راحت اندوری - عام آدمی کے دکھ درد کا ترجمان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-11

راحت اندوری - عام آدمی کے دکھ درد کا ترجمان


راحت اندوری (اصل نام: راحت قریشی)
پیدائش: یکم جنوری 1950 (اندور)
وفات: 11/ اگست 2020 (اندور)
اردو کے اس معروف و مقبول شاعر کا کورونا سے متاثر ہونے کے بعد آج بروز منگل اندور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں علاج کے دوران انتقال ہو گیا، وہ 70 برس کے تھے۔
ظفر گورکھپوری کا مندرجہ ذیل مضمون بطور خراج عقیدت پیش ہے۔

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ فراق، فیض، سردار، مخدوم، جاں نثار اور ساحر سبھی کے ساتھ مجھے اپنے ادبی سفر میں، مشاعروں میں شریک رہنے کے مواقع حاصل رہے ہیں۔
ان سبھی کی شاعری میں انقلاب کی بازگشت ایک مشترک عنصر ہے لیکن طرزِ اظبار نہایت دل نشین اور لہجہ نہایت نرم ہے۔ مشاعروں کے سامعین انہیں بہت احترام سے سنتے تھے اور ان کے کلام کی ادبیت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
ساحر لدھیانوی اپنی طویل نظم "پرچھائیاں" ، نہایت سکون کے ساتھ بغیر ہاتھ پاؤں جھٹکے، بغیر کوئی تمہید باندھے اور بغیر کسی جملہ بازی کے، گھنٹوں مشاعروں میں سناتے تھے اور سامعین سکون کے ساتھ نظم سے محظوظ ہوتے تھے۔
میں نے جگر صاحب کا ترنم سنا ہے، مجروح کا ترنم سنا ہے اور آج کے ترنم بازوں کا 'تال سُر' بھی سن رہا ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت (لگ بھگ چالیس سال قبل) اردو معاشرہ زندہ تھا۔ لوگ زبان و ادب پڑھتے تھے اور سامعین کو ادب کا گہرا شعور تھا۔ آج اردو معاشرہ ختم ہو گیا ہے۔ مشاعروں میں سطحی شعروں پر خوش ہونے والے تفریح پسند افراد بڑی تعداد میں شریک رہتے ہیں۔ راست لہجے والی، جذباتی موضوعات سے عبارت، خطابیہ اور اکہری شاعری آج کے سامعین کو زیادہ مرغوب ہے۔ ادب اور ادبی افکار پر جان چھڑکنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس صورت حال میں مشاعروں کے اسٹیج پر شعر سے زیادہ شاعر کے performance کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ جو شاعر جتنا اچھا perform کرے گا اتنا کامیاب ہوگا۔ گزشتہ 50 برسوں میں، میں نے کیفی اعظمی سے بہتر تحت اللفظ پڑھنے والا شاعر نہیں دیکھا۔ لیکن کیفی کا تحت میں پڑھنا performance کے ذیل میں نہیں آتا۔ ان کا اپنا مخصوص اسٹائل تھا جو سامعین تک ان کی انقلابی نظموں کی ترسیل کے لئے ضروری بھی تھا۔

اس دور میں راحت اندوری کا تحت میں پڑھنا سب سے الگ ہے اور انوکھا بھی۔
راحت آج کے مشاعروں کے بے حد کامیاب اور مقبول شاعر ہیں ۔ ان کے تحت کے آگے اچھے اچھوں کے چراغ ماند پڑ جاتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، ان سے زیادہ مشاعروں کی نفسیات کون سمجھے گا کہ مشاعرے کے موضوع پر انہوں نے پی۔ایچ۔ڈی کیا ہے۔
میں نے راحت کی شاعری کا مطالعہ مشاعروں کے حوالے سے نہیں کیا ہے۔ راحت کی شاعری زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل، عہد حاضر کے سیاسی اور سماجی حالات اور ایک عام آدمی کے دکھ درد کی ترجمان ہے۔ ان کی شاعری میں کسی گہرے فلسفے یا کسی پیچیده رمز کی عقدہ کشائی نہیں لیکن یہ کم اہم بات نہیں کہ ہم اس میں زندگی کی دھڑکنیں سنتے ہیں۔ یہ شاعری ہمیں اپنے اطراف پھیلی ہوئی وسیع تر دنیا کے شب و روز کی سچی تصویریں دکھاتی ہے۔
تخلیقی سطح پر سادہ اور مانوس لفظیات کے استعمال اور ایک غیر مبہم پیرایۂ اظہار نے راحت کی شاعری کو ایسا ذائقہ عطا کر دیا ہے جو عوام اور خواص دونوں کو اپنے دائرۂ اثر سے باہر جانے نہیں دیتا۔
راحت کا لہجہ تیکھا ہے۔ ان کے شعری مزاج میں صاف گوئی، بے خوفی اور بے باکی ہے جو میرے نزدیک ایک حقیقی فن کار کا جوہر ہے۔
ایک بات جس کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا، وہ یہ ہے کہ ان کے ہاں احتجاج وافر ہے اور احتجاج کا آبنگ اتنا crude ، واضح اور بیانیہ ہے کہ وہ کبھی کبھی فکری سطح پر صحافت کے حدود میں داخل ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

میں نے راحت کی جو کتابیں دستیاب ہو سکیں ان کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے ہاں ایسے بہت سے اشعار مل جائیں گے جن سے سرسری گزر جانا آسان نہیں ہوگا۔
ان میں فکر ہے، شعور ہے، فن ہے اور وہ رچاؤ اور ہنر داری ہے جو کسی شعر کو ادب پاره بناتی ہے۔ میں راحت کو اسی نوع کے اشعار کے حوالے سے پہچانتا ہوں۔

اسے سامان سفر جان یہ جگنو لے لے
راہ میں تیرگی ہوگی، مرے آنسو لے لے

عمر بھر چلتے رہے آنکھوں پر پٹی باندھ کر
زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی

اس پار منتظر ہیں تیری خوش نصیبیاں
لیکن یہ شرط ہے کہ ندی پار کر کے آ

جیسے دریا کسی دریا سے ملے
آؤ ہو جائیں مکمل ہم تم

مجھے یہ کہنے میں قطعی کوئی باک نہیں کہ راحت کے یہ وہ اشعار ہیں جو مشاعرہ بازی کے کاروباری عمل سے قطع نظر ان کی ادبی شناخت کا حوالہ بھی ہیں۔ مستقبل انہیں اسی حوالے سے تلاش کرے گا۔

راحت اندوری کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں
طوفاں تو اس شہر میں اکثر آتا ہے
دیکھیں اب کے کس کا نمبر آتا ہے
یاروں کے بھی دانت بہت زہریلے ہیں
ہم کو بھی سانپوں کا منتر آتا ہے
بوتا ہے وہ روز تعفن ذہنوں میں
جو کپڑوں پر عطر لگا کر آتا ہے
رحمت ملنے آتی ہے پر پھیلائے
پلکوں پر جب کوئی پیمبر آتا ہے
سوکھ چکا ہوں، پھر بھی میرے ساحل پر
پانی پینے روز سمندر آتا ہے
ان آنکھوں کی نیندیں گم ہو جاتی ہیں
جن آنکھوں کو خواب میسر آتا ہے
ٹوٹ رہی ہے ہر دن مجھ میں اک مسجد
اس بستی میں روز دسمبر آتا ہے
راحت اندوری کی منتخب غزلوں کے دو مجموعے ذیل کے لنک سے بشکل ایم۔ایس۔ورڈ فائل ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
دونوں مجموعوں کو اعجاز عبید صاحب نے کمپوز و مرتب کیا ہے۔

1: دھوپ کا صندل (33 غزلیں ، صفحات: 57)
2: کھیت سنہرے ہیں (23 غزلیں ، صفحات: 34)

***
ماخوذ از کتاب: لمحے لمحے ، راحت اندوری شاعر اور شخص (اشاعت: 2002)

راحت اندوری کے فن و شخصیت پر پانچ منٹ کی مختصر ویڈیو کلپ ملاحظہ فرمائیں۔ آواز اور پیشکش: مکرم نیاز

Rahat Indori - the spokesperson for the common man's grief. Article by: Zafar Gorakhpuri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں