مرتضیٰ ساحل تسلیمی - ادب اطفال کا ایک اہم ستون - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-22

مرتضیٰ ساحل تسلیمی - ادب اطفال کا ایک اہم ستون


مرتضی ساحل تسلیمی (اصل نام: مرتضیٰ علی خاں ، پیدائش: 30/جون 1953)
معروف شاعر، صحافی، ادیب اور ادبِ اطفال کے نامور قلمکار، ادارہ الحسنات (رامپور) کے رسائل نور، بتول اور ھلال کے مدیر بروز جمعہ 21/اگست 2020 کی رات رامپور میں انتقال کر گئے۔ شاعری اور نثر میں بچوں کے لیے ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اور تحقیق کے موضوع پر ان کی دو کتب "تحریکِ اسلامی کے داعی - مولانا محمد عبدالحئی - حیات و خدمات" اور "ملی مسائل میں مساجد کا کردار" منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اترپردیش اردو اکاڈمی کی جانب سے 2014 میں انہیں ایوارڈ برائے ادب اطفال سے نوازا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی اعزازات انہیں حاصل ہوئے جن میں پریس کلب مرادآباد کا 'سینئر صحافی ایوارڈ' ، مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ، ڈاکٹر ہتیش چند گپتا فیلوشپ ایوارڈ، آسرا ایوارڈ، شہید آصف شاہ میری قومی ایوارڈ شامل ہیں۔
ان کی وفات پر بطور اظہار عقیدت چند تاثراتی مضامین پیش ہیں۔


مرتضی ساحل تسلیمی - بچوں کے ادب کا اہم ستون
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)

ایسا لگتا ہے کہ شان خداوندی جلال میں آ گئی ہے، مختصر وقفے سے کسی نہ کسی قریبی یا قیمیتی شخصیت کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبریں آرہی ہیں، خبریں بھی اس تیزی سے مل رہی ہیں کہ ہم ماتم کرنا بھی بھولتے جارہے ہیں، کتنی قمیتی شخصیات تھیں کہ جن کی خدمات اور رہنمائی کی امت شدید ضرورت محسوس کرتی تھی آنا فانا اس دنیا سے رخصت ہوگئیں، کورونا کا قہر کچھ ایسا ٹوٹا ہے کہ زیادہ تر بڑے بڑے اسپتالوں میں مریضوں کے داخل ہونے کے بعد ان کی میتیں ہی واپس آرہی ہیں، مریضوں کو اسپتال لے جاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ معمولی سے نمونیہ کا اثر ہے، لیکن جب اسپتال سے میت لوٹی تو اسپتال والوں نے بھاری بھرکم بل کا بوجھ بھی اس پر لاد دیا، اب دماغ نہ الجھے، غم دوبالا نہ ہو تو کیوں کرِ؟ ان حالات میں آخر دماغ ماؤف نہ ہو جائے تو حیرت ہوگی۔

ابھی دو چار روز قبل خبر آئی تھی جناب مرتضی ساحل تسلمیی کی صحت کچھ خراب ہوگئی ہے، اور آج رات گئے آنا فانا خبر ائی کہ وہ اللہ کو پیارے ہوچکے۔ ایک ایسا شخص جس نے زندگی کے اڑسٹھ سال میں سے پچاس سال نونہالان قوم کو فکری غذا پہنچانے، ان کی سوچ کے دھاروں کو بلندیوں کی طرف پرواز کرانے اور انہیں اپنی مادری زبان اردو سے جوڑنے کے لئے صرف کئے تھے ، اس طرح دنیا سے رخصت ہوگیا، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موت ایک بہانہ ہو، قدرت نے اسے زندگی میں کام کرنے کے لئے جو مہم دی تھی، اسے سر کرنے کے بعد مزید اس مسافرخانے میں ٹہرانے کی ضرورت نہ محسوس کی گئی ہو۔
گزشتہ چند سالوں میں جو حالات گزرے ہیں، ان سے تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے، بچوں کا ہلال جو آپ کی ادارت میں 1973ء میں شروع ہوا تھا، پینتالیس سال بعد گہن کی زد میں آگیا، یہ گہن کچھ ایسا گہرا تھا کہ پھر اس سے روشنی پھوٹنے کے امید جاتی رہی، اور آپ کے ساتھ جو ٹیم دن اور رات ایک کررہی تھی،وہ بے کار ہوگئی، اس کی رفتار میں یکدم بریک لگ گیا، اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلانے کے لئے کوئی پلیٹ فارم بھی باقی نہیں رہا۔ اور نہ ان کا قدردان، اب جب کوئی زندگی کا ایک نصب العین لے کر آگے بڑھے، جو روز وشب اس کے حصول کے لئے جان کھپادے، اور مرور زمانہ سے اس کے علاوہ کسی اور کام کا وہ عادی نہ بن سکے، جب اس کی راہیں مسدود ہوجائیں، تو نفسیات اور اعضاء وجوارح پر اس کا جو منفی اثر ہوگا، اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔
انتھک محنتوں کے بعد آنکھوں کے سامنے ہی جب خواب چکنا چور ہوں اور وقت کی آندھیوں سے بچائی گئی شمع سامنے ہی بجھ جائے تو اس کا دل و دماغ پر جو اثر ہوتا ہے، وہ زندگی کے آخری دنوں میں اپنی اولاد کی موت کے غم سے کچھ کم تونہیں ہوتا؟
مرتضی ساحل تسلیمی اور ان کے ساتھیوں نے جس مقصد کے لئے اپنے شب وروز کا فرق نہیں سمجھا، اور جس کے لئے اپنا خون جلایا، حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی صحیح قدر نہیں ہوئی۔
یہ اردو والوں کا بڑا المیہ ہے کہ بچوں کے ادیب ان کے یہاں نہ کوئی قدر ومنزلت رکھتے ہیں، نہ ان کے پرچوں کی کوئی اہمیت سمجھی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں کے جتنے پرچے نکلتے ہیں زیادہ تر وہ کسی بڑے ادارے کی بیساکھیوں پر ہی کھڑے ہوپاتے ہیں، چاہے وہ مکتبہ جامعہ کا پیام تعلیم ہو یا پھر مکتبہ الحسنات کا نور اور ہلال، یا پھر شمع والوں کا کھلونا۔اور بچوں کے لئے لکھنے والوں کی اتنی بے قدری ہوتی ہے، کہ یہ لکھنے والے دو چار سال بعد ہی اپنی راہ بدل دیتے ہیں، جہاں سے انہیں شہرت ملتی ہے۔ اور زندگی کی ضرورتیں بھی پوری ہوتی ہیں، کہتے ہیں کہ اردو دنیا میں بچوں کے ادیبوں میں راجہ مہدی علی خان منفرد مثال ہیں، جنہوں نے اپنے فلمی گانوں کی مقبولیت اور اس دنیا کی چکا چوند کے باوجود بچوں کے لئے لکھنا بند نہیں کیا، ہر ماہ کھلونا کے لئے بچوں کی ایک نظم پابندی سے لکھتے رہے۔

مرتضی ساحل تسلیمی نے 1952ء میں رامپور میں آنکھیں کھولی تھیں، یہاں آپ نے گورنمنٹ رضا کالج سے گریجویشن کیا۔ 1972ء میں آپ مکتبۃ الحسنات رامپور سے بحیثیت کلرک وابستہ ہوئے۔
یہ ادارہ جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ایک اہم شخصیت مولانا ابو سلیم عبد الحی مرحوم نے قائم کیا تھا،1948ء میں تقسیم ہند کے بعد جب الہ آباد میں جماعت از سر نو داغ بیل رکھی گئی، تو اس کا پہلا دفتر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں تھا ، جہاں مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی امیر جماعت تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ یہاں سے ملیح آباد، اور پھر جب یہ رامپور منتقل ہوا تو یہاں تحریک کے چوٹی کے دماغ یکجا ہوگئے ، اور ملیح آباد میں جو منصوبے ابتدائی شکل میں تھے، ان کی تکمیل کا کام یہاں شروع ہوا۔
ان میں درسگاہ اسلامی اور ثانویہ کا قیام ، اور ماہنامہ زندگی کا آغاز شامل ہے، انہیں ایام میں مولانا ابو سلیم عبد الحی مرحوم نے مکتبۃ الحسنات کی بنیاد ڈالی ، جس کے ماتحت ماہنامہ الحسنات، نور، بتول، ہلال ، ہندی ماہنامہ ہادی وغیرہ جاری ہوئے، اور نصف صدی تک متوسط طبقے سے نچلے طبقہ تک کی نسلوں کو متاثر کرتے رہے۔
مولانا نے نسوان کی دینی تعلیم کے لئے جامعۃ الصالحات کے نام سے اپنی نو عیت کا پہلا دارالعلوم قائم کیا، جو آج تک مستورات میں علم دین کی رشنی پھیلا رہا ہے۔

الحسنات اور نور سنہ 1952ء میں تسلیمی صاحب کے سال پیدائش میں جاری ہوئے ، نور پہلے پندرہ روزہ تھا اور مستطیل شکل میں چھپتا تھا، اپنے بانی مدیر مولانا مائل خیر آبادی مرحوم کے زمانے میں اس نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی۔ مائل صاحب کو اب لوگ کم ہی یاد کرتے ہیں۔ بڑے چوٹی کے ادیب تھے، لیکن مظلوم، آپ نے بچوں کے لئے صحیح اسلامی فکر کو بنیاد بنا کر جس پائے کی کہانیاں لکھیں اس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے۔
1968 کی بات ہے، اردو کا پنجسالہ نصاب ختم ہوکر اب عربی درجے میں داخلہ ہو رہا تھا، ہمارے کنڑی اور انگریزی کے استاد تھے ماسٹر احمد نوری مرحوم، کنڑی زبان میں قرآن مجید کے اولین مترجم۔ آخری کلاس میں جب طلبہ بور ہورہے ہوتے تو وہ مائل خیر آبادی کی کہانیاں بچوں سے پڑھواکر سننے،جن سے کبھی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں، کبھی بانچھیں کھل اٹھتیں۔ وہ نور کا تازہ پرچہ بھی پڑھواتے تھے، جس میں ریڈیو نورستان کے نام سے ایک سلسلہ ہوتا، جو قرآن کی چند آیات، اور ترجمہ، حمد ونعت، اور خبروں پر مشتمل ہوتا۔ اسے طلبہ بڑی دلچسپی سے سنتے، اور نئے شماروں کا انتظار کرتے تھے۔
انہی دنوں ہم نے مائل صاحب کی جملہ کہانیاں مسلم کی کہانی، ترکستان سے ترکی تک، اور نور کی سلسلہ واری کہانیاں سنیں، اور اسی کے اثر سے سینکینانگ کے مسلم مجاہد عثمان بطور کی سوانح عمری تلاش کرکے پڑھی تھی۔ اللہ غریق رحمت کرے ان دونوں کو ، لاشعورکے دور میں سنی یوئی ان کہانیوں کا اثر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود ذہن میں ابھی تازہ ہے۔
ماہر صاحب بڑے مظلوم تھے، ان کی کتابیں مصنف کا نام حذف کرکے ان کے سامنے ڈھرلے سے ان لوگوں نے شائع کیں جن سے کم ازکم اس کی امید نہیں تھی، رحلت کے بعد انہیں بھلا دیا گیا، ڈاکٹر احمد سجاد صاحب نےبتایا تھا کہ ان کی نگرانی میں مائل صاحب پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کیا گیا تھا، سجاد صاحب کو ان کی زندگی میں بھلا دیا گیا ہے،تو اب اس پرانے مقالے کو کون یاد رکھے گا؟

مائل صاحب کے بعد خالدہ تنویر نے نور کو بخوبی چلایا، لیکن جلد ہی وہ امریکہ چلی گئیں، 1972ء میں مرتضی ساحل تسلیمی بیس سال کی عمر میں بحیثیت کلرک مکتبۃ الحسنات سے وابستہ ہوئے۔ کام کا جذبہ تھا، مولانا عبد الحی صاحب نے اعتماد کیا، اور نور کو ڈائجسٹ کی شکل دی گئی، اور یہ پرچہ اب ابتدائی جماعت کے طالب علموں کے بجائے ثانوی درجات کے معیار کا بن گیا۔ یہاں اطفال کے معیار کے ایک پرچے کی ضرورت محسوس ہوئی اور مرتضی ساحل تسلیمی مرحوم کی ادارت میں 1973ء میں ہلال شروع ہوا، جو اپنی نوعیت میں اردو کا بچوں کا پہلا اور شاید آخری رسالہ تھا۔
بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر اس میں رنگوں اور تصاویر کا خوب استعمال کیا گیا تھا، اور اسے اس معیار کا بنایا گیا تھا کہ درجہ اطفال کے بچے بھی اس میں دلچسپی لیں۔ اس طرح اردو والوں کی طرف سے ایک فرض کفایہ ادا کیا گیا تھا۔ تسلیمی صاحب اس پرچے کی وجہ سے بچوں کے ادب کی تاریخ میں زندہ جاوید رہیں گے۔

مکتبہ الحسنات کے ماتحت ہندی ماہنامہ ہادی اور 1974ء میں ماہنامہ بتول بھی جاری ہوئے، ان پرچوں نے اپنے وقت میں ایک اہم خلا پر کیا۔ لیکن اسے بدنصیبی ہی کہئے، یہ سبھی پرچے اردو کے نام لیواوں اور اس کی روٹی کھانے والوں کی عدم دلچسپی سے یکے بعد دیگرے مرحوم ہوتے چلے گئے۔
مولانا عبد الحئی مرحوم کے بعد ان کے جانشین عبد الملک سلیم نے انہیں کافی دنوں تک سنبھالے رکھا، لیکن اپنی وفات سے دو سال قبل وہ بھی ہمت ہار بیٹھے، اور یہ عظیم سلسلے تیسری نسل کے ہاتھوں تک منتقل نہ ہو سکے۔

تجلی دیوبند، الایمان دیوبند، نئی نسلیں لکھنو، دوام ٹانڈہ، معلوم نہیں ذکری رامپور کا کیا حال ہے؟ یہ وہ پرچے تھےجو اقامت دین اور تعمیری ادب کے علمبردار تھے، جماعت کی فکر کو نظم سے باہر پھیلانے میں ان کا بڑا کردار تھا، لیکن یہ سبھی اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، کوئی ان پر فاتحہ بھی پڑھنے والا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل خبر آئی تھی کہ سہ روزہ دعوت مرحوم ہو چکا، اور آج خبر آئی ہے کہ انگریزی کا شام نامہ نیوز ڈائجسٹ بھی بند ہوچکا، یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیا وہ تحریک جو خالص لٹریچر پر کھڑی ہوئی تھی، اس کی نسبت پڑھے لکھوں کی طرف ہوتی تھی، کیا اس کا رشتہ قلم اور صحافت سے ٹوٹ رہا ہے؟
اپنے دل سے پوچھیں،اور اس رویہ سے امت کو پہنچنے والے نقصان اور خسارے کا اندازہ لگائیں۔

مرتضی ساحل تسلیمی صاحب اپنے خالق کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں، انہوں نے ملت کے نونہالوں کی رہنمائی اور ان میں تعمیری افکار پروان چڑھانے اور امت اقراء بنانے کے لئے اپنی جملہ صلاحیتیں اور عمر عزیز کے لمحات لگادئے، اب سوال ہے کہ ہم ان کے حق میں صرف کاغذی دعائیں کرتے رہیں گے، یا پھر اس کے تئیں ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے، سوچئے ، غور کیجئے، آپ کے عملی جواب میں ملت کی بہتری پوشیدہ ہے۔

اور مجھے اجازت دیجئے، اللھم اغفرلہ و ارحمہ
بشکریہ: مرتضی ساحل تسلیمی۔۔۔ بچوں کے ادب کا اہم ستون۔۔۔ تحریر:عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

مرتضیٰ ساحل تسلیمی نہ رہے۔
تاثرات از: عبدالغفار (بنارس)
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ مغفرت فرمائے، بڑی خوبیوں کے مالک تھے، ادب اطفال کے سلسلے میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ تقریباً چالیس سال سے ادارہ الحسنات کے مختلف رسائل کے ذریعے مفید اور تعمیری ادب کو فروغ دیتے رہے۔
ایک عمدہ شاعر، بہترین نثر نگار اور باصلاحیت مدیر تھے، نو آموز ادبا اور شاعروں کی تحریریں نہ صرف اپنے رسائل میں شائع کرتے تھے بلکہ ان کی خوب حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ کتنے آج کامیاب لوگ ہیں جن کے پیچھے آپ کی حوصلہ افزائی کا بہت اہم کردار رہا ہے، بہت ملنسار اور خلیق بھی تھے، مسلکی اعتبار سے بھی بہت روادار اور معتدل تھے، اپنے رسائل کو ہمیشہ مسلکی تعصب سے بالاتر رکھا۔
ہم نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے، تھوڑا بہت قلم چلانے کا جو سلیقہ آیا اس میں آپ کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ آج آپ کی وفات کی خبر سن کر آنکھیں نم ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔

مرتضی ساحل تسلیمی کے اخلاص کے سبب لکھنے پڑھنے کی تحریک
تاثرات از: سجاد الحسنین (حیدرآباد)

بچپن میں ہلال پڑھا نور پڑھا بتول پڑھا الحسنات بھی پڑھا، کھلونا بھی زیر مطالعہ رہا ہے۔ شمع بیسوی صدی چہار رنگ اور ابن صفی کے ناول یہ تو سب بات کی باتیں ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ نور میں مرتضی ساحل تسلیمی کے جوابات خاص طور پر بزم نور میں مجھے حوصلہ دیتے رہے کہ کچھ لکھوں۔
ان کے دلچسپ جوابات ہی کے باعث میں نے خطوں کے ذریعہ بزم نور میں حصہ لینا شروع کیا تھا اور لکھتے لکھتے کچھ برسوں بعد نور کے کہانی مقابلے میں میں نے اپنی پہلی کہانی ارسال کی تو یہ دیکھ کر خوشی کی انتہا نا رہی کہ انعامی مقابلے میں میری پہلی ہی کہانی بعنوان "کاش۔۔" دوسرا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور یہ جان فزا خبر خط کے ذریعہ مرتضی ساحل تسلیمی صاحب ہی نے دی تھی۔ یقینا ان کی خاص دلچسپی اور مسلسل حوصلہ افزائی کے باعث میں نے لکھنا شروع کیا تھا اور یہ سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا ہے۔
بہت بار دلی جانا ہوا علی گڑھ جانا ہوا لکھنوء جانا ہوا مگر افسوس کہ رام پور جانے کی شدید خواہش کے باوجود وہاں جا نا سکا اور مجھے کہانی کے انعام ملنے کا مژدہ جان فزا سنانے والی اس محترم شخصیت سے ملنے کی خواہش بس خواہش بن کر رہ گئی ہے۔
آج ان کے انتقال کی خبر آئی تو میرا بچپن اور لڑکپن اور پھر ادارہ الحسنات کے ان رسالوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مطالعے کے شوق کی ساری تصویریں ایک ایک کرکے آنکھوں میں گھومنے لگی ہیں۔
نجانے مجھ جیسے کتنے ہونگے جنہیں جناب مرتضی ساحل تسلیمی کے اخلاص کے سبب لکھنے پڑھنے اور تحریک پانے کا موقع ملا ہوگا۔ان کے انتقال کی خبر سے بہت غمزدہ ہوں اور دل کی عمیق گہرائیوں سے ان کی مغفرت جنت الفردوس میں اعلی مقام کی دعا کرتا ہوں اور لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا بھی۔

Murtuza Sahil Taslimi, a renown writer and author for Children's Literature in Urdu.

1 تبصرہ:

  1. افسوس صد افسوس
    محترم مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب کی وفات کی خبر برق بن کر مجھ پر گری ہے.یہ وہ شخصیت تھی جس کی تعریف و توصیف بیاں کرنے میں الفاظ کم پڑ جائیں گے.زمانہ ء طالب علمی میں نور,بتول,ھلال,الحسنات,کا پابندی سے مطالعہ کرتا رہا.میرے مضامین , خطوط ,اور ہلکی پھلکی کہانیاں ان رسالوں میں شائع کی جاتی تھیں.ساحل صاحب کی شخصیت بہت خوش طبع تھی.آپ کے اداریے.خطوط کے کالمس اور آپ کے مضامین ہم زندگی بھر نہیں بھول سکتے.2004 میں,میں نے آپ سے لینڈ لائین پر گفتگوکی,آپ کا ایک ایک لفظ میرے کانوں میں آج بھی شھد گھول رہا ہے.میرے لیے یہ ایک بڑا صدمہ ہے.

    جواب دیںحذف کریں