مدرسہ ، چندہ اور لاک ڈاؤن کا فائدہ - مضمون از صادق رضا مصباحی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-19

مدرسہ ، چندہ اور لاک ڈاؤن کا فائدہ - مضمون از صادق رضا مصباحی

madrasa-donation-lockdown-benefits

چندہ کسی بھی بحران سے ابھرنے کے لیے کیا جاتا ہے اس لیے چندے کی حیثیت استثنائی، وقتی اورجزوی ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے اسے دائمی سمجھ لیا گیا اور یوں چندہ، ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گیا اور معاشرہ بے شمار مسائل کی زد میں آ گیا ہے۔

مدارسِ اسلامیہ دین کے قلعے ہیں اور ان کے ذمے داران، قلعے دار۔
اس لیے اگر قلعے کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچتا ہے تو سب سے زیادہ فکر مندی قلعے دارکو ہوتی ہے اور اس نقصان کا ذمے دار بھی وہی ٹھہرایا جاتا ہے کیوں کہ اگر اس نے وقت سے پہلے ہی احتیاطی اقدامات کر لیے ہوتے تو شاید یہ حادثہ ہی رونما نہ ہوتا۔
فطری بات ہے کہ کوئی بھی امیر، صدر، ناظم، سربراہ، مہتمم (یا اسے کوئی اور بھی نام دے لیں) جب ادارے کی فتوحات کو اپنی فتوحات سمجھتا ہے اور دوسرے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں اور ان فتوحات و کمالات کو موصوف کی کلاہِ افتخار میں سجاتے ہیں تو اخلاقی اور اصولی طور پر ادارے کی شکستگی، بدحالی، بحران، ناکامی اور ہر طرح کے مسائل کا بھی اسی کو ذمے دار ٹھہرانا چاہیے اور اسے خود بھی یہ ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ جب ہوا موافق ہو تو سارا کریڈیٹ اپنے نام کر لیں اور جب ہوا مخالف ہو تو اسے عوام کے سر تھوپ دیں۔ یہ اصول اور اخلاق دونوں کے خلاف ہے اور امانت و دیانت کے بھی۔
کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں کاذمے دار وہی ہے اسی لیے بازپرس اسی سے ہوگی۔ ذمے داری، سربراہی، امارت، صدارت اور نظامت کا مطلب ہی یہی ہے کہ کسی بھی ادارے کو اچھی طرح چلانا، اس کی مشکلات حل کرنا، ہر طرح کے مسائل کا مقابلہ کرنا اور ممکنہ خطرات کے پیش نظر مستقبل کے لیے پلاننگ کرنا تاکہ کسی بھی ہنگامی دور اور بحرانی کیفیت میں ادارے کی بنیادیں صحیح و سالم کھڑی رہیں اور مسائل اس سے ٹکرا کر واپس چلے جائیں۔

یہ اصول سامنے رکھیے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس پر آئے معاشی بحران کی وجوہات اور ذمے داران کی شکایات کاجائزہ لیجیے، تو آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ مہتمم، صدر، امیر، سربراہ، ناظم صاحب ادارے / کمپنی کو چلانے کی اہلیت رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟
آخر ان حضرات نے اپنی "اہلیت" کی ڈگری کہاں سے حاصل کی اور مدارس اس لاک ڈاؤن کے ہنگامی دور سے ابھرنے میں ناکام کیوں ثابت ہوئے؟
آئیے اس پر مل کر سوچتے ہیں اور کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہندوستان میں مدارس کی تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد۔
تقسیم ہند سے قبل یعنی مسلم حکمرانوں کے دور میں مدارس، خانقاہیں اور اہل علم کی ضرورتیں حکومت پوری کرتی تھی لیکن جب انگریز ملک پر قابض ہو گئے تو یہاں کی ریاستوں اور جاگیرداروں نے یہ ذمے داری اٹھا لی۔ بہت سے مقامات پر ریاستوں نے اپنے علاقے کے مدارس کو گود لے لیا مگر 1947ء میں تاریخ نے اتنی زور سے پلٹا کھایا کہ مسلمانوں کو بےشمار محاذوں پرشکست خوردگی کا سامناکرنا پڑا۔ ریاستوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور زمین داروں اور جاگیرداروں کے بخیے ادھڑ گئے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس کے لیے عوام کے چندوں اور اہل ثروت کی خصوصی عنایتوں کی طرف دیکھنا مجبوری بن گیا۔
یوں مدارس خود بخود عوامی چندے کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اور پھر ایسے پھنسے کہ ابھر نہ سکے۔ ہندوستان کے شرق سے غرب تک ہر چھوٹے بڑے مدرسے نے خود کو عوام کے چندے پر منحصر کر لیا اور اس بہتی گنگا میں بہت سے "تقدس مآب کاروباری" حضرات بھی کود پڑے جس نے اس چندے کو دھندے اور کاروبار کی شکل دے دی۔
ہمارے دورتک آتے آتے صورت حال یوں ہو گئی کہ جو جتنا زیادہ چندہ لائے گا اسی کے مطابق اس کا کمیشن بینک کھاتے کا حجم بڑھاتا چلا جائے گا۔ کمیشن کا یہ زور اتنا بڑھا کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ فیصد تک جا پہنچا بلکہ کہیں کہیں تو ستر ستر فیصد تک۔ اس کا بھیانک انجام تو ایک دن ہونا ہی تھا ، چنانچہ ایک دن کورونا آ پہنچا اور کورونا کے لاک ڈاؤن نے سب کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔

لاک ڈاؤن نے مدارس کے اربابِ حل و عقدکو یہ اچھی طرح باور کرا دیا کہ مدارس کی معیشت دراصل کچی ڈور سے بندھی تھی۔ جب یہ ڈور ٹوٹی تو یہ معیشت اپنی بنیادوں سمیت نیچے آ رہی۔ مدارس کا اربوں روپے کا نقصان ہوا اور اس نے چھوٹے چھوٹے بلکہ متوسط درجے کے مدارس کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی۔

حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے بڑے حضرات کبھی اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکے کہ مدارس کو عوامی چندوں پر منحصر کرنے کے بجائے خود کفیل بنانا چاہیے مگر بھلا ہو کورونا کا کہ اس کے ایک جھٹکے نے انہیں یہ راہ سجھا دی۔ راہ تو سجھا دی ہے اب اس پر چلنا ان کا کام ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ اس راہ پر ان کی چلت پھرت ہوگی بھی یا نہیں؟ ملک میں بہت شور برپا ہے کہ کورونا نے مدارس کے اعصاب پر بری طرح وار کر دیا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے یایہ کوئی اشارۂ غیبی ہے اور ہم اسے سمجھ نہیں پا رہے ہیں؟
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مدارس کے لیے یہ ایک عبوری دور ہے، یہ دور بھی گزر جائے گا البتہ اگر اس پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اللہ نے اس لاک ڈاؤن کے ذریعے مسلمانوں خاص طور پر اہل مدارس کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کا ایک بہترین دائمی حل کا پتہ بتا دیا ہے اور مدارس کے غیر عملی طریقہ کار سے عملی طریقہ کار کی طرف ہماری رہ نمائی کی ہے۔
اللہ کے ہرکام میں حکمت ہوتی ہے بس دیکھنے والی آنکھ، سوچنے والا دماغ اور سننے والا کان ہونا چاہیے۔ ہم اسے اگر خدائی پیغام، تنبیہ یا اشارہ سمجھ لیں تو یہ مدارس کے ہی حق میں ہے۔ لاک ڈاؤن سے وقتی طور پر تو ایسا لگتا ہے کہ مدارس کو واقعی خسارہ برداشت کرنا پڑا، مگر میں اسے قطعی بھی نقصان نہیں سمجھتا کیوں کہ یہ سراسر خیر کے پہلو لیے ہمارے پاس آیا ہے اور اس نے ہمیں ایک ایسی راہ دکھا دی ہے جو واقعی مدارس کی راہ ہے اور مدارس کو اسی پر چلنا چاہیے۔

لاک ڈاون نے ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا کہ مدارس کو خود کفیل بنانا ہی ان کا اصل حق ہے اور عوامی چندے پر ان کا انحصار مدارس کی توہین ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم انہیں محض عوامی چندوں پر لٹکا کر اپنے دین کی توہین تو نہیں کر رہے؟
مدارس کے جس نقصان پر ہنگامہ برپا ہے، ہم اسے اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ کر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر کی آنکھ استعمال نہیں کر رہے اور کریں بھی کیسے؟ ہم ٹھہرے ظاہربیں لوگ۔ ہماری بصیرت کی آنکھ سے اللہ نے روشنی چھین لی ہے اس لیے ہمیں پردے کے پیچھے کے حقائق نظر نہیں آتے۔ ہم بس سامنے کی چیزوں پر چیخ و پکار کر کے مطمئن بیٹھ جاتے ہیں۔ واقعی ہم بڑی عجیب قوم ہیں۔ اس طرح کے ہنگامی حالات میں ہم سب کی ایسی مت ماری جاتی ہے کہ منظر دیدنی ہوتا ہے۔
مدارس کو خود کفیل بنانے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ چندے کی رقوم کا جو نصف حصہ کمیشن کی شکل میں سفرا کے مابین تقسیم کیا جاتا ہے، وہ مسئلہ ہی جڑ سے ختم ہو جائے گا۔ یہ خود مختاری اور خود کفیلی مختلف طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ ارباب دانش اس پر غور کر سکتے ہیں، مثلاً اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مدارس کے اپنے باغات ہوں، کھیت ہوں، مارکیٹس ہوں، شاپنگ مالس ہوں یا اس طرح کی دیگر چیزیں ہوں جن سے سالانہ یاماہانہ مستقل آمدنی ہوتی رہے۔ اب چوں کہ مسلمانوں کے مجموعی حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں اس لیے مستطیع طلبہ سے فیس وصول کی جا سکتی ہے یا طلبہ کی حسب استطاعت فیس کا کچھ فیصد لیا جا سکتا ہے۔
مدارس کو اسکولوں کی طرح فیس اور ڈونیشن پر چلایا جا سکتا ہے۔ مستقل آمدنی کے لیے سرمایہ داروں کو تیار کیا جا سکتا ہے۔ وہ خود اپنے طور پر یا مشترکہ طور پر املاک خرید کر مدارس کو عطیہ کر سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے مدارس اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے اور چندے کے آزار سے نجات حاصل کر لیں گے۔ ظاہر ہے یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اگر عزم پختہ ہو تو مشکلات کی صلابتیں ریزہ ریزہ ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے۔

لاک ڈاؤن کا ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ جو مدارس کسی کام کے نہیں یا جو محض کاغذوں اور رسیدوں پر چلتے ہیں ان کا کاروبار بند ہو گیا اورسچی بات یہ ہے کہ اچھا ہی ہوا۔ غیر ضروری اور کاغذی مدارس، حقیقی کام کرنے والے مدارس کو بہت سخت نقصان پہنچاتے ہیں۔ لوگ رسیدیں اور رودادیں چھپوا کر ہر سال کروڑہا کروڑ کاچندہ کرتے ہیں اور یوں وہ اصل حق دار مدارس کا حق مارتے ہیں۔
میرے اس خیال سے آپ متفق ہوں گے یانہیں مجھے نہیں معلوم، البتہ میں مدارس کی اس بھیڑ میں نصف تعداد کو غیرضروری سمجھتا ہوں کہ اگر یہ نہ ہوتے تو بہتر ہوتا۔ ان کی موجودگی معاشرے سے زیادہ ان کے ذمے داروں کو فائدہ پہنچا رہی ہے اور قوم کا ایک بہت بڑا سرمایہ ضائع کر رہی ہے۔ نیز یہ اصل حقدار مدارس کا چندہ بھی غصب کر رہی ہے۔ ہمارا آپ کا عام مشاہدہ ہے کہ کسی مدرسے کے کسی استاذ کا مہتمم یا پرنسپل سے جھگڑا ہوا تو جناب نے اپنا الگ مدرسہ قائم کر لیا اور اپنے حلقے کے عوام کے چندے کا رخ اپنے نوزائیدہ مدرسے کی طرف کرا لیا۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جناب نے اخلاص کے جذبے یا کسی اور جذبے کے تحت اپنی ذاتی رقم سے مدرسے کے لیے زمین وغیرہ خریدی اور پھر چندہ کر کے اس پر عالی شان عمارت تعمیر کر دی۔ اس طرح کے مدارس عام طور پر عوامی سے زیادہ موروثی اور شخصی ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں سے نہ جانے کتنے مہتمم کروڑوں کی املاک کے مالک بن بیٹھے ہیں۔

یہ ہماری مذہبی تاریخ کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ چندے کی اس روایت نے مدرسے قائم کرنا معمول اور کھیل بنا دیا ہے۔ دنیا کے ہرچھوٹے بڑے کھیل کے کچھ نہ کچھ اصول اور ضابطے ہوتے ہیں مگر یہ دنیا کا ایسا انوکھا "مذہبی کھیل" ہے جس کا کوئی اصول نہیں۔ کوئی بھی آتا ہے اور اس "کھیل " میں شامل ہو جاتا ہے۔ بس متشرع ہونا شرط ہے۔ اس کھیل نے جگہ جگہ مدارس کے نام پردوکانیں کھلوا دیں کیوں کہ اپنی ذاتی جیب سے تو کچھ لگانا نہیں پڑتا بلکہ سارا پیسہ عوام کی ہی جیب سے آتا ہے اور بہت آسانی سے مہتمم کا عہدہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے۔
اپنی محنت کی کمائی کا پیسہ صرف ہو تو کچھ احساس بھی ہو لیکن جب معاملہ مالِ مفت دل بے رحم والا ہو تو احساس کیسے پیدا ہوگا؟ اور یوں بھی اصل مدارس اور مستحقین کا حق مارنے والے کے احساس و ضمیر دونوں ہی مردہ ہو جاتے ہیں۔ چاہے بظاہر ڈاڑھی کتنی ہی نورانی ہو، ٹوپی کتنی ہی چمک دار اور لباس کتنا ہی اجلا۔
دوسرا غیرمعمولی المیہ یہ ہوا کہ ایک ایک شہر اور قصبے میں کئی کئی مدارس قائم ہو گئے اور جہاں مدارس کی ضرورت تھی اس طرف کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ حالاں کہ آج بھی ہندوستان میں کئی مقامات ایسے مل جائیں گے، جہاں مدارس و مکاتب کی اشد ضرورت ہے لیکن کوئی ادھر کا رخ نہیں کرنا چاہتا۔ ظاہر ہے بنجر زمینوں کو کون عقل مند سیراب کرنا چاہے گا۔ چندے کے اس پورے دھندے پر آپ غور کریں تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ آزادی کے بعد ہندوستانی مدارس کی تاریخ در اصل اہل ثروت کے خصوصی تعاون اور عوامی چندے کی تاریخ ہے، ایسی تاریخ کہ دونوں کا تصور ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔
اگر مدارس کا مطالعہ خاص اس نقطہ نظر سے کیا جائے تو ہمارے زوال کے بے شمار اسباب میں سے کسی اہم سبب کا سراغ یہاں بھی مل سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ کم پڑھے لکھے عوام کی مذہبی حمیت اور دینی جذبہ ہی ہے جس نے ایک طرف مستحق مدارس کی رگوں کو خشک ہونے سے بچایا اور دوسری طرف غیرارادی طور پربے شمار "دکان داروں" کا "کاروبار" مستحکم کر دیا۔

اس عوامی چندے کا ایک اہم پہلو اور اس کا پس منظر بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جب مدارس پر معاشی بحران منڈلانے لگا تو اس بحران سے نکالنے کے لیے علما نے زکوٰۃ و فطرے کی رقوم، جو دراصل غریبوں کا حق تھا، کو حیلۂ شرعیہ کے ذریعے مدارس کے لیے جائز قرار دے دیا۔ یقیناً یہ ایک اجتہادی اقدام تھا اور اگر بروقت اس طرف توجہ نہ دی گئی ہوتی تو ملت اسلامیہ ہند آج جس پوزیشن میں ہیں، شاید نہ ہوتی۔
اس وقت کے ذمے داروں کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے کم از کم مدارس کے وجود کو جیسے تیسے برقرار رکھا، لیکن ٹھہریے اس سکے کا دوسرا رخ دیکھیے۔
یہ رخ اتنا ہولناک ہے کہ اس نے پورے معاشرے پر اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے اور اس نے مسلمانوں کی دینی، مذہبی و سماجی ضرورتوں پر گہری ضرب لگائی ہے۔ ہوا یوں کہ اس شرعی حیلے نے اہل مدارس پر ہمیشہ کے لیے چندے کا دروازہ کھول دیا۔ زکوٰۃ و فطرے کی جو رقم اللہ کی طرف سے غریبوں اور معاشی طور پر کمزوروں کے لیے مخصوص کر دی گئی تھی، اس کا اکثر و بیشترحصہ مدارس کے کھاتے میں چلا گیا اور یوں بے چارے غریب مسلمان مسائل و مصائب کی گہری کھائی میں گرتے چلے گئے۔
بعد کے علما نے اس سمت غور ہی نہ کیا کہ اگر چندے کی روایت یوں ہی قائم رہی تو اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

آج مالدارحضرات مدارس کو چندہ تو دیتے ہیں مگر اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کے لیے نہیں بھیجتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے زکوٰۃ و فطرے کی رقم پر پلیں۔ مدارس میں بمشکل دو تین فیصد مالداروں کے بچے پڑھتے ہوں گے، وہ بھی ایسے بچے جن کا مذہبی خاندانی پس منظر ہوگا۔
معاشرے کی اس کربناک صورت حال کے پیش نظر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ شرعی حیلے کے ذریعے زکوٰۃ و فطرے کی رقوم کو مدارس کے لیے جواز کا فتویٰ ایک اجتہادی اور وقتی حکم تھا اور یوں بھی اجتہاد وقتی ہی ہوتا ہے، دائمی نہیں۔
اُس دور کے حالات اور اِس دور کے حالات میں نمایاں فرق ہے۔ آج کے تناظرمیں چندے کے نقصانات کے پس منظر میں دوبارہ اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے ورنہ حیلہ شرعی کی آڑ میں مدارس کے نام پر جو کروڑہا کروڑ کا کاروبار ہو رہا ہے اس پر کبھی بند نہیں لگ سکے گا، غریبوں کا حق یوں ہی مارا جاتا رہے گا اور مسلم معاشرے کی ضروریات کبھی پوری نہیں ہو سکیں گی۔
ہم اپنے زوال پر لمبی چوڑیں بحثیں، تقریریں اور تحریریں تو بہت پیش کرتے ہیں مگر اس پہلو کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے جو ہمارے بہت سارے مسائل کا حل ہے۔

اگر ہمارے علما و مشائخ نے شروع سے ہی مدارس کو خود کفیل بنانے کی طرف توجہ دی ہوتی اور عوام کی ذہن سازی کی ہوتی تو آج انھیں ہر سال مالداروں کی چاپلوسی نہ کرنی پڑتی اور نہ ہی مدارس کے سفیروں کو ان کی دھتکار سننے کو ملتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ذمے دارانِ مدارس کو کبھی کبھی اپنے خاص معاونین کی جانب سے بہت سی غیر مناسب باتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اوریہ حضرات ان باتوں کی برداشت کو "حکمت و مصلحت" کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے مالداروں کے "محتاج" مدارس کے مہتمم صاحبان کے لیے "حکمت و مصلحت" کی تاویل بھی "وقت کی ضرورت" ہے ورنہ مالداروں کے چندے کا رخ کسی اور طرف بھی مڑ سکتا ہے۔

لوٹ پھیر کر سوال پھر بھی وہیں کا وہیں ہے کہ آخر یہ محتاجی کیوں ہے ؟ کیا اس کا اب کوئی عملی جواب مل سکے گا۔ کیا لاک ڈاؤن نے ہماری توجہات کو انگیز نہیں کیا؟ یا لاک ڈاؤن سے بھی کسی بڑے خطرے کا انتظار ہے جو منہ کھولے ہماری ہی طرف قدم بڑھانے والا ہے۔ کیا ہم اس وقت جاگیں گے جب ایڈڈ مدارس کو حکومت سے ملنے والی مراعات بند ہو جائیں گی اور اساتذہ و ملازمین کی تنخواہیں روک دی جائیں گی؟

اسلامی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام میں چندے کی روایت کبھی نہیں رہی۔
چندہ اس وقت کیا گیا جب بعض مواقع پر ہنگامی حالات پیش آئے۔ عہد رسالت میں بھی اس طرح کا ہنگامی دور آیا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک حکم پر صحابہ کرام نے اس ہنگامی صورت سے نمٹنے کے لیے دولت کے انبار لگا دیے مگر برا ہو ہماری سہل پسندی کا، ہم نے اس ہنگامی اور استثنائی نوعیت کی صورت حال کو دائمی سمجھ کر اپنا لیا۔
یہ بڑی ہولناک غلطی تھی جو ہم سے سرزد ہوئی۔ چندہ کرنا یقیناً سنت ہے مگر اس کی حیثیت استثنائی، جزوی اور ہنگامی ہے، دائمی اور کلی نہیں۔ اس سنت کو ہم نے دائمی سمجھ کر نافذ تو کر دیا مگر اس کے نقصانات کو کنٹرول کرنا ہمارے بس سے باہر ہو گیا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ چندے کے اس نظام نے توکل علی اللہ کے تصور پر بڑا کاری وار کیا ہے۔
میں نے اتنا بڑا دعویٰ کیوں کیا، آئیے اسے سمجھنے کے لیے اپنی زندگی کی معمولی معمولی چیزوں پر غور کریں۔
مثلاً اگر آپ کسی جگہ کا سفر کرنا چاہتے ہیں تو پہلے زاد راہ کا انتظام کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی طرح کے ممکنہ مصائب سے مقابلے کے لیے احتیاطی طور پر کچھ رقوم ضرور بینک کے کھاتے میں محفوظ رکھتے ہیں تاکہ وہ برے وقت پرآپ اور آپ کے اہل خانہ کے کام آ سکیں۔ اگر آپ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پیسے کی فراہمی پر غورکرتے ہیں۔ آپ شادی یا نکاح کرتے ہیں تو اس کے لیے پہلے سے ہی حسب استطاعت انتظام کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
ایسا تو نہیں کرتے ناں کہ بغیر زادِ راہ کے سفرشروع کر دیں، بغیر پیسے کے ہی کاروبار میں اتر جائیں، بغیر انتظام کیے کسی کام میں کود پڑیں۔ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس لیے کرتے ہیں کہ کام کرنے کا طریقہ یہی ہے، یہی فطرت نے ہمیں سکھایا ہے اور اسی کا نام خدا پر توکل ہے کہ پہلے اپنی طرف سے پوری کوشش کر لی جائے اس کے بعد نتائج اللہ پرچھوڑ دیے جائیں۔
دنیا کا کوئی بھی انسان ایسا نہیں کرتا کہ بغیر کسی سابقہ تیاری کے میدان میں اتر جائے اور پھر بعد میں دوسروں کی طرف ہاتھ پھیلائے اور المدد المدد پکارے۔ اگرکوئی ایسا کرتا ہے تو آپ اسے بیوقوف کے سوا اور کیا کہیں گے۔
اب آپ مدارس کے ذمے داروں کو دیکھیے۔ ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے مدرسہ کھولنے سے پہلے ہی منصوبہ بندی کی ہوتی ہے؟
شاید ایک فیصد بھی نہیں۔ یہ حضرات مدرسہ پہلے کھولتے ہیں اور اس کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بعد میں سوچتے ہیں۔ اس کی ضروریات کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں، رسیدیں شائع کرا دیتے ہیں اور عوام سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرورت پوری کریں۔ یاللعجب۔
مجھے یہ کہنے میں شدید تکلیف ہو رہی ہے کہ زیادہ تر مدارس کے مہتمم، امیر، صدر وغیرہ نان سینس واقع ہوئے ہیں۔ ان بے چاروں کو پتہ ہی نہیں کہ اداروں کو چلایا کیسے جاتا ہے۔ آپ اگر مدارس کے اخراجات پر ان سے سوال کریں تو جھٹ سے بڑے خشوع و خضوع سے بول پڑیں گے:
"اللہ پر توکل کر کے کام شروع کر دیا ہے "
"اللہ کا کام ہو رہا ہے تو وہی انتظام کرے گا۔ " وغیرہ وغیرہ۔

ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ نے اپنے منصوبے کے لیے کتنی تیاری کی ہے ؟ اللہ اسی وقت اپنے بندے کی مدد کرتا ہے جب بندہ پہلے اپنی مدد کر کے خود کو مستحق ثابت کرتا ہے بصورت دیگر اللہ کی کوئی مدد نہیں آتی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی کام کے لیے محض اخلاص ہونا کافی نہیں، اس کے لیے حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی رفاقت بھی ضروری ہے۔ محض اخلاص کے بل پر کچھ ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اہلیان مدارس کی روش نے شعوری یا غیرشعوری طور پر توکل کے تصور کو جس طرح نقصان پہنچایا ہے، وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ جرم تو جرم ہے چاہے شعوری ہو یا غیرشعوری۔

یقیناً یہ دورِ زوال ہے اور زوال بڑے چھوٹے، عوام و خواص سبھی پر آتا ہے، اس سے کوئی بچ نہیں پاتا۔ اس دور زوال میں ہمارے دانش وروں اور مفکروں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ مسلمانوں سے مختلف الجہات مسائل سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ دورِزوال میں قائدین کی قیادت بھی کنارے رکھی رہ جاتی ہے اور زمانہ ٹھوکر مار کر آگے نکل جاتا ہے۔ دور زوال میں مشورے تو بہت پیش کیے جاتے ہیں اور منصوبے بھی بہت بنائے جاتے ہیں مگر وہ زمین پر کبھی نہیں اتر پاتے کیوں کہ شہ دماغوں کو اپنے سوا کسی کا منصوبہ اور مشورہ اچھا نہیں لگتا۔
ظاہر ہے چھوٹوں اور جونیئروں کو منہ نہیں لگایا جاتا۔ اللہ کے کرم سے ہمارے بڑے خود بہت عالی ذہن اور شہ دماغ ہیں۔ اسی اعلیٰ ذہنی اور شہ دماغی کا نتیجہ ہے کہ نالے، نوحے، مرثیے، شکوے، منصوبے، تجاویز، نعرے سب کتابوں اور مجلسوں تک محدود ہیں۔ مجلس ختم، سب کچھ ختم اور سب اپنی اپنی زندگی میں مگن۔
یہاں سوال یہ ہے کہ بلندبانگ دعووں کے اس دور میں کیا کہیں سے امید کی کوئی کرن بھی دکھائی دے رہی ہے ؟ یقیناًصاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس گئے گزرے دور میں بھی بہت سارے مخلصین اس سمت میں سوچتے ہیں اور کڑھتے ہیں مگر بے چارے کچھ کر نہیں سکتے کیوں کہ وہ سسٹم سے ٹکرانے کی ہمت نہیں رکھتے۔
دراصل سسٹم سے دیوانے ٹکراتے ہیں، فرزانے نہیں۔ فرزانے لیت و لعل میں پڑ جاتے ہیں، حکمت و مصلحت کی اوٹ میں اپنی جان بچا لیتے ہیں۔۔۔ مگر دیوانے تو دیوانے ہوتے ہیں اور تبدیلی یہی دیوانے لاتے ہیں۔ دنیا میں آج تک جہاں کہیں بھی کوئی تبدیلی آئی ہے، انہیں دیوانوں کے ذریعے آئی ہے۔ اہل عقل محض تماشائی بنے رہے اور ایک دن چل بسے۔

اس پوری گفتگو کا لب لباب یہی ہے کہ خدارا لاک ڈاؤن کے اس خدائی پیغام کو سمجھیں۔
اگرنہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں، اپنی بلا سے۔ ہم مدارس قائم کر کے خدا پر احسان نہیں کر رہے بلکہ خود پر احسان کر رہے ہیں۔ اللہ کو اپنے دین کا کام لینا ہے وہ دشمنوں سے بھی لے لیگا۔ وہ کوئی دوسری قوم لے آئے گا، وہ ہماری جگہ دوسرے افراد کو براجمان کر دے گا، اور یہ یقیناً ہو کر رہے گا کیوں کہ یہ تو خدائی قانون ہے، جو کبھی بدل نہیں سکتا۔
ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیے، اس خدائی قانون کی تعبیر بن کر سسٹم سے ٹکرانے کی ہمت لیے دیوانے چلے آ رہے ہیں۔ صبح نو قریب ہے۔ بہت جلد، ان شاء اللہ۔

***
Sadique Raza Misbahi (Mumbai)
abumisbahi[@]yahoo.com
موبائل : 09619034199
صادق رضا مصباحی

Madrasa, Donation and the benefits of Lockdown. Article: Sadique Raza Misbahi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں