موسیقی میری فلموں کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی - یش چوپڑہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-06

موسیقی میری فلموں کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی - یش چوپڑہ

music-and-yash-chopra

یش چوپڑا (پ: 27/ستمبر 1932 ، لاہور - م: 21/اکتوبر 2012 ، ممبئی)
بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے نامور ہدایت کار اور فلمساز رہے ہیں جن کی مقبول عام فلموں میں وقت، داغ، دیوار، کبھی کبھی، ترشول، کالا پتھر، سلسلہ، مشعل، چاندنی، لمحے، ڈر، دل تو پاگل ہے، ویرزارا وغیرہ شامل ہیں۔ اپنی فلموں میں ہمیشہ عورتوں کے کردار کو مرکزی حیثیت دینے والے یش چوپڑا کو باوقار فلمی ایوارڈ 'دادا صاحب پھالکے' سمیت کئی اہم اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ماضی میں فرانس، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کی حکومت نے بھی یش چوپڑا کی فلمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کی عزت افزائی کی ہے۔
یش چوپڑا اپنی فلموں کے لافانی گیتوں کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔ بلکہ بہترین نغمے یش چوپڑا کی فلموں کا امتیاز باور کیے جاتے ہیں۔ اسی موضوع پر اپنے دور کے مشہور فلمی و ادبی رسالے 'شمع' کے ایک پرانے شمارے میں شائع شدہ ان کا انٹرویو، جو ان کی ہدایت میں بنی فلم 'چاندنی' کی ریلیز سے قبل لیا گیا تھا، فلمی نغموں کا ذوق و شوق رکھنے والے قارئین کی دلچسپی اور معلومات کی خاطر پیش ہے۔

موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی فلموں اور موسیقی کا رشتہ تو جسم اور جان کا رشتہ ہے۔
ہدایت کار یش چوپڑا کا موسیقی سے لگاؤ جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ وہ نئے نغمہ نگاروں اور گانے والوں کو اپنی فلموں میں شروع سے ہی موقع دیتے آ رہے ہیں۔ اپنی پہلی ہی فلم "دھول کا پھول" میں جب یش چوپڑا نے ہدایت کار کے طور پر ذمہ داری سنبھالی تو مہندر کپور جیسے باصلاحیت گائک کو موقع دیا۔ امیتابھ بچن جیسے سپر اسٹار سے جہاں یش نے پہلی بار گانا گوایا، وہاں اپنی ایک یادگار فلم "چاندنی" کے لئے انہوں نے سری دیوی کو سب سے پہلے گانے والی کے طور پر متعارف کرایا۔

یش چوپڑا سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو سوچا کہ کیوں نہ اس ہدایت کار سے اس کی فلموں کے گیت، موسیقی پر ہی بات کی جائے۔ یہی طے کر کے میں نے سب سے پہلے یش چوپڑا سے مہندر کپور کے بارے میں ہی بات کی۔

"آپ کو شاید یہ جان کر تعجب ہوگا کہ مہندر کپور کو محمد رفیع صاحب ہمارے پاس لے کر آئے تھے ، 'دھول کا پھول' سے پہلے مہندر کپور نے 'سوہنی مہیوال' کے لئے گایا تھا، مگر وہ اس کا باضابطہ پروفیشنل گانا نہیں تھا۔ دراصل مہندر کپور کو مرفی ریڈیو مقابلے میں چنا گیا تھا اور پانچ موسیقاروں نے اس کو اپنی اپنی فلم میں ایک گانا گانے کا موقع دیا تھا۔
'دھول کا پھول' کے لئے مہندر کپور نے پہلی بار پروفیشنل گائک کے طور پر گایا تھا"

یش چوپڑانے یادوں کے ریلے میں بہتے ہوئے کہا:
"وہ گانا 'تیرے پیار کا آسرا چاہتا ہوں' جب فلم دیکھنے والوں نے اسے پردے پر دیکھا اور سننے والوں نے ریڈیو پر سنا تو وہ طے نہیں کر سکے کہ یہ گانا رفیع صاحب کا گایا ہوا تھا یا نئے سنگر مہندر کپور کا۔ مہندر کپور نے یہ گانا لتا منگیشکر کے ساتھ گایا تھا اور ریکارڈنگ کے بعد لتا جی نے بھی مہندر کپور کی بہت تعریف کی تھی۔ ویسے بھی لتا منگیشکر جیسی چوٹی کی گانے والی کے ساتھ پہلی بار اتنی خود اعتمادی کے ساتھ گانا کچھ کم قابل تعریف نہیں تھا"۔

"مہندر کپور کے علاوہ آپ نے اور کون کون سے گائکوں کو اپنی فلموں میں موقع دیا؟"
"امیتابھ بچن ، پامیلا چوپڑا، ومل راٹھور، جالی مکھرجی اور سری دیوی۔ ہاں 'وجے' میں بھی میں نے انوپم کھیر اور اپنے بھتیجے روی چوپڑا سے پہلی بار بچوں کا ایک گانا گوایا تھا۔"

"امیتابھ بچن اداکار تو بے مثال ہیں، مگر ان میں گائک کی صلاحیت آپ نے کیسے بھانپ لی؟"
"امیتابھ نے میر ی فلم 'کبھی کبھی' میں کچھ اشعار پڑھے تھے ان کا انداز بہت دل نشیں تھا۔ اس کے بعد میں ایک بار ہولی کے موقع پر امیتابھ کے گھر گیا تو دیکھا کہ امیت اپنے والد ہری ونش رائے بچن کا گیت 'رنگ برسے' گا رہے تھے۔ ان دنوں فلم 'سلسلہ' زیر تکمیل تھی اور فلم میں ہولی کی ایک ایسی ہی سچویشن تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ گیت 'رنگ برسے' اور امیتابھ کی آواز فلم سچویشن پر سونے پر سہاگہ ہوگی۔ امیتابھ 'سلسلہ' سے پہلے میری چار فلموں 'کالا پتھر'، دیوار، کبھی کبھی، اور 'ترشول' میں کام کر چکے تھے اور میرا امیت سے زبردست تال میل تھا۔
میں نے امیتابھ سے کہا:
آپ سے اپنی فلم کے لئے ایک گانا گوانا ہے۔
امیت چونک کر بولے: 'ارے بھائی، ایسا نہ کرو، مجھے گانا وانا کہاں آتا ہے؟'
لیکن میں نے اصرار کر کے امیتابھ کو آمادہ کر لیا، ریہرسل کرائی اور پھر 'رنگ برسے' کی ریکارڈنگ ہوئی۔ ریکارڈنگ اچھی ہوئی مگر امیتابھ کو اطمینان نہ ہوا اور گانے کو دوبارہ ریکارڈ کرانے کے لئے کہنے لگے۔ اس طرح ہم نے دو دن بعد پھر رنگ برسے ریکارڈ کیا اور اس بار گانا پہلے سے زیادہ اچھا ہوا۔
فلم 'سلسلہ' میں ایک اور گیت 'یہ کہاں آگئے ہم' میں بھی بیچ بیچ میں امیتابھ کی آواز ہم نے استعمال کی اور یہ سارے تجربے بہت کامیاب رہے۔ امیتابھ آج جب کبھی اسٹیج پر گاتے ہیں تو 'رنگ برسے' ضرور گاتے ہیں۔"

"اپنی بیوی پامیلا چوپڑا سے آپ نے پہلی بار کس فلم میں گوایا؟"
"پیم نے پہلی بار میری فلم 'دوسرا آدمی' کے لئے ایک گیت 'خود سے جو وعدہ کیا تھا بھلایا نہ گیا' گایا تھا۔ اس کے بعد 'سلسلہ' کے لئے ہم نے ایک گانا 'میں سسرال نہیں جاؤں گی' گایا ہے۔"

فلم کے لئے گانے کی ریکارڈنگ ہونے کے بعد بھی اسے فلم میں نہ رکھنے کی بات سن کر میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا اور میں نے یش چوپڑا سے پوچھا:
"آپ سخت محنت کرکے گیت کو فلماتے ہیں یا ریکارڈ کراتے ہیں، پھر اسے فلم سے نکالنے کی کیا وجہ ہوتی ہے؟"
"وجہ تو ایک ہی ہوتی ہے، گانا فلم کی روانی اور تسلسل میں جب موزوں نہیں بیٹھتا تو اسے نکالنا پڑتا ہے۔ فلم 'دیوار' سے دو گانے نکالے گئے تھے۔ ایک تو ہم نے فلما بھی لیا تھا ، مگر نکالنا پڑا تھا۔ دیوار کے لئے ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا ایک ٹائٹل گیت 'دیواروں کا جنگل آبادی جس کا نام' تو اس قدر عمدہ تھا کہ مجھے اس گیت کو فلم میں نہ رکھنے کا ملال آج تک ہے۔
فلم 'ترشول' میں بھی ایک گانا جو ہم شستی کپور اور ہیما مالنی پر فلمانا چاہتے تھے ، نہیں فلما سکے۔ یہ گانا ہم نے کشور کمار اور آشا بھونسلے سے گوایا تھا، لیکن ریکارڈنگ کے بعد فلمایا نہیں گیا، 'کبھی قسمیں نہ توڑیں گے' اس گیت کے بول تھے اور یہ بھی ایک عمدہ گیت تھا۔"

"گیت کاروں میں آپ نے پہلی بار کسے چانس دیا ہے؟"
"جاوید واحد گیت کار ہیں جنہیں پہلی بار میں نے گانا لکھنے کا موقع دیا۔ 'سلسلہ' ہی وہ فلم تھی جس کے لئے جاوید نے تین گیت 'دیکھا ایک خواب ۔۔۔' ، 'یہ کہاں آگئے ہم' اور 'نیلا آسماں' لکھے تھے۔"

"کیسے گیتوں کی فلم بندی میں آپ کو زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟"
"جن میں کچھ خاص احساسات، کچھ گہرے جذبات ہوتے ہیں۔ جب ہمیں 'دیکھا ایک خواب' فلمانا تھا تو امیتابھ نے کہا کہ گانے میں ایک سطر ہے: 'دور تک نگاہ میں ہیں گل کھلے ہوئے' اور مجھے سنتے ہی ایسا لگتا کہ آنکھوں میں دور تک میلوں پھول ہی پھول کھل اٹھے ہیں۔ اس گیت کو تو ایسی لوکیشن پر فلمانا چاہئے جہاں میلوں تک سچ مچ پھول ہی پھول کھلے ہوں۔ اس لئے ہم یہ گیت فلمانے کے لئے ایمسٹرڈم گئے جہاں پھولوں کے باغوں میں ہم نے اس گیت کو فلمایا۔ کبھی کبھی گیتوں کے پکچرائزیشن میں ہمیں ایسی مصیبتوں سے بھی دوچار ہونا پڑا جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
فلم 'وقت' میں ہم کو ایک ڈریم سیکوئینس (خواب کا منظر) فلمانا تھا۔ 'ہم نے اک خواب سا دیکھا ہے' ، یہ خوابی منظر ہمیں ششی کپور اور شرمیلا پر فلمانا تھا۔ ادھر سیٹ لگ رہا تھا اور ادھر گانے کی ریکارڈنگ کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ سنے میوزیشنس کی ہڑتال ہو گئی، میوزیشنس کے ساتھ گانے اور گانے والیوں نے بھی ریکارڈنگ بند کر دی، ہمارا سیٹ لگ چکا تھا اور آرٹسٹوں کی تاریخیں بھی ہمارے پاس تھیں، مگر گانا نہیں تھا۔
اب کیا کریں؟ شوٹنگ نہ کریں تو لاکھوں کا گھاٹا۔ آخر موسیقار روی خود ہارمونیم لے کر بیٹھ گئے اور من موہن ڈیسائی کے ایک اسسٹنٹ ماہین وکی نے طبلہ سنبھالا۔ روی نے خود گاکر گانا ریکارڈ کیا اور کہا کہ ہڑتال کے بعد سنگر کی آواز لے لیں گے۔ اس طرح ہیروئین سادھنا کو پہلی بار کسی مرد کی آوز پر اپنے گانے کی شوٹنگ کرنی پڑی۔
اس سے بھی بڑی دشواری 'وقت' کے ہی ایک دوسرے گانے کی شوٹنگ پر شملہ میں پیش آئی۔ یہ گانا سادھنا پر پکچرائز ہونا تھا اور اس کے بول تھے:
'چہرے پر خوشی چھا جاتی ہے، آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے۔'
یہ گانا ہم ریکارڈ کر کے لے گئے تھے ، لیکن وہاں برف باری کا موسم ٹمپریچر اتنا کم تھا بیٹری فیل ہو گئی اور ہم گانا نہیں بجا سکے۔ اب کیا کریں؟ لوکیشن پر پوری یونٹ موجود تھی، لیکن گانا نہیں بج رہا تھا۔ پھر میں نے گانا بجائے بغیر شوٹنگ شروع کی اور میوزک کے ٹائمنگ کو دھیان میں رکھ کر سنیل دت اور سادھنا پر گانا فلمانا شروع کیا۔ میں جب کہتا کہ برف میں لیٹ جاؤ تو دونوں لیٹ جاتے۔ جب کہتا اٹھ جاؤ تو اٹھ جاتے۔ اس طرح ہم نے ریکارڈ کیا ہوا گانا بجائے بغیر شوٹنگ کی۔"

آج کل فلموں میں پہلے کی نسبت موسیقی پر کم دھیان دیا جاتا ہے۔ اس لئے میں نے یش چوپڑا سے پوچھا:
" کیا آپ کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ موسیقی آپ کی فلموں کی خامی ہے؟"
"خامی بھی ہے اور خوبی بھی۔ مگر آج اچھی موسیقی کے لئے نہ نغمہ نگار محنت کرتے ہیں اور نہ ایسے گانے والے ہیں جو گانے میں زندگی انڈیل دیں۔ گانے والیوں میں تو خیر لتا اور آشا ابھی ہیں، مگر گانے والوں کا تو جیسے قحط سا پڑ گیا ہے۔
کشور کمار اور رفیع اور مکیش کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کوئی گانے والا ہمارے پاس رہا ہی نہیں۔ ہم سچ مچ بہت خوش قسمت رہے تو جو ہمیں اپنے دور کی سب سے اعلیٰ اور مدھیر آوازیں ملیں، اور ہم نے ایک موسیقی کے دور کو جیا۔ ان دنوں گائکوں کا اپنے سر ، اپنے گیت سے جذباتی رشتہ ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے، ایک بار ہم مکیش کے ساتھ 'کبھی کبھی' کے ٹائٹل گیت 'کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے' کی ریکارڈنگ کی تیاریوں میں مشغول تھے تو ریکارڈنگ سے ایک دن پہلے ہی مکیش جی پر دل کا دورہ پڑ گیا۔ انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا اور ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ صرف آرام کریں، کسی سے زیادہ بات چیت نہ کریں ، جب میں ان سے ملنے گیا تو بولے:
"مجھے پتہ چلا ہے کہ تم میرا گانا امیتابھ کی آواز میں ریکارڈ کرا رہے ہو۔ تم فلم میں چاہے اس سے گوا لو، لیکن ریکارڈ پر تو میری آواز ہی رہنے دو۔ اس حسین گیت کو میں خود گانا چاہتا ہوں۔
میں نے مکیش جی سے خاموش رہنے کو کہا اور سوچا کہ اس آرٹسٹ کو اپنے گیت سے کس قدر جذباتی لگاؤ ہے کہ اس حالت میں ہسپتال کے بستر پر پڑے ہوئے بھی گانے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ آج ایسی لگن اور ایسا پیار گانے کے لئے شاید ہی کسی گائک میں ہو۔"

"آج کل تو فلموں میں گیت کم ہوتے جا رہے ہیں، عموماً چار، پانچ اور زیادہ سے زیادہ چھ گیت ہوتے ہیں۔ لیکن آپ نے اپنی نئی فلم 'چاندنی' میں نو (9) گیت رکھے ہیں۔۔ کیوں؟"
"کیوں کہ 'چاندنی' ایک میوزیکل لو اسٹوری ہے اور موسیقی اس فلم کا خاص حصہ ہے۔"

"سری دیوی کی آواز میں گانا ریکارڈ کرانے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟"
"بس یوں ہی دماغ میں آیا کہ سری دیوی کا گانا اسی سے کیوں نہ گوائیں۔ میں نے سری دیوی سے دریافت کیا:
'آپ تھوڑا بہت گانا گا لیتی ہیں؟'
جواب میں سری دیوی نے کہا:
'آپ دیکھ لیجئے'
جب گوا کر دیکھا تو محسوس ہوا کہ سری دیوی واقعی گا سکتی ہے۔ اسی لئے گانا 'چاندنی میری چاندنی' سری دیوی سے ہی گوایا اور اس نے پہلی کوشش کے حساب سے بہت اچھا گایا ہے۔"

"فلم 'چاندنی' کی موسیقی کیا آپ کی پچھلی فلموں سے بہتر ہے؟"
"جی ہاں، میری اب تک کی سب فلموں سے اچھی ہے۔ میں نے اب تک 16 فلمیں ڈائریکٹ کی ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ 'چاندنی' کی موسیقی تمام فلموں سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ سننے والوں نے بھی اسے بہت زیادہ پسند کیا ہے۔ اسی لئے اب تک 'چاندنی' کے سات لاکھ کیسیٹ تو بک ہی چکے ہیں اور امید ہے کہ جب تک فلم ریلیز ہوگی، یہ تعداد دس لاکھ کو پار کر جائے گی۔"

"آنند بخشی نے پہلی بار آپ کی فلم کے گیت لکھے ہیں، کیا آپ مطمئن ہیں؟"
"جب آنند بخشی کو ہم نے 'چاندنی' کے گیت لکھنے کے لئے چنا تو انہوں نے کہا تھا:
'آپ نے ساحر جیسے شاعر کے ساتھ کام کیا ہے ، مجھے بہت اچھا کام کرنا پڑے گا'۔
اور مجھے خوشی ہے کہ آنند بخشی نے جو کہا تھا، کر دکھایا ہے۔ انہوں نے سچ مچ فلم کی موسیقی میں ڈوب کر گیت لکھے ہیں۔ ایک بار وہ مہابلیشور سے لوٹے تو کہنے لگے:
میں گھاٹ اتر رہا تھا تو مکھڑا مل گیا:
'تو مجھے سنا میں تجھے سناؤں اپنی پریم کہانی'
یہ ایک ایسی مشکل سچویشن پر ہے جہاں دونوں ہیرو ونود کھنہ اور رشی کپور اپنی اپنی محبوبہ کے بارے میں گا کر بتاتے ہیں اور دونوں کو یہ پتہ نہیں کہ ان کی محبوبہ ایک ہی (سری دیوی) ہے۔ اسی طرح ایک دن میرے موسیقار شیو ہری دھن سیٹ کر رہے تھے کہ آنند بخشی آگئے اور بولے:
'میں نے ابھی ابھی راستے میں مکھڑا سوچا ہے:
'آ میری جان میں تجھ میں اپنی جان رکھ دوں'
جب شیو ہری نے سنا تو حیران رہ گئے ، کیوں کہ اسی مکھڑے پر ان کی دھن بالکل موزوں تھی۔
ایک دوسرا گیت بھی 'شہروں میں شہر سنا تھا دلی' بھی آنند بخشی نے ہسپتال کے بستر پر تیار کیا تھا۔ جب ڈاکٹروں نے انہیں لکھنے پڑھنے اور سوچنے سے منع کر رکھا تھا۔ حقیقت میں 'چاندنی' کے گیت ، سنگیت کے لئے ہماری ٹیم نے بہت محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ فلم کے گیت ، سنگیت کو لوگ برسوں تک نہ بھول سکیں گے۔"

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: ستمبر 1989

Significance of Music in the life of Yash Chopra.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں