پرائیویسی، سیکوریٹی اور ڈاٹا - دنیائے ٹکنالوجی کے موثر ترین ہتھیار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-05

پرائیویسی، سیکوریٹی اور ڈاٹا - دنیائے ٹکنالوجی کے موثر ترین ہتھیار

data-privacy-security-effective-weapons

مرکزی وزارت برائے الیکٹرونکس و انفارمیشن ٹیکنالوجی نے 29 جون 2020 کو ایک اعلامیہ جاری کیا۔ جس میں 59 موبائل اپلیکیشنز پر امتناع کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس فہرست میں مشہور ترین اور معروف ترین ایپزشامل ہیں۔ صرف شہروں میں ہی نہیں دور دراز کے دیہاتوں میں بھی ان ایپز کی رسائی تھی اور عام آدمی سے لے کر کم پڑھا لکھا انسان بھی ان کو نہایت سرعت سے استعمال کرتا آرہا تھا۔ منسٹری آف الیکٹرونکس ا ینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی (ایم ای ٹی آئی وائی) نے اس امتناع کا اہم مقصد قومی سلامتی کا تحفظ اور شہریوں کی پرائیویسی کو یقینی بنانا بتایا ہے۔

اس اعلامیہ میں کہیں بھی چین کا ذکر نہیں ہے؛ لیکن یہ سارے کے سارے ایپ چین میں بنائے گئے ہیں۔ چینی سرمایہ کاروں کی جانب سے بڑی مقدار میں سرمایہ کاری کی گئی ہے یا جو چینی حکومت کی سرپرستی میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ایسے میں شہریوں کا ماننا ہے کہ یہ حکومت ہند کی جانب سے 15 جون 2020 کو لداخ کی وادی گلوان میں 20 ہندوستانی فوجیوں کو چینی فوجیوں کی جانب سے شہید کیے جانے کا بدلہ ہے، کچھ لوگوں نے اسے سائبر اسٹرائیک بھی کہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر کسی بھی طرح کی وضاحت نہیں کی گئی۔

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی پچھلے کئی دنوں سے اپنی تقریروں میں خود کفیل ہندوستان کی بات کہہ رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہندوستان کو خود کفیل بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ بیرونی ممالک سے درآمدات کو کم کرکے خود اپنے ہی ملک میں اتنی صلاحیت پیدا کی جائے کہ نا صرف گھریلو اشیاء سے ملک کی ضروریات مکمل ہو بلکہ ان اشیاء و خدمات کو بیرونی ممالک کو برآمد کیا جا سکے۔ کچھ ماہرین نے اس سلسلے میں 59 موبائل ایپز پر امتناع کو اہم قدم قرار دیا ہے؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہایت ہی سستے داموں میں متحرک و فعال اور متعدد سہولیات سے بھرپور ایپ کا متبادل ابھی دستیاب نہیں ہے۔ ہے بھی تو اس کی کارکردگی ویسی نہیں ہے، جیسی شہریوں کو دستیاب ہونی چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ اس اقدام سے تحریک پاکر سائبر ورلڈ کے ماہرین اور ایپ ڈیولپیرز نئے ایپ تخلیق کر سکیں تو اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں حکومتی سطح پر بھی ان کاموں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ ہندوستان میں کئی کمپنیاں، مختلف تنظیمیں، حکومتی وزارتیں، کتب خانے اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے اپنے اپنے ایپز ہیں۔ گیمز کے بھی لاکھوں ایپز ہیں۔ جس میں کئی طرح کی سہولیات دستیاب ہوتی ہے۔

ایپ کی تخلیق - خدمت بھی، معاشی ذریعہ بھی:
اینڈرائیڈ ایپز کا استعمال اب اتنا عام ہو چلا ہے کہ ہر ایک کے موبائل میں کم از کم پچیس سے تیس ایپز تو موجود ہوتے ہی ہیں۔ ایپ بنیادی طور پر ایک ذہنی تخلیق ہے۔ جو ذہن کے لاشعور سے نکل کر شعوری اعتبار سے ٹیکنالوجی کی دنیا میں وجود میں لایا جاتا ہے۔ اس میں مختلف آپشنز کو ایڈ کیا جاتا ہے اور آئے دن اس میں تبدیلیاں بھی لائی جاتی ہے۔ایسے لوگ جو ایپ بناتے ہیں۔ انہیں ایپ ڈیولپیرز کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence [AI] ) بھی استعمال کی جاتی ہے۔ گوگل پلے اسٹور پر پر آپ جائیں تو کئی ایسے ایپ دستیاب ہے؛ جن میں مکمل قرآن کی تلاوت، تفسیر، تشریح، کتب احادیث، اقوال زریں اور ہزاروں کتب کو پی ڈی ایف فائل یا ای - ورژن میں پیش کیا جاتا ہے۔ ٹکنالوجی کی دنیا نے جو نئے خود روزگار اور معاشی ذرائع پیدا کیے ہیں۔ ان میں سے ایک ایپ کی تخلیق بھی شامل ہے۔ مسلم نوجوانوں کو اس سلسلے میں آگے بڑھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہیے۔

پرائیوسی اور سیکیورٹی کی اتنی اہمیت کیوں؟
انسان گوشہ نشینی سے زیادہ سماجی میل ملاپ اور اجتماعیت کو پسند کرتا ہے۔ خاندانی رشتہ داریاں، دوست احباب اور معاشرتی تعلقات سے انسان کی پہچان بنتی ہے۔ ان سب کو اپنی خوشی اور غم کی کیفیات میں شریک کرتا ہے۔ اسی بنا پر انفرادی وجود کے ساتھ اس کی ایک سماجی پہچان بنتی ہے؛ لیکن یہی انسان اپنی بہت سی باتوں کو اخفاء اور راز میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہی اس کی پرائیوسی ہے اور اس کی حفاظت کو یقینی بنانا اور برقرار رکھنا سیکیورٹی کہلاتا ہے۔ اس دور میں دستخط، نجی معلومات، چہرے کی شناخت، آواز کی انفرادیت اور فنکر پرنٹ وغیرہ پرائیوسی میں شامل ہے۔
سائبر ورلڈ میں بھی ہر انسان (User) کا ایک طبعی وجود ہوتا ہے۔ وہ اپنے اکاؤنٹ، کی ورڈز اور مختلف سیکریٹز کے ذریعے ورچوئل ورلڈ [Virtual world] میں اپنی پہنچ کو یقینی بناتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں جتنی آن لائن سرگرمیاں انجام دی جاتی ہے۔ ان میں پرائیوسی اور سیکورٹی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آن لائن ادائیگی، ای بینکنگ، مختلف ممالک کے درمیان خفیہ بات چیت، آن لائن دستخط اور پاس ورڈز وغیرہ کا تحفظ ضروری ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پرائیویسی اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے جتنے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اسے نقصان پہنچانے، اس کا غلط استعمال کرنے اور دستیاب شدہ اعداد و شمار (Data) کی چوری کرنے کے لئے بھی اسی شد و مد کے ساتھ محنت کی جاتی ہے۔ جسے سائبرکرائم کہا جاتا ہے۔ عام زندگی سے لے کر قومی سطح کے واقعات اور حکومتی منصوبوں و خفیہ رازوں کو ہیک کر کے غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے سائبر ورلڈ میں بہت حساس رہنے اور محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاٹا کا استعمال:
جدید دور میں جن موضوعات پر سب سے زیادہ تحقیق و مطالعہ کیا جارہا ہے؛ ان میں سے ایک ڈاٹا ٹیکنالوجی بھی ہے۔
کوئی بھی کمپنی کسی بھی پروڈکٹ کو لانچ کرنے سے پہلے کئی طرح کے سروے کرتی ہے۔ لوگوں کے ذوق اور ترجیحات کو معلوم کرنے کے لیے کمپنی کو صارفین تک پہنچنا بھی ہوتا ہے۔ کمپنیاں اس طرح کے کام سروے، اشتہار کاری، ٹرائل پروڈکٹ کی مفت میں تقسیم اور چھوٹے چھوٹے پیغامات کی ترسیل سے یہ کام انجام دیتی ہے۔ کئی اشیاء و خدمت تو ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کی صارفین کو قطعی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کمپنیوں کی طرف سے اس طرح کے کام سے یہ چیزیں بہت ہی ضروری اور لازمی بن جاتی ہے۔ جب اس طرح کسی بھی پروڈکٹ کا صارفین کے درمیان رواج بن جائے اور وہ استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے تو اس شئے / خدمات کی کامیابی گردانی جاتی ہے۔
اس طرح مختلف کمپنیاں سرویز کر کے اور عوامی رائے جان کر نئے پروڈکٹ کو متعارف کرواتی ہے۔ جب نئی اشیاء بازار میں دستیاب ہو جاتی ہے تو اس کی ٹکر میں دوسری کمپنیاں بھی اپنا نام (Name)، برانڈ(Brand)، پیکنگ(Packing)، سائز(Size)، رنگ (Colour) اور دیگر سہولیات کے ساتھ دوسرے پروجیکٹ کو بازار میں اتارتی ہیں۔ جو سابقہ شئے سے بہت ہی مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح بازار میں مسابقت چلتی رہتی ہیں۔ ایسے میں بہت سے اہم کردار صارفین کا ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے کونسی اشیاء / خدمات کا انتخاب کرتے ہیں اور کونسی شے کا رد کرتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ صرف چہرے کو دھونے کے لئے ہزاروں لاکھوں کریم دستیاب ہیں۔ اسی طرح کھانے کی چیزیں، مشروبات اور بال دھونے کے لئے شیمپو وغیرہ کی بھی بے شمار انواع و اقسام ہیں۔ یہ سب کے سب صارفین کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں کہ ان کی نظر کرم ہم پر پڑ جائے اوراس کے ذوق انتخاب میں ہم کامل اتر سکے۔
ادھر کچھ برسوں سے فیس بک پر دس سالہ چیلنج #10YearsChallenge ، فوٹو لیب تصویر اور اینی میٹڈ گرافک پر مبنی اوتار تصاویر کو شیئر کیا جا رہا ہے۔ یہ سب ڈاٹا کو جمع کرنے کے آسان طریقے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اس میں صارفین کی تفریح کا سامان ہوتا ہے، جو جلد راضی بھی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے ڈاٹا کو اکٹھا کر کے کمپنیوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار اور چہرہ شناسی (Face Recognition) کو نجی معلومات یا پرائیوسی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سماجی زندگی سے متعلق ایک طرح کی پہچان کے لیے ضروری ہے۔

سائبر ورلڈ کے ماہرین کا تجزیہ ہے کہ آنے والے دنوں میں چہرہ شناسی کی ٹکنیک کا استعمال بہت زیادہ کیا جانے لگے گا۔ جس طرح کچھ خفیہ اعداد یا حروف تہجی کے ذریعے شخصی رازوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح چہرے کا استعمال بھی بڑے پیمانے پر قابل عمل بن جائے گا۔
فیس بک میں درج بالا تین ٹرینڈز سے متعلق جو بات اوپر پیش کی گئی ہے۔ وہ بھی اس ضمن میں شامل ہے۔ فلاں شخص روبوٹ کی طرح یا ایک روبوٹ فلاں شخص کی طرح کام کرنے لگے تو اس کا طبعی چہرہ (Physical Face) کس طرح کا ہو سکتا ہے؟ اس کی ظاہری شناخت کس طرح کی ہوگی؟ یہ علم چہرہ شناسی میں شامل ہے۔

بڑی بڑی کارپوریٹ اور ملٹی نیشنل کمپنی (MNC's) اپنی نئے اشیاء و خدمات کو متعارف کرانے کے لیے بھی ڈاٹا کا استعمال کرتی ہے۔ اس کی سب سے آسان مثال ٹین ائیر چیلنج ہے۔ ٹین ائیر چیلنج ٹرینڈ کے تحت دنیا بھر میں موجود فیس بک کے استعمال کنندگان نے اپنی دس برس قبل اور موجودہ تصویر کو اپنے اپنے فیس بک اکاوئنٹ کے تحت شئیر کیا۔ اس کے ذریعے دس برس میں آنے والی تبدیلیوں کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اپنی دس برس قبل کی اور آج کی تصویر دیکھیں تو خود آپ کو بہت فرق محسوس ہوگا۔ مثال کے طور پر دس برس قبل آپ کے سر پر گھنے بال تھے ہونگے۔ آج آپ کا سر گنجا یا ہلکا گنجا ہو گیا ہوگا۔ دس برس قبل آپ جس طرح کے کپڑے استعمال کرتے تھے۔ آج اس سے بالکل مختلف کر رہے ہوں گے۔ دس برس قبل آپ کے سر کے بال بہت ہی کالے اور اسموت تھے ہوں گے۔ آج ان بالوں میں سفیدی اور سخت پن بھی واقع ہوا ہوگا۔
آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ دس برس میں کتنی، کون کونسی اور کیسی تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔ جی ہاں یہی راز کی بات ہے! یہ اعداد و شمار، سروے اور عوامی رائے میں شامل ہے۔ اس طرح کے دیگر طریقوں کے ذریعے کاروباروی کمپنیوں کو تو مفت میں ڈاٹا مل جاتا ہے۔ ہم نے خود ہی انھیں مفت میں فراہم کردیا۔ خیراس میں بری بات کیا ہے، اس سے تو کمپنیاں ہمیں اور زیادہ سہولیات والی اشیاء و خدمات فراہم کرائے گی!
ظاہری طور پر یہ بات تو درست ہے۔ لیکن یہ کمپنیاں ہمیں مخمصہ میں مبتلا کرتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ لاکھوں اشیاء و خدمات کی موجودگی میں مناسب، سستے اور بھرپور خریداری کے لیے ہمیں اور زیادہ سوچنا پڑے گا۔ اس کو خریدنے سے قبل صرف دیکھتے دیکھتے ہی اچھا خاصا وقت نکل جائے گا۔ اس طرح آنے والے ادوار میں پرائیوسی، سیکیورٹی اور ڈاٹا ٹکنالوجی کی دنیا کے موثر ترین ہتھیار ثابت ہوں گے۔

***
AbdurRahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.
mrpasha1994[@]gmail.com
موبائل : 07093067074
محمد رحمٰن پاشا

Data Privacy & its security, the most effective weapons in Technology world. Article: AbdurRahman Pasha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں