ریاست تلنگانہ کے مواضعات میں سرکاری پارکس کی تعمیر کیلئے مسلم قبرستانوں اور عیدگاہوں کی اراضیات پر ہی کیوں نظر ہے ؟
وقارآباد کے پرگی اور کوٹ پلی منڈلات کے بعد مریال گوڑہ میں یہی شرپسندی ، وقف بورڈ کا وجود بے معنی!!
تلنگانہ حکومت کی جانب سے ریاست کے تمام مواضعات کو ترقی دینے کی غرض سے ہر موضع میں ایک پارک ، شمشان گھاٹ اور ڈمپنگ یارڈ قائم کرنے کی ہدایت کے بعد ضلع انتظامیہ ، مقامی گرام پنچایتیں ، سرپنچ اور سیاسی قائدین سرگرم ہو گئے اور یہ کام زوروں پر جاری ہے جو کہ بہتر اقدام ہی کہا جا سکتا ہے کہ ٹاؤنس اور شہروں کی طرح دیہی عوام کو بھی یہ سہولتیں دستیاب ہوں اور مواضعات ترقی کریں۔
لیکن کچھ مقامات سے ایسی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں کہ کئی مواضعات میں بالخصوص پارکس کی تعمیر کیلئے زیادہ تر موقوفہ اراضیات کی نشاندہی کرتے ہوئے اور ایک ایکڑ اراضی پر پارکس کی تعمیر کا منصوبہ بناتے ہوئے مقامی سرپنچوں کی جانب سے چند شرپسندوں کی تائید کے ذریعہ مسلمانوں کو خوفزدہ اور ہراساں کیا جا رہا ہے!
اس کے لیے خود ضلع وقارآباد کے دو منڈلات کوٹ پلی اور پرگی زندہ مثال ہیں۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کی 27/جولائی کی اشاعت میں ایک خبر:
"کوٹ پلی کے 600/سالہ قدیم شاہی قبرستان کو قابل استعمال بنانے میں مسلمانوں کو رکاوٹ کا سامنا"
کی سرخی کے ساتھ ایک تفصیلی خبر شائع کی گئی تھی جس میں موضع کے مسلمانوں نے بتایا تھا کہ کوٹ پلی کے سروے نمبر:529 کے تحت 8/ ایکڑ ایک گنٹہ اراضی پر مشتمل یہ تاریخی شاہی قبرستان 600/سالہ قدیم ہے جس میں بزرگان دین اور کوٹ پلی کے مسلمانوں کی زائد از 250 قبریں ہنوز موجود ہیں۔
چونکہ یہ قبرستان ندی سے ملحق تھا اور برسات کے موسم میں تدفین کیلئے مشکلات پیش آ رہی تھیں تو کئی سال قبل اس قبرستان کو یونہی چھوڑکر تین ایکڑ اراضی پر ایک دوسرا قبرستان قائم کر لیا گیا تھا۔ مگر اب چونکہ اس قبرستان میں جگہ خالی نہیں ہے تو کوٹ پلی کے مسلمانوں نے اس تاریخی شاہی قبرستان کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی غرض سے صاف صفائی کا آغاز کیا تو مقامی پولیس اور پڑوسی موضع بگاپور سے زائد از 50 نامعلوم افراد قبرستان پہنچ گئے اور زبردستی دھمکیاں دیتے ہوئے صاف صفائی کے کاموں کو رکوا دیا!
قابل غور بات یہ بھی ہیکہ اس تاریخی شاہی قبرستان کی 8/ایکڑ ایک گنٹہ اراضی سرکاری طورپر استعمال کرتے ہوئے اس اراضی میں سے چار ایکڑ اراضی ندی پر بریج، پولیس اسٹیشن کی عمارت ، دفتر تحصیل کی عمارت اور سرکاری ہسپتال تعمیر کر لیا گیا اور اب محکمہ مال کی جانب سے اسی قبرستان کی ایک ایکڑ اراضی پر حکومت کی ہدایت پر پارک بنانے کی تیاریاں کی جاری ہیں۔
اسی طرح 30/اگست کے راشٹریہ سہارا میں بھی ایک تفصیلی خبر شائع کی گئی تھی کہ کس طرح پرگی منڈل کے پیٹا مادارم موضع میں سروے نمبر 153 میں 60/سال قبل دو ایکڑ 30/گنٹے پر مشتمل موقوفہ اراضی پر موجود مسلم قبرستان کی ایک ایکڑ کھلی اراضی پر پارک قائم کرنے کی غرض سے موضع کی سرپنچ مادھوی کے شوہر مہا لنگم ، نائب سرپنچ میکلا انجیا اور دیگر مقامی مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے میں مصروف ہیں۔
مقامی مسلمانوں نے محکمہ ریونیو میں موجود ریکارڈ اور اراضی کی پہانی نقل کے تحت اس اراضی کا سروے کروایا تو سروے اور اراضی کے پنچنامہ کے بعد سروئیر اور محکمہ مال کی جانب سے مسلمانوں کو سرٹیفکیٹ دیا گیا۔
تاہم اس کے باوجود موضع کی سرپنچ مادھوی کے شوہر مہا لنگم ، نائب سرپنچ میکلا انجیا اور دیگرمسلمانوں کو کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر موضع میں رہنا ہے تو چپ چاپ مسلم قبرستان کی ایک ایکڑ اراضی حوالے کی جائے۔
ان مسلم ذمہ داران نے میڈیا کے سامنے یہ تک الزام عائد کیا کہ اراضی حوالے نہ کرنے پر موضع کی جامع مسجد کو شہید کر دینے اور دو چار مسلمانوں کے قتل کی تک دھمکیاں دے رہے ہیں!
محکمہ ریونیو پرگی کی تصدیق کے باوجود اس مسلم قبرستان کی اراضی پر قبضہ کرنے کی غرض سے جان بوجھ کر سرپنچ کے شوہر ، نائب سرپنچ اور دیگر کی جانب سے جھونپڑیاں بنائی گئی ہیں اور ساتھ ہی عام مسلمانوں کو تک دھمکایا جا رہا ہے تاکہ وہ خوفزدہ ہوکر موضع سے فرار ہو جائیں۔
یکم/ستمبر کے روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع شدہ نلگنڈہ کے نمائندہ کی خبر کے مطابق مریال گوڑہ کے موضع راگڑیا میں واقع دو ایکڑ سے زائد اراضی پر موجود قدیم عید گاہ کو مقامی سرپنچ اور ان کے ساتھیوں نے سرکاری پارک قائم کرنے کی غرض سے دیدہ دلیری کیساتھ منہدم بھی کر دیا جبکہ قریب ہی 15/ایکڑ سرکاری اراضی خالی پڑی ہوئی ہے۔
مقامی مسلم ذمہ داران کا کہنا ہیکہ پارک کے نام پر عید گاہ کی اراضی پر قبضہ کرنا انتشارپسند قوتوں کا مقصد ہے !!
یہ تین واقعات تو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ذریعہ آشکار ہو گئے تاہم پتہ نہیں کہ ریاست کے دیگر مواضعات میں ایسے کتنے واقعات پیش آئے ہوں گے جو کہ اخبارات تک نہیں پہنچے جہاں سرکاری پارکس کے قیام کی غرض سے موقوفہ اراضیات آسان نوالہ بن گئی ہیں!
کیا ایسے واقعات کی اطلاعات ریاستی وقف بورڈ کے اہلکاروں تک نہیں پہنچیں؟ اگر اطلاع مل گئی تو پھر کیا اقدامات کیے گئے ؟ اگر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تو پھر وقف بورڈ کا وجود ہی کیوں ہے؟
عام مسلمانوں کا خیال ہیکہ وقف بورڈ کا وجود برائے نام ہے اور یہ قوم کے لیے سفید ہاتھی کے مماثل بن کر رہ گیا ہے کہ وقف بورڈ کو نہ مساجداور عاشور خانوں کی شہادت کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی اضلاع اور دیہاتوں میں موجود لاکھوں ایکڑ وقف اراضیات کے تحفظ کی فکر ہے۔
جن میں سے کئی اراضیات پر ناجائز قبضے ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری بھی ہے۔ حسب وعدہ 6/سال بعد بھی بنگارو تلنگانہ میں نہ وقف ٹریبونل قائم کیا گیا اور نہ ہی وقف کی املاک کے تحفظ کیلئے کوئی سخت اقدامات ہی کیے جا رہے ہیں !!
ضرورت شدید ہیکہ حکومت گرام پنچایتوں کو یہ سخت ہدایت جاری کرے کہ مواضعات میں سرکاری پارکس کے قیام کیلئے عیدگاہوں اور قبرستانوں کی اراضیات کا استعمال نہ کریں۔ ساتھ ہی وقف بورڈ اپنی گہری نیند اور حکومت سے وفاداری کی اپنی روِش سے باہر نکلے اورریاست کے 33/اضلاع کے تمام شہروں ، ٹاؤنس اور منڈلات سے یہ ریکارڈ اکٹھا کرے کہ کہاں کہاں وقف اراضیات پر سرکاری پارکس بنائے جا رہے ہیں اور وقف اراضیات کا موجودہ موقف کیا ہے؟!
***
بشکریہ: راشٹریہ سہارا، حیدرآباد ایڈیشن
بشکریہ: راشٹریہ سہارا، حیدرآباد ایڈیشن
Encroachment of Muslim graveyard's wakf lands for govt proposed Parks in Telangana Districts.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں