بابری مسجد - کچھ یادیں کچھ باتیں : معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-05

بابری مسجد - کچھ یادیں کچھ باتیں : معصوم مرادآبادی


اب جبکہ بابری مسجد کی اراضی پر عالیشان رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو رہا ہے تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس بابری مسجد کی بھی یاد تازہ کی جائے جسے حالیہ عرصہ میں میڈیا نے حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی ہے۔
ان دنوں رام مندر اور اس کی تعمیر سے جڑی خبریں جس طرح یک طرفہ انداز میں پیش کی جا رہی ہیں، انھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ بابری مسجد نام کی کوئی عبادت گاہ کبھی تھی ہی نہیں۔ اس بات کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ رام مندر کی تعمیر اس مقام پر ہو رہی ہے جہاں 6/دسمبر 1992 تک بابری مسجد ایستادہ تھی۔
یہ مسجد 1528ء میں مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے ایک غیر متنازعہ اراضی پر تعمیر کروائی تھی۔ مسجد کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد تلسی داس (متوفی 1623ء) نے اجودھیا میں بیٹھ کر جو "رامائن" لکھی تھی، اس میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو تلسی داس رامائن میں اس کا ضرور تذکرہ کرتے۔

یہ تنازعہ انگریزوں کے دور میں جان بوجھ کر پیدا کیا گیا اور شروعات بابری مسجد کے باہر ایک چبوترے سے ہوئی جسے رام چندر جی کی جائے پیدائش بتایا گیا۔ اس کے بعد 22 دسمبر 1949 کو بابری مسجد میں زور زبردستی مورتیاں رکھ دی گئیں اور یہ صریحاً جھوٹ بولا گیا کہ وہاں رام چندر جی "پرکٹ" ہو گئے ہیں۔
اس واقعہ کی جو رپورٹ اجودھیا پولیس چوکی پر تعینات ایک ہندو کانسٹبل نے درج کرائی تھی، اس میں واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ کچھ شرپسندوں نے آدھی رات کو اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد کی دیوار پھاند کر وہاں مورتیاں رکھیں۔
میں نے اجودھیا میں بابری مسجد کے امام مولانا عبدالغفار سے ملاقات کی تھی، جنھوں نے 22 دسمبر 1949کی رات کو وہاں باقاعدہ عشاء کی نماز پڑھائی تھی۔ بہرحال مسجد کا تقدس پامال کرکے وہاں تالا ڈال دیا گیا۔
اس تالے کو کھلوانے کی تحریک وشوہندو پریشد نے 1984میں شروع کی جس کے نتیجے میں یکم فروری 1986کو بابری مسجد کا تالا کھول کر وہاں عام پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی۔ مسجد کا تالا کھولنے کی کارروائی فیض آباد کی ایک عدالت کے حکم پر انجام دی گئی تھی مگر اس کے پیچھے ایک خطرناک سیاسی سازش کارفرما تھی جس کا خلاصہ بعد کے دنوں میں ہوا۔

بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد یکم فروری1987کو راقم الحروف اجودھیا گیا اور بابری مسجد میں بھیس بدل کر ایک شردھالو کے طور پر داخل ہوا۔ بھیس بدلنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ وہاں ایک انتظامی حکم نامے کے تحت بابری مسجد کے پانچ سو میٹر کے ارد گردکسی بھی مسلمان کا داخلہ ممنوع تھا۔
میں، بابری مسجد میں داخل ہوکر وہاں کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کرنے والا پہلا اردو صحافی تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تب سے اب تک میں نے اس موضوع پر جتنی رپورٹیں اور مضامین لکھے ہیں اتنے شاید ہی کسی صحافی نے کسی ایک موضوع پر لکھے ہوں۔
بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ہرپروگرام اور وشو ہندوپریشد کی تمام میٹنگوں کی رپورٹنگ کرنے کا بھی مجھے موقع ملا۔ میں نے وشو ہندو پریشد اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے پروگراموں کا باریکی سے جائزہ لیا۔
اس دوران 9 نومبر 1989 کو بابری مسجد کے روبرو ہونے والے شلانیاس کی رپورٹنگ کے لئے میں دوسری بار اجودھیا گیا اور شلانیاس کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔ میں نے بابری مسجد بازیابی تحریک اور رام جنم بھومی مکتی آندولن کے تمام سرکردہ لیڈروں کے انٹرویوز بھی لئے۔ ان تمام رپورٹوں، انٹرویوزاور مضامین کو میں نے اپنی تازہ ترین کتاب (بابری مسجد: آنکھوں دیکھا حال) میں یکجا کردیا ہے۔
240 صفحات کی یہ انوکھی دستاویز مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ ہر اس شخص کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے،جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتا ہے۔

1986 میں جب میں نے باقاعدہ صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو شاہ بانو معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تحریک دم توڑ رہی تھی اور اس کی کوکھ سے بابری مسجد کا تالا کھولنے کی تحریک جنم لے رہی تھی۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تحریک کے ختم ہونے کا اصل سبب یہ تھا کہ مسلم علماء نے آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کوایک ایسے مسودہ قانون کی منطوری پر آمادہ کرلیا تھاجو شاہ بانو معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو زائل کرسکتا تھا۔دراصل سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں عدت کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی مسلم مطلقہ خواتین کو نان نفقہ دینے کی بات کہی تھی۔
مسلمانوں نے اس فیصلے کوشریعت میں مداخلت قرار دیااور اس کے خلاف ملک گیرسطح پرمسلم پرسنل لا ء کے تحفظ کی ایک بے مثال تحریک شروع ہوگئی۔ پارلیمنٹ سے مسلم مطلقہ قانون پاس ہونے کے بعدفرقہ پرستی کا ایک ایسا جن برآمد ہوا جس نے ملک کی سیاست کا نقشہ ہی پلٹ کر رکھ دیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ حکومت "مسلم بنیاد پرستوں" کے آگے جھک گئی ہے۔
کانگریس میں موجود ارون نہرو جیسے لوگوں نے بھی راجیو گاندھی کو یہ سمجھایا کہ اس فیصلے سے ہندو بہت ناراض ہیں۔ انھیں منانے اور بات برابر کرنے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتاہے کہ بابری مسجد کا تالا کھول کر وہاں ہندوؤں کو عام پوجا پاٹ کی اجازت دے دی جائے جس کے لئے ملک میں پہلے سے ہی رام جنم بھومی مکتی آندولن چل رہا ہے۔
راجیو گاندھی نے نہ صرف اس بات کو قبول کرکے بابری مسجد کو عام پوجا پاٹ کے لئے کھولنے کی راہ ہموار کی بلکہ اس انتہائی اشتعال انگیزواقعہ کو اسی طرح سرکاری نشریاتی ادارے دوردرشن سے ٹیلی کاسٹ کرایا گیا جس طرح آج اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رامندر کے شلانیاس کو ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا ہے۔
بعد ازاں 9 نومبر 1989کو بابری مسجد کے روبرو رام مندر کے شلانیاس کرانے کی راہ بھی کانگریس نے ہموار کی اور اس کا کریڈٹ لینے کے لئے راجیو گاندھی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز فیض آباد سے یہ کہہ کر کیا کہ وہ ملک میں " رام راجیہ" قائم کریں گے۔

آج اگر بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی یہ کہہ رہے ہیں کہ رام مندر بنوانے میں اصل کردار تو راجیو گاندھی، نرسمہا راؤ اور اشوک سنگھل کا ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی تو اس کا کریڈٹ خواہ مخواہ لے رہے ہیں۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ہموار کیا ہے جو گزشتہ سال نومبر میں جسٹس رنجن گگوئی کی دستوری بنچ نے صادر کیا تھا۔ اس فیصلے میں نہ صرف یہ کہ بابری مسجد کی پونے تین ایکڑ اراضی ہندو فریق کو سونپ دی گئی تھی بلکہ وہاں رام مندر تعمیر کرنے کے لئے حکومت کوایک باقاعدہ ٹرسٹ بنانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے رام مندر کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے بابری مسجد کے بارے میں جن چار بنیادی حقائق کو تسلیم کیا تھا، ان میں ۔۔۔
پہلے نمبر پر یہ کہا گیا تھا کہ مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
نمبر دو: مسجد میں 22 دسمبر 1949 تک وہاں نماز ہوتی رہی۔
نمبر تین: رام للا پرکٹ نہیں ہوئے بلکہ وہاں مورتیاں غیر قانونی طور پررکھی گئیں۔
چوتھے یہ کہ مسجد کی مسماری ایک غیر قانونی کام تھا۔

ان تمام بنیادی حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود عدالت عظمیٰ نے فیصلہ رام مندر کے حق میں کیوں دیا؟
اس سوال کا جواب اس ہندوراشٹر کے نقشے میں ڈھونڈا جانا چاہئے جس کا سنگ بنیاد رام مندر کے شلانیاس کے ساتھ ہی رکھا جارہا ہے۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے ہندتو کو جارحیت اور ہندو احیا پرستی کی علامت قرار دینے کی بجائے اسے ایک طرز زندگی سے تعبیر کیا تھا۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک قدیم اور تاریخی مسجد کے ملبے پر تعمیر ہونے والے مندر میں وہی لوگ پوجا کریں گے جو اس ملک میں مسلمانوں کو دویم درجے کے شہری کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں اور مریادا پرشوتم رام کو رحم دلی کی بجائے خوف اور دہشت کی علامت بنانا چاہتے ہیں۔
آج یقیناً سچے ہندو اس بات پر شرمندگی محسوس کررہے ہوں گے کہ بھگوان رام کا مندر بابری مسجد کے ملبے پر تعمیر ہو رہا ہے۔

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Babri Masjid and its Memories - Column: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں