دینی کالم کیسے لکھا جائے - از امام حسن البنا شہید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-07

دینی کالم کیسے لکھا جائے - از امام حسن البنا شہید



جون 1933 میں اخوان المسلمون نے اپنے ہفت روزہ جریدہ "الاخوان المسلمین" کا آغاز کیا تو اس کے دینی سکیشن کی ذمہ داری امام حسن البنا کے سپرد کی گئی۔ اس وقت تک اکثر علما ایک قدیم اسلوب تحقیق و تحریر کے پابند تھے۔ امام نے نیا اسلوب اختیار کرتے ہوئے شروع ہی میں وضاحت کر دی کہ ان کی تحریروں کا انداز اور طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس ضمن میں انہوں نے پوری شرح و بسط کے ساتھ ایک مفصل مقالہ لکھا۔ یہ مقالہ فکری تجدید کے میدان میں ایک مرجع کی حیثیت رکھتا ہے جس میں علوم اسلامیہ کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ صنعا، یمن کے قلمکار سید حامد عبدالرحمن الکاف نے کیا ہے۔
اسی ترجمے سے چند مفید اور اہم اقتباسات ذیل میں پیش کیے گئے ہیں۔

جریدۃ الاخوان المسلمین کے اس دینی شعبے کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی ہے۔ میں نے اس کی بے شمار مشکلات اور صعوبتوں کے باوجود اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے اسی کی مدد اور توفیق کی امید پر اس ذمہ داری کو قبول کیا ہے۔ اس شعبے کے مباحث کا تعلق عقائد ، فقہ و اصولِ فقہ، تصوف و اخلاق، دینی مواعظ اور فتاوی جیسے موضوعات کے ساتھ ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ روز اول سے اس جزیرے کے قارئین کرام کے سامنے وہ طریقہ تحریر اور اسلوب نگارش رکھ دوں کہ جس پر چلنے کا میں نے عزم کیا ہے۔ مجلے کی مجلس ادارت اس شعبے کو ایک علمی سلسلہ بنانا چاہتی ہے جس کے فکر و استدلال میں ایک تسلسل ہو، جس کے ذریعے ایک مسلمان اپنے دین کے ان احکام کو معلوم کر سکے، جن کا جاننا اس کے لیے ضروری ہے۔

مجھے امید ہے کہ قارئین کرام میری ان گزارشات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور پھر جب کسی موضوع کے بارے میں انھیں کوئی شبہ لاحق ہوگا تو ان گزارشات کی طرف رجوع کریں گے۔ مذکورہ فنون کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے میں درج ذیل امور محترم قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:

-1-
ہر دور میں لکھنے کا ایک طریقہ ہوا کرتا ہے جو اس زمانے کے لوگوں کے ذوق، فہم اور مطالعے کے طریقوں سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ ایسے ہی اسلوب کو اختیار کیا جائے۔ اس مناسبت سے سابقہ زمانوں کی تالیفات کا اپنے زمانے کے مطابق، ایک رنگ اور مزاج ہوتا تھا، اور اس مزاج کی وہ عکاسی کرتی تھیں۔
اسلامی لٹریچر کی تدوین کے پہلے دور میں تالیفات کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں کتاب کو متن اور سند تک محدود رکھا جاتا تھا، زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ بہت مختصر انداز میں بعض حواشی لکھ دیے جاتے جن میں اپنی رائے کا اظہار کیا جاتا تھا۔
موطا امام مالک، مسند احمد اور حدیث کی اولین کتابیں اسی طرز پر مرتب کی گئیں۔ بعد ازاں مولفین احکام کی تلخیص ، ترتیب اور ان پر عملی مسائل کی تطبیق کی طرف متوجہ ہوئے، جیسا کہ امام شافعی کی کتاب "الأم" اور سرخسی کی کتاب "المبسوط" کا انداز ہے۔
اس کے بعد وہ دور آیا جس میں مولفین احکام کو بیان کرتے ، فروعی مسائل میں بکثرت استنباط کرتے اور سابقہ مولفین کی کوششوں پر اعتماد کرتے ہوئے بعض شروط کا ذکر کرتے یا پھر ان لفظی باریکیوں کی وضاحت کرتے تھے جن کے ذریعے مفصل تعلیقات،حاشیہ نویسی اور شروح لکھنے کا دور آیا۔
اس طرح آپ دیکھیں گے کہ ہر دور کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے۔ اپنی مخلوقات میں، اللہ کی یہی سنت رہی ہے۔ کسی حکیم کا مقولہ ہے کہ اپنی اولاد کو جبراً اپنے ضابطوں کا پابند نہ بناؤ، کیونکہ وہ ایک ایسے زمانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں جو تمھارے زمانے سے مختلف ہے۔

-2-
ہمارا دور تصنیف و تالیف اور علوم و معارف کی ترقی کا دور ہے، اس دور میں ترتیب و تہذیب کے نئے اسلوب سوچے گئے اور عبارت کو سہل بنانے کے نئے نئے طریقے دریافت کیے گئے۔ لیکن ہم دینی کتابوں کے میدان میں جہاں تھے وہیں ہیں۔ ہم نے جدید دور کی کوششوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ ہمارا اعتماد اور انحصار پوری طرح سابقہ کتابوں پر ہے۔ ہم نے اپنے زمانے کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔ ہم ابھی تک اپنے اسلاف پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس علمی قناعت کے راستے کو چن کر ہم دینی علوم سے بہت کم فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ (سابقہ زمانے کی) کتابوں کی تالیف، ترتیب اور لکھنے کا طریقہ، بہرطور آج کے دور سے مختلف ہے۔

-3-
یہ حقیقت کئی مواقع پر روز روشن کی طرح نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے، مثلاً:
** اگر آپ خرید و فروخت کے کسی مسئلے کو فقہ کی کتابوں میں تلاش کرنا چاہیں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ متعلقہ مسئلے کو تلاش کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے آپ کو بہت محنت درکار ہوگی۔ اس کے بعد بکھرے ہوئے احکام کو جمع کرنے کے لیے آپ کو مزید وقت صرف کرنا پڑے گا۔
** بعض جدید معاملات ایسے ہیں کہ جن سے فقہ کی بڑی بڑی کتابیں یکسر خالی ہیں۔ مثلاً بینکوں کے کاروبار اور نوٹوں کے معاملات وغیرہ، یہ سب ایسے امور ہیں جن کی تحلیل و تحریم کا تعلق دین اور فقہ سے ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم انھیں اپنی جامع اور مستند کتابوں میں نہیں پاتے۔ اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ یہ مسائل ہمارے متقدمین کے زمانوں میں موجود ہی نہیں تھے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ائمہ کرام کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں جدید مسائل کا حل ڈھونڈیں۔
** بعض مسائل و احکام کی بےحد تفصیل جن کا آج وجود ہی نہیں ہے جیسے غلامی کے مسائل کی اس کثرت سے مثالیں پیش کرنا کہ شاید ان کتابوں کا کوئی باب ان کے ذکر و بیان سے خالی نہ ہو۔ اسی طرح ان کتابوں میں پرانے اوزان، پیمانوں اور مسافتوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں، جب کہ ہم عصر حاضر کے اوزان، پیمانوں اور مسافاتوں کے محتاج ہیں۔
** اگر آج کا تعلیم یافتہ نوجوان آپ سے کسی ایسی کتاب کے بارے میں دریافت کرے جس میں عقائد اسلام کو مختصر انداز میں بیان کیا گیا ہو یا جس میں عبادات کے احکام ایسے طریقے سے ذکر کیے گئے ہوں کہ وہ اس کے ذہن کو اپیل کریں، تو آپ کس کتاب کا نام تجویز کر سکتے ہیں؟ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ اسی مختصر اور اطمینان بخش تحریر کا طالب ہے جس کو کم سے کم وقت میں پڑھا جا سکتا ہو کیونکہ جدید تعلیمی نظام میں اس کو ایسا ہی سکھایا گیا ہے اور اس نے ایسا ہی سیکھا ہے۔

میرا مقصد متقدمین کو تنقید کا نشانہ بنانا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے، انھوں نے اپنے اپنے زمانوں میں تصنیف و تالیف کا کام ٹھیک اس اسلوب میں سرانجام دیا جس طرح اس وقت کی ضرورت تھی۔ اس خدمت کے لیے ہم ان کے احسان مند ہیں کہ انھوں نے ہمارے لیے یہ عظیم علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، جو دلائل اور احکام سے بھرپور ہے۔
تاہم اس مقام پر میں معاصر علما کی ہمتوں کو للکارنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے زمانے میں دین کی خدمت بجا لائیں اور تصنیف وتالیف کا کام عصر حاضر کے لوگوں کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر انجام دیں۔ جس طرح ایک بوڑھے کسان نے کہا ہے:
"ہم سے پہلے کے لوگوں نے بویا تو ہم نے کھایا اور اب ہم بو رہے ہیں تاکہ ہمارے بعد آنے والے کھا سکیں"۔

ہم نہیں چاہتے کہ اسلامی علوم کے روایتی علمی حلقوں میں ہم ایک ایسا حلقہ بن کر ہ جائیں جو غفلت کا شکار ہو چکا ہے اور جس کے بارے میں ہمارے بچے اور پھر ان کے بچے یہ کہیں کہ وہ ہے عملی اور تساہل پسندی کے شکار اور فرض ادا نہ کرنے والے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک ایسا حلقہ بنیں جو اسلامی علوم کو اپنے اسلاف کی طرح ایک بہترین اسلوب میں ڈھالے تاکہ وہ بعد میں آنے والوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔
اس لیے جريدۃ 'الاخوان المسلمین' میں ان شاء اللہ میں جو اسلوب اختیار کروں گا وہ بعض اوقات ہماری دینی کتب سے مختلف ہوگا، لیکن وہ لازمی طور پر علوم اسلامیہ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اس سمندر سے ہی اپنی غذا اور قوت حاصل کرے گا کہ جس کی تہہ میں اسلاف کی دانش، محنت، تحقیق اور تفقہ فی الدین کے لعل و جواہر موجود ہیں۔
اگرچہ یہ اسلوب نگارش اپنی ترتیب اور نظم میں اچھوتا اور نیا ہوگا لیکن اپنے اصول و احکام اور قواعد و ضوابط میں ہرگز جدید نہیں ہوگا کیونکہ اسلام کے یہ اصول ثابت اور غیر متبدل ہیں اوران میں کسی قسم کا تغیر واقع نہیں ہوتا۔

میرے ذہن میں جو طریقہ آیا ہے وہ یہ ہے کہ اس موضوع پر لکھنے کے تین درجات ہونے چاہئیں:
پہلا درجہ :
اس میں ہم عوام کے لیے وہ کیفیات و احکام کو پیش کریں گے کہ جن پر ائمہ فقہ کا اتفاق ہے۔ ہم فقہی دلائل کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ اس میں ہم ان امور کا انتخاب کریں گے جن کا تعلق ترغیب و ترہیب، دینی اور دنیوی فوائد اور شریعت کے عمومی اسرار و رموز سے ہے۔ اس طرح ایک عام فرد بھی اپنی عبادت کے احکام معلوم کر سکتا ہے، ان میں بہتری لا سکتا ہے اور ان کو اسی طرح ادا کر سکتا ہے جس طرح کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا منشا ہے۔ نیز اس کے ساتھ وہ ان عبادات کے دینی و دنیوی فوائدکا احساس کر سکتا ہے۔
دوسرا درجہ :
اس میں ہم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ائمہ کرام کے ذخیرۂ علم کی مدد سے ہر عمل کی کیفیت اس کے احکام کے ساتھ بیان کریں گے۔ ساتھ ہی ان کے دلال کا بھی ذکر کریں گے۔ اس حصے کے آغاز میں ایک مقدمہ بھی ہوگا جس میں ہم اصولی اصطلاحات اور ائمہ کے اختلاف کے اسباب بیان کریں گے۔
تیسرا درجہ :
اس میں ہم اختصاص کا درجہ رکھنے والے علما کے لیے مختلف فقہی مسائل اور ان کی ترجیح کے مختلف پہلوؤں کو ائمہ کے اقوال کے ساتھ واضح کریں گے۔ اس طرح مسائل میں تحقیق و جستجو کرنے والا اس مسئلے میں سب راجح و مرجوح کو جان سکے گا اور ایک ایسی رائے تک پہنچ سکے گا جو اس کے لیے اطمینان بخش ہو۔ واضح رہے کہ یہ حصہ صرف ان علما کے لیے ہوگا جن کے قدم تحقیق و ریسرچ کے میدان میں خوب راسخ ہو چکے ہوں، یقیناً ایسے حضرات تعداد میں کم ہوں گے۔

جريدة الاخوان المسلمین میں ہم پہلی دو قسموں کو ترجیح دیں گے۔ رہی تیسری قسم تو ان کے لیے فقہ اور حدیث کی جامع کتابیں کافی ہیں۔
ہم ان تحریروں میں ان شاء اللہ حسب ذیل امور کی رعایت رکھیں گے۔
1: فروعی مسائل میں مفروضوں پر بات کرنے سے گریز کیا جائے گا۔
2: جہاں تک ہو سکے مشکل اصطلاحات کو استعمال کرنے سے احتراز کریں گے۔
3: عبارت سہل ، سلیس اور سیدھی سادی ہوگی۔
4: فقہی احکام کو ان کے قواعد ، اسرار اور حکمتوں کے ساتھ کچھ اس طرح مربوط کریں گے کہ ان کا روکھا پن جاتا رہے گا۔

تصوف اگرچہ رسمی طور پر علوم اسلامیہ میں شمار نہیں ہوتا ہے، لیکن وہ امت میں دیگر علوم سے زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ تصوف میں بھی انسانی خواہشات اور مختلف سیاسی و اجتماعی اہداف و اغراض گھس آئے ہیں۔ لہذا تصوف کے بارے میں لکھتے ہوئے ہم ان شاءاللہ درج ذیل اصولوں کو مدنظر رکھیں گے:
1: علم المعاملہ کے احکام کا ذکر اور کتاب و سنت سے ان کے دلائل پیش کرنا۔
2: ان کے ایسے نتائج اور ثمرات کا مختصر بیان جو ذوق اور وجدان سے تعلق رکھتے ہیں اور جو راہ سلوک پر چلنے کے لیے مہمیز کا کام دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ اہتمام کہ وہ نہ تو کتاب اللہ سے متصادم ہوں اور نہ سنت رسول سے ٹکراتے ہوں۔
3: ان فنی اصطلاحات کی صحیح تشریح جن کی کاشت اور پرداخت اس فن کے شیوخ اور ائمہ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔
4: شیوخ کی سیرتوں اور ان کے کلام و بیان میں مثالی نمونے کی تلاش پر ارتکاز۔
5: اس علم کے عملی پہلو پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا، کیونکہ یہی اس کی بنیاد اور اصل ہے۔

علاوہ ازیں عمومی خطبات کے میدان میں درج ذیل امور کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔
1: عبارت سہل ہو جس میں موضوعات اور مضامین وضاحت سے پیش کیے گئے ہوں، ہم قافیہ و ہم وزن الفاظ اور مسجع و مقفع عبارتوں کے استعمال سے اجتناب۔
2: جملوں کی ساخت اور مقدار متوسط ہو، یعنی وہ نہ تو لمبے ہوں کہ اکتاہٹ پیدا کریں اور نہ اتنے چھوٹے اور مختصر کہ پیغام پہنچانے سے قاصر ہوں اور بات بےمعنی ہو کر رہ جائے۔
3: دلائل قرآن اور حدیث پر مبنی ہوں گے اور صرف ان مسائل سے تعرض کریں گے جن سے سامعین آشنا ہیں تاکہ وعظ دلوں میں ایک موثر عامل بن کر داخل ہو۔
4: ایک وقت میں صرف ایک مسئلے یا ایک فکر پر گفتگو کی جائے، تاکہ وعظ کے احکام، نتائج اور ثمرات کی توضیح اور بیان کا مرکز وہی نکتہ ہو اور اختتام خطاب پر سامعین کے دل و دماغ میں رچ بس جائے۔
5: موضوعات سامعین کی زندگیوں سے براہ راست اور گہرا تعلق رکھتے ہوں، تاکہ وہ محسوس کریں کہ یہ مواعظ ان کو راہ راست پر چلانا چاہتے ہیں اور ان کو ضرر اور نقصان سے بچانا ہی ان کا مقصد ہے۔
6: بذات خود بہ موضوعات آپس میں مربوط ہو کر اپنے نکات میں تبدیل ہو جائیں، جن کا ہدف سامعین کو صرف ثقافت اسلامیہ سے بخوبی روشناس کرانا اور ان کو اس کے رنگ میں رنگنا ہوگا۔
7: وعظ میں ایک نکتے سے دوسرے نکتے کی طرف منتقلی واضح انداز میں ہو اور اس میں معلوم اور محسوس چیزوں کی مثالیں دی جائیں تاکہ نامعلوم چیزوں اور امور کا ادراک ہو سکے۔

***
بشکریہ:
ماہنامہ ترجمان القرآن (لاہور) ، شمارہ: مئی 2007ء

How to write a religious Column? Article by: Imam Hassan al-Banna

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں