محمد شفیع الدین نیر - ایک مطالعہ از اطہر پرویز - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-05

محمد شفیع الدین نیر - ایک مطالعہ از اطہر پرویز - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ


شفیع الدین نیر (پ: 9/فروری 1903 ، م: 30/جنوری 1978)
کا نام ادب اطفال میں بچوں کے عظیم شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ انہوں نے بچوں کے لیے جو کچھ بھی لکھا وہ نہایت دلچسپ تھا اور مفید بھی۔ بقول ڈاکٹر ذاکر حسین، بچوں کے لیے شفیع الدین نیر نے جو نظمیں لکھی ہیں وہ ان کا نہایت ہی بیش قیمت کارنامہ ہے۔
آج کی نئی نسل کو بچوں کے اس عظیم شاعر کے فن اور شخصیت سے واقف کرانے کے لیے ان کی سوانح پر مبنی ایک مختصر مگر دلچسپ کتاب پیش ہے جس کے مصنف جناب اطہر پرویز ہیں جو بچوں کے مقبول رسالہ "پیام تعلیم" کے مدیر رہ چکے ہیں اور شفیع الدین نیر سے ان کے تقریباً 25 سالہ تعلقات قائم تھے۔
تعمیرنیوز کی جانب سے یہی دلچسپ سوانحی کتابچہ اہل ذوق قارئین کے مطالعہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ تقریباً 80 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 3 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے ہیں ۔۔۔
نیر صاحب میں، بچوں کے ذہن کو سمجھنے اور محبت کرنے کی وہ صفت ہے جو پیدائشی معلم کا جوہر ہوتی ہے۔ نیز ذوقِ ادب اور ذوق جمال کی سمت بچوں کی رہنمائی کے لیے جس صلاحیت کی ضرورت ہے وہ ان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ بچوں کے لیے جو نظمیں انہوں نے لکھی ہیں وہ ایک پیش رو کی حیثیت سے ان کا نہایت ہی بیش قیمت کارنامہ ہے۔ انہوں نے وہ میدان سر کیا ہے، جسے سر کرنے کی بہت ہی کم اصحاب نے جرات کی ہے۔ ان کی نظموں نے تعلیم کے خشک کام کو خوشگوار بنا دیا ہے۔ ان بچوں میں بھی ادبی دلچسپی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو دوسرے مضمونوں کی طرح مادری زبان کی تحصیل کو غیر دلچسپ سمجھتے تھے۔

اسی کتاب سے کچھ اقتباسات ۔۔۔
مولوی محمد شفیع الدین نیر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1954ء میں ایم۔اے اردو کا امتحان دیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی سفارش پر اربابِ جامعہ نے انہیں مدرسہ ثانوی سے کالج میں بحیثیت لکچرر منتقل کر دیا۔ یہاں انہوں نے بڑی محنت سے پڑھایا اور طالب علموں میں ان کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ یہاں انہوں نے چودہ (14) سال تک خدمت کی اور 1969ء میں ریٹائر ہوئے۔

نیر صاحب "پیام تعلیم" میں پابندی سے لکھتے تھے۔ جب بھی میں ان کو رسالہ پیش کرتا، اس کا ایک ایک لفظ پڑھتے اور اگلے روز مجھے اپنی رائے دیا کرتے تھے۔ یہ رائے دینے وہ میرے گھر آتے، بچوں کے ادب کی کسمپرسی کے بارے میں باتیں کرتے، لیکن خود کبھی ہمت نہ ہارتے۔ نیر صاحب کے اندر صلاحیت تھی کہ بڑوں کے لیے بہت کچھ لکھ سکتے تھے، لیکن انہوں نے اپنی ساری صلاحیت کو بچوں کے ادب کے لیے استعمال کیا۔ ایک بات یہ کہ ان کا غالب کا مطالعہ بہت اچھا تھا۔ میں ان سے اکثر کہا کرتا تھا کہ آپ غالب کے بارے میں بڑوں کے لیے کچھ لکھیں۔ جب میں موریشس میں تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ نیر صاحب نے غالب پر کوئی کتاب لکھی ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ نیر صاحب نے بالآخر غالب پر قلم اٹھایا۔ لیکن پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہ کتاب بھی بچوں کے لیے ہے۔ نیر صاحب اس راز سے واقف تھے کہ ادب میں شہرت اور عزت بڑوں کے ادب سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بعد ذرا ذائقہ بدلنے کے لیے بچوں کے لیے بھی لکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ پھر وہاں بھی بڑی آسانی سے جگہ مل جاتی ہے۔ لیکن نیر صاحب نے کبھی شہرت اور عزت کی پروا نہیں کی۔ انہوں نے بچوں کے لیے اور صرف بچوں کے لیے لکھا۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ بچوں کے ادب کی تخلیق میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ یہاں ایک ایک لفظ پر محنت کرنی پڑتی ہے۔ لفظوں کی نشست و برخاست کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لیکن بچوں کے ادب کی کانفرنسیں نہیں ہوتیں۔ اس کے سمینار نہیں ہوتے۔ اس میں صدر جمہوریہ، وزیراعظم اور دوسرے اکابرین سے ملنے کا موقع نہیں ملتا۔ بچوں کی نظمیں اور کہانیاں سننے کے لیے جلسے نہیں ہوتے۔ لیکن نیر صاحب نے ان کی پروا نہیں کی۔ وہ ان سے بےنیاز اپنی بچوں کی دنیا میں مست رہے۔

نیر صاحب نے بڑی صاف ستھری زندگی گزاری۔ ان کی زندگی ایک سیدھی لکیر تھی۔۔ ایک صراط مستقیم۔۔ ان کی عمر کو ہم بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے خانوں میں نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے کہ ان کی زندگی میں کبھی کوئی موڑ نہیں آیا۔ بچپن سے بڑھاپے تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ بچوں کی طرح ہمیشہ معصوم رہے۔ انہوں نے اپنی فطرت کو کبھی آلودہ نہیں کیا۔ علم کا شوق بچپن سے تھا، بڑھاپے تک رہا۔ ایسے آدمی روز روز پیدا نہیں ہوتے جو اپنے بچپن کو اس خوبصورتی کے ساتھ بچا کر لے جائیں کہ اس کے صاف ستھرے شیشے پر کوئی بال نہ آئے۔۔۔
نیر صاحب نے بڑے سچے دل سے یہ بات کہی ہے:
"میرا جی بس ہی چاہتا ہے کہ ہر بچہ بچپن ہی سے محنت کی عادت ڈالے۔ وہ دشواریوں میں ہمت نہ ہارے تاکہ وہ اپنی، اپنے کنبے، اپنی قوم اور سب انسانوں کی خدمت بہتر سے بہتر انداز میں کر سکے۔"

ایسے انسان اس معاشرے میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ میں جب نیر صاحب کو یاد کرتا ہوں تو مجھے ہمیشہ ٹیگور کا یہ شعر یاد آتا ہے:
جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو میں سوچتا ہوں
کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ہے

***
نام کتاب: محمد شفیع الدین نیر - ایک مطالعہ
از: اطہر پرویز
تعداد صفحات: 82
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 3 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Shafiuddin Nayyar by Athar Parvez.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Shafiuddin Nayyar by Athar Parvez, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں