منصف میرے بعد - ہفت روزہ گواہ کو خان لطیف خان کا ایک انٹرویو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-07

منصف میرے بعد - ہفت روزہ گواہ کو خان لطیف خان کا ایک انٹرویو


ممتاز این آر آئی، ایڈیٹر انچیف روزنامہ "منصف" اور چیرمین سلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی جناب خان لطیف محمد خان صاحب ولد جناب گل محمد خان صاحب مرحوم کا بروز جمعہ 7/اگست/2020 امریکہ کے شہر شکاگو میں مختصر سی علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ بعد نماز جمعہ شکاگو کے مسلم قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

اس سانحہ پر ہفت روزہ "گواہ" نے جو اداریہ تحریر کیا ہے، وہ مدیر اعلیٰ گواہ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز کے شکریے کے ساتھ یہاں پیش ہے۔

جناب خان محمد لطیف خان کا 20 سال پہلے گواہ کو انٹرویو
از ۔۔۔۔ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

جناب خان محمد لطیف خان نہیں رہے۔ اپنی سالگرہ کے دن ہی وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ حیدرآباد اور شکاگو معزز و معتبر ہستی سے محروم ہوگئے۔ خان صاحب نے اردو صحافت میں قدم رکھا تو یہ ایک نئے انقلاب کی آمد تھی۔ انہوں نے منصف ٹی وی چیانل شروع کیا تو اس سے بھی بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ ستمبر 2000 میں گواہ کے لئے ان کا خصوصی انٹرویو لیا گیا تھا، جس میں انہوں نے بہت ساری باتیں کہی تھیں۔ اب اسے دہرانا غیر ضروری ہے، البتہ ایک سوال کے جواب میں کہ آیا ان کے بعد منصف کا کیا ہوگا؟ خان صاحب نے کہا تھاکہ منصف ایک سسٹم کے تحت چلتا رہے گا۔
جہاں تک خان محمد لطیف خان کا تعلق ہے انہیں حیدرآبادی عوام کی اکثریت دسمبر 1997ء سے پہلے تک امریکہ میں مقیم ایک ممتاز این آر آئی کے طور پر جانتی تھی جو آنجہانی راجیو گاندھی کے علاوہ مکرم جاہ بہادر، دلیپ کمار اور محمد یونس کے فرزند شہریار کے حلقہ احباب میں شامل تھے، مگر منصف کے ایڈیٹر کی حیثیت سے 30سال کے عرصہ میں وہ نہ صرف حیدرآباد بلکہ اقطاع عالم میں بسے ہوئے حیدرآبادیوں اور اردو داں حلقے سے بے حد قریب آگئے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ "منصف" کو جس انداز میں خان لطیف محمد خان نے پیش کیا، اسے اردو صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ایک منصف ہی نہیں، دیگر اردو اخبارات نے بھی اپنے معیار کو پہلے سے زیادہ بلند کیا۔ پہلی مرتبہ اردو صحافی احساس کمتری کے خول سے باہر نکلے، ان کا قد اور وقار بلند ہوا، پہلی مرتبہ اردو اخبارات میں عملی طور پر مسابقتی دوڑ شروع ہوئی۔ عمدہ طباعت، ہمہ رنگی ایڈیشن، پرکشش انعامی اسکیمات نے بہت جلد منصف کو عوامی مقبولیت عطا کی، تاہم ساتھ ہی ساتھ اس سے متعلق کئی افواہیں بھی گشت کرتی رہیں۔ بعض دیرینہ ملازمین کی طویل رخصت، بعض قریبی ساتھیوں کی ناراضگی، کی اطلاعات بڑی تیزی سے پھیلنے لگیں تو یہ اندیشے بھی جنم لینے لگے کہ منصف جتنی تیزی سے صحافتی اُفق پر نمودار ہوا عوامی مقبولیت حاصل کی، کہیں اتنی تیزی سے روبہ زوال تو نہیں۔۔۔۔۔ اس پس منظر میں منصف ٹیلی ویژن چیانل کا اعلان ہوا جو سٹیلائٹ چیانل تھا۔
خان صاحب کا تعلق ایک غیور افغان قبیلہ یوسف زئی سے تھا جن کے آباء و اجداد صوبہ سرحد کے ڈیرہ اسماعیل خان کی بستی دانشمندان میں آباد تھے۔ آصف جاہ ششم نواب میر محبوب علی خان کے دور میں ان کے جد اعلیٰ خان محمد خان کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی گئی اور پھر انہیں فلک نما اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں کی سیکوریٹی کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ ان کے بعد ان کے فرزند شیر محمد خان اپنے قبیلے کے سردار منتخب ہوئے اور انہوں نے بھی خاندان آصف جاہی کی خدمات انجام دیں۔ یہ سلسلہ گل محمد خان تک جاری رہا، جو آصف جاہ سابع کے وفادار رہے۔ خان لطیف محمد خان ان کے پانچ فرزندوں میں چوتھے نمبر پر تھے، جنہوں نے خاندان آصف جاہی کی وفاداری اور دوستی کی روایت کو برقرار رکھا۔ آخری نظام نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر، خان لطیف محمد خان کو اپنا رفیق خاص مانتے تھے۔
گل محمد خان کے پانچ فرزندان کے نام جناب خان محمد فضل خان، جناب خان محمد عمر خان، خان محمد فاروق خان، خان محمد لطیف خان مرحوم اور خان محمد عزیز خان ہیں۔
دو صاحبزادیوں میں سے ایک اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں۔ دامادوں میں جناب حمیدالدین رعنا ریٹائرڈ ڈی ایس پی اور دوسرے میجر محبوب محمد خان (حال مقیم امریکہ) ہیں۔
جناب خان محمد لطیف خان کا بچپن اور لڑکپن پرانے شہر حیدرآباد کے فلک نما میں گزرا۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے ان طلباء میں شمار کئے جاتے تھے جن کی اپنی ایک ڈھاک تھی۔ ان کے گروپ میں متین لالہ، سید شاہ مظہرحسینی (مولانا) قابل ذکر ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے شرپسند طلباء کی جانب سے ایک مسلم طالبہ کا اغوا کرلیا گیا تھا۔ خان صاحب کے گیانگ نے ان شرپسندوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا اور چند گھنٹوں میں اس طالبہ کو اس کے چنگل سے آزاد کروالیا۔ جس سے پورے شہر میں ان کی دھاک بیٹھ گئی۔ خان صاحب کی گیانگ نے کئی اسٹوڈنٹس کی دھلائی بھی کی تھی جس کے بعد یونیورسٹی کے ملحقہ کالجس میں ان کی تعلیم پر پابندی عائد کردی گئی تھی مگر تعمیر ملت کے صدر جناب سید خلیل اللہ حسینی نے خان لطیف خان کو انوارالعلوم کالج میں داخلہ دیا جس کے وہ خود پرنسپل تھے۔ خان لطیف خان نے اس کا ایک انٹرویو میں ذکر بھی کیا ہے۔ گریجویشن کی تکمیل کے بعد وہ امریکہ چلے گئے جہاں ایلی نائس یونیورسٹی سے انجینئرنگ اور پھر یونیورسٹی آف انڈیانا (شکاگو) سے ایم بی اے کیا۔ بزنس اڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کے بعد بزنس میں قدم رکھا۔ عملی جدوجہد کی، تقدیر نے یاوری کی تو پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی نوبت نہیں آئی، مگر جیسے جیسے وہ کامیابی اور ترقی کا ایک ایک سنگ میل پارکرتے، پیچھے پلٹ کر ضرور دیکھ لیتے تھے۔ طئے شدہ مسافت پر خدا کا شکر ادا کرتے اور پھر قدم آگے بڑھاتے۔ آج فلک نما کا نوجوان خود عزت، دولت، شہرت اور عوامی مقبولیت کے فلک پر جگمگا تا رہا۔ الکٹرانک کمپنی پینٹگان انڈسٹریز، اور ریئل اسٹیٹ ڈیولپنگ فرم خان اینڈ اسوس ایشن (شکاگو) کے چیرمین، اٹلانٹا میں منفرد پیکیجنگ انڈسٹری کے مالک، ڈیرا لیزنگ اینڈ کنسٹرکشن کمیٹی اور ڈیرا پرنٹنگ پریس کے منیجنگ پارٹنر، سلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی کے بورڈ آف گورننگ کونسل کے چیرمین بھی تھے۔ خان محمد لطیف خان نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ امریکہ میں گزاردیا مگر مغربی تہذیب اور اس کے اثرات سے ان کی حیدرآبادیت متاثر نہ ہوسکی اور نہ ہی بے پناہ دولت، ان سے ان کی ماضی کی تلخ یادوں کو چھین سکی۔
خان لطیف خان صاحب سالار ملت الحاج سلطان صلاح الدین اویسی مرحوم سے بھی بے حد قریب تھے بلکہ سالانہ نعتیہ مشاعرہ کے وہ صدر مجلس استقبالیہ بھی مقرر کئے گئے تھے۔ غالباً 1994ء میں دارالسلام میں منعقدہ کل ہند مشاعرہ کے بھی وہ نگران تھے جس میں دلیپ کمار نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور نذیر اکبرآبادی کا کلام سنایا تھا۔ ہم نے سنا تھا کہ دلیپ کمار کے ملبوسات کی سلوائی خان صاحب کی نگرانی میں حیدرآباد کے کسی ٹیلر کے پاس ہوتی تھی۔ سپنا سنتوش سنیما ہال کے افتتاح میں بھی دلیپ کمار تشریف لائے تھے۔
حیدرآباد کے پراگندہ سیاسی ماحول نے دیرینہ دوستوں کے درمیان فاصلے پیدا کردیئے۔ مجلس سے اختلافات ہوئے اور سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی کی تشکیل جدید کے مسئلہ پر ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان سے جو اختلافات ہوئے تھے وہ ڈاکٹر شاہد علی خان کی فیملی کی ایک شادی کی تقریب میں دور ہوگئے۔ خان لطیف خان، زاہد علی خان اور سید وقارالدین صاحبان نے اصلاح معاشرہ کے لئے مشترکہ طور پر کئی تحریکات اپنے اپنے اخبارات کے ذریعہ چلائیں۔
مسلمانوں کی تعلیمی ترقی سے خان صاحب کو بہت دلچسپی تھی۔ وہ جب بھی حیدرآباد میں رہے، سلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی ضرور جاتے۔ جناب ظفر جاوید ان کے بااعتماد رفیق تھے۔ اگرچہ وہ عمر میں چھوٹے تھے مگر خان صاحب ان کا بہت زیادہ لحاظ کیا کرتے تھے۔ ظفر جاوید صاحب کے لئے جعفر صاحب کی جدائی کے بعد خان صاحب کا ساتھ چھوٹنے کا غم شاید ہی کبھی کم ہوسکے گا۔ اللہ صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
جناب خان لطیف خان کے سانحہ ارتحال کے بعد یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ اب منصف کا کیا ہوگا؟ بیس سال پہلے خان صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ ایک سسٹم کے تحت چلتا رہے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔کوئی بھی اردو اخبار ہو، اس سے وابستہ صحافی اور غیر صحافتی عملہ اپنے مستقبل سے متعلق فکرمند ہوجاتا ہے۔ ہمارے شہر کے اردو اخبارات کے مالکین ماشاء اللہ دولت مند ہیں۔ اللہ نے انہیں اتنا دیا ہے کہ ان کی سات پشتیں کسی محنت کے بغیر بیٹھ کر کھاسکتی ہیں۔ اخبارات ہوں یا مسلم ادارے ان کے مالکین پر ان کے ملازمین کا بھی حق ہے۔ قانوناً نہ سہی، اخلاقاً ہی سہی۔ جن کے لئے دولت جائیداد چھوڑی جاتی ہے وہ تو بے درد ی سے اڑا دیتے ہیں، مگر یہ غریب ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے مالکین کوئی ٹھوس اقدامات کرتے ہیں تو تاقیامت انہیں اس کا اجر ملتا رہے گا۔ کسی ادارے کے بند ہونے سے کسی کا رزق رکتا نہیں، کیوں کہ رزاق تو اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ امیر کو دولت اس لئے دیتا ہے کہ اس میں غریب کا بھی حصہ نکالا جاسکے۔ اگر ہمارے اخبارات کے مالکین اپنی زندگی میں اپنے اپنے اخبارات کو کسی ٹرسٹ کے تحت چلانے کا اتنظام کریں، کارپس فنڈ مختص کرائیں، اور کسی جائیداد کی آمدنی کو ملازمین کی تنخواہوں کے لئے وقف کردیں تو یہ ادارے جب تک رہیں گے، ان کے بانیوں کا نام بھی رہے گا اور ثواب جاریہ کا سلسلہ جاری رہیگا۔
حالیہ عرصہ کے دوران ہمارے سامنے کتنوں نے آنکھیں بند کرلیں، کون اپنے ساتھ کیا لے جاسکا۔ دو گز زمین، ایک معمولی سا کفن۔۔۔۔ دوست، رشتہ دار تو ان دنوں جنازہ و تدفین میں تک شریک نہیں ہورہے ہیں۔۔۔ بعد میں اپنی دعاؤں میں کیا یاد رکھیں گے۔ ہاں! ملازمین ضرور ان کے حق میں دعائے خیر کریں گے۔ نہ بھی کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر دیتا رہے گا۔
خان لطیف خان صاحب کے بعد ان کے جانشین اپنے والد کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے اس اخبار کو جاری رکھیں گے اس کی پوری امید ہے۔ "منصف" ہو یا "سیاست" یا "رہنمائے دکن ہو یا کوئی اور اخبار۔۔۔ اس کے ملازمین وفادار رہے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ بعض مصلحتوں اور مجبوریوں سے کسی نے ادارہ سے علیحدگی اختیار کی ہو مگر ذہنی اور جذباتی طور پر وہ اپنے سابق اداروں اور اس کے مالکین کے ساتھ رہے ہیں۔ خود ہماری مثال ہے۔ اپنا ادارہ قائم کرنے کے باوجود ہمارا یہ احساس ہے کہ رہنمائے دکن کا نمک ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔
بہرحال! خان لطیف خان صاحب ایک اچھے، نڈر، بے باک خوش اخلاق، خوش پوشاک نفیس انسان تھے۔ ان کے لہجہ کی شائستگی میں اپنائیت محسوس کی جاسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین

بشکریہ : گواہ اردو ویکلی (14/ تا 20/ اگست 2020)
***
gawahurduweekly[@]gmail.com
فون : 040-24741243
سید فاضل حسین پرویز

An interview of Khan Lateef Khan to Gawah weekly two decades back. Column by: Syed Fazil Hussain Parvez

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں