتھ سے رفعتی اشارہ کرتے ہوئے کہا ، " ترقی یافتہ ہے۔ اور کچھ میدانوں میں تو یہ بہت آگے ہے۔ یہ ایبا (ABBA ) ، ایکیا (IKEA ) یا نوبل انعام کا ہی نام نہیں ہے۔ سویڈن خود میں ایک الگ اور مختلف دنیا ہے ، اور وہاں کے لوگوں کے پاس جو کچھ ہے وہ انہوں نے پُرامن ذرائع سے حاصل کیا ہے۔ سویڈن میں ، اگر میں '' ایس آف بیس " ( Ace of Base ) بینڈ کی کسی ایک فنکارہ کا دروازہ کھٹکھٹاؤں اور اس سے کہوں کہ وہ میرے لیے گائے تو وہ مجھے خوش آمدید کہے گی ، چائے کا کپ پیش کرے گی ، پلنگ کے نیچے سے اپنا گٹار اٹھا کرمیرے لیے گائے گی۔ اور وہ یہ سب مسکراتے ہوئے کرے گی ! لیکن یہاں ؟ میرا مطلب ہے کہ اگر میں تمہیں پستول کا لَشکارہ نہ دکھاؤں تو تم نے مجھے فوراً ہی اٹھا کر باہر پھینک دینا تھا۔
" دیکھو ! " ، میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
"تم اپنے آپ کو دیکھو " داڑھی والا دانت پیس کر بُڑبُڑاتا ہے اور اپنے پستول کی نال میں گولی چڑھاتا ہے۔ " یا تو تم مجھے کہانی سناؤ گے یا ایک گولی تمہارے سر میں آنکھوں کے بیچ سے پار ہو گی۔ "
میں جان لیتا ہوں کہ میرے پاس انتخاب کے امکانات ہیں ہی نہیں۔ بندہ اپنی بات پر اَڑا ہوا ہے۔
میں کہانی شروع کرتا ہوں۔
'' دو آدمی ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔''
اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ داڑھی والا بندہ فوراً تن جاتا ہے۔ میں پہلے تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ کہانی پر توجہ دے رہا ہے مگر ایسا نہیں ، وہ کچھ اور سن رہا ہے۔
"دروازے پر دستک ہو رہی ہے۔ " وہ بیزاری سے کہتا ہے ، "دروازہ کھولو۔ اور وہ جو کوئی بھی ہے ، اس سے جان چھڑاؤ اور یہ سب جلدی کرو۔ اور ، ہاں دیکھنا ، کوئی ایسی ویسی حرکت مت کرنا ورنہ انجام بُرا ہو گا۔ "
دروازے پر موجود نوجوان ، ایک سروے کرنے والا ہے۔ اس نے کچھ مختصر سوالات کرنے ہیں کہ یہاں گرمیوں کے موسم میں نمی کی زیادتی مجھ پر کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ مجھے اس کے سوال نامے میں کوئی دلچسپی نہیں مگر وہ مجھے دھکیلتا ہے اور اندر گھس آتا ہے۔
"یہ کون ہے ؟"
وہ داڑھی والے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھتا ہے۔
" یہ ، میرا بھتیجا ہے۔ سویڈن سے آیا ہے۔ میں جھوٹ بولتا ہوں ، " اس کا باپ برف کے تودے تلے دب کر جاں بحق ہو گیا اور یہ اسے دفنانے یہاں آیا ہے۔ ہم ابھی اس کی وصیت کو دیکھ رہے ہیں۔ کیا تم ہمارے نجی معاملات کا احترام کرتے ہوئے ہمیں تخلیہ فراہم نہیں کرو گے ؟ "
"ایسے نہ کرو ، مان جاؤ ! " ، آراء لینے والا کہتا ہے اور میرا کندھے پر تھپکی دیتا ہے۔ '' میرے صرف چند سوالات ہیں۔ ایک غریب بندے کو کچھ رقم کمانے دو۔ وہ مجھے ، فی جواب کنندہ ، ادائیگی کر تے ہیں۔ "
وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی پلاسٹک کے فولڈر کو مضبوطی سے پکڑے صوفے میں جا دھنستا ہے۔ سویڈش بھی جا کر اس کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ میں ابھی تک کھڑا ہوں تا کہ اسے یہ یقین دلا سکوں کہ میں جو اسے کہہ رہا ہوں اس سے میرا مطلب بھی وہی کچھ ہے۔
"میں تمہیں جانے کو کہہ رہا ہوں مسٹر۔ " ، میں اسے کہتا ہوں ، " تم بہت بے وقت آئے ہو۔ "
" بے وقت ، اونہہ ؟ "
وہ پلاسٹک کا فولڈر کھولتے ہوئے اس میں سے ایک بڑا ریوالور نکالتا ہے۔
"میں کیوں اور کیسے بے وقت آیا ہوں ؟ اس لیے کہ میری رنگت کالی ہے ؟ اس لیے کہ میں کم حیثیت رکھتا ہوں ؟ جب بات سویڈش کی ہو تو تمہارے پاس دنیا کا سارا وقت ہے مگر ایک مراکشی کے لیے ، ایک جنگی مجاہد کے لیے جو اپنی تِلی کے ٹکڑے لبنان میں پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ اسے تم ایک منٹ بھی نہیں دے سکتے۔ "
میں اسے ، دلیل سے ، سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جیسا وہ سمجھتا ہے ، ویسا نہیں ہے۔ اور یہ کہ وہ ایسے موقع پر آ کر مخل ہوا جب میں سویڈش کے ساتھ ایک نازک نکتے پر بات کر رہا تھا۔ میں یہ بھی کوشش کرتا ہوں کہ اس سے بات کر سکوں مگر وہ اپنے ریوالور کی نال اپنے ہونٹوں کے سامنے رکھتے ہوئے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔
" چلو ، بہانے بنانا بند کرو ، وہاں بیٹھ جاؤ اور سب بک ڈالو۔ "
"کیا ؟ کیا بک دوں ؟ " ، میں پوچھتا ہوں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں بری طرح پھنس چکا ہوں۔ سویڈش کے پاس بھی پستول ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔ مغرب ، مغرب ہے اور مشرق ، مشرق۔ دو اذہان کے لوگ ہیں یا کچھ اور ، کسی بھی وجہ سے کسی بھی لمحے آگ بھڑک سکتی ہے۔ صرف اس وجہ سے بھی کہ سویڈش بھڑک اٹھے کہ وہ اکیلے بیٹھ کر کہانی سننا چاہتا ہے اور اس پر مُصر ہو جائے۔
"مجھے کچھ کرنے پر مجبور مت کرو۔" ، رائے شمار مجھے دھمکاتا ہے۔ "میرا پارہ جلدی چڑھ جاتا ہے ، جلدی سے اپنی کہانی کہہ ڈالو۔ "
"ہاں۔ " ، سویڈش بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اپنا پستول باہر نکال لیتا ہے۔
میں اپنا گلا صاف کرتا ہوں اور کہانی دوبارہ سے شروع کرتا ہوں۔
" تین آدمی ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔ "
" اور ہاں ! دروازے پر کوئی دستک نہیں ہو گی۔ " ، سویڈش مجھے ٹوک دیتا ہے۔
رائے شمار ، ہماری بات سمجھ نہیں پاتا مگر اُس کا ساتھ دیتا ہے۔وہ بھی کہتا ہے ، "بولتے جاؤ ، لیکن دروازے پر دستک نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں کچھ اور بتاؤ۔ ہمیں حیران کرو۔ "
میں رُک جاتا ہوں اور ایک لمبا اور گہرا سانس لیتا ہوں۔ وہ دونوں مجھے گھور رہے ہیں۔ میں ہمیشہ ایسی صورت حال میں کیسے اور کیونکر پھنس جاتا ہوں ؟ مجھے یقین ہے اموس اوز (Amos Oz) یا ڈیوڈ گروسمین ( David Grossman ) کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا ہو گا۔
اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ دونوں کے گھورنے کا انداز اب دھمکی آمیز ہے۔ میں کندھے اُچکاتا ہوں۔ " میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ میری کہانی میں کوئی شے ایسی ہے ہی نہیں جو دروازے پر ہونے والی دستک سے تعلق رکھتی ہو۔ "
"اس سے جان چھڑاؤ۔ '' ، رائے شمار مجھے حکم دیتا ہے ، " اس سے فوراً جان چھڑاؤ۔ وہ جو کوئی بھی ہے۔ "
میں تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھتا ہوں۔ وہ پزا ( Pizza ) پہنچانے والا لڑکا ہے۔
"کیا تم کیرٹ ہو ؟ " ، وہ مجھ سے سوال کرتا ہے۔
"ہاں " ، میں کہتا ہوں ، " مگر میں نے پزا نہیں منگوایا۔ "
وہ پزا کے ڈبے پر پڑی ڈیلیوری کی پرچی پر زور سے ہاتھ مارتا ہے اور مجھے دکھاتے ہوئے کہتا ہے۔
"یہ سلپ کہتی ہے کہ یہ 14 زیمن ہوف سٹریٹ ہے۔" اور وہ ساتھ ہی دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہو جاتا ہے۔
"تو کیا ہوا ؟ میں نے پزا آرڈر نہیں کیا۔" ، میں کہتا ہوں۔
" فیمیلی سائز " ، وہ اصرار کرتا ہے ، " آدھا انناس ، آدھا اینشوی ( Anchovy ) پزا کا آرڈر یہیں سے گیا ہے۔ جس کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے پہلے ہی ہو چکی ہے۔ آپ مجھے بس بخشیش دیں تاکہ میں یہاں سے نکلوں۔ "
"کیا تم بھی کہانی سننے آئے ہو ؟ " ، سویڈش پوچھتا ہے۔
"کون سی کہانی؟ "
لڑکا انجان بنتے ہوئے کہتا ہے۔ مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ جھوٹ بولنے کا ماہر نہیں ہے۔
" باہر نکالو۔ " ، رائے شمار کہتا ہے۔ " نکالو ، پستول ہے یا پھر ریوالور ؟ "
"میرے پاس اسلحہ نہیں ہے۔ "
پزے والا لڑکا شرمندہ ہو کر اقرار کرتا ہے اور گتے کی ٹرے کے نیچے سے ایک تیز دھار والا چھرا نکالتا ہے۔
" لیکن اس نے اگر مجھے سرعت سے کہانی نہ سنائی تو میں اس کے گوشت کے نہایت نفیس قتلے بناؤں گا۔ "
تینوں اب صوفے پر بیٹھ چکے ہیں۔ گورا دائیں ہاتھ بیٹھا ہے ، پھر پزے والا لڑکا اور اس کے ساتھ رائے شمار۔
"میں اس طرح کہانی نہیں سنا سکتا۔"، میں انہیں بتاتا ہوں۔ " اس صورت میں جبکہ تم تینوں میرے سر پر ، ہتھیار لیے بیٹھے ہو ، میرے ذہن میں کوئی کہانی نہیں آ سکتی۔ تم سب جاؤ اور ایک بلاک کا ایک چکر لگاؤ اور جب تک تم واپس آؤ گے تب تک امید ہے کہ میرے پاس سنانے کے لیے کچھ ہو گا۔ "
" یہ سالا ! پولیس والوں کو بلانا چاہتا ہے۔ " ، رائے شمار سویڈش کو بتاتا ہے ، " یہ کیا سمجھ رہا ہے ؟ کہ ہم کل ہی پیدا ہوئے ہیں ؟"
"مان جاؤ ، ہمیں کہانی سنا دو۔ ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے۔ " ، پزے والا لڑکا التجا کرتا ہے۔
" ایک مختصر کہانی ہی سہی ، اتنے بخیل مت بنو ، حالات بہت کڑے ہیں تم جانتے ہو ، بے روزگاری ، خود کش حملے ، ایرانی۔۔۔ لوگ کچھ اور سننا چاہتے ہیں۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ ہم جیسے قانون کے تابع لوگوں کو کیا چیز یہاں کھینچ لائی ہے ؟ "
"ہم راندہ درگا لوگ ہیں ، سمجھے ، بری طرح سے مایوس جس نے ہمیں سفاک بھی بنا دیا ہے۔"
میں اپنا گلا صاف کرتا ہوں اور پھر سے کہانی شروع کرتا ہوں۔
" چار لوگ ایک کمرے میں بیٹھے ہیں۔ شدید گرمی ہے۔ وہ سب اکتاہٹ کا شکار ہیں۔ ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈک آخری دموں پر ہے۔ ان میں سے ایک کہانی سنانے کو کہتا ہے۔ پھر دوسرا اس مطالبے میں شریک ہو جاتا ہے۔اور پھر تیسرا بھی۔۔۔۔۔۔ "
"یہ کہانی نہیں ہے۔" رائے شمار احتجاج کرتا ہے ، " یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ یہ ایک رپورتاژ ہے۔ یہ سب ، ٹھیک ٹھیک وہی ہے جو ابھی یہاں ہو رہا ہے۔ وہی سب ، جس سے ہم بھاگنا چاہ رہے ہیں۔ اس سب کو ، اس حقیقت کو کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہم پر مت پھینکو ، اپنا تخئیل شامل کرو۔ کچھ تخلیق کرو ، کچھ ایجاد کرو اور اسے انجام تک لے کر جاؤ۔"
میں اثبات میں سر ہلاتا ہوں۔ اور دوبارہ سے ، شروع سے ہی کہنا ابتداء کرتا ہوں۔
" ایک آدمی کمرے میں بیٹھا ہے۔ بالکل اکیلا ، وہ ایک مصنف ہے اور ایک کہانی لکھنا چاہتا ہے۔ اس نے بہت عرصہ پہلے اپنی آخری کہانی لکھی تھی۔ اور اب وہ اسے یاد کر رہا ہے۔ وہ تخلیق کے اس لمحے کو بھی یاد کر رہا ہے جب وہ کسی بھی شے سے کچھ بھی تخلیق کر لیتا تھا۔۔۔ "
" اب ٹھیک ہے۔۔۔ کسی بھی شے سے کچھ بھی تخلیق۔ "
" کیونکہ جب نیست سے کچھ نکالا جاتا ہے تو یہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے بندہ پتلی ہوا سے کچھ برآمد کر رہا ہو اور اس صورت میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ ایسا تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔مگر جب ایک چیز سے ، دوسری چیز تخلیق کی جاتی ہے تو اس کی ایک بنیاد ہوتی ہے۔ اس کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی وہاں ہمیشہ سے موجود تھی ، آپ کے اندر بس ایسا ہے کہ آپ نے بس اسے پہلی بار دیکھا اور دریافت کیا ، کسی نئی شے کے ایک جزو کے طور پر اور ایسا اس سے پہلے نہیں ہوا ہوتا۔ یہ بندہ ہی ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ وہ ایک صورت حال کے بارے میں کہانی لکھے۔ یہ اس کے الٹ نہیں ہوتا کہ صورت حال یہ فیصلہ کرے ؛ سیاسی صورت حال اور نہ ہی سماجی صورت حال۔ بندہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے انسانی صورت حال پر لکھنا ہے یا اس کے حالات پر۔ انسانی حالات ، صورت حال جس کو وہ خود اس وقت اپنے تجربے کی نظر سے دیکھتا ہے لیکن وہ اس کی تصویر کشی نہیں کر پاتا۔ کوئی کہانی خود کو بیان نہیں کرتی ، خود کو پیش نہیں کرتی اس لیے کہ انسانی حالت کا اسے جو تجربہ اس وقت ہو رہا ہوتا ہے وہ حالت کہانی کے قابل ہی نہیں ہوتی اور وہ اسے لکھنے سے انکاری ہو جاتا ہے کہ اچانک۔۔۔ "
"میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کیا تھا۔ " ، سویڈش مجھے ٹوک دیتا ہے ، " دروازے پر دستک نہ ہو۔ "
" مجھے یہ کرنا ہے۔ " ، میں اصرار کرتا ہوں ، "دروازے پر دستک کے بغیر کوئی کہانی نہیں۔"
" اسے کرنے دو۔ " ، پزے والا لڑکا نرم دلی سے کہتا ہے ، " اسے تھوڑی سی تو ڈھیل دو۔ تم دروازے پر دستک چاہتے ہو ؟ ٹھیک ہے۔ دروازے پر دستک بیچ میں شامل کر لو ، بشرطیکہ اس کی مدد سے ہمیں کہانی سننے کو ملتی رہے۔ "

A knock on the door, a hebrew short-story by Etgar Keret, English and Urdu translation.

1 تبصرہ:

  1. انتہائی اختصار اور بغیر کوئی حوالہ جات یا دقیق اصططلاحات دیے ایک منطقی بات کروں گا۔ ہر وجود دوسرے وجود سے کچھ نہ کچھ اثر ضرور لیتا ہے۔ اگر تو یہ اثر کسی دوسرے کے عمل کو ایک نیا نتیجہ یا کوئی نیا اشارہ یا کسی قسم کے اضافہ کا باعث بنتا ہے تو کہا جائے گا ایک پہلے عمل سے متاثر ہو کر انہی بنیادوں اور خطوط پر چلتے ہوئے "نیا امکان" یا "نئی سوچ" یا "اضافی نظریہ" یا اگر کہا جائے کے کچھ نئی تخلیق کی گئی ہے۔ اگر کوئی عمل کچھ بھی اضافہ کرنے سے قاصر ہو گا اور محض نام اور جغرافیہ بدلنے تک ہی محدود رہے گا اور یہ تبدیلی کسی نئے سبق یا اضافے کا موجب نہیں بنتی تو میرے جیسا کم فہم شخص بھی اسے "محض نقل" کہ جیسے بندر کرتے ہیں، کہے گا اور اس عمل کو "ادبی چوری" ہی کہے گا۔ پڑھنے والے ان بنیادوں پر کیا سمجھتے ہیں یہی سمجھ اس بات کا تعین کرتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں