باہم برداشت اور رواداری کے فروغ کی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-17

باہم برداشت اور رواداری کے فروغ کی ضرورت

tolerance and harmony

علما تخریبی افکار و خیالات اور مذہبی غلو کو طشت از بام کریں۔ اسلامی روح کو جلا بخشیں، نفاذ شریعت کے لیے لائحہ عمل استوار کریں۔ امت کے مختلف فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والی قوتوں کو یکجا کریں۔ امت کے بڑے مسائل پر علمی و فکری کاوشوں میں ہم آہنگی پیدا کریں۔
دنیا کے مختلف حصوں میں مخلص خواتین و حضرات دین کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کی پراگندہ کوششوں کی سرپرستی کریں۔ انسانی حقوق اور آزادی کے مسائل حل کرانے پر توجہ دیں، مظلوم اقوام کو مظالم سے نجات دلانے اور قیدیوں کی نجات کے لیے آواز بلند کریں۔
جدید ذرائع ابلاغ پر توجہ دیں۔ سٹیلائٹ چینلز قائم کرنے کی فکر کریں۔ ویب سائٹس جدید خطوط پر استوار کریں۔ اسلام کے بنیادی عقائد توحید، اسلامی فرائض کی پابندی پر زور دیں، قرآن و سنت کی مکمل پابندی کی ترویج کریں، اجتہاد کا احیاء کریں۔

اسلامی اتحاد کو امت مسلمہ کی اہم ترین خصوصیت کے طور پر اجاگر کریں۔ اسلامی اخوت کے تصور کو پھیلائیں اور اسلامی اخوت کے حقوق و فرائض پر روشنی ڈالیں۔ مسلم فرقوں کے درمیان اتحاد کے قربت پیدا کرنے کے نصب العین کو اپنائیں۔
مسلم فرقوں کے درمیان مشترکہ علوم کی نشاندہی کر کے قدر مشترک کو مشترکہ طور پر عام کریں۔ مسلم اسکالروں نے ریسرچ کر کے باور کرایا ہے کہ دینی عقائد کے حوالے سے 90 فیصد سے زیادہ امور پر تمام فرقوں کا اتفاق پایا جاتا ہے۔ اسی طرح سے اخلاقیات میں تمام فرقے ایک دوسرے سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے۔ سماجی کفالت کے سلسلے میں بھی تمام فرقے ایک دوسرے سے اتفاق رکھتے ہیں۔

علما اور فرقوں کے درمیان اختلاف کے ادب کو فروغ دیں، یہ مان لینے کی صورت میں کہ اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا ہے، اختلاف کی راہ خود بخود پیدا ہو جاتی ہے لیکن اختلاف کو تفرقہ و انتشار کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر، فاسق اور بدعتی کے الزام سے نوازنے سے گریز کرنا چاہیے۔ فریق ثانی کی رائے پر مواخذہ کا اسلوب ترک کرنا چاہیے۔ فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات دور کرنے کے لیے مکالمے کی راہ اپنانی چاہیے۔

یہ حقیقت جان لینے کے بعد کہ اس دنیا میں ازل سے اللہ کے منکر اور اسلام کی مخالفت کرنے والے موجود ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گے، لہذا دیگر مذاہب کی مقدس شخصیتوں پر لعن طعن سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ الانعام کی آیت نمبر:108 میں ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ غیر اللہ کو ماننے والوں کے خلاف دشنام طرازی نہ کرو کیونکہ اگر تم لوگوں نے ایسا کیا تو وہ انجانے میں اللہ کو برا بھلا کہیں گے۔
ہر فرد کو اپنا فرقہ تبدیل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مختلف فرقوں اور مسلک کے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے تقابلی مطالعے کو رواج دیں۔ عوام میں فرقہ وارانہ اختلافات کو برداشت کرنے کا شعور پیدا کریں۔

اسلامی شریعت کے نفاذ، امت مسلمہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے والی دشمن کی سازشوں کے مقابلے، امت کے اتحاد کے تحفظ، تفرقہ و انتشار کی مخالفت اور نجی مفادات پر ملی مفادات کو ترجیح دینے جیسے کلیدی امور پر متحدہ مشترکہ موقف اپنایا جائے۔
امت کو جوڑنے اور قریب کرنے والے ادارے قائم کیے جائیں، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، تقابلی مطالعوں کے شعبے کھولے جائیں، مشترکہ سماجی کلب قائم کیے جائیں، مختلف امور میں قربت کرنے والے کیمپ لگائے جائیں، مختلف ملکوں اور علاقوں میں قربت پیدا کرنے والی جماعتیں اور تنظیمیں قائم کی جائیں۔

اسلام آفاقی مذہب ہے۔ امت مسلمہ، آفاقیت کی نمائندہ ہے لہذا مذہبی اختلافات کو اچھالنے سے اسلام کی آفاقیت مجروح ہوگی اور آفاقی پیغام کی ترویج و اشاعت متاثر ہوگی۔ اسلام کی آفاقیت کے عقیدے کو موثر بنانے کے لیے فرقہ وارانہ جھگڑوں کو عام کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔
یہ حقیقت مان کر چلنا ہوگا کہ فرقہ وارانہ امور پہلے سے امت میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ جب جب کسی فرقے نے دوسرے فرقے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی، تب تب المیوں نے جنم لیا اور کوئی بھی فرقہ دوسرے فرقے کو ختم کرنے کا ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ مثال کے طور پر معتزلہ نے اپنا تصور تھوپنے کی کوشش کی، ناکام ہوئی۔ فاطمیوں نے مصر میں اپنے مذہب کے سوا دوسرے فرقوں کو مٹانے کی کوشش کی، ناکام ہوئے۔ ایوبیوں نے فاطمیوں کے خلاف یہی کوشش دہرائی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ امامی فرقے کو تاریخ کے مختلف ادوار میں ہدف بنایا گیا لیکن منہ کی کھانی پڑی۔

تاریخ کے ان واقعات نے ایک فرقے کے پیروکاروں کو دوسرے فرقے کے پیروکاروں کا دشمن بنایا، تلخ یادوں نے ذہن و جدان پر برے اثرات چھوڑے۔ یہ سب کچھ اسلامی اخوت کے بنیادی عقیدے کے منافی تھا، ہے اور رہے گا۔ لہذا ایسی کسی بھی کوشش کے مثبت اثرات برآمد ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔

یہاں امام مالک بن انس (رحمۃ اللہ علیہ) کا یادگار تاریخی واقعہ اپنے اندر بڑے سبق اور عبرتیں رکھتا ہے۔ اس کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ منصور عباسی نے امام مالک بن انس (رحمۃ اللہ علیہ) کو پیشکش کی کہ عوام کو موطا کے مطابق فتوے اور فیصلے کا پابند بنا دیا جائے اور انہیں تمام مسلم عوام کا امام مقرر کر دیا جائے۔ لیکن امام مالک (رحمۃ اللہ) نے یہ پیشکش یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں، جہاں جہاں وہ گئے، احادیث بیان کی ہیں اور احکام بتائے ہیں، ہر ایک اپنی جگہ درست ہے۔
اسی تناظر میں اسلام کا معتبر موقف یہی ہے کہ ہر ایک مسلک کے ماننے والے دوسرے مسلک کا احترام کریں اور کوئی مسلکی اختلاف یا فرقہ کے اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر نہ گردانیں۔
آخر میں ایک اہم بات یہ عرض کرنا ہے کہ کوئی بھی مسلم فرقہ دوسرے فرقہ کے پیروکاروں کو اپنا فرقہ ترک کرنے اور دوسرے کے فرقہ میں شامل ہونے کی تحریک نہ چلائے۔ تحریک چلانے سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور یہیں سے مسائل جنم لیتے ہیں۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 23/مئی 2008۔

The need to promote tolerance and atmosphere of harmony

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں