ناصر حسین - بالی ووڈ کے مایہ ناز فلمساز و ہدایتکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-16

ناصر حسین - بالی ووڈ کے مایہ ناز فلمساز و ہدایتکار



ناصر حسین کی پیدائش مدھیہ پردیش کے دارالخلافہ اور مردم خیز شہر بھوپال کے ایک زمین دار گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے وہیں حاصل کی، پھر لکھنؤ چلے گئے جہاں ان کو احتشام حسین جیسے استاد کی رہنمائی حاصل ہوئی۔ بی۔اے انہوں نے وہیں کیا۔ افسانے لکھنے کا چسکہ طالب علمی کے زمانے سے ہی پڑ چکا تھا۔ احتشام صاحب کی حوصلہ افزائی نے مہمیز کا کام کیا اور اسی زمانے میں ان کی کہانیاں اردو رسالوں میں چھپنے لگیں۔
ناصر صاحب اپنی ابتدائی کہانیوں کے تعلق سے ایک واقعہ کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"ان ہی دنوں کہانیوں کا ایک کل ہند مقابلہ ہوا تھا، جس میں میری ایک کہانی کو اول انعام حاصل ہوا۔ پھر وہ کہانی 'آج کل' میں شائع ہوئی اور مجھے اس زمانے کے لحاظ سے پندرہ روپے کا 'غیر معمولی' معاوضہ ملا۔۔۔ یہ واقعہ آزادی سے پہلے کا ہے۔"

مولانا ابوالکلام آزاد کے علمی اور مذہبی خانوادے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جس کا ذاتی پس منظر بھی خالص علمی اور ادبی ہو، فلم جیسے غیر علمی کاروبار سے کیسے وابستہ ہو گیا؟
ناصر صاحب نے اس سوال کا تفصیلی جواب یوں دیا:
گریجویشن کے بعد میں امپریل آرکائیوز (موجودہ نیشنل آرکائیوز) میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ملازم ہو گیا۔ کچھ دن بعد میری پوسٹنگ شملہ میں ہو گئی۔ شملہ جاتے ہوئے میں نے دلی میں قیام کیا۔ مولانا صاحب (ہم لوگ مولانا آزاد کو 'مولانا صاحب' ہی کہا کرتے تھے) کے بنگلے پر ٹھہرا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی تقسیم اور ترکِ وطن کے ردعمل میں چاروں طرف فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ دلی اور شملہ کے حالات کچھ زیادہ ہی مخدوش تھے۔ مولانا صاحب نے مجھے شملہ جانے سے روک دیا۔ شاید ان حالات میں وہی مناسب بھی تھا۔ اس طرح میں شملہ نہیں جا سکا۔ ان ہی دنوں میری ملاقات ڈاکٹر سید حسن سے ہوئی۔ سید صاحب کو سفیر بنا کر مصر یا غالباً ترکی بھیجا جا رہا تھا۔ انہوں نے مجھے تھرڈ سکریٹری کے عہدے کی پیشکش کی۔ میں نے ان کی پیشکش قبول کرنے سے پہلے مولانا صاحب سے اجازت لینا مناسب سمجھا۔ مگر مولانا نے اجازت نہیں دی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کسی سفیر کے تھرڈ سکریٹری کے لیے آئی سی ایس یا آئی اے ایس ہونا ضروری ہے۔ میں نے ڈاکٹر سید حسن صاحب کو مولانا کے جواب سے آگاہ کر دیا۔ سید صاحب اس جواب سے بےحد خفا ہوئے۔ کہنے لگے: 'مولانا نہ تو خود کھاتے ہیں اور نہ دوسروں کو کھانے دیتے ہیں۔ میں تمہیں اپنی ذمہ داری پر لے جانا چاہتا تھا۔' لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ بات مولانا کے علم میں آ چکی تھی اور میرے اندر مولانا کے فیصلے کو رد کرنے کی جرات نہیں تھی۔ خیر دلی سے دلبرداشتہ ہو کر میں بمبئی آ گیا۔ یہاں خواجہ غلام السیدین صاحب حکومتِ مہاراشٹرا کے مشیرِ تعلیم تھے۔ ایس۔ مکرجی سے ان کی دوستی تھی۔ سیدین صاحب نے ایس۔ مکرجی سے میرا تعارف کرا دیا اور ان کے ذریعے میرا داخلہ فلمستان میں ہوا۔ فلم رائٹر کی حیثیت سے میرے فلمی کیریر کا آغاز ہوا۔

سوال:
ناصر صاحب بمبئی کے 'فلمستان' نامی اسٹوڈیو کے بارے میں بھی کچھ بتائیں۔
جواب:
جی ہاں۔ یہ وہی فلمستان ہے جو کسی زمانے میں بمبئی کا بہت بڑا فلمساز ادارہ تھا۔ تولارام جالان اس کے مالک تھے۔ ایس۔ مکرجی پروڈیوسر تھے۔ اسی طرح کا ایک اور فلمساز ادارہ 'بمبئی ٹاکیز' بھی تھا۔ اس زمانے کے بڑے بڑے ادیب، شاعر، آرٹسٹ، ٹیکنیشنز ان اداروں سے وابستہ تھے۔ علی رضا، آغا جانی کشمیری، سبودھ مکرجی، شاہد لطیف، خواجہ احمد عباس، سعادت حسن منٹو، آئی ایس جوہر، امیہ چکرورتی، گیان مکرجی، دیویکا رانی، رینوکا دیوی اور اشوک کمار ان میں سے چند اہم نام ہیں۔ اشوک کمار تو بمبئی ٹاکیز میں باقاعدہ ملازم بھی تھے۔ اس زمانے میں یہ ادارے خاندانوں کی طرح ہوتے تھے۔ ادارے کا ہر ممبر ایک دوسرے سے خلوص کے باہمی رشتے میں بندھا ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں علی رضا کے ساتھ میں نے ایک فلم "چاندنی رات" لکھی۔ آغا جانی کشمیری کی علالت کے باعث مجھے یہ چانس ملا تھا۔ پھر "شبنم" قمر جلال آبادی کے ساتھ اور "شرط" آئی ایس جوہر کے ساتھ لکھی۔

سوال:
آپ کی پہلی مکمل فلم کون سی تھی جو آپ نے تنہا خود ہی لکھی ہو؟
جواب:
ایسی پہلی فلم 'منیم جی' تھی۔ اس کے بعد میں نے ہر فلم تنہا خود لکھی۔ 'پئینگ گیسٹ'، 'چمکی'، 'شبستاں' وغیرہ اسی طرح کی فلمیں تھیں۔

سوال:
رائٹنگ سے ڈائرکشن کی طرح آپ نے کب اور کیسے چھلانگ لگائی؟
جواب:
میری ڈائرکٹ کی ہوئی پہلی فلم 'تم سا نہیں دیکھا' تھی۔ شمی کپور اور امیتا اس کے ہیرو ہیروئین تھے۔ موسیقی او۔پی۔نیر کی تھی۔ اس سے پہلے ڈائرکشن کا مجھے عملی تجربہ نہیں تھا۔ کسی ادارے میں تربیت حاصل کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ ان دنوں ایسا کوئی ادارہ تھا ہی نہیں۔ نہ میں کسی ڈائرکٹر کا اسسٹنٹ ہی رہا تھا۔ ہاں، مختلف ڈائرکٹروں کے کام کا مشاہدہ ضرور تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے ٹیکنیکل شعبوں خاص طور پر ایڈیٹنگ پر بھی گہری نظر رکھتا تھا۔ دراصل ڈائرکشن ٹیکنکل اعتبار سے مکمل میڈیم ہے۔ ایک ڈائرکٹر تمام ٹیکنیکل شعبوں کے حوالے سے فلم کو مکمل اکائی کے روپ میں سوچتا ہے۔ اس لیے شروع ہی سے میرا جھکاؤ ڈائرکشن کی طرف رہا اور میں باریک بینی سے اس کا مشاہدہ کرتا رہا۔
اس کے علاوہ مالی وجہ بھی تھی۔ رائٹر کو معاوضہ کم ملتا تھا۔ یوں بھی رائٹر کے لیے ڈائرکٹر بننا زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ ایک فلم کو کہانی کی شکل میں سب سے پہلے رائٹر ہی سوچتا ہے۔ ڈائرکٹر اسی سوچ کو ٹیکنکل مہارت کے ساتھ سلولائیڈ پر منتقل کر دیتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو رائٹر کی حیثیت بنیادی ہے۔ لیکن چونکہ وہ فلم کے دوسرے ٹیکنکل پہلوؤں سے واقف نہیں ہوتا اس لیے ڈائرکٹر سبقت لے جاتا ہے اور وہ جہاز کا کپتان کہلاتا ہے۔
ہالی ووڈ میں رائٹر کی بنیادی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں رائٹر کے وقار میں اب آ کر اضافہ تو ضرور ہوا ہے، لیکن ان کی بنیادی حیثیت ابھی تک تسلیم نہیں کی گئی ہے۔ اسی لیے میں نے جب فلم 'تم سا نہیں دیکھا' کی ڈائرکشن کا مطالبہ کیا تو سیٹھ تولارام جالان اور پروڈیوسر ایس۔مکرجی کو اس جسارت پر بڑی حیرت ہوئی۔ آخر بڑی رد و کد کے بعد وہ اس شرط پر تیار ہوئے کہ اگر دو تین ریل کی شوٹنگ کے اندر ہی میں انہیں مطمئن نہ کر سکا تو وہ کسی تجربہ کار ڈائرکٹر کو رکھ لیں گے۔ میں نے اس شرط کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا۔ شمی کپور اس وقت کا فلاپ ہیرو تھا، اس کی پچھلی سات آٹھ فلمیں بری طرح پٹ چکی تھیں۔ امیتا بھی کوئی خاص ہیروئین نہیں تھی۔ پوری ٹیم میں صرف ایک او۔پی۔نیر تھے جو منجھے ہوئے موسیقار تھے۔ لیکن مجھے اپنے اوپر اعتماد تھا۔ اس موقع پر میرا وہ تجسس کام آیا جو فلم کے دوسرے شعبوں سے متعلق میرے ذہن میں تھا اور جس کے تحت میں اکثر ان شعبوں پر نظر رکھتا تھا۔
میرے زمانے کی فلموں میں زیادہ تر لمبے لمبے static (جامد) شاٹس لیے جاتے تھے جس سے فلموں میں ایک عجیب تھیٹریکل تصنع پیدا ہو جاتا تھا۔ میں نے اپنی شوٹنگ کے دوران کیمرے کو موبائل (متحرک) رکھنے کا تجربہ کیا۔ ایڈیٹنگ کے مشاہدے سے شاٹس کی صحیح جگہ پر کٹنگ کا اندازہ ہو چکا تھا۔ میں نے مختلف sequences میں sharp-cuts کے ذریعے فلم کی رفتار کو بڑھانے کا تجربہ کیا۔ میرے زمانے کی فلموں میں عام طور سے تین گھنٹے کی فلم میں ڈیڑھ گھنٹہ گانوں کے ہوتے تھے۔ میں نے گانوں کی تعداد کم کی اور انہیں سچویشنل بنانے کی کوشش کی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے ان تجربوں کا کیا حشر ہوگا۔۔۔؟
فلمستان کی گھاگ اور تجربہ کار نگاہیں میری ایک ایک حرکت پر نگراں تھیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ان لوگوں نے میرے اس تجربے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا اور نہ پوری فلم کی شوٹنگ کے دوران کسی قسم کی مداخلت کی۔ خدا خدا کر کے فلم مکمل ہوئی، ریلیز ہوئی اور خلاف توقع، توقع سے زیادہ کامیاب ہوئی۔ یہ فلم آل انڈیا ہٹ ثابت ہوئی۔

سوال:
'تم سا نہیں دیکھا' کے بعد ناصر حسین نے کئی کامیاب فلمیں انڈسٹری کو دیں۔ دل دے کے دیکھو، جب پیار کسی سے ہوتا ہے، پھر وہی دل لایا ہوں، بہاروں کے سپنے، کارواں، یادوں کی برات، ہم کسی سے کم نہیں، زمانے کو دکھانا ہے، منزل منزل اور زبردست۔
ان میں سے آخری تین فلمیں ناصر حسین اسٹائل میں کامیاب نہیں رہیں۔ تو کیا ایک باصلاحیت فلم میکر اچانک فلم میکنگ کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا؟
جواب:
آپ کا اشارہ غالباً تین فلموں 'زمانے کو دکھانا ہے'، 'منزل منزل' اور 'زبردست' کی ناکامی کی طرف ہے۔ مجھے ان تینوں کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ اس کی بہت ساری وجہیں ہیں۔ ایک بڑی وجہ mediocre media (عامیانہ میڈیا) بھی ہے۔ ٹی وی اور ویڈیو بھی آج فلموں پر ایک حد تک اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ویڈیو قزاقی کا یہ عالم ہے کہ آپ کوئی بھی فلم ریلیز سے ہفتوں پہلے ویڈیو پر دیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ اس کے خلاف قانون بھی بنائے گئے ہیں، مگر ہمارے یہاں کسی قانون کا احترام ہی کتنا ہوتا ہے؟ سرکار قانون بنا کر الگ ہو جاتی ہے اور اس کی پابندی کرانے میں ناکام رہتی ہے۔

سوال:
مگر یہ خطرہ یعنی ویڈیو اور ٹی وی کا خطرہ تو دوسرے فلمسازوں کے لیے بھی ہے، پھر ان ہی دنوں کئی دوسری فلمیں کیسے کامیاب ہو گئیں؟ کہیں آپ کی فلموں کی ناکامی کا سبب ان کی ٹیکنکل خامیاں تو نہیں؟
جواب:
نہیں اس کی وجہ ٹیکنیکل سے زیادہ ایموشنل (جذباتی) ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ کم از کم 'زمانے کو دکھانا ہے' میں ایموشن کو صحیح طور پر نمایاں کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔

سوال:
کہیں ان ناکامیوں کے پیچھے فلم بینوں کا وہ جاگتا ہوا شعور تو نہیں جو انہیں اچھی فلم اور بری فلم میں تمیز کرنا سکھا رہا ہے؟
جواب:
شعور ۔۔۔؟ 'رام تیری گنگا میلی' میں کون سا شعور تھا؟ محض ایک passionate love (ہیجان انگیز عشق) کی کہانی تھی۔ میوزک اور مذہبی بھپکے کے سوا اس کی کہانی میں اور تھا ہی کیا؟ ننگی چھاتیاں؟ مگر ننگی چھاتیاں ہی ایک فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوتیں تو آج ساؤتھ کی فلمیں سب سے کامیاب فلمیں ثابت ہوتیں۔ مگر نہیں۔ آپ ہی ایمانداری سے بتائیں۔ کیا گنگا کی ننگی چھاتیاں دیکھ کر کسی قسم کا فاسد جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ایک طرف گنگوتری کا مذہبی پس منظر ہے اور پھر اسی کی مناسبت سے ہیروئین کا نام گنگا رکھا گیا ہے۔ پہاڑی علاقے کی ایک الہڑ دوشیزہ پہلی بار ماں بنتی ہے اور ایک معصومانہ بےساختگی کے ساتھ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو ان تمام حوالوں کے ساتھ ممتا کی پرتقدس اور پاکیزہ فضا بنتی ہے۔ جنسی تلذذ کا کوئی جذبہ بیدار ہی نہیں ہوتا۔ اور یہی راج کپور جیسے عظیم میکر کی کرافٹنگ اور ٹریٹمنٹ کا نقطۂ عروج ہے۔ یہیں سے وہ دوسرے ڈائرکٹروں کی بھیڑ سے الگ، منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں۔ وہ فطری تقاضوں اور مذہبی پس منظر سے بھی روحانی مسرت کے بصری حسن کا رس نچوڑ لیتے ہیں۔ ورنہ آپ دیکھ لیں، اس فلم کی کہانی میں اور کچھ نہیں ہے۔ راج کپور بلاشبہ ایک بڑے شومین ہیں۔ وہ اپنے تماشائیوں کو بہت جلد مبہوت کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

سوال:
ایک کامیاب فلم کا کوئی واضح خاکہ آپ بتا سکتے ہیں؟
جواب:
اگر ایسا کوئی فارمولا ہوتا تو ہم فلم والے کروڑوں روپے خرچ کر کے بھی اسے حاصل کر لیتے اور پھر کبھی کوئی فلم فلاپ نہ ہوتی۔۔۔
کامیاب اور ناکام فلموں کا راز بھی دراصل زندگی اور موت کا راز ہے جسے قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ پوری دنیا میں فلم کی نوعیت یہی ہے۔ فلم ساز سوچتا کچھ ہے، ریلیز کے بعد ہوتا کچھ ہے۔ چند لوگ مل کر ایک فلم بناتے ہیں، کروڑوں لوگ اسے دیکھتے ہیں اور اس کے اچھی یا بری ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کبھی پانسہ صحیح پڑتا ہے، کبھی غلط۔
اس کا دعویٰ تو کے۔آصف، محبوب خان اور راج کپور جیسے فلمی پنڈت بھی نہیں کر سکے کہ کون سی فلم کامیاب ہوگی، کون سی ناکام؟

یہ خیال عام ہے کہ ناصر حسین اپنی فلمیں خود ہی لکھتے ہیں، خود ہی ڈائریکٹ کرتے ہیں اور خود ہی پروڈیوس بھی کرتے ہیں۔ نہ باہر کی فلمیں لکھتے اور ڈائریکٹ کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے رائٹر ، ڈائریکٹر کو اپنے بینر میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع دیتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں ان کی ایک ایسی فلم کا چرچا ہوا ہے جو ان کے بینر کی نہیں تھی، اس فلم کا نام "زبردست" تھا اور اس کے پروڈیوسرز مشیر ریاض تھے۔

آخر وہ کون سی مجبور ی تھی کہ انہوں نے باہر کی کوئی فلم کی۔
"کوئی مجبوری نہیں تھی۔" ناصر صاحب مسکراتے ہوئے بولے:
"اس کے ساتھ یہ بات بھی درست نہیں کہ میں نے دوسرے لوگوں کو اپنے بینر میں کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ میری ایک فلم، "بہاروں کے سپنے" کے مکالمے مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے لکھے تھے۔ اس کے علاوہ میری تحریر کردہ اور میرے ہی بینر کی ایک فلم "تیسری منزل" کو وجئے آنند نے ڈائریکٹ کیا تھا۔
دراصل ہر فلم کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا رائٹر اور ڈائریکٹر بھی اسی مزاج کا ہو۔ یہی فلم سازی کا فطری طریقہ ہے ، میں کوشش کرتا ہوں کہ اس طریقے پر چلوں۔

فلم کا ایک روشن پہلو، وسیع پیمانے پر عوام کو سستی تفریح مہیا کرنا ہے، اور فلم کا ایک تاریک پہلو بھی ہے، جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ فلم بناتے وقت ہمارے فلم سازوں کی نظر عام طور سے فلم کی ان خصوصیات پر ہوتی ہے جن سے فلم 'کلک' کر جائے، اسے عوامی مقبولیت حاصل ہو اور 'باکس آفس' کی عفریت کا دوزخی پیٹ بھر جائے۔ یہ خصوصیات فلم کی اصطلاح میں"مسالہ" کہلاتی ہیں، مطلب پرست فلم سازوں کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی کہ یہ مسالہ ذائقہ بنائے گا یا بگاڑے گا، نئی نسل اور ناپختہ ذہنوں پر اس کا اثر مثبت ہوگا یا منفی؟ معاشرہ سدھرے گا یا بگڑے گا۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ سماج پر اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں، فلموں کے اسٹائل میں ڈاکے ڈالنے اور عشق کرنے کی بہت سی وارداتیں سامنے آ چکی ہیں۔۔ تو کیا فلم کو تعمیری مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ؟ آج یہ سوال سنجیدہ طبقے کے ہر سوچتے ہوئے ذہن میں موجود ہے۔۔
ناصر حسین بھی اس سوال پر سنجیدہ ہو گئے:
"دوسروں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ جہاں تک میرا تعلق ہے ، میں نے اپنے آپ کو کبھی کوئی مبلغ یا پرچارک نہیں سمجھا۔ میں صرف ایک ENTERTAINER (تفریح مہیا کرنے والا) ہوں اور میں فلم کو محض تفریح سمجھتا ہوں۔ رہا معاشرے کے سدھار کا معاملہ تو اس کے لئے تعلیم بنیادی شرط ہے۔ اس کے علاوہ ملک گیر سطح پر جب تک لوگوں کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوں گے، کسی سماجی بہتری کی توقع کرنا بھی احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے۔ چھوٹی ذات والوں کا استحصال آج بھی جاری ہے، ہریجن آج بھی تشدد کا شکار ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ رواداری تو خواب ہی بن چکی ہے۔ اب سکھوں کا مسئلہ بھی سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ جہیز کی چتا میں آج بھی معصوم روحیں جلنے، سلگنے پر مجبور ہیں۔ کیا ان سب موضوعات پر ہمارے یہاں فلمیں نہیں بنیں؟ مگر کیا یہ مسائل حل ہو گئے؟ مغرب میں بھی کالے گورے کے مابین نفرت کی خلیج پاٹنے کے موضوعات پر بے شمار فلمیں بن چکی ہیں، مگر کیا یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کالی نفرت ختم ہو گئی؟
انسان کسی نہ کسی مجبوری کے تحت ہی جرائم کی طرف راغب ہوتا ہے۔ وہ مجبوری ختم کر دی جائے تو جرائم خود ختم ہو جائیں گے۔ جو دنیا میں ہوتا ہے ، ہم وہی دکھاتے ہیں۔ یہ چمبل کے ڈاکو کیا ہیں؟ کیا وہ ہماری فلموں کے پیدا کردہ ہیں؟ یا اپنے حالات کی دین ہیں؟ کیا فلموں سے پہلے ڈاکوؤں کا وجود نہیں تھا؟ چوری نہیں ہوتی تھی؟ قتل اور جعل سازی کی وارداتیں نہیں ہوتی تھیں؟ دراصل ہر چیز ایک حد تک قابل برداشت ہوتی ہے۔ اس کے بعد لوگوں کو اس سے گھن آنے لگتی ہے۔ آج مغربی معاشرے پر ایک نظر ڈالئے ، وہاں زندگی کتنی بے روح اور مصنوعی ہو گئی ہے۔ پلے بوائز، بٹیلز، ہپیز،کرشنا کلٹ، یوگی کلٹ، نہ جانے کتنے فراڈ وجود میں آ گئے ہیں۔ مادہ پرستی کی انتہا لوگوں کو فرار پر مجبورکر رہی ہے۔ آج مشرق انہیں روحانی سکون کی جنت نظر آ رہا ہے۔ ایک دن یہ رد عمل تو ہونا ہی تھا۔
تو میرے بھائی، فلم سے معاشرے کو نہ بگاڑا جا سکتا ہے اور نہ سدھارا جا سکتا ہے، فلم تھکے ذہنوں کے لئے صرف تھوڑی دیر کی پناہ گاہ ہے، ایک تفریح یا امپوزمنٹ۔۔ بس!"

ہمارے یہاں فلموں میں اسکرین پلے سے زیادہ اہمیت میوزک اور گانوں کو دی جاتی ہے ، کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ سڑی سے سڑی کہانیوں پر بنی ہوئی فلمیں محض دل کش گانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر کامیابی کے پل پار کر لیتی ہیں۔ آج بڑی بڑی فلموں کی ناکامی کا ایک سبب شاید بے رس میوزک اور بے تکے گانے بھی ہیں۔۔
ناصر صاحب نے ایک حد تک اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا:
"ہمارے زمانے میں تو ریڈیو بھی نہیں تھا۔۔ گراموفون سب سے بڑی تفریح ہوا کرتا تھا۔ ہمارے گھر میں ایک بار گرامو فون آیا تو اس کا یہ گیت بہت مقبول ہوا:
"چھوٹے سے بلما دیکھو، انگنا میں گلّی کھیلیں"
ایک زمانے میں غزل کا دور دورہ تھا ، پھر گیت آیا، ڈھولک کے گیت، پھر آہستہ آہستہ سر بدلنے لگے، پاپ میوزک اور ڈسکو آندھی کی طرح آئے اور چلے گئے۔ اب غزل کی حکومت دوبارہ لوٹ آئی ہے۔ ڈائریکٹ غزل نہ سہی ، گانوں کو غزل کے مزاج پر ضرور لایا جا رہا ہے۔ میلوڈی کی طرف پھر واپسی ہو رہی ہے۔ میں نے بھی میوزک اور گانوں کو اہمیت دی ہے اور کم و بیش ہر میلان کی پذیرائی کی ہے۔ اس کے باوجود میں یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ گھٹیا کہانیوں پر بنی ہوئی فلمیں محض گانوں کی وجہ سے کامیاب ہو جاتی یہں۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اسے صرف اتفاق کہہ سکتے ہیں۔"

سوال:
"لوگوکا کہنا ہے کہ آپ اپنی فلموں کے مکالموں کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں؟"
جواب:
"آپ نے ٹھیک سنا ہے ، بنیادی طور پر تو میں فکشن ہی کا آدمی ہوں۔ فکشن میں کردار نگاری یا کردار سازی کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اس سے واقعہ حقیقت کے قریب آ جاتا ہے۔ کہانی کوئی بھی ہو، میں نے کرداروں کے مونہہ میں کبھی اپنی زبان ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔"

سوال:
"پھر آپ اپنی فلموں کے لئے سنسر سے اردو زبان کا سرٹیفکٹ کیوں حاصل کرتے ہیں، کیا آپ کی فلموں کے کردار جو زبان بولتے ہیں وہ اردو ہے؟"
"یقیناً۔۔۔۔میرے کردار ہندوستان کی روز مرہ کی زبان بولتے ہیں۔"
ناصر صاحب ٹھوس لہجے میں بولے۔

"مگر اس کے لئے آپ ہندوستانی زبان کا سرٹیفکیٹ بھی لے سکتے تھے؟"
"تو کیا آپ اردو کو جاپانی زبان سمجھتے ہیں؟ بھئی، جو ہم فلموں میں سنتے ہیں، وہی ہندوستان کی زبان ہے۔ اور وہ اردو ہے۔ یہ وہ زبان نہیں جو ہم آل انڈیا ریڈیو یا دوردرشن، کی خبروں میں سنتے ہیں۔ دراصل آزادی کے بعد تعصب کی وجہ سے اردو کو ایک مخصوص فرقے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔ میں نے ابتداء سے اردو پڑھی، اسکول اور کالج میں یہی زبان ذریعہ تعلیم رہی۔ گلی محلوں اور شہروں میں اسی سے سابقہ پڑا۔ ابتدائی دنوں میں افسانے اسی زبان میں لکھے اور بعد میں جب فلمیں لکھنے کا موقع ملا تو بھی اسی زبان نے ساتھ دیا۔۔ اب آپ ہی بتائیں، جو زبان بچپن سے اب تک قدم سے قدم ملا کر چلی ہو، جو ہندوستان بھر کے گلی محلوں اور شہروں میں بولی سمجھی جاتی ہو۔ یعنی جو پورے ہندوستان میں رابطہ کی زبان کا درجہ رکھتی ہو، اسے فلم میں کیوں نہ استعمال کروں؟ اور جب فلم میں استعمال کروں تو پھر سنسر سرٹیفکیٹ بھی اسی زبان میں کیوں نہ حاصل کروں؟"

سوال:
"اس سے آپ کے بزنس پر کچھ نہ کچھ منفی اثر تو پڑتا ہی ہوگا؟"
جواب:
"کیوں؟ بھلا اس سے بزنس پر خراب اثر کیوں پڑنے لگا؟"

سوال:
"اگر بزنس اس سے متاثر نہیں ہوتا تو پھر دوسرے فلم ساز بھی ایسا کیوں نہیں کرتے؟ وہ اپنی فلموں کے لئے ہندی سرٹیفکیٹ کیوں حاصل کرتے ہیں؟"
جواب:
"بھئی، یہ ان کی کوئی ذاتی مجبوری ہو سکتی ہے، ورنہ جہاں تک میرا خیال ہے ، لوگ اکثر اس پر دھیان نہیں دیتے ، کیوں کہ فارم تو آفس کے دوسرے لوگ بھرتے ہیں۔ وہ اسے ایک معمول کے کام کی طرح کر گزرتے ہوں گے۔"

ناصر صاحب سے کافی تفصیلی گفتگو ہو چکی تھی، پھر بھی ان سے ایک آخری مگر اہم سوال کئے بغیر رہا نہیں گیا۔
وہ سوال یہ تھا کہ ۔۔۔
"ناصر صاحب کا تعلق مذہبی پس منظر رکھنے والے ایک معزز زمیندار گھرانے سے تھا۔ انہیں مولانا آزاد کا نواسا ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ ان حالات میں فلم سے وابستگی پر ان کے خاندان والوں کا رد عمل کیا ہوا ہوگا؟ اور خود مولانا نے اسے کن نظروں سے دیکھا ہوگا؟"

اس سوال پر ناصر صاحب مسکرانے لگے۔
"بھئی، کافی عرصے تک فیمیلی بائیکاٹ کے عذاب میں مبتلا رہا۔ ان ہی دنوں کی بات ہے، گجرات اور مہاراشٹر کا تنازعہ زوروں پر تھا، مولانا صاحب ان دنوں کانگریس کے صدر تھے۔ بمبئی تشریف لائے تو میں بھی سلام کرنے پہنچ گیا۔ میرے خالو، خالہ اور ماموں وہاں پہلے ہی سے موجود تھے۔ یہ سب مجھ سے نالاں تھے، سب نے مل کر مولانا صاحب سے میری اس بے راہ روی کی شکایت کی۔ مولانا نے ناراض ہونے کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ اگر اسے بگڑنا ہوتا تو یوں بھی بگڑ سکتا تھا۔ فلم کوئی بری چیز نہیں ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے۔۔ اس واقعہ کے بعد خاندان والوں سے میری صلح ہو گئی اور ان لوگوں نے مجھے معاف کر دیا۔۔ شاید مولانا کی بات کو رد کرنے کی جرات ان کے اندر بھی نہیں تھی۔"

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: جنوری 1987

Nasir Hussain, Bollywood's popular Director and Producer.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں