سفر نامے کا فن - از ڈاکٹر انور سدید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-16

سفر نامے کا فن - از ڈاکٹر انور سدید


ڈاکٹر سید عبداللہ
"ایک کامیاب سفر نامہ وہ ہوتا ہے جو صرف ساکت و جامد فطرت کا عکاس نہ ہو بلکہ لمحۂ دوراں میں آنکھ، کان، زبان اور احساس سے ٹکرانے والی ہر شئے نظر میں سماجانے والی ہو ۔ تماشا، نغمہ و نکہت کا ہر صورت ورنگ، لفظوں کی امیجری، میں جمع ہوکر بیان کو مرقع بہاراں بنادے۔ اور قاری ان تمثالوںکے اندر جذب ہوکر خود کو اس مرکب آئینہ گری کا حصہ بنالے۔"
پیش لفظ"سر زمین حافظ و خیام"از مقبول بیگ بدخشانی۔ص8

ڈاکٹر مختار الدین احمد
"سفرنامے میں دو خوبیاں ضرور ہونی چاہئیں۔ ایک تو وہ قاری کے دل میں سیروسیاحت کا شوق پیدا کردے اور اگر پ ہلے سے موجود ہے تو سفر نامہ آتش ِ شوق کو تیز تر کردے۔ دوسری یہ کہ منظر کشی ایسی مکمل اور جاندار ہو کہ ہر منظرکی صحیح اور سچی تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے۔"
بحوالہ"آج بھی اس دیس میں" از محمد حمزہ فاروقی(فلیپ)

مجنوں گورکھپوری
"میری رائے میں سفر نامے میں زیادہ امیجی نیشن نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ واقعات اور حالات ہونے چاہئیں۔
بحوالہ" دھوپ کنارا" از جمیل زبیری(فلیپ)

ڈاکٹر وحید قریشی
(سفر نامہ نگار) لفظوں کی شعبدہ بازی نہیں کرتا۔ لفظوں کے حولے سے اپنے باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کا انکشاف کرتا اور داخل میں وارد ہونے والے ہر تجربے کو لفظوں کی مدد سے جانچتا اور پرکھتا ہے ۔ ان تجربات کو محسوس کی سطح پر لانے کے لئے لفظ کے لسانیاتی پیکر ایک نئی کشفی حالت میں دوچار ہوتے ہیں۔ سفر نامے میں ایسے ایک دو نہیں کئی مقام آتے ہیں۔ کبھی یہ سفر خارج سے داخل کا سفر ہے۔۔ یا پھر داخل سے خارج کا سفر۔۔۔"
تبصرہ۔"اے آب رود گنگا"از رفیق ڈوگرمعاصر21)ص599

ڈاکٹر وزیر آغا
"سیاح کا امتیازی وصف ہی یہ ہے کہ وہ اپنے گھر ، نام اور پیشے سے قطعاً منقطع اور بے نیاز ہوکر کسی غیر مادی شے کی طرح سبک اور لطیف ہوجاتا ہے ۔ اور بندھنوں اور حد بندیوں کو تج کر ایک آوارہ جھونکے کی سی آزادہ روی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مسافر کی حالت تو اس پتنگے کی سی ہے جو مکڑی کے جالے میں قید ہو اور جالے کے ایک سرے سے دوسرے تک اور ایک منزل سے دوسری منزل تک جالے کی ڈور سے بندھا ہو بڑھتا چلاجائے ۔ لیکن سیاح مکڑی کے جالے سے یکسر آزاد ہے۔ گھر کی دیواروں اور منزل کے دھاگوں سے بھی اسے کوئی سروکار نہیں ۔ سیاح تو اپنا راستہ خود بناتا ہے اور مسافر حرکت کرتے ہوئے بھی حرکت کی نفی کرتا ہے۔"
اوراق۔جنوری فروری 1978،ص27

ڈاکٹر مسعود انور
"سفر نامہ سب سے قیمتی جزو اس کا افسانوی عنصر ہے ۔ قدرت نے جب انسان کو بنایا تو اس کے وجود کو تراشتے وقت اس کے سینے میں چپکے سے داستان کی دیوی کی محبت کو بھی بٹھا دیا۔ داستان کے اس حصے نے جس میں کہانی بیان کی جاتی تھی۔ افسانے کا روپ دھار لیا اور دوسرے حصے نے جس میں حالات سفر بیان ہوتے تھے سفر کی شکل اختیار کرلی اور اردو میں ایک ایسی صنف کا اضافہ ہوا جس میں آنکھوں دیکھے مشاہدے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔"
اوراق۔ جنوری فروری 1978۔ص27

مشفق خواجہ
"روایتی سفر نامہ ہمیں مقامات سفر سے متعارف کراتا ہے اور غیر روایتی سفر نامہ کیفیت سفر سے ۔ مقامات سفر کی تفصیل لکھنے والا زمان و مکان کا اسیر ہوتا ہے جب کہ کیفیاتِ سفر قلمبند کرنے والا زمان و مکان سے ہٹ کر بھی سوچتا ہے اور یہی چیز اس کے سفر نامے کو معلومات کا گنجینہ بننے سے بچاتی ہے اور اس کا رشتہ ادب سے قائم کرتی ہے۔"
دیباچہ"موسموں کا عکس" از جمیل زبیری۔ ص10

ظہیر احمد صدیقی
"اچھا سفر نامہ وہ ہے جس میں داستان کی سی داستان طرازی ، ناول کی سی فسانہ سازی ڈرامہ کی سی منظر کشی ، کچھ آپ بیتی کا سامزا۔ کچھ جگ بیتی کا سا لطف اور پھر سفر کرنے والا حزر تماشہ ہوکر اپنے تاثرات کو اس طرح پیش کرے کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معلومات افزا بھی۔"
"سخنے چند""دیکھ لیا ایران" از افضل علوی۔(ص)(و)

ڈاکٹر اسلم فرّخی
"قدیم سیاح بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے دور دیس کے کوچہ وبازار کی رونق عجائب و غرائب ، جغرافیائی اور تاریخی نوادر اور معاشی کیفیات کی تفصیل قلمبند کرتے تھے۔ پڑھنے والے ان کے تفصیل بیان سے گھر بیٹھے جغرافیہ اور تاریخ دونوں سے بھرپور استفادہ کرلیتے تھے ۔ لیکن اب یہ ساری تفصیل عام ہوگئی ہے اور سیاح کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ مخصوص ماحول اور حالات میں اپنے ذاتی اور انفرادی رد عمل کی وہ جھلک پیش کردے جس سے قاری کی ذہنی وسعت اور انسان شناسی میں اضافہ ہو۔"
کنارے کی دھوپ"دھوپ کنارا" از جمیل زبیری۔ص12

سحر انصاری
"سفر اور سیاحت کو ہر زمانے میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ سفر نامے لکھنے کی روایت بھی ہر دور اور ہر زبان میں رہی ہے اور اس ضمن میں کسی ایک ہیئت کی قید بھی ضروری نہیں ہے ۔ تاہم آج کل دنیا میں دو اصناف ادب بطور خاص مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔ ایک سفر نامہ اور دوسری خود نوشت ۔ ویسے دیکھاجائے تو سفر نامہ بھی ایک نوع کی خود نوشت ہوتا ہے اور خود نوشت کو بھی ایک طرح کا سفر نامہ کہاجاسکتا ہے۔"
بحوالہ"دھوپ کنارا" از جمیل زبیری(فلیپ)

میرزا ادیب
"سفر نامہ نگار تو جو کچھ دیکھا ہے جو کچھ پاتا ہے جس جس مقام سے گزرتا ہے اس کی ساری خوشبوئیں، اس کے سارے باطنی رنگ اور اس کی وہ ساری کیفیات جو سدا پردۂ راز میں چھپی ہوئی ہیں۔ ان سب کو سمیٹ لیتا ہے۔ وسائل و ذرائع پر تکیہ کرکے یہ چیز ممکن نہیں ہے۔ سفر نامہ نگاری لازماً ایک تخلیقی تجربہ ہے۔ اس کا اطلاق انہیں معنوں پر ہوتا ہے جو تخلیقی تجربے سے وابستہ کئے جاتے ہیں۔"
اوراق۔ لاہور، جنوری فروری۔1978ء ص20

غلام الثقلین نقوی
"سیاح کو انسان کا صحیح عرفان حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ طرح طرح کے آدمیوں سے ملتا ہے اور انسان فہمی و انسان شناسی کے بہت سے مدارج طے کرلیتا ہے ۔ سیاح کی جذباتی دنیا بہت وسیع ہوتی ہے ۔ اس کی آنکھ سے تعصبات کی عینک اتر جاتی ہے۔ وہ ایک فضا سے دوسری فضا میں پہنچتا ہے تو اس کی بوسیدہ و فرسودہ کینچلیاں ایک ایک کرکے اترتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس تجربے کے بعد اسے جو نئی جلا عطا ہوتی ہے وہ پہلی سے کہیں زیادہ حساس اور نازک ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو سیاحت کو ایک روحانی سفر میں بدل دیتی ہے۔"
اوراق۔ جنوری فروری 1978ء ص22

کرنل محمد خان
"بعض چلتے پھرتے لوگ سفر کو اس لئے بھی موضوعِ سخن بناتے ہیں کہ اس میں اہل وطن کی نظروں سے دور ، اجنبی دیار میں موضوع کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے کی خاصی گنجائش ہوتی ہے ۔ نتیجتاً سفر نامہ کم اور مزاج پارہ زیادہ بن جائے تو گھاٹے کا سودا نہیں سمجھاجاتا ۔۔۔ا س کے برعکس زمانہ قدیم کے سفر نامے پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخی اور جغرافیائی کھنڈروں سے گزررہا ہو اور مسافر راستے کی ہر سرائے اور کنویں پر علم کے انبار لگا کر اعلان کررہا ہو کہ"لو بیٹیا جتنا ہضم کرسکتے ہو کرلو اور باقی آئندہ نسلوں کے لئے چھوڑ دو۔"
پیش لفظ۔"اندلس میں اجنبی" از مستنصر حسین تارڑ۔ص10

ڈاکٹر آغا سہیل
"سفر نامہ کی تکنیک کا مزاج مختلف النوع طبائع کا منت پذیر ہوتا ہے ۔ ہر سفر نامہ نگار اپنے باطن کا پوسٹ مارٹم کرکے آپ کے سامنے بکھر جاتا ہے ۔ آپ اس کی شخصیت کے جزی سے جزی جھوٹ اور سچ سے واقف ہوجاتے ہیں بلکہ لکھتے وقت تو اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کہاں کہاں قاری کی گرفت میں اس طرح آگیا ہے کہ اب اپنا آپ چھپانا مشکل ہے۔ نثر کی دوسری اصناف میں مصنف خود کو چھپا سکتا ہے۔ مگر سفر نامہ وہ واحد صنف نثر ہے جس میں داخلیت سے سروکار رہتا ہے اور ذات کے سمندر کو بلونا پڑتا ہے۔"
"نئے ہندوستان کا بڑھا ہوا ہاتھ۔۔"زرد پتوں کی بہار"از رام لعل ص17

محمد کاظم
"سفر نامہ ایک ایسا رپوتاژ ہے جو تخلیقی سطح پر قلمبند کیاجاتا ہے اور اس میں ایک قاری صرف ان مقامات ہی کی سیر نہیں کرتا ، جہاں سیاح کا گزر ہوا تھا اور نہ صرف ان ان لوگوں سے متعارف ہوتا ہے جن سے سیاح کو واسطہ پیش آیا تھا بلکہ وہ خود سیاح کے اندرون کی بھی سیر کرتا ہے ۔ اور اس کی ذات کے لئے ایسے خفیہ گوشوں تک اس کی رسائی ہوتی ہے جہاں وہ عام حالات میں شاید نہ پہنچ سکتا ۔"
"نجیب احمد سے مکالمہ،نوائے وقت لاہور۔13 مارچ 1977ء ادبی ایڈیشن
مرتبہ: عطاء الحق قاسمی

منیر احمد شیخ
"سفرنامہ اب اردو ادب میں ایک مستقل صنف ادب کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ بیشتر سفرنامے فنی چابک دستی سے لکھے گئے اور انہیں خاصی مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ دراصل یہ سفر کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیا دیکھتا ہے ۔ اور پھر اپنے مشاہدے کو دوسروں تک کس طرح پہنچاتا ہے ۔ ایک عام طریقہ تو رپورٹنگ کا ہوتا ہے کہ جو کچھ دیکھا اسے اسی طرح بیان کردیا جیسے کیمرے کی آنکھ دیکھتی ہے ایسے سفر نامے ،سفر کرنے والوں کے حسی تجربوں کی کوئی جھلک نہیں دکھاتے اورنہ ہی انہیں تخلیق کی آنچ سے فن کا درجہ دے پاتے ہیں۔ تجربے کو تخلیقی عمل کا حصہ بنانے اور اسے ابدیت بخشنے کے لئے وہی رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو صوفیاء کے یہاں پایاجاتا ہے ۔کہ وہ تجربے کی"خبر"یوں دیتے ہیں کہ سننے والا خود اس تجربے کا حصہ بن جاتا ہے ۔
فلیپ"دیکھا ہندوستان"ازحسن رضوی

ڈاکٹر انعام الحق جاوید
"جس طرح فن ، فنکار کی شخصیت کا پرتو ہوتا ہے ۔ اس طرح سفر نامہ نگار کی طبیعت کا عکاس ہوتاہے ۔"
تبصرہ"سیروسفر"از شفیع عقیل۔معاصر(2)لاہور۔ص591

راغب شکیب
"سفر نامے میں دو خوبیوں کا ہونا ضروری ہے ۔ ایک یہ کہ سفر نامہ نگار نے واقعی سفر کیا ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ جو لکھے وہ سفر ہی کے متعلق ہو اور غیر متعلق واقعات کی آمیزش سے سفر نامہ پاک ہو اور سفر نامے کا مقصد صرف افسانہ لکھنا نہ ہو۔"
پیش لفظ" یورپ میں آٹھ ہفتے"از ڈاکٹر نعمت اللہ

***
ماخوذ از کتاب: اردو ادب میں سفرنامہ
تصنیف: ڈاکٹر انور سدید (مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور ، 1987)

The art of travelogue, by Dr. Anwar Sadeed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں