پری چہرہ نسیم بانو - بالی ووڈ فلمی صنعت کی بیوٹی کوئین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-05

پری چہرہ نسیم بانو - بالی ووڈ فلمی صنعت کی بیوٹی کوئین

naseem-banu

ہندی فلم کی ہیروئینوں میں "پری چہرہ نسیم بانو" اپنے دور کی ٹاپ کی ہیروئین تسلیم کی جاتی تھی اور لوگ انہیں "بیوٹی کوئین" یا پری چہرہ نسیم" کہہ کر پکارتے تھے۔ نسیم کے چہرے پر ایسی معصومیت جھلکتی تھی اور چہرہ اس قدر پرکشش اور بھولا بھالا کہ جو بھی اسے دیکھتا تھا محویت کے عالم میں دیکھتا رہ جاتا تھا۔ اس کی آنکھیں غزالی تھیں اور جو کوئی بھی ان کی آنکھوں کی طرف نظر ڈالتا، چند لمحوں کے لئے ڈوب کر رہ جاتا اور پھر بقول ڈرامہ نویس ظہیر انور، دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا۔
بنگال کے سب سے بڑے ڈرامہ نویس اور اسٹیج ڈائریکٹر ظہیر انور کے بارے میں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ 1970ء میں سہراب مودی کی معرکتہ الآرا فلم "پکار" طویل برسوں کے بعد دوبارہ پیراڈائیز سنیما میں ریلیز ہوئی تھی، اور ظہیر انور جواس فلم کے دوبارہ ریلیز ہونے کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، جس دن یہ فلم کلکتہ کے پیراڈائیز سنیما میں ریلیز ہوئی، انھوں نے بیک وقت جمعہ سنیچر اور اتوار کے لئے چار چار ٹکٹیں بک کرا لیں اور اپنے کلاس کے ساتھیوں راجہ، سلیم، ایوب، رشید، ملا اختر کے ساتھ فلم "پکار" کو تین دن لگاتار دیکھا اور اس کے بعد بھی تشفی نہیں ہوئی۔

بہرکیف "پکار" تسیم بانو، چندر موہن اور سہراب مودی کی اداکاری پر مزین فلم صحیح معنوں میں ایک ایسی دستاویزی فلم تھی جسے ہدایتکار سہراب مودی نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا تھا۔ اگرچہ اس سے پہلے سہراب مودی اپنے منروا تھیٹرس کے بینر تلے فلم "سکندر" بنا چکے تھے جس میں انھوں نے سکندر کا رول پرتھوی راج کپور کو دیا تھا اور پورس کارول خود ہی ادا کیا تھا اور یہ فلم باکس آفس پر زبردست ہٹ ہوئی تھی۔
جب انھوں نے "پکار" بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور مغل شہنشاہ جہانگیر کے رول کے لئے پرتھوی راج ہی کو لینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن نسیم بانو نے ان کی توجہ چندر موہن کی طرف دلائی جنہوں نے فلم شہید (دلیپ کمار، کامنی کوشل) کے ساتھ کام کیا تھا اور عدالت کے مناظر میں ایک وکیل کی حیثیت سے جو اداکاری چندر موہن نے کی تھی اس اداکاری کے سامنے دلیپ کمار جیسے بڑے آرٹسٹ بھی بھونچکے رہ گئے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں فلم فیئر ایوارڈ کا کوئی رواج نہیں تھا ورنہ صرف عدالت کے سین کے لئے چندر موہن کو فلم فیئر ایوارڈ ضرور ملتا۔

آخرکار نسیم بانو کے مشورے پر سہراب مودی نے چندر موہن کو ہی پکار میں شہنشاہ جہانگیر کا رول دیا اور یہ فلم ایسی ہٹ ہوئی کہ فرق کرنا مشکل ہو گیا کہ فلم "پکار" عظیم تھی یا کے۔آصف کی "مغل اعظم"؟
ہندوستان کی چند کلاسیک فلموں میں سکندر، پکار، روٹی، مدر انڈیا، گنگاجمنا، مغل اعظم کے ساتھ گلزار کی "کوشش" اور جی پی سپی کی "شعلے" کو بھی کلاسیک فلموں میں جگہ دی گئی ہے۔ اس فہرست میں وی شانتارام کی "دو آنکھیں بارہ ہاتھ" بھی شامل ہے اور جدید دور میں "امراؤ جان" اور گرم ہوا (ایس ایم سیتھو) ، مظفرعلی کے نام بھی شامل ہیں اور ساتھ ہی وجے آنند کی "گائیڈ" بھی۔

ہندی فلموں میں بیشتر ہیروئین تنگدست اور مفلس خاندان سے تعلق رکھتی رہی ہیں لیکن نسیم بانو کا خاندان متمول خاندان تھا جہاں پیسے کی ریل پیل تھی، دیگر ہیروئینوں کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے پرائمری اسکولوں کا بھی منہ نہیں دیکھا تھا، جبکہ نسیم جو بےحد امیر والدین کی بیٹی تھی، اس کا فلموں میں داخلہ بھی اتفاقیہ تھا۔ اس کا کانوینٹ اسکول گرمیوں کی چھٹی کی وجہ سے بند تھا اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ بمبئی میں ایک رشتہ دار کے یہاں گھومنے گئی تھی۔
ہر دن وہ اپنی میزبان سے ضد کرتی کہ اسے فلم اسٹوڈیو دکھائے۔ پھر وہ ہر روز اسٹوڈیو جانے لگی۔ وہاں اس نے پرتھوی راج، ماسٹر نثار، سہراب مودی وغیرہ کو اداکاری کرتے دیکھا اور اسے ان کی اداکاری بیحد پسند آنے لگی۔ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر ہر کوئی متاثر تھا اور اسٹوڈیو میں اسے عزت کے ساتھ بٹھایا جاتا۔
ایک مرتبہ سہراب مودی نے اپنی فلم "ہیملٹ" میں ایک رول کی پیشکش کی۔ لیکن اس کی والدہ جو یہ چاہتی تھیں کہ وہ ڈاکٹری کی پڑھائی مکمل کرے تو انھوں نے نسیم کو روک دیا، جس پر نسیم نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ اور ہر وقت روتی رہی جس کے بعد اس کی ماں آخر مان گئی اور اسے فلم میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
فلم "ہیملٹ" نے نسیم کو راتوں رات اسٹار کی صف میں شامل کر دیا۔ لیکن فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے اسے کالج میں داخلہ نہیں ملا۔ اس زمانے میں عورتوں کے لئے قلم میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، دوسرے وہ مسلمان تھی اور اس وجہ سے مسلمانوں کا ایک گروہ بھی اس کی زبردست مخالفت میں اتر آیا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ معاملہ دب گیا اور ہر کوئی نسیم بانو پری چہرہ کی خوبصورتی میں ڈوب کر رہ گیا۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے بعد نسیم بانو نے بحیثیت اداکارہ اپنے کیریر کو بنانا شروع کر دیا اور یکے بعد دیگرے کئی فلمیں حاصل کیں جن میں خون کا خون، ڈایورس(طلاق)، خان بہادر، میٹھا زہر اور وسنتی شامل ہیں۔
تاریخ ساز فلم منروا مووی ٹون کی فلم "پکار" تھی، جس میں اس نے ایک مغل شہنشاہ کی بیوی نور جہاں کا رول ادا کیا تھا اور اس فلم میں اس کی اداکاری نے اسے شہرت اور مقبولیت کے آسمان پر لا بٹھایا۔ منروا مووی ٹیون کی دوسری فلمیں جو سہراب مودی کی ہدایت میں بنیں جس میں نسیم بانو کو ہیروئین کا رول ملا، وہ فلمیں بھی کامیاب رہیں۔ خاص طور پر "شیش محل" جس میں اس نے ایک تباہ حال زمیندار کی بیٹی کا رول ادا کیا، جس میں اس کے لباس بالکل معمولی اور سادہ تھے لیکن اس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے بعد کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ اس نے کیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس فلم میں اس نے بغیر میک اپ کے کام کیا تھا۔

منروا مووی ٹیون کی کئی ہٹ فلموں میں کام کرنے کے بعد نسیم نے قلمستان اسٹوڈیو کا رخ کیا اور اس اسٹوڈیو میں بنی پہلی فلم کا نام "چل چل رے نوجوان" تھا۔ ہہ فلم 1950ء میں ریلیز ہوئی جس میں اشوک کمار ہیرو تھے۔
نسیم کے شوہر احسان بھی بعد میں فلمساز بنے اور انھوں نے بھی نصف درجن فلمیں بنائیں ان کے پروڈکشن کا نام "تاج محل پکچرز" تھا۔ لیکن اس زمانے میں نسیم نے چند چھوٹی بجٹ کی معمولی فلموں میں کام کر کے اپنے کیریر کو داغدار کر لیا۔ وہ قلمیں تھیں باغی، سندباد سیلر، جس میں نسیم نے سمندری ڈاکو کا رول ادا کیا تھا۔ اور فلم بینوں نے اس رول میں انہیں بالکل پسند نہیں کیا۔

اس زمانے میں ان کی ہم عمر اداکارائیں تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر گئی تھیں جس میں نورجہاں کا نام قابل ذکر ہے مگر نسیم نے اپنا فلمی سفر بمبئی میں جاری رکھا۔ 1950ء کے اختتام پر نسیم بانو نے فلمی دنیا سے ریٹائرمنٹ لے لیا۔ بعد ازاں وہ قلم "نوشیروان عادل" میں ایک مختصر رول میں جلوہ گر ہوئی تھیں۔ بہت سارے فلمساز نسیم بانو کو دوبارہ فلمی صنعت میں واپس لانے کے خواہاں تھے اور بہت ہی اچھے اچھے رول کی انہیں پیشکش کی گئی تھی۔

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا
مولف: ڈاکٹر الف انصاری

Naseem Banu, the queen of Bollywood.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں