نواب عماد الملک - سابق ریاست حیدرآباد کی جلیل القدر شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-18

نواب عماد الملک - سابق ریاست حیدرآباد کی جلیل القدر شخصیت

nawab-imadul-mulk

سابق ریاست حیدرآباد میں بیرون ریاست سے آنے والی شخصیتوں میں بہت کم شخصیتیں نواب عماد الملک (سید حسین بلگرامی) کی طرح محترم اور منفرد رہی ہیں۔
سالار جنگ اول (دور وزارت: 1853-1883ء) نے اپنی اصلاحات کے نفاذ کے سلسلہ میں بیرون ریاست سے پڑھے لکھنے، قابل اور تجربہ کار اشخاص کو مدعو کیا تھا۔ سالار جنگ اول کے بعد بھی ریاست میں باہر سے آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بڑی بڑی شخصیتیں حیدرآباد آئیں لیکن ان میں سے اکثر شخصیتوں نے اپنی ناپسندیدہ سرگرمیوں کی وجہ سے حکمران وقت کو ناراض کیا اور نتیجتاً انہیں حیدرآباد چھوڑنا پڑا۔
لیکن عماد الملک ان گنی چنی شخصیتوں میں سے ایک تھے جو سازشوں سے دور رہے اور جنہیں ہمیشہ اپنے کام سے کام رہا۔ انہوں نے حکمران اور ریاست کی بہتری اور مفاد کے لئے خدمات انجام دیں اور تادم مرگ (1926ء) پوری عزت اور احترام کے ساتھ حیدرآباد میں رہے۔ انہیں کئی اعلیٰ خطابات اور اعزازات دے گئے اور اس طرح ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کی شخصیت کو خراج پیش کیا گیا۔

1873ء میں حیدرآباد آنے کے بعد عماد الملک سالار جنگ اول سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ سالار جنگ اول کے انتقال پر ہی ان کا ساتھ چھوٹا۔ سالار جنگ اول عماد الملک کی قابلیت اور صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے اور وہ عمادالملک پر کامل رکھتے تھے۔ عماد الملک نے بھی سالار جنگ کے پاس بڑی مستعدی کے ساتھ خدمات انجام دیں۔
عماد الملک کو تعلیم اور علم و ادب سے خصوصی لگاؤ تھا۔ دیگر اہم ذمہ داریوں کے باوجود وہ وظیفہ حسن خدمت پر علاحدہ ہونے تک ناظم تعلیمات کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ان ہی کے دور سے ریاست میں باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا اور انہوں نے تعلیم کی ترقی اور اشاعت کے لئے اہم اقدامات کئے۔
وہ نواب میر محبوب علی خان آصف سادس کے پرائیوٹ سکریٹری بھی رہے۔ جب یوسف علی خان سالار جنگ سوم ریاست کے مدار المہام مقرر ہوئے تو وہ نوجوان تھے اور انہیں نظم و نسق کا تجربہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس بزرگِ دانا کو ان کا مشیر مقرر کیا گیا۔ یہی عماد الملک سالار جنگ سوم کے دادا سالار جنگ اول کے بااعتماد معتمد رہ چکے تھے۔ اس دانشور اور مدبر کو حیدرآباد کے علاوہ برطانوی ہند میں بھی بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
وہ انڈین لیجسلیٹیو کونسل کے ممبر مقرر ہونے کے علاوہ انڈیا کونسل کے بھی رکن منتخب ہوئے تھے۔ یہ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے جنہیں اس کونسل میں شامل کیا گیا تھا۔

وہ ایک عالم ہونے کے علاوہ ماہر تعلیم اور ماہر نظم و نسق بھی تھے۔ عماد الملک کی کتابوں سے محبت اور علم کی سرپرستی ضرب المثل بن چکی تھی۔ دائرۃ المعارف اور کتب خانہ آصفیہ ان کے علمی ذوق کی یادگاریں ہیں۔ عماد الملک اپنے علم و فضل، بے دریغ علمی سرپرستی، بے لوث خدمات ، حق گوئی، اصول پسندی اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے سابق ریاست حیدرآباد کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

سابق ریاست حیدرآباد کی جلیل القدرشخصیت نواب عماد الملک
آصف سابع کی اتالیقی کے معاوضہ کی کارروائی

نواب عماد الملک نے آصف سابع کی اتالیقی کے فرائض بھی انجام دئیے تھے۔ لیکن اس بارے میں تفصیل سے نہیں لکھا گیا ہے اور اس جلیل القدر شخصیت سے متعلق مواد کی کمی بہت کھٹکتی ہے۔ آںدھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں بڑی تلاش و جستجو کے بعد جو ریکارڈ دستیاب ہوا ہے اس سے یہ تفصیلات منظر عام پر آ رہی ہیں، کہ نواب میر محبوب علی خان آصف سادس نے نواب عماد الملک کو اپنے فرزند اور ریاست کے ولی عہد میر عثمان علی خان کا اتالیق مقرر کیا تھا۔ جنہوں نے ساڑھے چھ سال تک یہ فرائض انجام دئے تھے۔
ابتداء میں انگریزی کے علاوہ ، عربی، فارسی، اردو اور انتظامی امور کی تعلیم کی ذمہ داری نواب عماد الملک کے ہی ذمہ تھی، بعد میں انگریزی پڑھانے کے لئے ایک انگریز استاد ایجرٹن کا تقرر عمل میں آیا تھا۔
عماد الملک نے بعد ازاں ساڑھے چھ سال کی مدت کے معاوضہ کی ادائیگی کے لئے جو درخواست دی تھی اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اتالیق کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا کوئی معاوضہ الگ سے انہیں نہیں دیا گیا تھا۔
چنانچہ نواب میر عثمان علی خان کے حکمراں بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد نواب عماد الملک نے مہاراجہ سر کشن پرشاد کو جو اس وقت مدار المہام تھے ایک درخواست روانہ کی تھی جس میں انہوں نے مہاراجہ سے استدعا کی تھی کہ وہ انہیں واجبی اور معقول ماہوار مقرر کرنے کی سفارش کریں۔ عماد الملک کی درخواست سے آصف سابع کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں بھی اشارے ملتے ہیں۔ عماد الملک نے لکھا ہے کہ جب ولی عہد میر عثمان علی خان کو انگریزی پڑھانے ایجرٹن کا تقرر ہوا اس وقت تک شہزادہ عثمان علی خان، نواب عماد الملک کے زیر نگرانی انگریزی میں کافی مہارت حاصل کر چکے تھے اور عربی و فارسی میں اس قدر قابلیت حاصل کر چکے تھے کہ سید علی شوشتری جیسے جید عالم کو اس پر حیرت ہوئی تھی۔ آصف سابع نے درخواست کے بارے میں صلاح مشورہ کرنے کے بعد نواب عماد الملک کو اتالیقی کے معاوضہ کے طور پر یکمشت پندرہ ہزار روپے منظور کئے۔
اس سلسلہ میں جو سرکاری کاروائی ہوئی تھی اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

نواب عماد الملک نے حسب ذیل درخواست مورخہ 16/جنوری 1912ء مہاراجہ سرکشن پرشاد ، مدار المہام کے نام روانہ کی تھی۔
یور اکسلنسی
میں موجودہ اعلیٰ حضرت کا کئی سال تک اتالیق رہا۔ ابتداء میں کل تعلیم میرے ہی ذمہ تھی اور مسٹر ایجرٹن کے تقرر کے بعد بھی السنہ مشرقی اور انتظامی کام کا میں ہی اتالیق رہا۔ اس خدمت کا مجھے کبھی بھی کسی قسم کا معاوضہ نہیں ملا۔ میں اب یور اکسلنسی سے استدعا کرتا ہوں کہ یہ معاملہ آصف سابع کی خدمت میں پیش کریں۔ اگر آصف سابع میری خدمات کے عوض کچھ رقم مرحمت فرمانا پسند فرمائیں تو اس سے مجھے بڑی مدد ملے گی۔
آصف سابع بخوبی واقف ہیں کہ میں نے کس محنت سے یہ فرائض انجام دئے تھے۔ جب مسٹر ایجرٹن آئے تو اس وقت تک آصف سابع کو انگریزی میں کافی مہارت حاصل ہو چکی تھی اور عربی و فارسی میں ان کی قابلیت ایسی تھی کہ اس سے سید علی شوشتری مرحوم جیسے شخص کو، جن کا برااعظم ایشیاء کے عظیم ترین عالموں میں شمار ہوتا ہے، حیرت ہوئی تھی۔ مجھے جو معاوضہ ملنا چاہئے اس کا تعین کرنا میرا کام نہیں ہے میں اسے اعلیٰ حضرت کی فیاضی پر چھوڑتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے مطالبہ کی تائید فرمائیں گے اور مجھے ایک واجبی ماہوار دئے جانے کی سفارش فرمائیں گے۔ میں نے کتنے سال یہ خدمت انجام دی تھی اس کی صحیح تعداد کے بارے میں ایک یادداشت روانہ کروں گا۔
مخلص
سید حسین بلگرامی

نواب عماد الملک نے اسی روز اسی نوعیت کی ایک اور درخواست فریدوں جنگ کے نام بھی روانہ کی۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد مدار المہام نے عماد الملک کی درخواست پر ایک عرضداشت مورخہ 3/فروری 1912ء آصف سابع کے ملاحظہ میں پیش کی جس کے ساتھ عماد الملک کی انگریزی درخواست کا اردو ترجمہ بھی منسلک تھا مہاراجہ نے اس عرضداشت میں عماد الملک کی درخواست کا خلاصہ درج کرتے ہوئے لکھا کہ وہ عماد الملک کے زمانہ اتالیقی کی کارگزاری سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں اس امر کا علم ہے کہ عماد الملک کے کام کا صلہ مرحمت فرمانے کے متعلق غفران مکان (آصف سادس) کا کیا منشا تھا۔ چونکہ آصف سابع سے بہتر عماد الملک کی کارگزاری سے کوئی اور واقف نہیں ہے لہذا اس درخواست کی نسبت آصف سابع کا جو ارشاد ہوگا اسی پر عمل کیا جائے گا۔

مہاراجہ کی عرضداشت پیش ہونے کے تقریباً ایک سال بعد آصف سابع کا فرمان مورخہ 28/محرم الحرام 1331ھ۔ م 7/جنوری 1913ء جاری ہوا۔
مہاراجہ سر کشن پرشاد کی جگہ سالار جنگ سوم مدار المہام بن چکے تھے۔ پتہ نہیں اس سلسلے میں آصف سابع کے فرمان جاری ہونے میں کیوں اتنی تاخیر ہوئی تھی؟
اس فرمان کا متن درج ذیل ہے:
میری اتالیقی کی خدمت جو عماد الملک بہادر نے تقریباً ساڑھے چھ سال تک ادا کی تھی اس کا الونس ان کو ملنے کے بارے میں مدار المہام سابق کی عرضداشت کی نقل ملفوف ہے، اس زمانہ عماد الملک بہادر کو تنخواہ ناظم تعلیمات (1200) اور متفرقات سے پرسنل الونس (800) جملہ دو ہزار ماہانہ کی یافت تھی۔ اب مذکور الونس کی نسبت تمہاری اور فریدوں جنگ بہادر کی رائے عرض کی جائے کہ کس حساب سے کس قدر رقم یا یکمشت کس قدر رقم دینا بہمہ وجوہ مناسب و احسن ہوگا۔

اس حکم کے جاری ہونے کے صرف چار روز بعد آصف سابع کا ایک اور حکم مورخہ 11/جنوری 1913ء سالار جنگ سوم ، مدار المہام کے نام جاری ہوا:
عماد الملک بہادر کی اتالیقی کی خدمت کے الونس کی نسبت میں نے 28/محرم 1331ھ کو جو حکم لکھا ہے اس کے متعلق مسٹر گلانسی معین المہام فینانس کی رائے بھی لے کر عرض کی جائے کیونکہ یہ رقم دیوانی سے ادا کرنی ہوگی۔

اس حکم کی تعمیل میں فریدوں جنگ بہادر نے ایک راز کا مکتوب مورخہ 13/جنوری مسٹر گلانسی کو تحریر کیا جس کے ساتھ عماد الملک کی دخواست، مہاراجہ کی عرضداشت اور آصف سابع کے دو احکام کی نقلیں بھی منسلک کی گئی تھیں اور مسٹر گلانسی سے عماد الملک کی درخواست کے بارے میں رائے دینے کی خواہش کی گئی تھی۔
مسٹر گلانسی نے اپنے جوابی مکتوب مورخہ 15/جنوری میں فریدوں جنگ کو تحریر کیا:
"آپ کا مکتوب وصول ہوا جس کے ساتھ نواب عماد الملک بہادر کی درخواست اور اس سے متعلق کاغذات روانہ کئے گئے ہیں اور نواب عماد الملک کی اتالیقی کے معاوضہ کے بارے میں میری رائے طلب کی گئی ہے۔
میں اپنے جواب میں کہنا چاہوں گا کہ آصف سابع کا یہ ارشاد ہوا ہے کہ اتالیقی کے معاوضہ کی رقم خزانہ دیوانی سے اد اکی جائے۔ یہ صورت مسٹر ایجرٹن کے معاملے سے جداگانہ ہے جن کو معاوضہ خزانہ صرفخاص سے ادا کیا جاتا تھا۔ اگر آصف سابع کا یہ خیال ہے کہ نواب عماد الملک کو اتالیقی کا معاوضہ خزانہ دیوانی سے ادا کیا جائے تو بے شک ایسا ہونا ہی چاہئے لیکن میں اس امر کا عرض کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میرے علم میں ایسی ایک ہی نظیر ہے لیکن یہ معاملہ اس کے موافق اور مطابق نہیں ہے۔ نواب عماد الملک جس زمانہ میں آصف سابع کے اتالیق تھے اس وقت وہ دیوانی سے اچھی تنخواہ پاتے تھے لیکن آصف سابع کا یہ خیال ہے کہ ان کو مزید معاوضہ دیوانی سے ملنا چاہئے تو میں یہ رائے دوں گا کہ ان کو یکمشت دس ہزار روپے دئے جائیں۔ نواب عماد الملک مسٹر ایجرٹن کی طرح اتالیقی کے فرائض انجام دینے میں اپنا سارا وقت صرف نہیں کرتے تھے۔ فی الحقیقت وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ساتھ ہی ساتھ دوسرے اہم کام کے لئے دیوانی سے ایک بڑی تنخواہ پاتے تھے"۔

مسٹر گلانسی کی رائے وصول ہونے کے بعد سالار جنگ سوم، مدار المہام نے ایک تفصیلی عرضداشت مورخہ 19/جنوری 1913ء آصف سابع کے ملاحظہ اور احکام کے لئے پیش کی۔ اس عرضداشت میں مسٹر گلانسی کی رائے کا خلاصہ درج کرنے کے بعد سالار جنگ نے لکھا کہ:
اس بارے میں فریدون جنگ نے عر ض کیا ہے کہ اگر خدمت اتالیقی کا الاؤنس ماہانہ دو سو روپے بھی رکھا جائے تو ساڑھے چھ سال کا الاؤنس پندرہ ہزار روپے سے زیادہ ہوتا ہے، اس لئے نواب عماد الملک بہادر کو ان کی اس خدمت گزاری کے صلہ میں یکمشت پندرہ ہزار روپے خرانہ دیوانی سے دینے کے لئے آصف سابع کا حکم صادر ہو تو مناسب ہوگا۔
سالار جنگ نے عرضداشت کے آخر میں لکھا کہ انہیں فریدون جنگ کی رائے سے پورا اتفاق ہے۔ آصف سابع نے مسٹر گلانسی کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے سالار جنگ اور فریدوں جنگ کی رائے کو منظوری عطا کی۔ اس سلسلہ میں آصف سابع کا جو حکم مورخہ 29/جنوری سالار جنگ کے نام صادر ہوا تھا ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

"میری اتالیقی کے الاؤنس کی نسبت عماد الملک بہادر کی درخواست کے متعلق تمہاری اور فریدوں جنگ بہادر کی رائے معروضہ مناسب ہے۔ حسبہ، عماد الملک بہادر کو یکمشت رقم پندرہ ہزار روپے خزانہ عامرہ سے دلائی جائے۔"

پندرہ ہزار روپے کی یہ رقم آج بھلے ہی زیادہ معلوم نہ ہو لیکن 1913ء یعنی پہلی جنگ عظیم سے قبل کے دور میں اس دور کی قیمتوں اور قدر زر کی مناسبت سے یہ رقم آج لاکھوں ہی میں شمار کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر داؤد اشرف کے ایک اور مضمون سے ماخوذ نواب عماد الملک کا تعارف : (بشکریہ: روزنامہ 'سیاست' حیدرآباد)
نواب عماد الملک کا اصل نام سید حسین بلگرامی تھا۔ وہ 1842 ء میں صاحب گنج (گیا) میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بلگرام کے ایک ممتاز و معزز سادات گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید زین الدین حسین خان اور چچا سید اعظم الدین خان بہار میں تعلقدار اور ناظم عدالت جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ سید حسین بلگرامی نے عربی و فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں وہ انگریزی مدارس میں شریک کروائے گئے۔ انہوں نے میٹرک ، انٹر اور بی اے کے امتحانات میں درجہ اول میں کامیابی حاصل کی۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے تک انہیں عربی اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا تھا اور دونوں زبانوں کا صحیح اور اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ انہیں ذاتی قابلیت اور خاندانی اثرات کی وجہ سے کوئی بھی اعلیٰ سرکاری ملازمت مل سکتی تھی لیکن انہوں نے سرکاری ملازمت کی بجائے لکھنو کے کیننگ کالج کے شعبہ عربی میں ملازمت کو ترجیح دی۔
ریاست حیدرآباد کے مدارالمہام (وزیراعظم) سالار جنگ اول کے طلب کرنے پر وہ حیدرآباد آئے۔ حیدرآباد آنے پر وہ سالار جنگ سے وابستہ ہوئے اور 1883ء میں سالار جنگ کے انتقال تک ان کے پرسنل اسسٹنٹ اور پرائیویٹ سکریٹری جیسی اہم خدمتوں پر فائز رہے۔ وہ حکمراں ریاست میر محبوب علی خان آصف سادس کے بھی پرائیویٹ سکریٹری رہے۔ آصف سادس نے انہیں اپنے فرزند اور ریاست کے ولیعہد میر عثمان علی خان کا اتالیق مقرر کیا تھا اور انہوں نے ساڑھے چھ سال تک یہ فرائض انجام دیئے۔
ان کی لیاقت اور اعلیٰ صلاحیتوں کی بناء پر انہیں ریاست حیدرآباد میں اہم ذمہ داریاں سونپی جا سکتی تھی لیکن ان کی دلچسپی اور ایماء پر انہیں ناظم تعلیمات کے عہدہ پر فائز اور برقرار رکھا گیا جہاں سے وہ 1906ء میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ درحقیقت ریاست حیدرآباد میں ان ہی کے دور نظامت سے تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ریاست حیدرآباد میں تعلیم کی ترقی و اشاعت میں ان کی خدمات فراموش نہیں کی جا سکتیں۔

***
ماخوذ از کتاب: نقوش تاباں (عہدِ آصف سابع)
مصنف: ڈاکٹر سید داؤد اشرف (اشاعت: دسمبر 1994)

Nawab Imad-ul-Mulk Syed Hussain Balgrami, a prominent personality of erstwhile Hyderabad Deccan State.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں