سوامی وویکانند (پ: 12/جنوری 1863 ، م: 4/جولائی 1902)
کا اصل نام نریندرناتھ دت تھا جو بعد میں سوامی وویکانند کے لقب سے معروف ہوئے۔ آزادئ ہند سے قبل ہندوستان میں سماجی بیداری کے لیے قابل قدر خدمات انجام دینے والے جو بااثر روحانی رہنما رہے، سوامی جی بھی ان میں شامل تھے۔ ہندو مذہب کے چھ مکاتب فکر میں سے ایک فلسفہ یعنی ویدانت کی تجدید، عالمی بھائی چارہ اور مذہبی ہم آہنگی کے سوامی وویکانند زبردست حامی تھے۔
ان کی 100 ویں سالگرہ (1963) کے موقع پر ان کے ادارہ رام کرشن مشن (نئی دہلی) نے ان کے لیکچر اور دیگر تحریروں کا انتخاب ہندوستان کی مختلف زبانوں میں شائع کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کیا۔ اردو زبان میں بھی سوامی ویویکانند کی تحریر و تقریر کا ایک جامع انتخاب دو جلدوں میں سنہ 1963 اور 1964 میں شائع کیا گیا۔ انہی دو جلدوں کے چند اہم منتخب مضامین کا مجموعہ پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں تعمیرنیوز کی جانب سے پیش خدمت ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 17 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
سوامی وویکانند (اصل نام: نریندرناتھ دت) کی پیدائش 12/جنوری 1863 کو کلکتہ کی ایک بستی "سملہ" میں ہوئی تھی۔ ان کے والد وشواناتھ دت ہائیکورٹ کے ایک نہایت کامیاب وکیل تھے۔ ان کی والدہ کا نام بھونیشری دیوی تھا۔ سوامی وویکانند کی تعلیم و تربیت میں والدہ کا خصوصی اثر تھا۔
اسکول اور کالج میں نریندر ناتھ کی قابلیت اور ذہانت کے سب قائل تھے۔ ان کے وسیع مطالعہ اور تیز یادداشت کی ہر طرف دھاک تھی۔ ان کے کالج کے پرنسپل نے ایک مرتبہ لکھا کہ:
"میں نے اتنی قابلیت اور ذہانت کا مالک کسی لڑکے کو نہیں پایا، یہ بڑا ہو کر نمایاں کام کرے گا۔"
کالج کی تعلیم کے بعد مذہب کی سچائی کی تلاش میں نریندر ناتھ اصلاحی تحریکوں میں حصہ لینے لگے۔ اسی تلاش میں وہ پرم ہنس شری سوامی رام کرشن جی کے پاس دکشنیشور کے مندر میں پہنچے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ شری رام کرشن کی وفات کے بعد نریندرناتھ نے ہی ان کے تمام شاگردان کو جمع کر کے رام کرشن مشن کی بنیاد رکھی اور وطن کی ترقی اور بہبودی کے لیے کام کرنے فیصلہ کیا۔
اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
"میں ہندوستان بھر گھوم آیا ہوں۔ مجھے اپنی آنکھوں سے عوام کی غریبی اور مصیبت دیکھ کر بہت ہی دکھ ہوا اور میں خوب رویا۔ میرا عقیدہ ہے کہ جب تک تنگ دستی اور دکھ کو مٹایا نہ جائے گا، مذہب اور آتم گیان کی باتیں کرنا بالکل فضول ہے۔ میں اپنے ہم وطنوں کی بھلائی اور بہبودی کے لیے امریکہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وہ مذہب ہی کیا جس کے سائے میں غریبی بستی ہو، میرا دل اب بہت وسیع ہو گیا ہے اور مجھے ملک بھر کے درد کا احساس ہے۔"
چنانچہ وطن کی عزت میں اضافہ میں دنیا کی ہمدردی حاصل کرنے کی خاطر سوامی وویکانند 1893 میں امریکہ گئے اور وہاں انہوں نے 'پارلیمنٹ آف ریلیجنز' میں شرکت کرتے ہوئے اپنی تقریر سے تہلکہ مچا دیا۔ انہوں نے دنیا کو کائناتی اخوت کا پیغام دیتے ہوئے کہا:
"خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں اور وہ سب کے سب اس تک پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی ایک عالمگیر مذہب ہونا ممکن ہے تو وہ وہی مذہب ہو سکتا ہے جس کا کسی خاص مقام یا وقت سے کوئی تعلق نہ ہو اور جو کسی بھی طرح محدود نہ ہو"
یورپ اور امریکہ میں تین سال کے قیام کے بعد سوامی وویکانند اپنے وطن واپس لوٹے۔ وطن کے دوروں میں ان کے جاں بخش پیغام سے لوگوں میں ایک نئی زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے فرمایا:
"ہمارا فلسفہ وہی ہے جو ہماری قوت میں اضافہ کرے، یہی ایک معیار ہے حقیقی روحانیت کا، یہی کسوٹی ہے سچے مذہب کی۔ جو مذہب، جو نظریہ، جو فلسفہ انسان کو جسمانی، ذہنی، اخلاقی یا روحانی کمزوری کی طرف لے جاتا ہے، وہ سراسر جھوٹ ہے، اس کے پاس نہ پھٹکو، وہ موت ہے زندگی نہیں۔
سچ وہی ہے جو تقویت دے، سچ ہی پاکیزگی ہے۔ سچ ہی علم ہے۔ جھوٹ جہل کا دوسرا نام ہے۔ سچ کے علمبردارو! اٹھو اور کمزور کر دینے والے رواجوں کو خیرباد کہہ دو۔ سچائی پیچیدہ نظریوں کا سلسلہ نہیں، حقیقت سادگی کے مترادف ہے۔"
مزید انہوں نے کہا:
"ہندوستان کا مرکزی موضوع، اس کا تاریخی راستہ، اس کے راگ کا بنیادی سُر ، روحانیت ہے۔ کوئی طاقتور ہو یا کمزور، اونچی ذات کا ہو یا نیچی ذات کا، امیر ہو یا غریب، عالم فاضل ہو یا ان پڑھ ۔۔۔ سب میں ایک ہی لازوال روح اعظم ہے جس کو جاننے سے طاقت حاصل ہوتی ہے اور نیکی اور بھلائی کے کام کرنے کی بیکراں قوت بیدار ہو جاتی ہے۔ اٹھو، جاگو اور آگے بڑھو، رکنا تمہارا کام نہیں، جب تک منزل مقصود تک نہ پہنچ جاؤ، بڑھتے چلو۔ اپنے آپ سے غافل ہونا ہی خدا سے منکر ہونا ہے، اٹھو اور یقینِ خودی کا اعلان کر دو۔"
سوامی وویکانند نے اس طرح وطن پرستی اور خدمت خلق کا پرچار کیا۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لیے کئی مٹھ قائم ہو گئے۔ کتنے ہی سیوا آشرم بن گئے جو آج بھی قائم ہیں اور عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
امریکہ کے بعد لندن، پیرس، ویانا، استنبول، ایتھنز اور قاہرہ کے دورہ کے بعد وہ دسمبر 1900ء میں اپنے وطن ہندوستان واپس پہنچ گئے اور کلکتہ میں اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہو گئے۔ مگر جلد ہی انہوں نے سب کاموں سے اپنا تعلق ختم کر لیا اور کچھ ہی عرصہ بعد انتالیس سال اور چند مہینے کی عمر میں دنیا سے وداع ہو گئے۔
آج وہ ہمارے درمیان نہیں لیکن وہ زندۂ جاوید ہیں، اپنے افکار و نظریات کے سہارے وہ اب بھی اپنا کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
***
نام کتاب: نعرۂ حق
از: سوامی وویکانند
انگریزی سے ترجمہ: دھرم پال
تعداد صفحات: 312
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 16 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Nara-e-Haq by Swami Vivekananda.pdf
نعرۂ حق - مضامین از سوامی وویکانند :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | حصہ اول | 2 |
2 | پیش لفظ | 6 |
3 | سوامی جی کی سوانح حیات | 9 |
4 | مذہب کیا ہے؟ | 14 |
5 | مذہب اور معیارِ عقل (علم اور عرفان) | 32 |
6 | مذہب کی ضرورت | 50 |
7 | ایک عالمگیر مذہب کا آدرش | 68 |
8 | پارلیمنٹ آف ریلیجنز (مجلسِ مذاہب) | 98 |
9 | دنیا کے مذہبی رہنما | 121 |
10 | حصہ دوم | 141 |
11 | دیباچہ | 144 |
12 | (الف) تعلیم | 146 |
13 | فلسفۂ تعلیم | 148 |
14 | تعلیم کا واحد طریقہ | 153 |
15 | سیرت و اخلاق کے لیے تعلیم | 157 |
16 | تعمیر شخصیت | 161 |
17 | استاد اور شاگرد | 167 |
18 | مذہبی تعلیم | 173 |
19 | مقاصد اور اسباب | 181 |
20 | تعلیمِ نسواں | 191 |
21 | عوام کی تعلیم | 195 |
22 | فرض کیا ہے؟ | 202 |
23 | مالک کی طرح کام کرو | 208 |
24 | (ب) ہندوستان اور اس کے مسائل | 215 |
25 | ہماری مادرِ وطن | 217 |
26 | موجودہ زوال | 231 |
27 | حیاتِ نو کے تقاضے | 247 |
28 | معاشرتی برائیوں کی بےخطا دوا | 256 |
29 | عوام الناس کی اصلاح و ترقی | 264 |
30 | ذات پات کا مسئلہ | 275 |
31 | عورتوں کی فلاح و بہبود | 284 |
32 | تمدنی زندگی کی نشو و نما | 291 |
33 | ہندوستان کی عورت | 301 |
34 | حضرت محمد (ﷺ) | 307 |
Nara E Haq, Articles of Swami Vivekananda, by Ramakrishna Mission, pdf download.
ابھی میں کتاب ڈاون لوڈ کررہا ہوں
جواب دیںحذف کریں