« پچھلی قسط --- تمام اقساط »
پچھلی قسط کا خلاصہ :
سمندر کے سفر میں بھٹکتے ہوئے فیروز، جان اور ان کی ٹیم کا سابقہ اچانک آگ کے ایک گولے سے پڑا۔ مگر آگ کا وہ گولہ جان کے زہروی دوست شاگو نے بھیجا تھا جس کے ذریعے انہیں ایک آفاقی ہار دیا گیا۔ اور شاگو کی ہدایت کے بموجب اس ہار کو اختر کے گلے میں ڈال دیا گیا۔ مگر وہ لوگ سمندر کے سفر میں کچھ آگے بڑھے تھے کہ اچانک سمندر کا سارا پانی سرد ہونا شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سمندر کا وہ حصہ مکمل برف میں تبدیل ہو گیا جہاں ان کی کشتی موجود تھی۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔
وہ چہرہ اب ہم سب کے سامنے تھا۔ وہ ایک بہت بڑا چہرہ تھا۔ بے حد خوفناک اور ڈراؤنا۔ گنبد سے بھی بڑے اس بھیانک چہرے کی سب چیزیں انسانوں جیسی تھیں مگر ایسی کہ جن کو دیکھ کر انسان کا پتہ پانی ہو جائے۔ سر بہت بڑا تھا۔ کان لمبے اور اوپر سے نوکیلے تھے۔ ناک بھی بہت لمبی اور آگے سے سوئی جیسی نوکیلی اور تیز تھی، مونہہ اس وقت بند تھا۔ مگر ہمیں دیکھ کر جب وہ چہرہ بھیانک طریقے پر ہنسا تو میں نے دیکھا کہ اس کے مونہہ میں ایک بھی دانت نہیں تھا۔ البتہ زبان بہت لمبی تھی۔ آنکھیں خوفناک تھیں اور ان میں پتلی سرے سے تھی ہی نہیں۔ ٹھوڑی کے نیچے سفید ڈاڑھی تھی جو ہمالیہ کے برفانی علاقوں کے گلشیرز سے ملتی جلتی تھی۔ سب سے حیرت انگیز اور دل کو لرزا دینے والی بات یہ تھی کہ یہ چہرہ گوشت پوست یا پتھر کا نہیں بلکہ سفید اور ٹھوس برف کا تھا!
اس کے آس پاس کی برف برابر ٹوٹ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے اپنے ہاتھ باہر نکال لئے اور پھر برف کا سہارا لے کر وہ دیو یا جو کچھ بھی آپ اسے کہئے اوپر اٹھنے لگا۔ ہم یہ دیکھ کر جلدی سے کشتی میں دبک گئے۔جان نے سب سے کہا کہ کوئی بھی کشتی سے باہر نہ رہے اور اس کے حکم کے بغیر اپنے ہتھیاروں سے کوئی بھی کام نہ لے۔
میں کہہ نہیں سکتا کہ اس وقت ہماری کیا حالت تھی ؟ ہم میں سے کوئی بھی بزدل نہ تھا مگر مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اب کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کہ اس وقت ہم اتنے ڈر گئے تھے کہ خوف کی وجہ سے ہم نے اپنے سانس تک روک لئے تھے۔ ہتھیار ہمارے ہاتھوں میں کانپ رہے تھے۔ اور ہمارے جسم پسینے میں نہا گئے تھے۔ اختر سوامی کے سینے میں مونہہ چھپائے ہوئے تھا۔ میرا خیال ہے کہ شاید اس نے اس خوفناک چیز کو نہیں دیکھا تھا۔ ورنہ مجھے یقین ہے کہ وہ خود بھی شاید نجمہ ہی کی طرح بے ہوش ہو گیا ہوتا۔ برف کا وہ آدمی سمندر میں سے آہستہ آہستہ اوپر آ رہا تھا۔ آخر کار جب وہ گھٹنوں تک اوپر آگیا تو اپنا سینہ تان کر رک گیا۔ میرے خیال میں اس کی اونچائی سطح سمندر سے پانچ سو فٹ تو ضرور ہوگی۔ اس کے چہرے کو دیکھنے کے لئے ہمیں کمر کے بل لیٹنا پڑتا، تب شاید اسے دیکھ سکتے تھے۔
اوپر آتے ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے زور کی چنگھاڑ ماری جس کے باعث برف کی اس زمین پر دراڑیں پڑ گئیں۔ اس کا پورا جسم ٹھوس اور شفاف برف کا تھا اور اس برف کے آر پار ہر چیز صاف نظر آتی تھی۔ اس کے جسم میں سے وہ مقام جہاں سمندر آسمان سے مل رہا تھا، بالکل صاف نظر آتا تھا۔ اس کے ہاتھوں اور جسم سے پانی ٹپکتے ٹپکتے ہی برف بن جاتا تھا، اور اس طرح اس کے پورے برفانی جسم پر لمبی لمبی اور موٹی سوئیاں سی بن گئیں تھیں۔
اگر کوئی ان سوئیوں کو چھو لیتا تو یقیناً ان کی نوکیں چھونے والے کے ضرور چبھ جاتیں۔ برف کا یہ لمبا آدمی پہلے تو آسمان کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اس نے آہستہ آہستہ اپنی بے پتلی کی سفید اور بھیانک آنکھوں سے نیچے دیکھا۔ اس کے مقابلے میں ہماری چھوٹی سی کشتی ایک تنکے کی حیثیت رکھتی تھی اور ہم لوگ اس تنکے سے چمٹی ہوئی ننھی سی چیونٹیاں!
اسی سے آپ کو برف کے اس دیو کی اونچائی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ہماری کشتی کو دیکھ کر اس نے اتنا زبردست قہقہہ لگایا کہ آواز کے دھکے سے ہماری کشتی ہلنے لگی۔ اس کے بعد وہ اپنا برف کا ایک ہاتھ کشتی کے اوپر لایا۔ ہم نے بھنچی بھنچی آنکھوں سے اس ہاتھ کو دیکھا۔ وہ ہاتھ ہماری کشتی سے تقریباً تین سو فٹ اونچا ضرور ہوگا۔ یوں لگتا تھا جیسے آسمان پر برف کا ایک لمبا سا پہاڑ بادل کی طرح لہرا رہا ہو۔ اس پہاڑ میں سے ننھی ننھی ٹھنڈی بوندیں ہمارے اوپر گر رہی تھیں۔ شاید آپ یہ سمجھیں گے کہ میں شاعری کرنے لگا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں نے اب دل پر قابو پا لیا ہے۔ یہ داستان لکھتے وقت تو بے شک میں شاعری کر رہا ہوں، مگر اس وقت تو درحقیقت موت مجھے اپنے اوپر منڈلاتی ہوئی نظر آتی تھی!
ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہم کیا کریں؟ آخر اس کشتی میں دبے ہوئے ہم کب تک بیٹھے رہتے میں نے بڑی مدھم آواز میں جان سے پوچھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے اور اب ہمارا اگلا قدم کیا ہو؟
"بڑی عجیب حالت ہے فیروز ، میرا دماغ اس وقت بےکار ہو گیا ہے۔" جان نے کہا۔
"ایسا تو نہیں کہ یہ سب مہربانی آپ کے شاگو صاحب کی ہو؟" امجد نے پوچھا۔
"نہیں بھئی نہیں ہو سکتا" جان نے کہا
"شاگو تو ہماری مددکررہا ہے۔ برف کا یہ خوفناک دیو اس نے نہیں بھیجا۔ بلکہ یہ مجھے جیگا کی شرارت نظر آتی ہے۔"
"نہیں، میرے خیال میں یہ بات نہیں ہے، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ برف کا یہ آدمی دراصل ہماری مدد کے لئے آیا ہو؟" امجد نے پوچھا۔
"نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ تم اس کے تیور دیکھو۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے ارادے خطرناک ہیں۔"
"اس بلا سے چھٹکارا کس طرح پایا جا سکتا ہے ، کیا آپ بتا سکتے ہیں؟" میں نے جان سے دریافت کیا۔
"صرف ایک طریقہ ہے۔ ہم کشتی کو دھکیل کر بڑی تیزی کے ساتھ برف کی اس زمین پر پھسلاتے ہوئے وہاں تک لے جائیں جہاں برف کا آخری کنارہ ہے اور پھر کشتی کو پانی میں پہنچا کر جتنی جلد ہو سکے ، چپو چلا کر اس جگہ سے دور چلے جائیں۔"
"کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟" امجد نے کہا۔
"کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم بچ جائیں گے۔ جی نہیں، برف کا یہ دیو ہوسکتا ہے کہ ہمارا پیچھا کرے اور جہاں جہاں ہم جائیں ، وہاں کا پانی بھی برف بنتا جائے۔ نہیں جناب یہ تو خود کو موت کے مونہہ میں دھکیلنا ہوا۔ میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔"
"پھر۔۔۔پھر کیا کیا جائے، تم ہی بتاؤ" جان نے بیزاری کے ساتھ کہا۔
"اپنی زندگیوں کو بچانے کے لئے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ جیگا کے راستے سے ہٹ جائیں۔"
امجد کے یہ کہتے ہی ہم چونک کر اسے دیکھنے لگے۔ جان اسے بری طرح گھور رہا تھا۔ امجد کے اس جواب سے جو شبہ جان کو ہوا تھا تقریباً وہی مجھے بھی ہوا۔ کہیں یہ امجد جیگا کے ساتھیوں میں سے تو نہیں ہے، یا پھر کہیں یہ خود ہی تو جیگا نہیں ہے۔۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں نے امجد کو دیکھا۔ شاید وہ ہمیں ان نظروں سے دیکھتے پاکر گھبرا گیا اور پریشان ہو کر بولا۔
"آپ سب مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں!"
"امجد تم سے ایسی باتوں کی توقع نہیں تھی۔ تم نے بڑی بزدلی کا ثبوت دیا ہے۔" میں نے آہستہ سے کہا۔
"اوہ۔۔۔ میں سمجھ گیا آپ لوگوں نے کیا سوچا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید میں خود ہی جیگا ہوں۔ فیروز صاحب خدا کے لئے ایسا مت سوچئے ، میں ہرگز وہ نہیں ہوں جو آپ سوچ رہے ہیں۔ رہی میری بزدلی والی بات تو معاف کیجئے گا یہ میں نے اپنی جان بچانے کے لئے نہیں کہی۔۔۔ آپ شاید نہیں جانتے۔۔"
اس نے اپنا سر جھکا لیا۔
"کیا نہیں جانتا؟"
"یہی۔۔۔ کہ۔۔۔کہ۔۔ میں نے صرف نجمہ کی خاطر ایسا کہا تھا۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میں نے ایسی بات کہی مگر میں نجمہ کا جیتے جاگتے موت کے مونہہ میں گرنا پسند نہیں کرتا۔ میں نے ان جذبات کو چھپایا تھا مگر افسوس میری باتوں نے بھانڈا پھوڑ دیا۔"
امجد کی یہ باتیں سن کر میرا شبہ فوراً دور ہو گیا اور میں نے آگے سرک کر اس کا ہاتھ دبا دیا۔ ساتھ ہی کہا۔
"امجد مجھے معلوم ہے ، میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا ، تمہیں نجمہ کی حفاظت کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ اور میری طرف سے اس کی اجازت ہے۔"
امجد کے چہرے پر اچانک سرخی دوڑ گئی اور وہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھنے لگا جس میں ممنونیت پوشیدہ تھی، مسکراتے ہوئے اس نے اپنا پستول نکال لیا اور پھر جان سے بولا۔
"برف کے اس آدمی کا ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے آتا جا رہا ہے ، جان صاحب آپ فرمائیں تو ایک گولی ضائع کر کے دیکھ لوں؟"
"دیکھ لو۔۔۔ مگر تمہارے ہی الفاظ میں گولی ضائع ہی ہوگی۔"جان نے مونہہ بنا کر جواب دیا۔
دھائیں۔۔۔ زور سے ایک آواز بلند ہوئی اور گولی اس خوف ناک منجمد ہاتھ سے ٹکرا کر نہ جانے کہاں غائب ہوگئی۔ مگر اس کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ برف کے آدمی نے گھبر اکر اپنا ہاتھ اوپر کھینچ لیا اور اس کے بھیانک چہرے پر ناراضی صاف جھلکنے لگی۔ یہ دیکھ کر جان نے جلدی سے امجد سے کہا:
"میرا خیال پلٹ گیا ہے امجد۔ گولی نے اس برفانی آدمی کو تکلیف نہیں پہنچائی، بلکہ گولی کی گرمی نے پہنچائی ہے۔ برف آگ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی، فوراً پگھل جاتی ہے ، تمہارے گولی چلانے سے ایک طریقہ اپنے بچاؤ کا نظر آتا ہے۔ اگر کسی طرح سے اس جگہ کافی سے زیادہ آگ جلا دی جائے تو ہم لوگ اس برفانی آدمی کو پانی بنا سکتے ہیں اور پھر یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔"
بات بڑی معقول تھی اور ہم سب کی سمجھ میں بھی آگئی تھی۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوا کہ برف پر آگ کس طرح جلائی جائے۔ دنیا جانتی ہے کہ آگ اور پانی کا میل کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ زمین عام زمین ہوتی تو اس پر آگ جلانا کچھ مشکل کام نہ تھا۔ مگر برف پر آگ جلانا تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے جیسا کام تھا، اگر فرض کر لیا جائے کہ آگ جل بھی جاتی، تو پھر اس کے شعلے تین چار سو فٹ کی اونچائی تک پہنچانا ایک ایسا کام تھا جو ہم انسانوں کے بس میں بالکل نہ تھا۔
گولی کی گرمی پاکر برف کا وہ آدمی تلملا گیا اور اس نے امجد کو پکڑنے کے لئے اپنا ہاتھ نیچے بڑھایا۔ اس وقت ہم نے ایک خاص بات نوٹ کی ، برف کا وہ آدمی اکڑا ہوا کھڑا تھا اور صرف اس کا ہاتھ ہی نیچے جھک رہا تھا۔ وہ خو د اپنی کمر کو نہیں جھکا سکتا تھا۔ ہم سمجھ گئے کہ ٹھوس برس کا ہونے کی وجہ سے اس کے جسم میں پھرتی اور لچک نہیں ہے۔ ان ہی دو خصوصیتوں کی بدولت انسان ہر سمت مڑ سکتا ہے اور چاہے تو نیچے جھک سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر ہمیں کم از کم اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ برف کا آدمی نیچے جھک کر ہمیں پکڑ نہیں سکتا۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے فوراً ایک ترکیب سوچ لی۔ اور ساتھ ہی امجد سے کہا کہ وہ برفانی آدمی کے ہاتھ کو دور رکھنے کے لئے ایک گولی اور چلائے۔ امجد نے میرا کہنا مانتے ہوئے برف کے اس ہاتھ پر ایک فائر اور کر دیا۔
ایک زبردست اور بھیانک چیخ سنائی دی اور برفانی آدمی نے جلدی سے اپنے دوسرے ہاتھ سے اس ہاتھ کو پکڑ لیا۔ جیسے کہ اسے بڑی تکلیف ہوئی ہو۔ اس سے ہماری ڈھارس بندھی اور پھر میں نے جان سے کہا کہ وہ سب کشتی سے باہر آ جائیں۔ دیو کا ہاتھ اگر نیچے آنے لگے تو برف کی زمین پر ادھر اُدھر بھاگنا شروع کر دیں۔ تاکہ دیو کے ہاتھ نہ لگیں۔
میری یہ بات سن کر جان، سوامی، جیک، امجد اور اختر جلدی سے کشتی سے باہر آ گئے۔ پہلے تو خوف یہ تھا کہ کہیں دیو کے ہاتھوں مارے نہ جائیں، مگر اب زندگی بچانے کی خاطر ہم سب میں اچانک ہمت پیدا ہو گئی۔ اختر اور سوامی کو میں نے اپنے پاس ہی رہنے کی تاکید کی اور باقی لوگوں سے کہا وہ ادھر ادھر دوڑتے رہیں تاکہ برفانی دیو کا دھیان بٹ جائے۔
جان کی سمجھ میں بھی یہ بات آگئی اس لئے اس نے بھی میرا حکم مان لیا۔ اس کے بعد میں نے سوامی سے کہا کہ پینے کا پانی لکڑی کے ایک پیپے میں سے نکال کر برف پر بہا دے۔ میری یہ بات سن کر سوامی حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس طرح جیسے کہ میں بے وقوف ہوں۔ ہر شخص شاید یہی سوچتا۔ آپ حضرات جو اس داستان کو دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی سوچیں۔ میں جانتا ہوں کہ پانی اس وقت ہماری زندگی تھا۔ پانی کو یوں بہا دینا عقل مندی ہرگز نہ تھی مگر آپ کو آگے چل کر پتہ لگ جائے گا کہ یہ بے وقوفی تھی یا عقل مندی؟
سوامی شاید کچھ حیل و حجت سے کام لیتا مگر مجھے سنجیدہ دیکھ کر اس نے پینے کا پانی پیپے کو ٹیڑھا کر کے برف پر بہا دیا۔ اور پھر مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے اب اگلے حکم کا منتظر ہو۔ میں نے پھر فوراً ہی خود آگے بڑھ کر پٹرول کا ایک بڑا ڈبہ اٹھالیا۔ یہ ڈبہ جست کا بنا ہوا تھا، ڈبے کا ڈھکنا کھول کر میں نے وہ تمام پٹرول لکڑی کے پیپے میں بھر دیا۔ اب اس طرح ایک تو پٹرول ضائع نہیں ہوا دوسرے جست کا ایک بڑا ڈبہ بھی خالی ہو گیا۔ میں نے سوامی سے کہا کہ وہ ہتھوڑی یا چاقو کی مدد سے اس ڈبے کو پورا کھول دے۔ سوامی شاید اب میرے ارادے کو سمجھ گیا تھا۔ اس نے جلدی جلدی ڈبے کو کھولنا شروع کر دیا اور اس کے اس کام میں میں نے بھی ہاتھ بٹایا۔ ایسا کرتے ہوئے میں بار بار اوپر دیکھ رہا تھا کہ کہیں برفانی آدمی کا ہاتھ تو مجھے پکڑنے کے لئے نہیں آ رہا۔۔۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ اس خوف ناک دیو کی پوری توجہ اس وقت بھاگتے ہوئے جان، جیک اور امجد پر تھی۔ وہ لوگ اسے بار بار جُل دے کر ادھر اُدھر نکل جاتے تھے۔
سوامی نے اس عرصے میں جست کا وہ ڈبہ بالکل کھول لیا تھا اور اب ہمارے پاس تین فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی جست کی ایک چادر تھی۔ سوامی کو اپنے ساتھ لے کر اور اختر کو نجمہ کے پاس چھوڑ کر میں برفانی دیو کے گھٹنوں کے پاس جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ احتیاطاً میں نے پستول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ سوامی سے میں نے کہا کہ وہ سوکھی لکڑیوں کا ایک بنڈل اور ماچس بھی لے لے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر جلد ہی ہم دونوں اس سامان کے ساتھ برفانی آدمی کے گھٹنوں کے قریب پہنچ گئے۔ مگر مصیبت یہاں یہ پیش آئی کہ برفانی آدمی نے ہمیں دیکھ لیا۔ اور شاید اس نے ہمارا ارادہ بھی بھانپ لیا۔ اس کے خوفناک چہرے پر حقارت جھلکنے لگی اور پھر اس نے اپنا برف کا ہاتھ ہماری طرف بڑھایا ہاتھ کو اپنے طرف آتے دیکھ کر میں نے بھی وہی کیا جو امجد نے کیا تھا۔ اپنے پستول سے میں نے ایک فائر کیا اور پھر فوراً ہی سوامی نے بھی دوسرا فائر کردیا۔ برفانی آدمی نے ایک بھیانک چیخ مار کر بڑی بے قراری سے اپنا ہاتھ نیچے جھٹکا۔ اب اسے اتفاق کہہ لیجئے یا بد قسمتی کے اس کے ہاتھ میں جان کی ٹانگ آگئی۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے جان کو بڑی بے دردی سے پکڑ کر اس نے اوپر اٹھا لیا۔ جان بری طرح چیخ رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں یوں لٹک رہا تھا جیسے چوہیا!
۔۔۔۔ برفانی آدمی نے خوشی کی ایک چیخ مار کر جان کو اپنے مونہہ میں رکھ لیا اور پھر ہم نے ایک عجیب دل دہلا دینے والا نظارہ دیکھا۔ جان برف کے اندر ہمیں صاف صاف جاتا ہوا نظر آیا۔ پہلے وہ برفانی آدمی کے حلق میں پہنچا پھر قلا بازیاں کھاتا ہوا سینے میں آیا اور سب سے آخر میں پیٹ کے اندر پہنچ گیا۔
وہ بالکل زندہ تھا اور بڑی بے بسی کے عالم میں ہم سب کو دیکھ دیکھ کر چیخ رہا تھا ، مگر اس کی آواز ہمارے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھی ، میرا یہ دیکھتے ہی خون کھولنے لگا ، میرا بزرگ اور مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز شخص اس وقت برف کے قید خانے میں بند تھا!
شاید میرے ساتھ ہی اور سب بھی حیرت اور خوف سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ امجد کو اتنا منہمک تھا کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب برف کے آدمی کا ہاتھ نیچے آیا اور کب اسے پکڑ کر اوپر مونہہ تک لے گیا۔ شاید وہ تو اس وقت چونکا ہوگا جب اس نے خود کو برفانی آدمی کے پیٹ میں جان کے پاس پایا ہوگا۔
یہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے اور میں نے سوامی سے کہا کہ وہ جلدی سے کشتی میں جاکر لکڑی کا پیپا اٹھا لائے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے ، لکڑی کے اس پیپے میں اب پانی کی جگہ پٹرول بھرا ہوا تھا۔ سوامی موقع کی نزاکت کو بھانپ گیا اور پھر اندھا دھند ایک دو فائر کرتا ہوا تیزی سے کشتی کی طرف بھاگا ، وہاں جاکر اس نے پہلے تو اختر کو وہیں کشتی میں چھپ جانے کو کہا اور پھر پیپا اٹھا کر واپس میری طرف دوڑنے لگا۔ اس کو مصیبت سے بچانے کی خاطر میں نے بھی برف کے آدمی کے ہاتھ کو نشانہ بنا بنا کر چند فائر کرڈالے اور ایسا کرنا غنیمت ہی ہوا۔ ورنہ سوامی ایک دوبار اس کے ہاتھوں میں آتے آتے بچا تھا۔ سوامی سے پیپا لے کر میں نے جلدی سے پہلے جست کی چادر برف پر بچھا دی۔ اس کے اوپر لکڑیاں رکھیں اور پیپے کا سب پٹرول ان لکڑیوں پر چھڑک دیا۔ اس کے ساتھ ہی پیپا بھی الٹا کر کے لکڑیوں پر رکھ دیا۔ ایساکرتے وقت میں اتنا مصروف ہوا کہ مجھے آس پاس کی کچھ خبر نہ رہی۔ چونکا تو اس وقت جب کہ دو خوفناک چیخیں میرے کانوں سے ٹکرائیں۔ یہ چیخیں جیک اور سوامی کی تھیں۔ وہ دونوں برفانی آدمی کے دونوں ہاتھوں میں لٹکتے اور تڑپتے ہوئے ہوا میں اوپر اٹھ رہے تھے۔ میں نے پستول سے فائرکرنا بھی چاہا مگر معلوم ہوا کہ کارتوس ختم ہو گئے ہیں۔ میں نے جلدی سے پیٹی میں سے کارتوس نکالے اور انہیں پستول میں بھرنے لگا۔ ایسا کرتے ہوئے میں جیک اور سوامی کو بھی دیکھتا جاتا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے ہی وہ دونوں بھی برفانی دیو کے پیٹ میں قید ہو گئے۔ کارتوس ابھی پوری طرح بھرے نہیں گئے تھے
حالانکہ میرا ذہن ہر لمحہ برفانی آدمی کی طرف لگا ہوا تھا۔ مگر پھر بھی میں چوک گیا اور میری اس غفلت کا نتیجہ وہی ہوا جو اصولاً ہونا چاہئے تھا۔ یعنی میں بھی برف کے شکنجے میں آ گیا۔ برف کے ہاتھ نے مجھے دبوچ کر اوپر اٹھا لیا اور پھر یہ ہاتھ اوپر اٹھنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں کسی ہنڈولے یا کرین میں بیٹھا ہوا ہوں، برف کی زمین مجھ سے دور ہوتی جا رہی تھی اور اتنی بلندی سے یہ زمین یوں لگ رہی تھی جیسے کسی نے سمندر کے ماتھے پر سفید بندی لگا دی ہو! میرا خون خشک ہوئے جا رہا تھا۔ ہر لمحہ مجھے یہی ڈر تھا کہ اگر اس برف کے ہاتھ میں سے پھسل گیا تو بس پھر تو اللہ ہی حافظ ہے!
عجیب وقت تھا وہ!
میرے دونوں بچے کشتی میں دبکے ہوئے تھے۔ نجمہ تو شاید ابھی تک بے ہوش تھی اور اختر مجھے موت کے مونہہ میں پھنستے دیکھ کر احتیاط کو بھول گیا تھا ، وہ لپک کر کشتی سے باہر آ گیا تھا اور مجھے دیکھ دیکھ کر رونے لگا۔ کتنی بڑی بے وقوفی ہوئی تھی مجھ سے۔ میں اب اپنے آپ کو کوس رہا تھا ، کتنا بڑا احمق تھا میں؟
بجائے لکڑیوں میں ماچس دکھانے کے، میں نے پستول میں کارتوس بھرنے شروع کر دئیے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو اب تک تو آگ بری طرح بھڑک رہی ہوگی۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ پچھتانا بے کار تھا اور چڑیاں کھیت چگ گئی تھیں۔
برفانی دیو نے ایک زبردست قہقہہ لگاکر مجھے بھی اپنے پیٹ میں اتار لیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹھوس برف کے اندر ہونے کے باوجود بھی وہاں سردی مطلق نہ تھی۔ حلق سے لے کر پیٹ تک ایک پھسلن تھی جس کے ذریعے پھسلتا ہوا میں فوراً ہی اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ وہ سب کے سب زندہ اور میری ہی طرح پریشان تھے۔ پیٹ ایک بہت بڑا سفید کمرہ معلوم ہوتا تھا اور اس میں ہوا بھی آ رہی تھی۔ اس بلندی سے ہمیں اپنی کشتی صاف نظر آرہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کہ ہم کمرے کی کھڑکیوں میں سے جھانک رہے ہوں۔ اختر بڑی بے چینی کے عالم میں کشتی کے پاس کھڑا ہوا تھا۔ اس کی یہی بے چینی گھبراہٹ اور چیخیں اس کے لئے مضر ثابت ہوئیں۔ برفانی دیو کی نظر اچانک اس پر پڑ گئی اور پھر برف کا ہاتھ اختر کی طرف بڑھا، اختر نے بھاگنے کی کوشش کی مگر دھڑام سے کشتی کے پاس ہی گر گیا میرے دل میں ایک دھکڑ پکڑ ہو رہی تھی۔ میری نظروں کے سامنے میرا پیارا بیٹا اس خوفناک برفانی انسان کی گرفت میں آنے والا تھا اور میں بے بس و مجبور برف کے قید خانے میں بند تھا اور اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے کچھ بھی نہ کرسکتا تھا۔ کیسی بےکسی کی حالت تھی اور کتنی پریشانی کا وقت تھا!
برفانی آدمی نے اختر کی ٹانگ پکڑ کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے ساتھ ہی اختر کا بندر بھی آیا۔ خود کو پھنستے دیکھ کر اختر نے ہاتھ پاؤں مارے، چوں کہ اس کا سر اس وقت نیچے تھا اس لئے اس کے گلے میں سے آفاقی ہار نکل کر کشتی میں جا پڑا۔
اور اب جو میں نے ذرا غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ہار سیدھا نجمہ کے گلے میں جاکر گرا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ آفاقی ہار میں اگر کچھ کرامت تھی تو اختر کے گلے میں پڑے رہنے ہی سے ظاہر ہو سکتی تھی۔ مگر اب یہ ہار اختر کے گلے میں نہیں تھا اور زہروی سائنس داں شاگو کے کہنے کے مطابق اسے اختر ہی کے گلے میں ہونا چاہئے تھا۔ آفاقی ہار ہماری آخری امید تھی اور اب وہ بھی جاتی رہی۔
نجمہ ایک تو لڑکی تھی دوسرے بے ہوش ، وہ ہمارے لئے کیا کر سکتی تھی؟ اختر میں پھر بھی ہمت تھی ، وہ ہمیں اس قید سے چھڑا سکتا تھا۔ مگر اس وقت تو وہ بھی بےبس تھا کچھ ہی لمحوں بعد اختر بھی برفانی انسان کے مونہہ میں سے ہوتا ہوا ہمارے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور پھر ناامیدی کے آنسو میرے گالوں پر بہنے لگے۔ سبھی ساتھیوں نے مجھے تسلی دینی چاہی لیکن ایسی حالت میں تسلی اور ہمدردی سے بھی انسان کو تکلیف پہنچتی ہے لہٰذا میں اور بےتاب ہوکر رونے لگا۔ برفانی آدمی نے جب یہ دیکھا کہ اب اس سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی بھی سامنے نہیں ہے تو اس نے آسمان کی طرف مونہہ اٹھا کر زورزور سے خوشی کی کئی چیخیں ماریں۔ پاتھوں سے کچھ اشارے کئے اور ہم سب کو اپنے پیٹ میں بدحواس دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔ جان نے پریشانی کے عالم میں مجھ سے کہا۔
"فیروز۔۔۔ یہ حالت بڑی خطرناک ہے۔ نجمہ کا نہ جانے اب کیا ہوگا اور خدا ہی بہتر جانے کہ اب ہمارا حشر کیا ہونے والا ہے ؟"
" اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب نہیں ہے؟" امجد نے پوچھا۔
"افسوس غفلت میں ماچس کی ڈبیا میں وہیں لکڑیوں کے پاس بھول آیا۔" میں نے آہستہ سے کہا، اگر ماچس کی ڈبیا ہمارے پاس ہوتی تو شاید ہم اس دیو کے یپٹ کو پگھلا سکتے تھے!"
" اور اب ایسا کسی طرح نہیں ہو سکتا۔"سوامی نے نا امیدی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
"نہیں ابھی امید تو ہے" امجد نے کشتی کی طرف نظریں جما کر کہا
"نجمہ کو اگر ہوش آ جائے تو شاید وہ ہمارے لئے کچھ کر سکتی ہیں۔"
امجد کے یہ کہتے ہی ہماری نگاہ کشتی پر پڑی۔ اور پھر یہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ نجمہ کو ہوش آ چکا تھا۔ آفاقی ہار جب اس کے گلے میں گرا ہوگا تو اس کے گرنے سے ہی نجمہ کو ہوش آیا ہوگا۔ نجمہ لڑکی تھی اور ہم سب اسے کمزور سمجھتے تھے مگر یہ دیکھ کر میرے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ نجمہ جلدی سے کشتی میں کھڑی ہو گئی۔ پہلے تو اس نے حیرت سے آفاقی ہار کو اپنے گلے میں دیکھا اور پھر اس نے برف کے اس خوفناک دیو کو دیکھا جو اب خود بھی نجمہ کو گھور رہا تھا۔ نجمہ اس دیو کو دیکھ کر بری طرح چونکی اور قدرتی طور پر جلدی سے کشتی کی آڑ میں ہو گئی ادھر ہم سب نے برف کے قید خانے میں سے چیخنا اور ہاتھ ہلانا شروع کردیا۔ نجمہ نے اب ہمیں دیکھ لیا تھا اور بڑی بے چینی اور خوف کے انداز میں وہ ہمیں دیکھ رہی تھی۔ میں نے چلا چلا کر اور ہاتھ سے ماچس جلانے کا اشارہ کر کے نجمہ کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ماچس برفانی انسان کے گھٹنوں کے پاس پڑا ہے اور وہ جلدی سے آکر ان لکڑیوں میں آگ لگا دے۔
مگر نجمہ ان اشاروں سے کچھ بھی نہ سمجھی۔ گونگے بہروں کی یہ زبان بھلا اس کی سمجھ میں کیسے آتی، ان سب باتوں کے باوجود نجمہ میں اب میں ایک تبدیلی پا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے چہرے سے خوف دور ہوتا جا رہا تھا اور برفانی انسان کو دیکھ کر اسے اب ذرا بھی ڈر نہ لگ رہا تھا۔۔۔ کشتی میں سے آہستہ سے وہ نیچے اتری اور پھر دیو کے قریب آنے لگی۔ میری بے چینی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ میں جانتا تھا کہ اب نجمہ کا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو اب سے کچھ عرصہ پہلے ہم سب کا ہو چکا تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا اور امجد بار بار ہاتھ ہلا کر اسے اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ لکڑیوں کو آگ لگا دے۔
اور پھر یہ دیکھ کر مجھے ناقابل بیان حیرت ہوئی کہ نجمہ کسی حد تک امجد کی بات سمجھ گئی۔ اس نے پہلے لکڑیوں کو دیکھا اور پھر خود ہاتھ سے ماچس جلانے کا اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا امجد یہی چاہتا ہے؟
امجد نے جلدی جلدی گردن ہلائی اور نجمہ دیو کو دیکھتی ہوئی آہستہ آہستہ لکڑیوں کی طرف آنے لگی۔ اس کے اس اطمینان کو دیکھ کر برفانی انسان نے ایک زبردست قہقہہ لگایا ، جس کی گونج کے باعث نجمہ برف پر گر پڑی مگر پھر فوراً ہی کھڑی ہو گئی اور دیو کے نیچے گرتے ہوئے ہاتھوں سے بچنے کی کوشش کرتی ہوئی وہ لکڑیوں کی طرف قدم بڑھانے لگی۔۔۔ لکڑیوں سے نجمہ کا فاصلہ اب مشکل سے کوئی پندرہ گزرہ گیا ہوگا۔ اسے صرف بیس قدم بڑھانے تھے۔ مگر میں جانتا تھا کہ وہ شاید پانچ قدم بھی نہیں بڑھا سکے گی کیونکہ برفانی ہاتھ اب اسے دبوچنے ہی والے تھے۔ نجمہ ڈرتی اور سہمتی ہوئی نیچے جھکنے لگی۔ وہ ان ہاتھوں کی گرفت سے بچنا چاہتی تھی اور پھر قریب ہی تھاوہ وقت کہ وہ ان ہاتھوں کے شکنجے میں ہوتی کہ اچانک۔۔۔
اچانک آفاقی ہار میں سے نگاہوں کو چندھیا دینے والی ہزاروں کرنیں نکلیں اور فضا میں بجلی کی طرح تڑپنے لگیں۔ ان کرنوں کو دیکھتے ہی برف کے اس خوفناک انسان نے ایسی بھیانک چیخیں ماریں کہ سمندر کا پانی بھی ان چیخوں کے زور سے اوپر اچھلنے لگا۔ برفانی انسان نے گھبرا کر اپنے ہاتھ اوپر کرلئے، نجمہ اتنا موقع پاتے ہی لکڑیوں کے پاس پہنچ چکی تھی اور ماچس برف کی زمین پر تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی ، برفانی دیو نے ایک بار پھر نجمہ کو پکڑنے کی کوشش کی مگر آفاقی ہار کی قاتل شعاؤں نے ایسے ایسا نہ کرنے دیا۔
نجمہ ہار سے نکلنے والی کرنوں کو دیکھ کر خود بھی ڈر سی گئی تھی۔ مگر شاید کوئی طاقت ایسی تھی جس نے نجمہ کو حیران ہونے کا موقع ہی نہ دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے نجمہ کو سب کچھ معلوم ہے اور آفاقی ہار کے اس کرشمے کا اسے پہلے ہی سے پتہ تھا ، یہی وجہ تھی کہ اس نے اس بات کے سوچنے میں وقت ضائع کئے بغیر ماچس کو اور تیزی سے تلاش کرنا شرو ع کر دیا اور آخرکار ماچس اسے مل گیا۔ ماچس ہاتھ میں لے کر اس نے ہمیں ایک بار پھر دیکھا گویا پوچھ رہی ہو کہ اب وہ کیا کرے؟
اس پر ہم سب نے اپنے ہاتھوں سے ماچس جلانے کے اشارے کرنے شروع کر دئیے۔ اس وقت ہم میں جوش بھرا ہواتھا اور ہمیں ہر وہ لمحہ جو نجمہ ضائع کر رہی تھی بری طرح کھل رہا تھا۔ ہمارا بس نہ چلتا تھا کہ خود نجمہ کا ہاتھ پکڑ کر ماچس جلا دیں۔ برفانی انسان نے جب ایک بار ہم لوگوں کو اپنے پیٹ میں اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو اس کے سفید چہرے پر ظلم اور غصہ جھلنے لگا۔ یہ دیکھ کر میں نے جان سے کہا۔
" اس ملعون کو شاید بہت غصہ آ رہا ہے ، مگر جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں وہ نجمہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ آخر یہ کیا بات ہے؟"
" ہم لوگوں نے بڑی بے وقوفی کی بات سو چی تھی فیروز۔"جان نے کہا
"شاگو نے آفاقی ہار دراصل نجمہ کے لئے ہی دیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ نجمہ لڑکی ہے اور کمزور ہے اس لئے شاید ہار اس کے لئے نہیں ہے ، مگر اب احساس ہوتا ہے کہ صرف نجمہ کی بدولت ہی ہماری جان بچ سکتی ہے۔"
"بلونت اس بات کا مخالف تھا کہ نجمہ کو سفر میں ساتھ لے جایا جائے ، مگر اب یوں لگتا ہے کہ اگر نجمہ اس سفر میں نہ ہوتی تو شاید ہمیں اپنی زندگی کی امید ہی نہ ہوتی۔" میں نے جواب دیا۔
"مگر نجمہ آگ جلانے میں اتنی دیر کیوں لگا رہی ہے؟" سوامی نے گھبرا کر پوچھا۔
Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:9
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں