اچھا استاد - کیوں اور کیسے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-05

اچھا استاد - کیوں اور کیسے؟

good-teacher-characteristics


ایک پرانا لیکن سچا قصہ یوں ہے کہ کوئی مہتمم تعلیمات ایک تحتانیہ مدرسہ کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے۔ بچے ہیں کہ شور و شغب اور کھیل کود میں مصروف ہیں۔ استاد ہیں کہ بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ مہتمم صاحب کو غصہ آنا ضروری تھا، کہا:
مولوی صاحب! میں چاہتا ہوں کہ مدرسہ میں PIN DROP SILENCE ہو"۔
استاد نے جواب دیا:
"ایسی خاموشی آپ کو صرف قبرستان میں مل سکتی ہے، یہ بچوں کا اور زندگی کا مدرسہ ہے"۔

استاد کو دو فائدے ایسے حاصل ہیں جو کسی بڑے سے بڑے آدمی کو حاصل نہیں، ایک تو اس کا تعلق راست چلتی پھرتی، اچھلتی کودتی زندگی سے ہوتا ہے۔ طلبہ چاہے بچے ہوں کہ بڑے، ان کی بے پناہ توانائیاں ، جذبات، شوخیاں اور شرارتیں اسکول کی فضا کو بےحد حسین بنائے رکھتی ہیں۔ استاد کا تعلق راست اسی بجلی کے تار سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل و دماغ کی روشنی تیز ہوتی جاتی ہے۔ اس کی روح اور جذبات کو ایسی غذا ملتی ہے جس سے وہ سرشار رہتا ہے۔
بہت سے قابل ترین لوگ ہیں جو کسی دفتری کام یا کاروبار میں لگ گئے ہیں، انہیں اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کا شاید ہی کبھی موقع ملتا ہو۔ ان کی باتیں ان کے دل ہی میں رہ جاتی ہیں، وہ ایک قسم کی گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ شخصیت کی نشو و نما کے لئے اظہار ضروری ہے اور استاد کو یہ موقع ساری زندگی نصیب رہتا ہے۔ وہ اپنی جماعت میں سبق ہی نہیں پڑھاتا بلکہ سبق کے دوران اپنے دل کی بات کچھ اس طرح پہنچا دیتا ہے جو طلبہ کی شخصیت کے نکھار اور ابھار کے لئے وہی بات ان کی زندگی کا اثاثہ بن جاتی ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال شیر کشمیر شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح حیات "آتش چنار" میں دی ہے۔ وہ اپنے قیام علی گڑھ کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں؛
’’وہ واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولے گا، جو ہمارے استاد فلسفہ یم یم شریف کی ذات سے وابستہ ہے ، انہوں نے ایک بار طلبہ سے خطاب کیا انہوں نے نصیحت کی کہ اپنے جائز حقوق کے لئے کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ ان کی زبان میں ایک رعد کی کیفیت تھی اور یہ بات ان کی زبان سے نکلی اور میرے دل میں ترازو ہو گئی۔۔ میں نے زندگی کے مشکل مرحلوں میں اسے یاد کیا ہے۔۔"

اچھا استاد پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے، وہ اپنے مضمون میں نہ صرف کمال پیدا کرتا ہے، بلکہ مختلف طریقہ ہائے تعلیم سے وہ اچھی طرح واقف رہتا ہے۔ وہ اچھے اساتذہ سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور پڑھانے میں اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہے۔
ماہرین تعلیم جانتے ہیں کہ پڑھانا بھی ایک فن ہے بلکہ ہر اچھا سبق آرٹ کا نمونہ ہوتا ہے۔ پڑھانا یہ نہیں کہ :
"کوئی شخص ایک بکٹ پانی دوسری بکٹ میں انڈیل دے" (ہمایوں کبیر)
اور نہ ذاکر صاحب کی زبان میں:
"استاد کی نوٹ بک سے طالب علم کی نوٹ بک میں منتقل کر دے۔۔"

تعلیم کا ذریعہ ذہن و دماغ اور روح کے راستوں سے ہے۔ استاد کے ذہن کی رسائی طلبا کے ذہن تک ضروری ہے ، جو بظاہر بہت پیچیدہ ہے۔ جس کا بیان الفاظ میں آسان نہیں۔ یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ استاد کو اپنے پیشہ سے عشق ہو ، اخلاص ہو، خون جگر دیا ہو، ورنہ
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

آخر استاد طلبا کو کیا دیتا ہے؟
وہ سب اسباق جو اس نے پڑھائے ہیں، وہ تو سب چند دن کے اندر اندر امتحان کے ساتھ ہی دل و دماغ سے غبار خاطر کی طرح اڑ جاتے ہیں، صرف چند باتیں اور یادیں رہ جاتی ہیں۔
اچھا استاد طلبہ میں غیر محسوس طریقہ سے رواداری، دوسروں کے ساتھ رہنے بسنے، اچھے شہری بننے اور چند بنیادی اقدار سے واقف کرا دیتا ہے جیسے حسن و خوبی کی پرکھ، سچائی کی تلاش کا جذبہ اور نیکی پر عمل کرنے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
یہی وہ سب اجزا ہیں جو شخصیت کا حصہ بن جائیں تو ہم کلچر کہتے ہیں۔ اسی کو غلام السدین "روحِ تہذیب" کہتے ہیں۔ اسی کو رادھا کرشن
FARGRANCE OF THE SOUL (روح کی خوشبو)
کہتے ہیں۔

اچھے استاد کی پہچان کسی صدر ادارہ یا ماہر تعلیم کے لئے بھی مشکل ہے۔ اس کی کسوٹی چھوٹے معصوم بچوں سے لے کر یونیورسٹی سطح کے طلبہ ہی ہو سکتے ہیں۔ کسی چھوٹے بچے سے پوچھئے تمہارے ہاں کون سب سے اچھے ٹیچر ہیں، وہ فوراً نام بتا دے گا۔ اب پوچھئے ان میں کیا خاص بات ہے؟ وہ کچھ سوچے گا، سر ہلائے گا، لیکن کچھ کہہ نہ سکے گا۔
بچوں میں اپنے ٹیچر کو جانچنے اور پرکھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے ، وہ ٹیچر کی ذات میں وہ سب کچھ دیکھ لیتے ہیں۔ جو شاید ٹیچر بھی اپنے متعلق نہ جانتا ہو۔ ان کے نزدیک جو اچھا ہے وہی اچھا استاد ہے، طلبہ اس کی عظمت سے واقف نہیں لیکن اس کی عزت و محبت ان کے دل میں گھر کر جاتی ہے۔ اچھے استاد کے لئے دنیا کا کوئی انعام اس سے بڑا نہیں ، استاد کو یہ عزت و شہرت بس یونہی حاصل نہیں ہو جاتی وہ خاموش اپنے پیشہ میں کوئی تہائی صدی تک مصروف رہتا ہے۔

اس کا کام کوئی دو چار دن، دو چار مہینوں میں ختم نہیں ہوتا۔ اس کے مزاج کو طوفانی ہواؤں سے کوئی نسبت نہیں، وہ ایک نسیم سحری ہے جو بہت خراماں خراماں چلتی رہتی ہے۔ نہ اس کا نام اخباروں میں آتا ہے اور نہ اسے کوئی پھولوں کے ہار پہناتا ہے۔ وہ ایک گمنام اور نیک نام شخصیت کا مینار ہے، اس کا کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ برسوں کی عرق ریزی کے بعد بے ہنگم پتھروں کو تراش کر وہ ہیروں میں تبدیل کرتا رہتا ہے۔
اس کی ذات ہمدردی اور محبت کا جیتا جاگتا سرچشمہ ہوتی ہے۔ مشہور زمانہ ماہر تعلیم پستالوزی کے متعلق مشہور ہے کہ جب وہ کلاس روم میں داخل ہوتا تو چھوٹے بچوں کو پہلے سلام کرتا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو جواب دیا:
"مجھے معلوم نہیں کہ ان بچوں میں کون بڑا فلسفی کون بڑا آدمی یا معلم انسانیت بیٹھا ہوا ہے میں شاید اس وقت ان کی تعظیم کے لئے زندہ نہ رہوں گا"۔

ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے ہیں:
"جب سب لوگ کسی بچہ کی تعلیم و تربیت سے مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر بھی دنیا میں دو آدمی ایسے ہیں جو اس بچہ سے مایوس نہیں ہوتے، ایک اس کی ماں اور دوسرا شفیق استاد۔

ماخوذ از کتاب: تعلیم - ایک تحریک ایک چیلنج
مصنف: محمد اسحاق
چھٹا ایڈیشن: اگست 2007

A good Teacher, how and why?. Article: Mohammad Ishaque.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں