جوش صاحب بڑے شاعر ہی نہیں بڑے مکتوب نگار بھی ہیں - خامہ بگوش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-03

جوش صاحب بڑے شاعر ہی نہیں بڑے مکتوب نگار بھی ہیں - خامہ بگوش

mushfiq-khwaja-on-josh


مولانا کوثر نیازی کی کتاب "جنہیں میں نے دیکھا" پر ہم نے جو کلام لکھا تھا، اس میں جوش صاحب کے ایک خط بنام مولانا کوثر نیازی پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے عرض کیا تھا:
"جوش صاحب کا زندگی بھر یہ معمول رہا کہ وہ اپنے کام نکلوانے کے لئے اسی قسم کے خطوط لکھتے تھے۔ جوش صاحب اور سر راس مسعود کی خط و کتابت جن لوگوں کی نظر سے گزری ہے ، وہ جوش صاحب کے اس اسلوب خاص سے واقف ہوں گے۔۔۔"

اس سلسلے میں ہمارے ایک غائبانہ کرم فرما اظہر عباس رضوی صاحب (کراچی) اپنے گرامی نامے میں تحریر فرماتے ہیں:
"جہاں تک مجھے معلوم ہے حضرت جوش کے سر راس مسعود سے کبھی تعلقات نہیں رہے۔۔ جوش صاحب نے "یادوں کی برات" میں بے شمار جاننے والوں کا ذکر کیا ہے ، لیکن راس مسعود کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ اگر دونوں میں تعلقات ہوتے تو جوش صاحب اتنی بڑی شخصیت کو کبھی نظر انداز نہ کرتے۔ کئی رسالوں کے جوش نمبر شائع ہوئے ہیں۔ یہ سب میری نظر سے گزرے ہیں، کسی نمبر میں بھی جوش اور راس مسعود کے تعلقات کا حوالہ نہیں ملتا۔ اس صورت میں دونوں کی خط و کتابت کا جو آپ نے ذکر کیا ہے، وہ کہیں کسی غلط فہمی کی بنا پر تو نہیں ہے ، اگر آپ "تکبیر" ہی میں اس کی وضاحت کر دیں تو میری طرح بہت سے قارئین کو صحیح صورتحال معلوم ہوجائے گی۔"

گزارش ہے کہ ہم نے کوئی من گھڑت بات نہیں لکھی تھی۔ جوش اور سر راس مسعود کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی تھی، وہ شائع ہو چکی ہے۔ جوش صاحب کے اصل خطوط اور راس مسعود کے جوابات کی نقلیں بزرگ ادیب جناب جلیل قدوائی کے پاس موجود ہیں اور وہ انہیں دو مرتبہ چھپوا چکے ہیں۔ ایک مرتبہ انجمن ترقی اردو کے رسالے "قومی زبان" میں اور دوسری مرتبہ راس مسعود سوسائٹی کی طرف سے شائع کردہ ایک کتاب میں۔ ان دونوں مطبوعات کی اشاعت چونکہ ایک محدود حلقے تک رہی اس لئے عام ادبی حلقوں میں ان خطوں کی شہرت کچھ زیادہ نہ ہو سکی۔

یہ خیال درست نہیں کہ"یادوں کی برات" میں راس مسعود کا ذکر نہیں ملتا۔ جوش صاحب نے دیگر شخصیات کی طرح راس مسعود پر الگ باب نہیں لکھا، لیکن حیدرآباد دکن میں ملازمت حاصل کرنے کے ضمن میں تین جگہ ان کا نام لیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ انہیں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا۔ جوش صاحب کو حیدرآباد دکن میں ملازمت دلانے میں اور لوگوں کے ساتھ راس مسعود کا ہاتھ تھا، لیکن حیدرآباد چھوڑنے کے بعد جوش صاحب ایک خاص وجہ سے، جس کا ذکر آگے آئے گا، راس مسعودکو ناپسند کرنے لگے تھے۔ اسی ناپسندیدگی کا اظہار "یادوں کی برات" میں ملتا ہے۔ جوش صاحب نے لکھا ہے کہ مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے کہنے پر سر راس مسعود نے انہیں سر اکبر حیدری سے ملوایا تھا۔ لیکن ان دونوں نے جوش صاحب کی "حق گوئی و بے باکی" کی وجہ سے ملازمت کے حصول میں ان کی کوئی مدد نہ کی۔

سر راس مسعود کا یہ قاعدہ تھا کہ ان کے نام شاعروں ادیبوں کے جو خطوط آتے تھے ، وہ انہیں محفوظ رکھتے تھے۔ جواب میں جو کچھ لکھتے تھے اس کی نقل بھی اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ راس مسعود کے ذاتی کاغذات کا بڑا حصہ جناب جلیل قدوائی کے پاس محفوظ ہے۔ ہماری درخواست پر قدوائی صاحب نے جوش صاحب کے اصل خطوط اور ان کے جوابات سے استفادہ کرنے کی اجازت دی ، جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
اس مراسلت کا پس منظر یہ ہے کہ حیدرآباد دکن سے اخراج کے بعد جوش صاحب کے مالی حالات اچھے نہ رہے۔ سر راس مسعود اس زمانے میں ریاست بھوپال میں تھے، جوش صاحب نے انہیں مالی امداد کے لئے خط لکھا۔ راس مسعود نے اس خط کا حوصلہ افزا جواب دیا۔ جوش صاحب نے "جواب الجواب" 15/اکتوبر 1935ء کو لکھا، جب وہ مختصر قیام کے لئے ریاست دھول پور میں تشریف رکھتے تھے۔ اس خط میں جوش صاحب فرماتے ہیں:
"آپ کے مکتوب گرامی نے میرے دل سے وہی سلوک کیا ہے ، جو مرہم زخم سے اور ابر برشگال پیاسی زمین سے کرتا ہے۔ نتیجہ خواہ کچھ ہو کہ نہ ہو، آپ میری دستگیری کی سعی میں کامیاب ہوں یا ناکام، مگر یہ کیا کم ہے کہ آپ نے میری بات تو پوچھی ، امداد پر آمادگی تو ظاہر ہوئی ، مشفقانہ لہجے میں خط کا جواب تو دیا۔ کیا میرے تاحیات احسان مند رہنے کے لئے یہ کافی نہیں ہے ؟ اپنی حالت کیا عرض کروں، اگر تنہا ہوتا ہوں تو بڑی سے بڑی مصیبت کا حقارت آمیز تبسم سے خیر مقدم کرتا اور ہر عظیم سے عظیم بلا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضحکہ اڑاتا، مگر کیا کروں مجبور ہوں اہل و عیال سے۔ باپ نے ، جب میں نو برس کا تھا، میرا نکاح کر دیا تھا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی تمام دولت و ثروت ان کے گھر سے چلی جائے گی۔ مجھے آج تک اپنے سہرے کی لڑیوں کی خوشبو یاد ہے، کتنی دلفریب تھی، مگر آج وہی ذریعہ بنی ہوئی ہے میری پریشاں خاطر یوں کا۔
میرے محترم! مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ آبائی جائیداد تو پہلے ہی تلف ہو چکی تھی، اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ، حیدرآباد میں جگہ مل گئی تھی، سو وہ بھی سازشوں کی نذر ہو گئی۔ اب میں ہوں اور بے کسی، میرے مریض اہل و عیال ہیں اور کسمپرسی۔ دھول پور میں اپنے ماموں کے وہاں پڑا ہوا ہوں۔ ماموں سوتیلے نہیں حقیقی ہیں۔ لیکن جس طرح جی رہا ہوں، اس سے موت بہتر ہے۔ واضح رہے کہ ماموں جان کی آمدنی ڈھائی ہزار روپے ماہوار ہے۔ کیا آ پ کو عبرت نہیں ہوگی؟ میں آپ کو زیادہ زحمت دینا نہیں چاہتا، صرف اس قدر درخواست کرتا ہوں کہ بھوپال وغیرہ سے میرے رسالے کے واسطے اتنی مدد کرا دیجئے کہ میں فراغت سے زندگی بسر کر سکوں۔ رسالے کے اخراجات پانچ سو روپے ماہوار سے کم نہیں ہیں۔ سر لیاقت حیات خان وزیر پٹیالہ نے پٹیالے سے ایک مستقل ماہانہ امداد کا وعدہ فرما لیا ہے۔ پنڈت کیلاش نرائن صاحب ہاکسر بھی گوالیار سے امداد دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگر بھوپال یا دو تین جگہیں اور ملا کر آپ ڈھائی سو روپے ماہوار کی مستقل ادبی امداد کا بندوبست کر دیں تو میرے مصائب کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا کرسکیں گے؟
میں ایک بار اور عرض کروں کہ میرے تمام عمر احسان مند رہنے کے واسطے آپ کی پرسش ہی بہت کافی ہے۔ کیا ایک محبت کی نگاہ، تمام دنیا کے خزانوں پر بھاری نہیں، اور کیا ایک مخلصانہ تبسم، تمام عالم کے زروگوہر سے زیادہ گراں قیمت نہیں؟ خدا کرے آپ اچھے ہوں ، میں اور میرے متعلقین میں سے کوئی بھی اچھا نہیں۔
معتوبِ قدرت، جوش۔"

سر راس مسعود نے 17/اکتوبر 1935ء کو اس خط کا جواب لکھا اور ہر ممکن امداد کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد سال بھر کی مراسلت محترم جلیل قدوائی صاحب کے پاس نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دورن میں سر راس مسعود نے ضرور کچھ نہ کچھ امداد کی ہوگی۔ ورنہ 20/دسمبر 1935ء کو جوش صاحب اپنے رسالے "کلیم" کی مدد کے لئے خط نہ لکھتے۔ اس خط کے ساتھ جوش صاحب نے "کلیم" کا ایک شمارہ بھی بھیجا اور اس رسالے کی توسیع اشاعت کی درخواست کرتے ہوئے لکھا۔
"1۔ کیا آپ اپنے محکمے میں کچھ پرچے خرید سکتے ہیں؟
2۔ دوسری ریاسوں کو توجہ دلاسکتے ہیں؟
3۔ دیگر احباب کو خط لکھ کر براہ بندہ نوازی مجھے روانہ فرما سکتے ہیں؟"

سر راس مسعود نے اس کے جواب میں وعدہ کیا کہ وہ رسالے کے سلسلے میں مدد کریں گے ، اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا:
"(رسالے) میں جو آپ نے تصاویر شائع کی ہیں وہ کم سے کم مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتیں، آرٹ میں اور ننگ میں زمین و آسمان کا فرق ہونا چاہئے۔ اور اگر آپ نے احتیاط شروع ہی سے نہ کی تو آپ کسی قسم کی کوئی خصوصیت آرٹ کے لحاظ سے اپنے رسالے میں پیدا نہ کر سکیں گے۔ جہاں تک ہو، لاہور کے رسالوں کی نقالی نہ کیجئے۔"

اس کے بعد خط و کتابت میں پھر تقریباً ایک سال کا وقفہ ہے۔ راس مسعود نے مدد کر دی ہوگی، اس لئے جوش صاحب نے مراسلت موقوف کر دی۔ 30/اکتوبر 1936ء کو ایک مرتبہ پھر جوش صاحب نے خط و کتابت کا آغاز کیا اور یہ خط لکھا:
"اخی محترم۔ اگر میرے حالات غیر متوقع طور پر یکایک انتہائی نازک صورت اختیار نہ کرلیتے اور معاملات کی نوعیت دفعۃً خطرناک نہ ہو جاتی، تو میں ہرگز آپ کی خدمت میں یہ تحریر نہ روانہ کرتا۔ مصیبت، ایک دن کا بھی نوٹس دیے بغیر ، مجھ پر اس طرح اچانک طور سے نازل ہو گئی ہے کہ اگر کسی فوری امداد نے مجھے نہ سنبھال لیا تو۔۔
1۔ میرا پرچہ پلک جھپکتے ہی بند ہو جائے گا۔
2۔ جن چندوں کی میعادیں باقی ہیں، وہ میری روح پر ایک ابدی عذاب بن کر طاری ہو جائیں گے اور میں تاحیات شرم سے آنکھیں نہ اٹھا سکوں گا۔
3۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی میں کوئی مستقبل باقی نہیں رہے گا۔
مصائب تو اس نامراد زندگی میں ہر آن نازل ہوا کرتے ہیں، مگر ایک ایسی ہولناک مصیبت کا یکایک نازل ہو جانا، جس کا ایک روز پیشتر تک گمان بھی نہ ہو مصیبت نہیں موت ہوا کرتا ہے۔
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
اس وقت میرے سامنے اپنی فلاح و بہبود اور ترقی کا نہیں بلکہ اپنی عزت و حرمت اور مستقبل کا سوال پیش ہے۔ اگرآپ کے نزدیک میری عزت اور میرا مستقبل کوئی معنی رکھتا ہے تو براہ اخوت و کرم جلدخبر لیجئے۔ ورنہ
پس ازاں کہ من تماتم بچہ کار خواہی آمد"

اس کے جواب میں 23/نومبر 1936ء کو سر راس مسعود نے لکھا:
" یہ پڑھ کر بے حد افسوس ہوا کہ آپ کی عزت، حرمت اور مستقبل خطرے میں ہیں، لیکن چونکہ اور کچھ آپ نے نہیں لکھا تو میں یہ نہ سمجھ سکا کہ ایسا کیوں ہوا۔ یہ تو آپ نے تحریر فرمایا کہ آپ کو فوری امداد کی بے حد ضرورت ہے۔ لیکن یہ نہیں لکھا کہ کس قسم کی امداد کی آپ کو ضرورت ہے۔ آپ کے عنایت نامہ کو میں نے دوبارہ پڑھا، لیکن پھر بھی اس کے سمجھنے سے قاصر رہا کہ اصل صورتحال کیا ہے۔ آپ مجھے صاف صاف لکھئے تاکہ میں کوئی رائے قائم کر سکوں کہ آپ کے واسطے کیا کیا جا سکتا ہے۔"

جوش صاحب نے 28/نومبر 1936ء کو اس خط کا یہ جواب لکھا:
"اخی محترم۔ کل لکھنو سے سولہویں دن واپس آکر آپ کا مکتوب گرامی ملا۔ ہم نامراد لوگوں کا حال بچوں کا سا ہے۔ جب تک ہم بھوکے نہیں ہوتے، کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں اور دین و دنیا کی پروا نہیں کرتے۔ لیکن بھوک لگتے ہی رونے لگتے ہیں۔ میرے خط کا مفہوم آپ اسی بنا پر نہیں سمجھ سکے کہ وہ خط نہ تھا بلکہ بچے کا بھوک میں رونا تھا۔ اب مختصراً میرا حاصل سنیئے۔
"کلیم" میں جو صاحب شریک تھے، بوجوہ ان کی شرکت ختم ہو گئی ہے اور ان کا مجھ پر پانچ ہزار کا مطالبہ نکلا ہے۔ اگر آپ اس مطالبے یا اس کے کسی حصے کے ادا کرنے میں میری مدد فرما سکتے ہوں تو براہ اخوت و کرم تاخیر نہ فرمائیں ، ورنہ میرا رسالہ بند ہو جائے گا اور میں دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ اس کے علاوہ میری آپ کی خدمت میں یہ بھی درخواست ہے کہ براہ بندہ نوازی بھوپال یا بھوپال کے ساتھ دو ایک اور ریاستوں کو ملاکر ڈیڑھ سو روپے میری ماہانہ ادبی پنشن مقرر کرا دیجئے تاکہ میں پبلشروں اور ناشروں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے کی دردناکی سے نجات حاصل کرلوں۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ نے دوسروں کے ساتھ بہت کچھ کیا ہے، اور میرا عقیدہ ہے کہ اگر آپ دل پر رکھ لیں گے تو میری پنشن بھی مقرر کرا سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آپ میری درخواست کو درخورِ اعتنا نہ سمجھ کر معذرت فرما دیں۔ میں زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہوئے شرماتا ہوں ، صرف اس قدر لکھنے پر اکتفا کروں گا کہ میرے حالات خوفناک حد تک نازک ہو چکے ہیں اور اگر آپ نے خدانخواستہ توجہ نہ فرمائی تو میری اور میرے اہل و عیال کی حالت سن کر آپ ہمیشہ رنج کرتے رہیں گے۔
تھوڑی سی زندگی تھی بہر طور کٹ گئی
تم کو جو ہم پہ رحم نہ آیا تو کیا ہوا
میری پالی پوسی بچی کو ایک برس سے بخار آ رہا ہے۔ میں کم بخت اس کا علاج بھی نہیں کر سکتا ہوں۔
آپ کا، جوش"

سر راس مسعود نے اس خط کا جواب نہیں دیا ، وجہ ظاہر ہے کہ جوش صاحب نے گھر دیکھ لیا تھا، آئے دن کے مطالبات سے راس مسعود صاحب تنگ آ گئے ہوں گے۔ راس مسعود کی خاموشی کو جوش صاحب نے اپنے شاعرانہ وقار کے منافی سمجھا اور غصے کے عالم میں 14/دسمبر 1936ء کو یہ خط لکھا:
"اخی محترم! دنیاوی مراتب کا تفاوت بھی عجیب شے ہے۔ اپنے سے پست مرتبہ رکھنے والے کے خط کا جواب نہ دینا بھی ایک وقار آمیز امر سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یہ خیال تھا کہ آپ میری حالت سن کر ضرور میری امداد فرمائیں گے۔ یہ کیا جانتا تھا کہ میری درخواست کو در خور اعتنا بھی نہ سمجھیں گے۔ صاحبِ احتیاج کو نگہ کم سے نہ دیکھنا چاہئے۔ احتیاج سے خالی کون ہے؟ ایک پل میں بڑے بڑے صاحبان تاج و تخت محتاج ہو جاتے ہیں، اور ایک لمحے کے اندر کروڑ پتی بھیک مانگنے لگتے ہیں۔
نواب مسعود بہادر جنگ! زمانے کو آنکھ پھیرنے میں نہ دیر لگتی ہے نہ زحمت ہوتی ہے۔ کل کی بات ہے کہ میرے باپ دادا بھی "نواب" اور "جنگ" و "بہادر" تھے۔ آج میں آپ کی خدمت میں امداد کے واسطے خطوں پر خط لکھتا ہوں، آپ پرواہ بھی نہیں کرتے، آدمی کو ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے۔ اس دنیا میں کتنے لوگ رات کو بادشاہ کی صورت سے سوتے ہیں اور صبح کو گداگر کی حیثیت سے بیدار ہوتے ہیں۔
ناز کم کن کہ در ایں باغ کسے چوں تو شگفت

آپ کی نظروں میں صرف ایک صاحب حاجت۔
نیاز مند
جوش"

20/دسمبر 1936ء کو سر راس مسعود نے اس خط کا یہ جواب دیا:

"مکرمی جناب جوش صاحب! تسلیم۔
آپ کے دونوں خط یعنی مورخہ 28/نومبر و 14/دسمبر 1936ء بھوپال واپس آنے پر ملے۔ آخر الذکر خط کو پڑھ کر اور آپ کی طرز تحریر دیکھ کر میرے دل کو رنج ہوا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ کبھی کوئی بدتمیزی کا برتاؤ کیا ہو۔ اگر یہ امر آپ کے پیش نظر رہتا تو آپ یہ سمجھ جاتے کہ کوئی خاص وجہ ہوگی کہ آپ کے خط کے جواب میں اتنی تاخیر لگی اور آپ مجھ کو وہ دھمکیاں نہ لکھتے ، جو آپ نے اپنے 14/دسمبر والے خط میں لکھی ہیں اور جنہیں پڑھ کر میرے اس خیال میں بےحد تبدیلی ہو گئی، جو کہ آپ کی نسبت میں رکھتا تھا۔ میں نہ صاحب دولت ہوں ، نہ اس ریاست کے خزانے کا مالک کہ آپ کے پاس پانچ ہزار روپے کی رقم روانہ کر سکوں تاکہ آپ اپنے قرضے سے نجات پائیں۔ آپ کے معاملے کو میں اعلیٰ حضرت فرماں روائے بھوپال کے حضور پیش کرچکا ہوں اور جو جواب ملا اس سے آپ کو اپنے خط مورخہ 11/نومبر 1935ء کے ذریعے مطلع کر چکا۔ کوئی اور تدبیر آپ کی مدد کے لئے میری سمجھ میں نہیں آتی۔
خاکسار
راس مسعود"

اس کے جواب میں جوش صاحب نے 3/جنوری 1937ء کو یہ خط لکھا اور اس کے ساتھ ہی یہ خط و کتابت ختم ہو گئی۔

"محترمی۔ آپ فرماتے ہیں میں نے اپنے خط میں آپ کو 'دھمکی' دی ہے۔ اگر آپ غور فرمائیں گے تو یہ باآسانی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جس شے کو آپ 'دھمکی' کا لقب دے رہے ہیں، وہ 'دھمکی' نہیں ہے۔ بلکہ اسے عبرت دلانے کے سوا اور کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کے بعد آپ نہایت تلخ لہجے میں فرماتے ہیں کہ بھوپال کا خزانہ میرے قبضہ میں نہیں ہے کہ آ پ کا قرض ادا کردوں۔ اگر آپ تھوڑا سا غور فرماتے تو اس مفہوم کو بہتر اور نرم الفاظ میں بھی ادا کرسکتے تھے۔ صاحبِ حاجت کو جھڑک دینا کسی شریعت میں بھی رو ا نہیں رکھا گیا ہے۔
آخر میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی میرے متعلق رائے بدل گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی نادر بات نہیں۔ راست گفتاری ہر شخص برداشت نہیں کر سکتا۔ 'حق' کڑوا ہوتا ہے۔ اگر آپ کا ذائعہ بھی خراب ہو گیا ہو تو کون سی تعجب کی بات ہے ، اس سے پیشتر جب کہ آپ میرے متعلق اچھی رائے رکھتے تھے، اس وقت آپ نے میرے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا تھا کہ اب تبدیلی رائے کا افسوس ہو۔ میں آپ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچا دینا چاہتا ہوں کہ میرا قرض ادا ہو گیا اور اس کے ساتھ ایک ریاست سے میرا ادبی وظیفہ بھی جاری ہو گیا۔ اس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بھوپال کے خزانے اور سر راس مسعود کی ہمدردی کے بغیر بھی لوگوں کا کام چل سکتا ہے اور ابھی دنیا ہمدرد افراد سے خالی نہیں ہو گئی ہے۔
ع تم کو جو ہم پہ رحم نہ آیا تو کیا ہوا
نیاز مند
جوش"

اس خط و کتابت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جوش صاحب نے "یادوں کی برات" میں سر راس مسعود کا ذکر اچھے لفظوں میں کیوں نہیں کیا۔

(27/جولائی 1989ء)

ماخوذ از کتاب:
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق

Khama Bagosh on Josh Maleehabadi. Column: Mushfiq Khwaja [khama-bagosh].

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں