مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری - از ارشاد آفاقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-03

مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری - از ارشاد آفاقی

khaka-nigari-by-mujtaba-hussain

مجتبیٰ حسین طنزومزاح کے بے تاج جہاں پناہ، اُن کا فن جہاں تاب، ان کی فکروتخیل جہاں پیما، ان کی نگارشات جہاں آرا اور ان کی ناموری و شہرت جہاں گیرہے۔ یہ نام اور اس کا کام اب ملکوں، زبانوں اور نظریوں کی ساری حدوں کو پھلانگ کر کے ہمہ گیر مقبولیت اور ہمہ جہت حیثیت کی زندہ علامت اور نظیر بن چکا ہے۔ ان کا شمار ان دیوقامت شخصیات میں ہوتا ہے جس کے سہارے عموماً مزاحیہ ادب کو اور خصوصاً مزاحیہ خاکہ نگاری کو کیفیت و کمیت کے لحاظ سے ترقی و ترویج اور سربلندی ملی۔ یہی وہ نام ہے جو گزشہ پچاس برسوں سے بے تکان لکھ رہا ہے۔ اتنا بے تکان اور متواتر لکھنے کے باوجود ان کے قلم کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ آئی اور نہ وہ اپنے آپ کو دہراتے ہیں اور نہ ان کے یہاں موضوعات کا قحط برپا ہوتاہے۔بلکہ ان کے یہاں روز بروز موضوعات کی بو قلمونی اور اسلوب کی رنگا رنگی میں اضافہ اور تنوع ہوتا ہے ۔ حالانکہ اب تک ان کے مضامین اور خاکوں کے چودہ گلدستے منصہ شہود پر آچکے ہیں اور ان پر مستزاد ان کے تین سفرنامے "جاپاں چلو، جاپاں چلو"، "سفر لخت لخت" اور "امریکہ گھاس کاٹ رہا ہے" کے علاوہ کالموں کے تین مجموعے "میرا کالم "، "کالم برداشتہ " اور "کالم میں انتخاب"ہیں۔ ان کے علاوہ مجتبیٰ حسین کی نگار شات پر مشتمل پانچ ضخیم اور یاد گار مجموعے "قطع کلام" (مضامین ، خاکوں اور سفرناموں کا انتخاب 1989 ؁ء )، مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں (دوجلدیں) "مجتبیٰ حسین کے سفر نامے"اور "مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم" بھی منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ اول الذکر کتاب کے مرتب پاکستان کے مشہور افسانہ نگار رعنا فاروقی ؔ ہیں جبکہ موخرالذکر چار کتابوں کے مرتب حیدآبادکے ممتاز ادیب وشاعرحسن چشتی ہیں ۔ علاوہ ازیں مختلف رسائل و جرائد میں متعد د خاکے ، مضامین اور کالم بھی چھپ چکے ہیں اور چھپ رہے ہیں۔ جو ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں پھر بھی جتنا مودا کتابی صورت میں چھپ چکا ہے معیار و مقدار دونوں اعتبار سے بلند و بالا اور ارفع و وقیع ہے۔ اسطرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام مسبوق الذکر نگارشات مجتبیٰ حسین کی منفرد شناخت اور تشخص برقرار رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ اور ان ہی تحریروں کی بدولت انھیں مختلف اکادمیوں ، اداروں اور تنظیموں نے ایک درجن ایوارڈوں اور انعامات سے نوازہ ہیں۔ علاوہ بریں ان تحریروں کی بدولت انہیں ایک بلند پایہ مزاح نگار ، اعلیٰ پایہ خاکہ نگار ، ممتاز سفرنامہ نگار اور مایہ ناز کالم نویس تسلیم کرنے میں کوئی تامل ہے اور نہ کوئی حرج ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر مغنی تبسم یوں رقمطراز ہیں:۔
" مجتبیٰ حسین ہندوستان کے ان چند ایک مزاح نگاروں میں سے ہیں جن کی شہرت اور مقبولیت ارضی اور لسانی سرحدوں کو عبور کرگئی ہے۔ بر صغیر کے علاوہ دنیا کے اور ملکوں میں جہاں کہیں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے لوگ مجتبیٰ حسین کے نام ہی سے نہیں کام سے بھی واقف ہیں اور ان کی تحریروں کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ خود مجتبیٰ حسین دنیا کے کئی ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے ان کے اعزاز میں محفلیں منعقد ہوئیں ، ان کے مضامین سنے گئے ، اس کے علاوہ ان کے سفر ناموں ، انشائیوں اور خاکوں کے ترجمے کئی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔"
بحوالہ : مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری ،پروفیسر مغنی تبسم،ص:28 ماہنامہ کتاب نما دہلی ( مجتبیٰ حسین نمبر)
مجتبیٰ حسین نے اپنا ادبی سفر فکاہیہ کالم (1962ء) سے شروع کیا۔ اورسات سال بعد انھوں نے صنف خاکہ میں قدم رکھا۔ اس میدان میں ان کے اب تک چھ مجموعے "آدمی نامہ " (1981ء) ، "سو ہے وہ بھی آدمی" (1987ء) ، "چہرہ در چہرہ" (1993ء) ، "ہوئے ہم دوست جس کے" (1999ء)، "آپ کی تعریف"(2005 ء مرتب سید امتیاز الدین ) اور "ــــمہربان کیسے کیسے" (2009 ء مرتب سید امتیاز الدین ) شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے ذریعے تحریر کردہ کئی خاکے مضامین کے مجموعے "قطع کلام" (1969ء ) "قصۂ مختصر " (1972 ء) اور "بہر حال" (1976 ء) میں بلترتیب دو ، تین اور چار خاکے شامل ہیں۔ ان کے بعد رحیل صدیقی نے"اردو کے شہر اردو کے لوگ" (رپورثا اور شخصی خاکوں کا مجموعہ) 2011؁ ء میں شائع کیا ہے۔
مزاح نگاری کی طرح مجتبیٰ حسین خاکہ نگاری کی جانب کسی داخلی ترنگ کی انگلی پکڑ کر نہیں آئے۔ بلکہ منت و سماجت اور زورازوری سے اپنے بزرگ دوست حکیم یوسف حسین خان نے انہیں اس فن کی طرف مائل کیا۔ مجتبیٰ حسین اپنی خاکہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
"میں نے پہلا خاکہ 1969 ؁ء میں اپنے بزرگ دوست حکیم یوسف حسین خان کا لکھا تھا …… جب ان کی کتاب "خوابِ زلیخا" کی تقریبِ رونمائی کا مرحلہ آیا تو نہ جانے ان کی جی میں کیا آئی کہ مجھ سے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کر بیٹھے ۔ اس وقت تک میں نے مزاحیہ مضامین ہی لکھے تھے۔ کسی کا خاکہ نہیں لکھا تھا۔ بہت عذر پیش کئے۔ پہلے تو اپنی کم علمی اور کم مائیگی کا حوالہ دیا۔ یہ عذر قابلِ قبول نہ ہوا تو عمر کے اس فرق کا حوالہ دیا جو میرے اور ان کی بیچ حائل تھا۔ اس پر بھی وہ مُصر رہے کہ مجھے خاکہ لکھنا ہی ہوگا۔"
بحوالہ :آدمی نامہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 5
مجتبیٰ حسین کے اس اقتباس کے تناظر میں ، میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ہر انسان زور زبردستی ، اثر و رسوخ یا ڈرانے دھمکانے سے مزاح نگار یا خاکہ نگار بن سکتاہے؟ نہیں۔ کیونکہ جب تک نہ اس کے پیچھے کوئی درخشان ادبی روایت ہو تب تک اس کے بس کی بات نہیں کہ وہ اچانک مزاح نگار یا خاکہ نگار بن جائے۔ مجتبیٰ حسین بھی کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک تابناک ادبی روایت کا تسلسل ہے۔ بقول وجاہت علی سندیلوی:۔
"مجتبیٰ حسین کوئی حادثہ نہیں بلکہ حالات کا ایک تسلسل ہے۔ اس کے پس پشت تابندہ ادبی روایات اور نظریاتی اقداربھی ہیں۔ وہ ایک گُل سرسید ہے جس نے اپنا جدا گانہ رنگ و بو رکھتے ہوئے بھی ، اپنے چمن سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے۔ یہ ایک صحتمند علامت اور مجتبیٰ حسین کی راست بینی کی دلیل ہے۔ "
بحوالہ:ہم طرف دار ہیں غالبؔ کے سخن فہم نہیں ، وجاہت علی سندیلوی ، ص: 159، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر) جلدنمبر: 20
1969؁ء میں مجتبیٰ حسین نے حکیم یوسف حسین خان کے فرمائشی خاکہ سے اپنی خاکہ نگار ی کی ابتداکی ہے۔ فرمائشی خاکہ ہونے کے باوجود بھی اس خاکے کو دونوں فریقین یعنی صاحبِ خاکہ اور سامعین نے بے حد پسند کیا۔ بقول مجتبیٰ حسین:۔
"یہ پہلا خاکہ تھا جسے سامعین اور صاحبِ خاکہ دونوں نے پسند فرمایا تھا۔ اب بھی ایک لحاظ سے یہ پہلا خاکہ ہی ہے۔ بعد میں جتنے خاکے لکھے انہیں اگر سامعین پسند کرتے تھے تو صاحبِ خاکہ کو ناگوار گزرتا تھا اور اگر صاحبِ خاکہ خوش ہوتے تھے تو سامعین نا خوش۔" بحوالہ: آدمی نامہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 5
اس خاکہ کی توصیف میں رضا نقوی واہیؔ نے مجتبیٰ حسین کو ایک منظوم خط تحریر کیا تھا۔جس میں انہوں نے حکیم یوسف حسین خان پر لکھے گیے خاکے کی تعریف ان الفاظ میں کی۔ ؂
یوسف حسین خان کی تصویر کھینچ کر تم نے نشان بلند کیا ا پنے آرٹ کا
ہنستے ہنساتے راز سبھی فاش کر دیئے کہتے ہیں اس کو خاکہ نگاری کا معجزا
مجتبیٰ حسین نے حکیم یوسف حسین خان کی تصویر جس انداز میں کھینچی ہے ۔ اس کی روشنی میں بآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجتبیٰ حسین نے اپنے دل و دماغ سے دوستی، تعلقات اور عقیدت کے سارے جذبات اور خیالات محوکر کے یہ خاکہ نوکِ قلم کو سپرد کیا۔کیونکہ جہاں انہوں نے حکیم یوسف حسین خان کی خوبیوں کو دکھایا ہیں۔ وہی ان کی کمزوریوں کو بے نقاب بھی کیا۔ گویا مجتبیٰ حسین نے یہ مرقع صفحہ قرطاس پر تسوید کر کے یہ ثابت کردیا، کہ انسان کو انسان کی نگاہ سے دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا چاہیے۔ اور بعد میں اسے لفظوں کی مدد سے اپنے حقیقی و اصلی رنگ روپ میں زیبِ قرطاس پر پیش کیا جائے۔ تاکہ ایک زندہ و جاوید اور متحرک مرقع وجود میں آجائیں ۔ یہی مرقع نگاری کی خوبی ہے اور یہی مرقع نگار کی کامیابی۔
مجتبیٰ حسین نے حکیم یوسف حسین خان کا خاکہ ہی نہیں بلکہ کم و بیش ہرمرقع کو ایسے ہی واقعات (یعنی جن میں مثبت و منفی پہلوؤں کی خوبصورت آمیزش ہو) سے سجایا اور سنوارا ہے اور متعلقہ شخص کے کردار کو زیادہ جاندار، بھرپور ، موثر ، جاذب اور دلآویز بنا دیا ہے۔
اس کے بعد مجتبیٰ حسین نے ان گنت خاکے قلمبند کیے اور کرتے ہیں ۔ جن میں فرمائشی اور غیر فرمائشی دونوں قسم کے خاکے شامل ہیں۔ مجتبیٰ حسین کے بیشتر خاکے بزرگوں ، دوستوں اور احباب کے اصرار پر مختلف موقعوں اور تقاریب کے لیے تحریر کیے ہیں۔ بلکہ ان پر ایک دور ایسا بھی گزر چکا ہے۔ کہ جب کوئی بھی ادبی تقریب یا جشن ان کے خاکہ کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ بقول ان کے :۔
"مجھ نا چیز پر ایک دور ایسا بھی گزر چکا ہے جب حیدر آباد اور دہلی کے کسی ادیب یا شاعر کی کسی کتاب کی تقریب رونمائی اس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی جب تک میں صاحبِ کتاب کا خاکہ نہ پڑھوں ۔ کسی شاعر کا جشن منایا جاتا تو میرا خاکہ جشن کے تابوت میں آخری کیل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔"
بحوالہ :چہرہ در چہرہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 7
درج بالا اقتباس کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ خاکہ نگاری مجتبیٰ حسین کی مجبوری تھی اور کبھی کبھی انہوں نے بعض خاکے کالم نویسی (روزنامہ "سیاست"حیدر آباد )کی ضرورت کے لیے بھی لکھے ۔ لیکن چاہیے مجبوری کے سبب یا ضرورت کے پیش ِ نظر فرمائش کے طور پر یا تکمیلِ تقریب کے لیے۔ غرض جس مقصد و مدعا کے پیش نظر، انہوں نے خاکے تحریر کیے۔ اُس مطمحِ نظر کو بھی پورا کیا اور خاکہ نگاری کے فن کو کہیں بھی مجروح نہیں ہونے دیا یعنی ایک تیر سے دو شکار۔
مجتبیٰ حسین نے جن شخصیتوں کے خاکے تحریر کیے۔ ان کے پیشے، دلچسپاں، مشاغل اور معاملات اس سلسلے میں مختلف ہیں کیونکہ یہ اشخاص بھی مختلف ہیں۔ ان میں ادیب بھی ہے اور شاعر بھی، افسانہ نگاربھی ہے اور طنز و مزاح نگار بھی ، مصور بھی ہے اور خاکہ نگار بھی، عہدہ دار بھی ہے اور موسیقی کار بھی، شیخ بھی ہے اور برہمن بھی ۔ غرض ہر نوع کی شخصیات پر مجتبیٰ حسین نے خاکے ترمیم کیے۔ لیکن ان سب میں جو بات یکساں ہے وہ یہ کہ یہ تمام مجتبیٰ حسین کے یا تو دوست یا تو احباب ہیں۔اس لئے اُن تمام کے خاکے مجتبیٰ حسین کو رقم کرنے پڑے۔ لیکن مجتبیٰ حسین نے کسی بھی جگہ خالص تعریف یا خالص تنقیص سے کام نہیں لیا اور نہ تساہل ، تجاہل اور تغافل کے شکار ہوئے۔ بلکہ عظمتوں اور لغزشوں ، خوبیوں اور خامیوں میں توازن اور تناسب برقرار رکھا۔
مجتبیٰ حسین دوست و احباب کی قدر بھی کرتے ہیں اور ان کا کہنا بھی مانتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مجتبیٰ حسین نہ کالم نویس ہوتے اور نہ خاکہ نگار ۔ یہ انہیں کی رہینِ منت ہے کہ انہوں نے مجتبیٰ حسین کی مخفی صلاحیتوں اور پوشیدہ قابلیتوں کو مجتبیٰ حسین سے قبل ان میں دریافت کرلی تھیں ۔ اور انہیں زبردستی کالم نویسی اور خاکہ نگاری کی طرف مائل کیے۔ بقول مخمور سعیدی:۔
"مجتبیٰ حسین دوستوں کی فرمائشوں سے روگردانی نہیں کرسکتے اور یہ اچھا ہی ہے۔ اگر ان میں بزرگوں اور دوستوں کے سامنے سرتابی کی جسارت ہوتی تو نہ وہ
اخباری کالم لکھتے نہ خاکے، اور یہ اردو کالم نگاری اور خاکہ نگاری کا کتنا اور کیسا زیاں ہوتا۔"
بحوالہ:مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ، مخمور سعیدی ،ص: 61 ، ماہنامہ کتاب نمادہلی(مجتبیٰ حسین نمبر)
مجتبیٰ حسین کی خوش طبعی، شوخی اور ظرافت، ان کے خاکوں اور سفر ناموں میں بھی جابجا ٹپکتی ہے اور ان کی شخصیت کا یہ جوہر اُن کے مضامین اور کالموں میں نسبتاً زیادہ وضاحت ، صراحت اور بے ساختگی سے نمایاں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین اور محقیقین ان کی خاکہ نگاری کو ان کی مزاح نگاری کا حصہ سمجھتے ہیں اور بعض اس کی توسیع کہتے ہیں ۔ یہ اس لئے کیونکہ انہوں نے تقریباً اپنے تمام خاکوں میں مزاحیہ انداز ہی سے رنگ بھرا ہے۔ اس سلسلے میں مخمور سعیدی رقمطراز ہیں:۔
"مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کو ان کی مزاح نگاری کا حصّہ ہی سمجھا جاتا ہے اور ان کے خاکوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان میں صاحبِ خاکہ کے وہ خدوخال ابھر کر سامنے آئیں گے جو لوگوں کو ہنسنے ہنسانے کا موقع فراہم کر سکیں ۔ بلاشبہ مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ قاری یا سامع کو ہنسنے ہنسانے کا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن اپنے "ہدف" کے لیے ان کا رویہ غیر ہمدردانہ نہیں بلکہ ہمدردانہ اور بیشتر صورتوں میں دوستانہ رہتا ہے۔"
بحوالہ:مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ، مخمور سعیدی ،ص: 61 ، ماہنامہ کتاب نمادہلی(مجتبیٰ حسین نمبر)
مجتبیٰ حسین جدید مزاحیہ خاکہ نگاروں میں اس اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہیں کہ انہوں نے نہ صرف مزاحیہ خاکہ نگاری میں نئے البعاد جوڑ کر اسے آگے بڑھایا ہے بلکہ اُس خوبصورت روایت کی پاسداری بھی کی، جس کی بنیاد فرحت اللہ بیگ نے ڈالی اور جیسے رشید احمد صدیقی ، شوکت تھانوی اور مشتاق احمد یوسفی وغیرہ نے مزید جِلا بخشی ۔ وہ عصرِ حاضر کے سب سے بڑے مزاحیہ خاکہ نگار تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے مزاحیہ خاکہ نگاری کو جو وقاراور اعتبار بخشا ہے اسے صرفِ نظر یا انکار کرنا کفر ہوگا۔ نامی انصاری لکھتے ہیں:۔
"مزاحیہ مضامین کے ساتھ ساتھ مجتبیٰ حسین کی مزاحیہ خاکہ نگاری بھی درجہ اول کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ معاصر ادب میں ان کی
خاکہ نگاری سر فہرست ہے۔" بحوالہ:آزادی کے بعد اردو نثر میں طنز و مزاح ، نامی انصاری ، ص: 138
مجتبیٰ حسین کے مزاحیہ خاکے نہ مرزا فرحتؔ اللہ بیگ کی طرح طویل ہیں اور نہ مولوی عبدالحق یا شوکت تھانوی کی طرح مختصر ہیں۔ بلکہ ان کے یہاں میانہ روی اور اعتدال پسندی ہے۔ انہوں نے اپنے خاکوں میں نہ ضرورت سے زیادہ لچکدار رویہ اپنایا ہے اور نہ ہی غیر متوازن حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ بلکہ ان کے خاکے قصیدے اور ہجا، تعریف اور تنقیص کے درمیان کشید کیے جاتے ہیں۔ اسلئے ان کی کھینچی گئی تصویریں نہ کبھی پیروڑی یا کاٹون بن گئی اور نہ کھبی سپاٹ یا پھیکاپڑ گئی ۔ بلکہ جسطرح انہوں نے متعلقہ شخصیات کو دیکھا بھالا اور سمجھا بوجھا ہوبہو اسی طرح صفحہ قرطاس پر اتاری ہیں۔ مجتبیٰ حسین خود اپنے خاکوں کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
"میں نے یہ خاکے کسی کے حق میں یا خلاف بالکل نہیں لکھے جس طرح دِل و دماغ نے کسی شخصیت کو قبول کیا، اُسے ہو بہو کا غذ پر منتقل کر دیا ۔ یہ اور بات ہے کہ خاکے میں خاکہ نگار کا زاویۂ نگاہ بھی در آتا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ خاکہ نگار جب کسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے تو وہ انجانے طور پر خود اپنا خاکہ بھی لکھ ڈالتا ہے۔"
بحوالہ :آدمی نامہ ، مجتبیٰ حسین ، ص:6
جدید اردو مزاحیہ نگاروں کے علمبرداروں میں مجتبیٰ حسین کا نام سرِ فہرست ہیں۔ وہ بلا شبہ ظریف ہیں۔ اسلئے ان کے تحریر کردہ خاکوں میں ظریفانہ منظر آفرینی ہے جو قاری کو کبھی خندہ زیرِ لبی سے ہمکنار کرتی ہے اور کبھی خندہ دنداں نما پر مجبور کرتی ہے۔ ان کے خاکو ں کا اندازِ بیان بے حد لطیف ، شگفتہ اور بے ساختہ ہیں۔ ان کے خاکوں میں ہجو ، تنقیص ، لعن طعن ، مسخرگی ، پھکڑپن اور ٹھٹھول جیسے الفاظ کے معنیٰ ڈھونڈنا لا حاصل ہوگا۔ ان کے خاکوں کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کا ہر خاکے کا ہر صفحہ قہقہے بکھیرتا ہے اور قاری کو محظوظ ، مسرور اور مسحور کرتا ہے ۔بقولِ شکیل الرحمٰن :۔
"ان کا کوئی مضمون یا خاکہ اٹھا لیجئے ۔ اسے پڑھنا شروع کیجئے آپ "ہنسنے" اور "پڑھنے" کو علٰحیدہ نہیں کر سکیں گے اور جب تک مضمون ختم نہ ہو جائے گا سکون بھی نہیں ملے گا اور جب سکون ملے گا تو یہ فنکار آپ کو جمالیاتی آسودگی بھی بخش دے گا۔ــــ" بحوالہ : مجتبیٰ حسین کا فن ، شکیل الرحمٰن ، ص: 13
مجتبیٰ حسین کے اولین دو خاکے ان کے مزاحیہ مضامین کے دوسرے مجموعے "قطع کلام " میں شامل ہے۔ دونوں خاکے زبان و بیان ، اسلوب اور دوسری خصوصیت کی بدولت لائق صد تحسین ہے۔ یہ دونوں خاکے اس انداز میں قلمبند کیے گئے ہیں کہ سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں اور خوشبوبن کر ساری ذات میں مہکنے لگتے ہیں۔ ان میں جو معنی خیز اور لطیف ظرافت ہے وہ قاری کے وجود کو دلگیر کرنے کے بجائے دلگداز کرتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اقتباسات ملاحظہ کیجئے:۔
٭"حکیم صاحب کو پہلی بار دیکھنے والا انہیں ضرور ایک پُر اسرارشخصیت سمجھ لیتا ہے ۔ وہ بادی النظر میں ایک شاعر یا حکیم سے کہیں زیادہ ایک جاسوس نظر آتے ہیں جو کسی قتل کی سراغ رسانی کے سلسلہ میں مصروف ہے۔ " ( اردو شاعری کا ٹیڈی بوائے۔ حکیم یوسف حسین خان)0(بحوالہ :قطع کلام ، مجتبیٰ حسین ، ص: 133)
٭"حکیم صاحب نے اپنے سارے ہی بچوں کو نام ہم قافیہ رکھے ہیں جیسے زمزم ، افہم، چشمم اور ارحم۔ اور ان بچوں کے بعد انہوں نے بچوں کی تعداد شاید محض اس ڈر سے آگے نہیں بڑھائی کہ حشمم اور ارحم کے بعد مرہم اور درہم برہم کے قافیے آتے ہیں۔ سو حکیم صاحب نے نہایت ہو شیاری سے بچوں کی تعداد کو آگے بڑھنے سے اسی طرح روک دیا جس طرح کوئی ہوشیار شاعر اپنی غزل کو بھرتی کے اشعار سے محفوظ رکھتا ہے۔’ ‘
(اردو شاعر ی کے ٹیڈی بوائے۔ حکیم یوسف حسین خان)0(ایضاً ، ص: 134)
٭ "میں نے اسے رکشا والوں سے تک بحث کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ بحث رکشا کے کرایہ کے مسئلہ پر ہوتی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ایک دن رکشا والوں سے غالبؔ کی شاعری پر بھی بحث نہ کرنے لگ جائے۔" (ط۔انصاری سے ظ۔ انصاری تک) (ایضاً ، ص: 146)
طبیب انصاری کی تنقید نگاری کے بارے میں مجتبیٰ حسین کی درج ذیل سطور دیکھ لیجئے۔ ان سے نہ صرف طبیب انصاری کی تنقید نگاری پر بلکہ ان کے عادات و اطور اور مزاج پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں:۔
٭"وہ جب کسی ادیب یا شاعر پر تنقید کرتا ہے تو اس قدر جوش میں آجاتا ہے جیسے وہ ابھی قلم رکھ کر اُٹھ جائے گااور اس ادیب کے گھر پر پہنچ کر اس کا گلا پکڑ لے گا اور بقیہ تنقید کو ہاتھا پائی کے ذریعہ مکمل کر دے گا۔" (ط۔ انصاری سے ظ۔ انصاری تک) (ایضاً ، ص: 147)
در اصل زبان و بیان پر مہارت اور دسترس رکھنے والا لفظوں کے ساتھ کھیلتا ہے اور جس طرح وہ لفظوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے اسطرح کر سکتا ہے جس سے ایک طرف مزاح پیدا ہوتا ہے اور دوسری جانب نوکِ قلم سے ایسے جملے اورفقرے معرضِ وجود میں آتے ہیں جو اپنی نظیر آپ ہوتے ہیں۔
مضامین کے تیسرے مجموعہ "قصۂ مختصر "میں تین خاکے شامل ہیں۔ جن میں ایم ایف حسین کا خاکہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ اسے خاکہ نما انٹرویو کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ کیونکہ ا س میں مجتبیٰ حسین نے ایم ایف حسین کی شخصیت کے بعض انفرادی مگر منفی پہلو کی جانب اشارہ نہیں کیا۔ ان پہلوؤں کی جانب مخمور سعیدی ان الفاظ میں لب کشائی کرتے ہیں:۔
"بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک مطلبی اور چالاک انسان ہیں جو اپنی مطلب برآری کے لیے نت نئے بہروپ بھرتے رہتے ہیں۔ یہ تذکرے مجتبیٰ حسین نے بھی سنے ہوں گے لیکن اس خاکہ نما انٹرویو یا انٹرویو نما خاکے میں وہ ایم ایف حسین کے کردار کے اس پہلو کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے اور انکے سوالوں کے
جواب میں ایم ایف حسین جو کچھ کہتے ہیں اسے بلاچوں وچرا قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔"
بحوالہ:مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ، مخمور سعیدی ، ص: 63 ، ماہنامہ کتاب نما دہلی (مجتبیٰ حسین نمبر)
لیکن سلیمان اریبؔ اور سعید بن محمد کے خاکے عمدہ اور بہترین ہیں ان خاکوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس نے کس خوبی کے ساتھ اپنے ملنے جلنے والوں کے خاکے کھینچے ہیں۔ اور ان کے متعلق جو رائے ظاہر کی ہے وہ مزاحیہ ہوتے ہوئے بھی کتنی پختہ اور صحیح ہوتی ہے۔ مثلاً :۔
٭ "حیدر آباد کا کوئی بھی مشاعرہ اریبؔ کے بغیر نہ تو کامیاب ہو سکتا تھا اور نہ ہی فیل ہو سکتا تھا۔ بہت کم شعراء ایسے ہوں گے جن میں بیک وقت مشاعرہ کو کامیاب بنانے اور اسے فیل کرنے کی اتنی بڑی صلاحیت موجود ہو۔ اریبؔ چاہتے تو مشاعرے کو بڑی بلندی تک لے جاتے ۔ اور کبھی بگڑ جاتے تو مشاعرہ کو بچہ کے کھلونے کی طرح توڑ تا ڑ کر پھینک دیتے اور بڑی معصومیت کے ساتھ ٹوٹے ہوئے مشاعرے کی طرف دیکھتیـــ،،۔ (سلیماں اریبؔ) بحوالہ:قصہ مختصر ، مجتبیٰ حسین ، ص: 103
اریبؔ ایک دن اچانک بیمار ہوگئے۔ کسی نے بتایا کہ ان کی آواز بیٹھ گئی ہے ان دنوں ادب میں ترسیل کے مسئلہ پر رسالوں میں بڑی بحث چل رہی تھی ۔ ایک دن اریبؔ سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا " اریبؔ صاحب! آپ تو سچ مچ ترسیل کا مسئلہ بن کر رہ گئے ہیں۔" قصۂ مختصر ،مجتبیٰ حسین، ص : 107
مجتبیٰ حسین صداقت کے علمبردار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر لفظ اور ہر فقرہ سے خلوص ، سچائی، ظرافت اور شوخی ٹپکتی ہے۔ ذیل کا اقتباس ہمارے دعویٰ کی دلیل ہے:۔
٭"وہ آرٹ کے معاملہ میں بڑے دیانت دار واقع ہوئے ہیں۔ اتنے دیانتدار کہ سیلف پورٹریٹ کو بھی سلیف پورٹریٹ ہی رہنے دیتے ہیں۔ وہ چاہیں تو کینوس پر قدرت سے اپنے چہرے کا انتقام لے سکتے ہیں۔ کچھ نہیں تو کم از کم اپنے بالوں سے محروم سر پر چند بال ہی اُگا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے انہیں کون روک سکتا ہے۔ اپنا پورٹریٹ ، اپنا برش ، اپنا کینوس، اپنا رنگ اور پھر خود ہی آرٹسٹ ، اتنی سہولیتیں کسے ملتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے سلیف پورٹریٹ میں وہی رنگ استعمال کرتے ہیں جو ان کا اصل رنگ ہے یعنی رات کی طرح سیاہ ۔" (سعید بن محمد) قصۂ مختصر ،مجتبیٰ حسین، ص : 132
مجتبیٰ حسین بلاشبہ ظریف ہیں ۔ ان کا موضوع ، ان کا اندازِ بیان اور ان کی تحریر سب کچھ ظرافت اور اعلیٰ مزاح کی حامل ہے۔ وہ معمولی سے معمولی ترواقعات سے ایک ایسا بے ضرر اور معصوم مزاح تخلیق کرتا ہے جو کینہ ، بغض، عناد، بدنیتی اور دل آزاری جیسے رکیک جذبوں سے پاک ہوتا ہے اور یہی خصوصیت مجتبیٰ حسین کے مزاج کی شائستگی اور اعلیٰ و ارفع ہونے کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر خاکہ پڑھنے میں بڑی فرحت اور مسرت ہوتی ہے۔ بقول احمد سلطان:۔
"مجتبیٰ کی ہر تحریر شگفتہ ہوتی ہے اور ہر مضمون انفرادیت کا حاصل ہوتا ہے۔ مجتبیٰ حسین ہر فن مولا ہیں۔ لیکن میری نظر میں ان کے خاکے اور سفر نامے اردو ادب میں ایک نئے باب بلکہ دو نئے بابوں کا اضافہ ہیں۔ خاکے اور سفرنامے اوروں نے بھی لکھے ہیں لیکن مجتبیٰ کے خاکے اور سفرنامے طنز ومزاح کے کلاسیکس کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ مجتبیٰ نے انہیں اس قدر دل چسپ بنا دیا ہے کہ اگر کسی محفل میں وہ سناتے ہیں تو محفل زعفران زار بن جاتی ہے اور اگر کوئی انہیں تنہائی میں پڑھتا ہے تو ہنسی کے اس قدر شدید دورے پڑتے ہیں کہ آس پاس کوئی ہوں تو ان کی صحیح الدماغی پر شک کرنے لگتے ہیں یا تجسس سے کتاب کے بارے میں استفسار کر ڈالتے ہیں۔"
بحوالہ: ہمہ خاندان آفتاب است ، احمد سلطان ، ص: 238 ، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر ) جلد نمبر 20
مضامین کے چوتھے مجموعے "بہرحال " میں چار خاکے شامل ہیں۔ چاروں شخصیت مجتبیٰ حسین کے ہمدمِ دیرینہ بھی ہیں اور ان کے ساتھ مجتبیٰ حسین خلوت و جلوت میں بھی رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خاکے پُر کشش بھی ہیں اور بلیغ بھی ۔ یہاں انہوں نے دوستوں کا لحاظ کیے بغیر ان کی سچی تصویر کشی کی ہے۔ جہاں ان کی خوبیوں کو اُبھارا ہیں وہاں ان کی خامیوں کو نظرانداز نہیں کیا ہیں۔ خامیوں اور کمزوریوں کا ذکر وہ کس انداز میں کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر مظفر حنفیؔ رقمطراز ہیں:۔
"مجتبیٰ حسین عام زندگی میں جتنے سادہ لوح ہیں خاکہ نگاری میں اتنے ہی چالاک ۔ مدح بالذم اور تنقیص نما توصیف کے ایسے ایسے گُر انہیں یاد ہیں کہ وہ آپ کے منہ پر بات کہہ جائے اور کئی دن بعد آپ پر یہ عقدہ کُھلے کہ حضرت نے آپ کی کسی خوبی نہیں خامی کو اُجاگر کیا تھا۔"
بحوالہ:مجتبیٰ حسین بحیثیت خاکہ نگار ، ڈاکٹر مظفر حنفی ، ص: 91، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر ) جلد نمبر 20
دراصل مجتبیٰ حسین مزاحیوں کے ایسے حربوں سے کام لیتے ہیں کہ طنز یا خامی کے باوجود بھی خوش طبعی اور شگفتگی کی ایک ہموار کیفیت ابتداء سے آخر تک قائم رہتی ہے۔ مجتبیٰ حسین بنیادی طور پر ایک باشعور ، حساس اور معزز فنکار ہیں۔ وہ دوستوں اور احباب کی خامیوں کو اسلئے ہمدردانہ انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہاں ایک طرف آبگینوں کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے اور دوسری جانب اپنی تحریر کو پھکڑ پن جیسے رکیک جذبہ سے بچانا ہوتا ہے۔ انہی باتوں کو مدِ نظر رکھ کر انہوں نے اب تک جو کچھ لکھا اس میں کہیں بھی ادب عالیہ کے معیار کو گرنے نہ دیا۔ بلکہ اس کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وہ اپنے خاکو ں میں عظمتوں اور لغزشوں کی ذکر بڑے احتیاط اور اعتدال سے کرتے ہیں۔ وہ نہ کسی کو خیر کا پتلا بنا کر فرشتہ کا درجہ دیتا ہے اور نہ شر کا مجمسہ بنا کر اسے شیطان کا منصب عطا کرتا ہے۔ بلکہ وہ انسان کو انسان کی نظروں سے دیکھنے اور پرکھنے کے بعد اسے اسی روپ میں ہو بہو صفحۂ قرطاس پر اتار دیتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر اشرف رفیع :۔
"مجتبیٰ حسین نے اپنے خاکوں میں ان اشخاص کی ہر خوبی و خامی کا احاطہ کرنے کی کو شش کی ہے۔ خوبیوں کا معاملہ آتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان خوبیوں نے مجتبیٰ کو پسپا ہی کر دیا ہے اور کمزوریوں اور خامیوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو اپنی محبت سے کہ یہ کمزوریاں ، کمزوریاں نہیں معلوم ہوتیں بلکہ اس شخصیت کی شناخت کا ایک لازمی عنصر بن جاتی ہے۔ خاکوں میں اگر یہ خوبی نہ ہو تو خاکے ادھورے اور پھیکے معلوم ہوتے ہیں۔"
بحوالہ: مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ، ڈاکٹر اشرف رفیع ، ص: 102 ، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر ) جلد نمبر: 20
خاکوں میں مزاح کے جن بنیادی اور امتیازی خصوصیتوں کا اب تک میں نے ذکر کیا ہے ان کی روشنی میں ان جملوں کا مطالعہ کیجئے تو ان کے فن کی تازگی اور انوکھے پن کے ساتھ ان کے تبسم آفرین اسلوب اور شگفتہ بیانی کا بھرپور اندازہ ہو جائے گا۔
٭"پدم شری ، کیا ہوتا ہے …… سلام صاحب اپنی ماں کو سمجھاتے ہیں کہ "ماں یہ تو صرف ایک اعزاز ہے، اس سے صرف میری عزت میں اضافہ ہوگا"اور ماں کہتی ہیں "بیٹا اب تجھے عزت کی کیا ضرورت ہے وہ تو تجھے مل گئی ۔ اتنی ساری عزت لے کر تو کیا کرے گا ۔ اب ذرا دولت کی فکر کر، تا کہ اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کر سکے۔"
(سلامؔ مچھلی شہری ۔ کھویا ہو ا آدمی) بحوالہ :بہر حال ،مجتبیٰ حسین ، ص: 104۔105
مجتبیٰ حسین نے بھارت چند کھنہ کا خاکہ "آخری شریف آدمی" کے عنوان سے تسوید کیا۔ اور اس خاکے میں مجتبیٰ حسین نے ان کے عہدے ، ان کی فطری شرافت، ان کی سادگی، ان کی طبعی نرمی ، ان کی شائستگی، ان کے آداب اور ان کی محبت وغیرہ کی ذکر مزے لے لے کر بیان کیا ہے اور لکھتے ہیں:۔
٭"ان کی فطری شرافت اور طبعی سادگی اُن کی عہدہ داری کے لیے ایک Disqualification کا درجہ رکھتی ہے۔"(بھارت چند کھنہ ۔ آخری شریف آدمی)
بحوالہ : بہرحال ،مجتبیٰ حسین ، ص: 125
آگے لکھتے ہیں:۔
٭"قدرت نے ان کا چہرہ ہی کچھ ایسا مسکین بنایا ہے جو تعزیتی جلسوں کی صدارت کرنے والے کے جسم پر بہت مناسب معلوم ہوتا ہے۔" (بھارت چند کھنہ ۔ آخری شریف آدمی)بہر حال ، ص: 138
فکر ؔ تونسوی کا خاکہ مجتبیٰ حسین نے جس انداز میں لکھا ہے وہ واقعی مجتبیٰ حسین کے فن کا کمال بھی اور ایک کارنامہ بھی ہے۔ اس میں فکرؔتونسوی کی شخصیت جگمگاتی ہے۔ اور اپنی پوری آب تاب کے ساتھ قاری کے نظروں کے سامنے جلوہ گر اور جلوہ افروز ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں:۔
٭"فکرؔ تونسوی کے حلیہ کی بابت یہ عرض کردوں کہ اگر کوئی شخص اُن کا حلیہ بیان کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کرے تو خود اس کا بھی حلیہ بگڑ جائے گا۔" (فکرؔ تونسوی ۔ بھیڑ کا آدمی)بہر حال ، ص: 138
"بہر حال " کے بعد مجتبیٰ حسین کا جو گلدستہ منصہ شہود پر آیا تھا وہ پندرہ شخصی خاکو ں پر مشتمل ایک ایسا حسین و جمیل گلدستہ ہے۔ جو واقعی مجتبیٰ حسین کے فن و فکر ، جذبہ وخیا ل اور مشاہدہ و مطالعہ کا نچوڑ اور ماحصل ہے۔ اس میں جتنی بھی شخصیات پر خامہ فرسائی کی ہے اور ان شخصیات کی تصویر جن الفاظ میں کھینچی ہے۔ اس کا صحیح اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں۔ جنہوں نے ان اشخاص کو دیکھا ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ کچھ لمحے یادن گذارے ہیں۔ بقول شکیل الرحمٰن :۔
"آدمی نامہ میں پندرہ شخصی خاکے ہیں جن میں چند ایسے محترم اور بزرگ شامل ہیں جو اپنی اپنی جگہ مستقل عنوان کی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں اکثر حضرات کو میں نے بھی بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ جب ان کے خاکے پڑھے تو وہ اور بھی اپنے لگے اور زیادہ شدّت سے محسوس ہوئے۔"
بحوالہ :مجتبیٰ حسین کا فن، شکیل الرحمٰن ، ص: 70۔71
اس کتاب کا نام برصغیر کے مشہور و معروف شاعر نظیر ؔ اکبر آبادی کی شہکار نظم "آدمی نامہ" سے لیا ہے ۔ اسلئے اس کتاب کا عنوان "آدمی نامہ " رکھا۔ اور اس میں جو پندرہ خاکے ہیں۔ ان کا عنوان بھی کتاب کے نام کی رعایت سے منتخب کیے گئے ہیں۔ کتاب کا نام"آدمی نامہ " ہے تو اس کی رعایت سے کنہیا لال کپور ۔ لمبا آدمی ‘ راجندر سنگھ بیدیؔ ۔ سو ہے وہ بھی آدمی ‘ کرشن چندر ۔ آدمی ہی آدمی ‘سجاد ظہیر۔ مسکراہٹوں کا آدمی ‘ ابراہیم جلیس ۔ اپنا آدمی ‘ فکر تونسوی۔ بھیڑ کا آدمی’ عمیق حنفی ۔ آدمی در آدمی ‘ رضا نقوی واہی۔ منظوم آدمی ‘ خواجہ عبدالغفور ۔ لطیفوں کا آدمی ‘ حسن الدین احمد ۔ لفظوں کا آدمی ‘ نریندر لوتھر۔ شیشے کا آدمی ‘ بانیؔ ۔ نو آدمیوں کا آدمی اور مخمور سعیدی۔ بحیثیت مجموعی آدمی جیسے نام رکھے ہیں۔
"آدمی نامہ" میں مزاحیہ خاکہ نگاری کے اعلیٰ و ارفع نمونے نظر آتے ہیں۔ اردو ادب میں اس طرز کی دوسری کتاب شوکت تھانوی کی "شش محل " ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں صداقت اور سچائی ہے۔ انہوں نے کسی تصنع اور بناوٹ کے بغیر اپنی بات پیش کردی ہے۔ یعنی ان کے یہاں آمد ہی آمد ہے آورد کا دخل بھی نہیں ہے۔ مگر ایک دور ایسا بھی گذر چکا ہے۔جب مجتبیٰ حسین نے شعوری طور پر خاکے لکھے میرا مطلب ہے فرمائشی خاکے لیکن ان میں بھی کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ بلکہ ابتداء سے اختتام تک ان میں روانی، سلاست اور شگفتگی کے علاوہ مزاح اور ظرافت کے زعفران زار کھیلتے ہیں۔ یونس فہمی لکھتے ہیں:۔
"ان کی کتاب ‘آدمی نامہ ‘ پڑھئے اور تلاش کیجئے کہ کہیں ‘ تنقید و تنقیص ‘ پھکڑ اور ہجو جیسے شجر ہائے ممنوعہ کے سائے کہیں نظر آتے ہیں کیا۔ بر خلاف اس کے ان خاکوں نے شخصیتوں کی پہچان کو آسان بنا دیا اور لطف یہ کہ فنکارانہ دیا نتداری، قہقہوں کی مسلسل بارش ماحول کو زعفران زار بنا دیتی ہے"
بحوالہ:مجتبیٰ حسین آئینہ فن میں ، یونس فہمی ،ص: 119، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر)جلدنمبر: 20
اس کتاب میں مجتبیٰ حسین نے جن شخصیات کو اپنے خاکو ں کا موضوع بنا یا ہے ان میں شاعر اور ادیب دونوں شامل ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے ان کی شخصیت ، ان کے گھر آنگن ، ان کی تہذیب ، ان کے رکھ رکھاؤ اور ان کی دوسری خوبیوں اور خاموں کا ایسا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے جیسے تصویریں پردے پر چلتے چلتے ٹھہر گئیں۔
مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں خود ان کی زندگی اور شخصیت کے بہت سے پہلو عیاں ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجتبیٰ حسین نے اپنے خاکوں میں جہاں دوسروں کی زندگی کے خاکے کھینچے ہیں وہیں ان کی شخصیت کے کئی پہلو کھل کر ہمارے سامنے آگئے ہیں۔ خود اُن کا بیان ہیں:۔
"خاکہ نگار جب کسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے تو وہ انجانے طور پر خود اپنا خاکہ بھی لکھ ڈالتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ میں نے یہ سارے خاکے خود اپنا خاکہ لکھنے کی چاٹ میں لکھے ہیں۔" آدمی نامہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 6۔7
اس روشنی میں دیکھیں تو یہ کہنا آسان ہے کہ مجتبیٰ حسین نے یہ خاکے کسی کے حق یا خلاف با لکل نہیں لکھے اور نہ کسی کا دل رکھنے یا دُکھانے کے لیے تحریر کیے۔ بلکہ جس طرح ان کے دل و دماغ پر شخصیت کا نقشہ ثبت ہوا، اسے من و عن اسی طرح زیبِ قرطاس پر منتقل کردیا۔ مجتبیٰ حسین نے اور ایک بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ دوسروں کا خاکہ لکھتے لکھتے خود خاکہ نگار اپنا خاکہ بھی لکھ دیتا ہے۔ ان کے خاکوں میں واقعی یہ پہلو ہے۔ کیونکہ اختر حسن (چہرہ در چہرہ)کے خاکہ میں انہوں نے ان کی عمر کے سن و سال کا شمار کرتے کرتے اپنی عمر کا بھی حساب کر دیا ہے۔ اور اِسی خاکہ میں ان امور کا بھی پتہ چلتا ہے کہ مجتبیٰ حسین آرٹس کالج کی بزمِ اردو کے جنرل سکریٹری کب تھے، محبوب حسین جگرؔ اور ابراہیم جلیس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ مزاح نگاری کب شروع کی اور اختر حسن سے ان کی باقاعدہ ملاقاتیں کب سے ہونے لگیں، وغیرہ وغیرہ جیسے معلومات بھی اسی ایک خاکہ میں مل جاتے ہیں۔ دیگر خاکے بھی مجتبیٰ حسین کی شخصیت ، تعلیم ، مشاغل اور پیشہ وغیرہ کے معلومات سے خالی نہیں۔ پروفیسر شمیم حنفی اس سلسلے میں یوں رقمطراز ہیں:۔
"مجتبیٰ حسین کے خاکو ں کی یہ خوبی بھی بہت اہم کہ ان میں ہر چند کہ "دوسرے کے بیان سے ان کے اپنے بیان " کا پہلو بھی نکلتا رہتا ہے ۔ لیکن دوسروں کی ذات کو سمجھنے کے لیے وہ نہ تو اپنی ذات کو پیمانہ بناتے ہیں، نہ ہی اپنے کارِ منصبی (مزاح نگاری )سے اس درجے مغلوب ہوتے ہیں کہ اُن کی بنائی ہوئی قلمی تصویر ، تصویر کی پیروڈی بن جائے۔ " بحوالہ:آدمی نامہ ۔ ایک جائزہ ، پروفیسر شمیم حنفی ، ص:85، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر)جلد نمبر:20
مجتبیٰ حسین کے اندازِ بیان میں سادگی ، شگفتگی، تازگی اور شوخی ہے یعنی وہ صاحبِ طرز خاکہ نگار ہیں۔ ان کا اپنا ایک علٰحیدہ اور منفرد اسلوبِ نگارش ہے ۔وہ اپنی بیان کردہ شخصیات کو مثالی شخصیات بنا کر پیش نہیں کرتے ہیں نہ اُن کے پہلے سے قا یئم امیج سے متاثر ہوتا ہے۔اس کی نظر ان پہلوؤں پر پڑتی ہے جو بہت معمولی ہیں۔جن میں بظاہر کوئی حسن نہیں۔مگر وہی پہلو شخصیت کی شناخت بن جاتی ہے۔وہ جس کا خاکہ لکھتے ہیں تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے حیلیـ’ اس کے عادات و اطوار ‘ طور وطریقہ’ اور دوسری انسانی خامیاں اور خوبیاں سب اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری اس کی شخصیت کو بہ آسانی سمجھ کے اور وہ نظرون کے سامنے آکر کٹھری بھی ہو جائے۔
" ا ٓدمی نامہ" میں شامل تمام خاکے مجتبیٰ حسین کی تخلیقانہ ندرت ، ماہرانہ صلاحیت ، قوتِ مشاہدہ ، احساس تناسب ، مصورانہ مہارت ، زبان و بیان پر قدرت اور فنکارانہ بصیرت کی غمازی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان خاکوں میں شوخی و ظرافت کی ایسی چاشنی ملتی ہے جن سے قاری کی نہ صرف طبیعت مسرور ہوتی ہے بلکہ اس کا وجود بھی معطر رہتا ہے ۔ اور ایسے خاکوں کا مطالعہ کرنے سے واقعی قاری کوفرحت اور انبساط محسوس ہوتی ہے۔
جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے تو ذیل میں جستہ جستہ کچھ اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں تا کہ صاحبِ خاکہ کی شخصیت و مزاج ،عادت و اطوار ، خدو خال اور صورت وسیرت کے ساتھ ساتھ مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کے اوصاف کا ایک عمدہ خاکہ مرتب ہو سکے:۔
٭"کنہیا لال کپور کو جب بھی دیکھتا ہوں قطب مینار کی یاد آتی ہے اور جب قطب مینار کو دیکھتا ہوں تو آپ جان گئے ہوں گے کہ کس کی یاد آتی ہو گی…… کپور صاحب اور قطب مینار میں مجھے فرق یہ نظر آیا کہ قطب مینار پر رات کے وقت ایک لال بتی جلتی رہتی ہے تا کہ ہوائی جہاز وغیرہ ادھر کا رُخ نہ کریں ۔ کپور صاحب پر رات کے وقت یہ حفاظتی انتظام نہیں ہوتا ۔ جو خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کیا پتہ کسی دن کوئی ہوائی جہاز اندھیرے میں کپور صاحب سے نبرد آزما ہو جائے اور ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔" (کنہیا لال کپور ۔ لمبا آدمی)بحوالہ:آدمی نامہ ،مجتبیٰ حسین ، ص:9
٭"بیدی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا حافظہ خاصا کمزور ہے …… …… جب ہم نے پچھلی بار دہلی میں بیدیؔ صاحب سے ملنے کے بعد اپنا نام بھی بتا دیا تو بولے "میں جانتا ہوں آپ مجھ پر لکھے گئے ایک مزاحیہ خاکے کی بنا پر یہ حرکت کر رہے ہیں جب کہ بات ایسی نہیں ہے ۔ میرا حافظہ اتنا خراب نہیں ہے۔"
ہم نے پوچھا" بیدی صاحب یہ خاکہ کس نے لکھا تھا؟"
بولے " اس وقت لکھنے والے کا نام یاد نہیں آرہا ہے" (راجندر سنگھ بیدی۔ سو ہے وہ بھی آدمی) ایضاً، ص: 25۔ 26
آگے لکھتے ہیں:۔
٭"ایک بار دہلی کی ایک محفل میں بشر بدر کو کلام سنانے کے لیے بلایا گیا تو بیدیؔ صاحب نے جو میرے برابر بیٹھے تھے، اچانک میرے کان میں کہا ‘یار ہم نے در بدر ‘ ملک بدر اور شہر بدر تو سنا تھا یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے۔" (راجندر سنگھ بیدی ۔ سو ہے وہ بھی آدمی) ایضاً، ص: 27
اعجاز صدیقی کے بارے میں مشہور ہیں کہ وہ ہر خط اور ہر گفتگو میں اپنی خرابی صحت اور نئی نئی بیماروں کی ذکر کرتے ہیں۔ اس نقطہ کو مجتبیٰ حسین نے اسطرح پیش کیا ہیں۔
٭"کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی خط میں اپنی بیماری کا"دوسرا ایڈیشن " نکالا ہو۔ یوں کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی ہر بیماری نہ صرف یہ کہ "غیر مطبوعہ "ہوا کرتی تھی بلکہ "قابلِ اشاعت "بھی ہوا کرتی تھی۔ ان کی بیماریوں میں بھی ایک قسم کاتنوع تھا ع"
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلّی " (اعجازؔ صدیقی ۔ اردو کا آدمی) ایضاً، ص: 30
مجتبیٰ حسین نے چند واقعات اور تاثرات سے مخدوم ؔ محی الدین کی شخصیت کو محسوس بنایا ہے۔ یہ خاکہ ادائیگی فن کے اعتبار سے دوسرے خاکوں سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس میں حسِ قوت اتنی متحرک نہیں ہے جتنا کہ معروضیت کے تئیں ذہن کا تحرک ملتا ہے۔ اس خاکے میں جہاں مخدوم محی الدین کی شخصیت کے کئی واقعات بیان کیے ہیں وہی یہ واقعہ بھی مخدوم محی الدین کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کا آئینہ دار ہے۔
٭"ایک بار علی الصبح اور نیٹ ہوٹل میں پہنچ کر بیرے سے پوچھا "نہاری ہے؟"
بہر ا بولا "نہیں ہے"
مخدوم ؔ نے پو چھا "آملیٹ ہے؟"
بیرا بولا "نہیں ہے"
مخدومؔ نے پوچھا "کھانے کے لئے کچھ ہے؟"
بیرا بولا "اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہے۔"
اس پر مخدوم بولے "یہ ہوٹل ہے یا ہمارا گھر کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے" ۔ (مخدومؔ محی الدین ۔ یادوں میں بسا آدمی) ایضاً، ص: 43
مجتبیٰ حسین کی شوخی اور ظرافت اچھی خاصی اور سنجیدہ شخصیتوں میں بھی کچھ مزاحیہ گوشے تلاش کر لیتی ہے۔ سجاد ظہیر کا خاکہ ایسی مثالوں سے پُر ہیں۔ جنہیں پڑھتے ہوئے قاری کبھی خندہ دنداں نما اور کبھی خندہ زیر لبی لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ ان کا مخصوص انداز بیان قاری کو باندھے رکھتا ہے۔مثال کے طور پر:۔
٭"جب جب بنے بھائی مسکرا دیتے تھے تو ان کی تقریر میں بڑی جان پیدا ہو جاتی تھی۔ اس دن پہلی بار احساس ہوا کہ بعض مسکراہٹیں اپنے اندر تحریر و تقریر سے کہیں زیادہ اظہار کی صلاحیتیں رکھتی ہیں۔" (سجاد ظہیر ۔ مسکراہٹوں کا آدمی) یضاً، ص:58۔59
٭"اگر ان کے پاس دلوں میں اُتر جانے والی مسکراہٹ نہ ہوتی تو شاید بنے بھائی اتنی بڑی تحریک نہ چلاتے ۔" (سجاد ظہیر ۔ مسکراہٹوں کا آدمی)ایضاً، ص: 59
٭"بنے بھائی کی مسکراہٹ کی خوبی یہ تھی کہ اس کے بے شمار پہلو اور بے شمار رنگ تھے۔ ایسا تنوع تھا کہ ہر بار ان کی مسکراہٹ، پچھلی مسکراہٹوں سے الگ معلوم ہوتی تھی، کبھی یہ مسکراہٹ معصومیت کا لباس پہن لیتی ، کبھی یہ سراسر شفقت بن جاتی ، کبھی محبت ، کبھی عزم ، کبھی حوصلہ ، کبھی نرمی، کبھی شائستگی ، کبھی عقیدہ ، کبھی کبھی طنز اور کبھی کبھی تو یہ مسکراہٹ سراسر دردو کرب تک کا روپ دھارن کرلیتی تھی۔" (سجاد ظہیر۔ مسکراہٹوں کا آدمی) ایضاً ، ص: 59۔60
عمیق ؔحنفی کے بارے میں مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں:۔
٭"اب بھی عمیق حنفی کے چہرے کے اس صحرا میں نخلستان کے اُگ آنے کے باوجود آپ ان کے چہرے کو دیکھیں تو نہ جانے کیوں جزیرہ عرب کا خیال آجاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داڑھی کے بغیر ان کا چہرہ عرب کے جغرافیہ سے قریب تھا۔ اور اب داڑھی کے بعد یہ عرب کی تاریخ اور تمد ن سے قریب ہوگیا ہے۔" (عمیقؔ حنفی۔ آدمی در آدمی) ایضاً ، ص: 89
٭"واہیؔ صاحب کے ان خطوں میں ہمارے لئے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ بڑے بے ضرر خط ہوتے ہیں۔ ان میں ہمارا خیال کم اور ردیف و قافیے کا خیال زیادہ رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سارے خط قابلِ اشاعت ہوتے ہیں۔ " (رضا نقوی واہیؔ ۔ منظوم آدمی) ایضاً ، ص: 102
٭"بمبئی میں غفور صاحب کا حال اس اعرابی کے اونٹ کا ساہے جس سے کسی نے پوچھا کہ "میاں تم کیا کھاتے ہو۔"
اعرابی نے کہا "اونٹ"
"کیا پیتے ہو؟"
اعرابی نے جوب دیا "اونٹ"
"کہاں رہتے ہو؟"
"اونٹ"
مخاطب اُس اونٹ اونٹ کی تکرار سے چڑ کر بولا "میاں یہ کیا تم نے اونٹ اونٹ کی رٹ لگا رکھی ہے؟"
اعرابی بولا "صاحب ‘اونٹ کا گوشت کھاتا ہوں ‘ اونٹ کا دودھ پیتا ہوں اونٹ کی کھال پہنتا ہوں اور اونٹ کی کھال کے خیمہ میں رہتا ہوں۔ بھلا اس میں چڑنے کی کیا بات ہے؟" (خواجہ عبدالغفور ۔ لطیفوں کا آدمی) ایضاً ، ص: 114۔115
٭"اب جو میں نے تفصیل سے انہیں دیکھنے کی کوشش کی تو ان کی آنکھوں کے اوپر پھیلی ہوئی تفصیلی بھنوؤں پر ہی نظر جم کر رہ گئی ۔ ایسی تفصیلی بھنویں میں نے بہت کم دیکھی ہیں۔ ایسی گھنی اور گنجان بھنویں کہ لگتا ہے بھنویں نہیں مونچھین ہیں۔" (حسن الدین احمد ۔ لفظوں کا آدمی) ا یضاً ، ص: 120
٭"لوتھر صاحب نے اپنے ایک اور مضمون میں لکھا ہے کہ بڑے عہد یدار کتّے کو صرف اس لئے پالتے ہیں کہ وہ انہیں بھونکنا سکھا سکے۔ اس معا ملے میں میری رائے یہ ہے کہ لوتھر صاحب اپنے کتّے سے کم سیکھتے ہیں اور کتّا ان سے زیادہ سیکھتا ہے۔ ایک بار جب میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کا کتّا ایک درخت کے نیچے لیٹا بکری کی طرح جگالی کرتا ہے۔ میں کتّوں سے بہت گھبراتا ہوں ۔ اسے دیکھ کر واپس جانا چاہتا تھا کہ لوتھر صاحب کے ملازم نے کہا"صاحب اس کتّے سے نہ ڈریئے ، یہ کتّا تو با لکل گدھا ہے۔ نہ بھونکتا ہے نہ کاٹتا ہے۔ ایسا اہنسا وادی کتّا آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ یہ چوکیداری نہیں کرتا بلکہ صرف افسری کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چوکیداری کا کام بھی نہ صرف مجھ ہی کو کرنا پڑتا ہے بلکہ ہنگامی حالات میں دم بھی ہلانی پڑتی ہے۔" (نریندر لوتھر ۔ شیشے کا آدمی) ایضاً ، ص: 141
بانیؔ جدید غزل گو شعراء میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ وہ انتقال سے قبل طویل علالت کا شکار رہے۔ مجتبیٰ حسین نے ان کے خاکے میں ان کی تصویر ان لفظوں میں کھینچی ہے:۔
٭" بانیؔ ان دنوں چھوٹی بحر کا مصرعہ بن گئے تھے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی بھی آگئی تھی جو اس اس مصرعہ کو وزن سے گرنے نہیں دیتی تھی۔ چھیڑی کیا تھی، اچھی خاصی ضرورتِ شعری تھی ۔ اس وقت بانیؔ کے حساب رنگ میں ایک ہی رنگ جڑا ہوا تھا اور وہ تھا زرد رنگ ۔ یوں لگتا تھا جیسے بانیؔ بانیؔ نہیں ہلدی کی گانٹھ ہیں۔"
(بانیؔ ۔ نو آدمیوں کا آدمی) ایضاً ، ص: 149۔150
٭"میں مخمو ر کے ماضی سے واقف نہیں ہوں۔ سنا ہے کہ ٹونک میں ان کے گھر پر ہاتھی جھولا کرتے تھے۔ اب ان کے اشعار پر سامعین جھوما کرتے ہیں۔ مگر مخمورؔ کو ہاتھی اور سامعین کے فرق کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے ۔ کیونکہ ہاتھی سوچ سمجھ کر جھولتا ہے۔ اور سامعین سوچے سمجھے بغیر ہی جھومتے ہیں۔"
(مخمورؔ سعیدی۔ بحیثیت مجموعی آدمی) ایضاً ، ص:162
منقولہ بالا اقتباسات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ شخصیت کتنی ہی معروف کیوں نہ ہو، لوگوں کے نزدیک کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو۔ لیکن باشعور خاکہ نگار یہ جانتا ہے کہ انسان مجموعہ اضداد ہے۔ جسطرح پھول میں رنگ اور مہک ہوتی ہے اور ان دونوں کو علٰحیدہ کرنا سعی الاحاصل ہے اسی طرح انسان نہ بالکل سفید ہے اور نہ ہی مکمل سیاہ ۔ لیکن مجتبیٰ حسین ایک با صلاحیت اور حساس خاکہ نگار کی طرح نہایت سلیقے سے صاحب خاکہ کی خوبیاں بیان کرتا ہے اور پھر انتہائی شائستگی سے اس کی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ یہی خوبی مجتبیٰ حسین کے جنیوین (Genuine ) خاکہ نگار ہونے کی دلیل ہیں۔
مجتبیٰ حسین کے شخصی خاکوں کا دوسرا مجموعہ "سو ہے وہ بھی آدمی" 1987 ؁ء میں منظر عام پر آیا ۔ اس میں چودہ خاکے ہیں۔ ان خاکوں کی ایک خوبی یہ ہے وہ صاحبِ خاکہ کا حلیہ بڑی تفصیل سے اور بہت دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اجنبیت اور بیگانگی کا احساس ختم ہوتا ہے اور یگانگت اور قربت پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ ایسا لگنے لگتا ہے کہ اس فرد سے ہماری پرانی شناسائی ہے اور ہم اس سے گویا بارہا مل چکے ہیں۔
مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں جو بات سب سے دلچسپ اور اچھوتی محسوس ہوتی ہے وہ ان کا سیدھا سادہ اندازِ بیان ہے جس کی بدولت وہ معمولی بات کو غیر معمولی اور غیر معمولی کو انتہائی معمولی، سنجیدہ کو غیر سنجیدہ اور غیر سنجیدہ کو سنجیدہ بنا کر ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں جو ناخوشگواری کو اچانک خوشگواری، کثافت کو لطافت، بے رحمی کو ہمدردی اور سنگینی کو رنگینی میں تبدیل کرتا ہے۔ ان کے مزاح کو پُر اثر ، موثر اور کامیاب بنانے میں ان کی شگفتہ بیانی کو بہت دخل ہے۔ وہ مزاح پیدا کرنے کے لیے نہ کھبی واقعات کو توڑ تے مروڑتے اور نہ ہی غیر مانوس الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ بہت سیدھے سادے انداز میں کسی واقعے کو بیان کردیتے ہیں۔ اور ظرافت کے زعفران زار کھلاتے ہیں۔ بقول ڈاکڑ اشرف رفیع:۔
"مجتبیٰ حسین بنیادی طور پر طنز ومزاح نگار ہیں۔ اپنے تقریباً تمام خاکوں میں انہوں نے مزاحیہ انداز ہی سے رنگ بھرا ہے۔ ان کا مزاح بے ساختہ ، شائستہ ، خیالات کی توانائی اور الفاظ کی تازگی لئے ہوتا ہے۔ ان کے مزاح کا کمال ہی ہے کہ وہ سنجیدہ شخصیتوں اور موضوعات پر لکھتے وقت بھی مزاح کے پہلو نکال لیتے ہیں۔ بات بظاہر سنجیدہ ہوتی ہے لیکن مجتبیٰ حسین کے قلم سے ایسے موقع پر ظرافت کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں۔" بحوالہ :مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ، ڈاکٹر اشرف رفیع ، ص: 104، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر)جلد نمبر: 20
مجتبیٰ حسین ایسے نابغہ خاکہ نگار ہیں۔ جو ہمیشہ اپنی تحریر کو مسخرگی ، پھکڑپن اور عامیانہ نوعیت کے تاثر سے مبرا و منزہ رکھتا ہے۔ ان کی تحریروں میں شگفتگی، سلاست ، فصاحت ، نیز ظرافت کی ایسی چاشنی ملتی ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ اس کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:۔
٭"صادقیںؔ صاحب ! آپ کا نام جمع کے صیغہ میں کیوں رکھا گیا ہے۔ صرف صادقؔ کافی تھا۔ صادقینؔ کی کیا ضرورت تھی۔ بولے "صادقینؔ میرے والدین کی دین ہے ۔ میں کیا کرسکتا ہوں۔" اسی اثنا میں اچانک بجلی فیل ہوگئی۔ تو میں نے امیرؔ آغا سے کہا ۔" میاں امیرینؔ جلاؤ اسی بات پر ماچین اور کروروشن لالٹین اُٹھاؤ اپنے نعلین اور دباؤ انہیں در بغلین ۔ آؤ میاں انورینؔ ، چلیں ہم سب ہوٹلین اور کھانا کھائیں ساتھ میں صادقینؔ۔"ایک ہی سانس میں جب میں نے یہ جملہ مکمل کیا تو صادقینؔ کا ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔"(صادقین)
بحوالہ:سو ہے وہ بھی آدمی ، مجتبیٰ حسین ،ص: 33
٭"کنور صاحب کی یہی ادا تو مجھے پسند ہے کہ جس پر مہربان ہوتے ہیں، اس کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں ۔ اسے آپ ان کی شفقت اور محبت نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ جسے عزیز رکھتے ہیں اگر وہ نا اہل بھی ہے تو اس میں اہلیت ڈھونڈتے ہیں، نالائق بھی ہے تو اس میں لیاقت تلاش کرتے ہیں، جاہل ہے تو اس میں علم کی کھوج کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کنور صاحب کے اطراف مجھ جیسوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔" (مشفقؔ خواجہ) ایضاً ، ص: 44 ۔ 45
مجتبیٰ حسین نے آل احمد سرورؔ اور خورشید الاسلام کے خاکوں میں جو واقعات بیان کیے ہیں۔ ان واقعات سے ایک طرف آل احمد سرورؔ اور خورشید الاسلام کے عادات و اطوار، طور و طریقہ ، خلوص و سچائی اور دیانتداری پر روشنی پڑتی ہیں تو دوسری جانب پروفیسروں اور خاص طور پر اردو کے پروفیسروں کی حالت پر ہنسنے کے بجائے رونا آتا ہے۔ لیکن حقیقت میں نام نہاد پروفیسر صاحباں ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ملاحظ فرمائیں وہ اقتباس :۔
٭"میں سرورؔ صاحب کی ایک خامی کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ وہ اردو کے پروفیسر ہونے کے باوجود اردو کے پروفیسر نہیں لگتے ۔ ان میں وہ بات ہی نہیں ہے جو اردو کے بہت سے رائج الوقت پروفیسروں میں پائی جاتی ہے۔ اُن میں نہ چھل ہے نہ کپٹ ، سازش ہے نہ ہیر پھیر ، کینہ ہے نہ بغض ، غیبت ہے نہ مُنافقت، نہ اقتدار کی ہوس ہے نہ صاحبان اقتدار کی قربت سے انہیں کوئی سروکار ہے۔ اردو کے استاد اب جوڑ توڑ کے ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کے قائل ہوتے جارہے ہیں۔ یہ صلاحیت اب اردو کے پروفیسروں کی بنیادی قابلیت میں شمار کی جانے لگی ہے اور اردو کلچر کا حصّہ بنتی جارہی ہے۔ سرورؔ صاحب ان سب باتوں سے بے نیاز نام و نمود اور شہرت کی طلب سے ناوابستہ اپنے جہانِ علم و دانش میں مست اور مگن ہیں۔" (پروفیسر آل احمد سرورؔ) بحوالہ :سو ہے وہ بھی آدمی ، مجتبیٰ حسین ، ص:99
٭"میں خورشید صاحب کو اردو کا پروفیسر نہیں سمجھتا ۔ یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ عموماً اردو کے ایک پروفیسر کی جتنی مصلحتیں ،جتنے مفادات ، جتنے چہرے اور جتنے سوانگ ہوتے ہیں وہ خورشید صاحب
کی ذات میں بالکل نہیں ہیں…… اُن کے اردو کے پروفیسر نہ ہونے کی ایک اور دلیل یہ بھی پیش کرسکتا ہوں کہ اردو کا پروفیسر بننے کے لیے قومی اور بین الاقوامی معاشی ، سماجی اور سیاسی مسائل سے
جتنی لاعلمی اور بے خبری ضروری ہوتی ہے وہ ان میں نہیں ہے۔" (پروفیسرخورشید ؔ الاسلام) بحوالہ :سو ہے وہ بھی آدمی ، مجتبیٰ حسین ، ص:107
مندرجہ بالا متفرق اقتباسات کی روشنی میں یہ کہنا بالکل آسان ہے کہ مجتبیٰ حسین کے خاکے اپنی ایک انفرادی شان رکھتے ہیں۔ اور ان کے بعض خاکوں میں صاحب خاکہ کے چہرے کے ساتھ ان کے عہد کا چہرہ بھی ان کی تحریر میں جھانکتا نظر آتا ہے ۔ان میں سچائی کی تلخی ، مشاہدے کی گرفت ، خلوص ، ایمانداری، بے نیازی ، مثبت و منفی پہلوؤں کا توازن اور اظہار ِ بیان کی بے پناہ صلاحیت ٹپکتی ہے۔ ان کے تمام خاکے انکشاف ِ ذات و صفات کے عمل سے عبارت ہیں ۔ اور ان کے سبھی خاکے بلاشبہ سوانحی نوعیت کے بجائے شخصی نوعیت کے ہیں۔ اس بات کا اعتراف سید امتیاز الدین ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔
"مجتبیٰ حسین کے خاکے سوانحی نوعیت کے نہیں بلکہ شخصی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ سوانحی نوعیت کے خاکے آپ ہزاروں کی تعداد میں لکھ سکتے ہیں لیکن شخصی خاکے لکھنے کے لیے دوستی اور الفت کی کیمیا گری ضروری ہے۔ یہ ایک لحاظ سے دل لینے اور دل دینے کا عمل ہے۔ مجتبیٰ حسین کا ہر خاکہ محبت کی دستاویز ہے۔"
بحوالہ :آپ کی تعریف (خاکے) مرتب: سید امتیاز الدین ، ص: 10
"چہرہ در چہرہ" مجتبیٰ حسین کے شخصی خاکوں کا تیسرا گلدستہ ہے۔ اس میں بیس خاکے جن میں آخری خاکہ خود مصنف کا وفاتیہ خاکہ بھی بعنوان "اپنی یادمیں " شامل ہیں۔ خاکوں کا یہ مجموعہ 1993 ؁ء میں شائع ہوا۔ جس میں مصنف کے دوست ہی نہیں بلکہ اسکے محسن بھی ہیں ۔محسنوں اور بزرگوں کو وہ اتنا احترام اور ادب کرتے ہیں کہ ان کے خاکے تحریر کرتے وقت بے تکلفی کی ان تمام سرحدوں کو پار نہیں کرتے ہیں جن کو وہ اپنے دوستوں کے خاکوں میں طے کرتے ہیں۔ حالانکہ احترام اور ادب کے اس وفور نے اسطرح کے خاکوں میں شگفتگی اور تازگی کی وہ کیفیت کم کردی ہے جو ان کے خاکوں کا نمایاں وصف ہیں۔
مجتبیٰ حسین کے یہاں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ اسلوب کی روانی ہے۔ ان کا طرزِ نگارش اس قدر سادہ اور پرکار ہے کہ ہم ایک بار اس کتاب کو ہاتھ میں لے لیں تو اسے رکھنے کو جی نہیں چاہتا ۔ اس خوبی میں روایت کا وہ تسلسل بھی شامل ہے جو فرحت اللہ بیگ سے لے کر رشید صدیقی اور شوکت تھانوی سے ہوتا ہوا ان تک پہنچا ہے۔ اور اس میں ایک خاص قسم کا تنوع، رنگا رنگی اور اختصاص بھی ہے۔ جو انہیں متقدمین اور معاصرین میں مرتبہ امتیاز عطا کرتی ہے۔ بقول نامی انصاری:۔
"مزاحیہ مضامین کے ساتھ ساتھ مجتبیٰ حسین کی مزاحیہ خاکہ نگاری بھی درجہ اول کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ معاصر ادب میں ان کی خاکہ نگاری سر فہرست ہے۔ مزاحیہ اسلوب میں جس خاکہ نگاری کی روایت مرزا فرحت اللہ بیگ، شوکت تھانوی اور رشید احمد صدیقی نے قائم کی تھی، مجتبیٰ حسین نے نہ صرف اس روایت کو آگے بڑھایا ہے بلکہ اس میں نئے العباد بھی جوڑے ہیں۔" بحوالہ :آزادی کے بعد اردو نثر میں طنز و مزاح ، نامی انصاری ، ص: 138
مجتبیٰ حسین کے خاکوں کاا ہم ترین پہلو یہ ہے کہ وہ تب تک کسی شخصیت کا خاکہ ترمیم نہیں کرتے ، جب تک نہ وہ متعلقہ شخصیت کا گہرا مطالعہ کریں۔ اور اس شخصیت کے مختلف و منفرد گوشوں کو اپنی فکرو نظر کی خوردبین سے دیکھے ۔ اور اس کی حیات کے افادی پہلو تلاش کریں۔ پھر نہایت چابکدستی سے ہلکے ہلکے انداز میں اسکا خاکہ تحریر کرتے ہیں کہ خود وہ شخص بعض اوقات ان الفاظ کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ ہاں یہ واقعی میں ہوں۔ میں خود اپنے آپ سے مضمر تھا۔ مجھے آخر مجتبیٰ حسین نے کیسے بے نقاب اور آشکار کیا۔ اس کتاب کابنظرِغائر مطالعہ کرنے سے واقعی ان باتوں کی نقاب کشائی ہو جاتی ہے۔ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ دیکھیں چند اقتباسات جو میرے نقطۂ نظر کی وضاحت میں ممدومعاون ہو سکتے ہیں:۔
٭"اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ گجرال کمیٹی اب اپنی مخصوص شہرت کے باعث ضرب المثل کے طور پر بھی استعمال ہونے لگی ہے۔ کس طرح استعمال ہو رہی ہے اس کے لیے چند مکالمے ملاحظہ ہوں۔:۔
"یار میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر وہ میرے ساتھ گجرال کمیٹی کر رہی ہے۔"
"ایک زمانہ تھا جب آٹھوں پہر تمہاری یاد آتی تھی۔ اب یہ حال ہے کہ گجرال کمیٹی کی طرح یاد آتی ہو۔"
"بیٹی تمہارے والدین نے جہیز میں ایک تنکا تک نہیں دیا۔ کچھ دینے کی سکت نہیں تھی تو گجرال کمیٹی کی رپورٹ ہی دے دیتے جس پر عمل آوری کی آس لگائے بھیٹے تورہتے۔"
‘بھیا! وہ جو میں نے تمہیں دس سال پہلے قرض دیا تھا اسے اب واپس ہوناچاہیے۔ اس سے زیادہ گجرال کمیٹی نہیں چلے گی۔ گجرال کمیٹی کی بھی تو ایک حد ہوتی ہے۔"
(اندر کمار گجرال) بحوالہ : چہرہ در چہرہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 12
٭ دیوان بریندر ناتھ مجھ سے اکثر کہتے ہیں کہ اس ڈرائنگ روم والے کُتے سے بالکل نہ گھبراؤ ۔ یہ صرف بھونکتا ہے کاٹتا بالکل نہیں۔ میں کہتا ہوں " تو گویا یہ خصلت میں اردو کے ناقدوں سے بہت ملتا ہے۔" اس پر دیوان بریندر ناتھ کہتے ہیں۔
"اور ہماری اردو تنقید کی طرح لنگڑا لولا بھی تو ہے۔" (ظفر پیامی) ایضاً ، ص:57
٭"ہر سال جب بھی ہندوستان کی ساری اردو اکیڈیمیوں کی طرف سے کتابوں پر انعامات کا اعلان ہو جاتا ہے تو میں اکّے دکّے ان سر پھرے ادیبوں کو ضرور مبارکباد دیتا ہوں جنہیں کسی اکیڈیمی کا انعام نہیں ملتا ۔ ان انعاموں سے صحیح و سالم بچ کر نکلنا اور باعزت بری ہونا بھی ایک اعزازکی بات ہے اور قابل مبارکباد بھی۔ پتہ نہیں کیوں اکیڈیمی کا انعام حاصل کرنے کے بعد کتاب تو انعام یافتہ لگتی ہے لیکن ادیب ضرور سزا یافتہ لگتا ہے۔" (شریف احسن نقوی) ایضاً، ص: 85
٭"یار کمارؔ! شراب چھوڑ نے اور سگریٹ چھوڑنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اصل مسئلہ شاعری کو چھوڑنے کا ہے۔ تم شاعری چھوڑ کر دیکھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بولے "یہی تو ساری چکّر ہے۔ شاعری چھوڑ نہیں سکتا اسی لیے کبھی سگریٹ چھوڑتا ہوں اور کبھی شراب" (کمار پاشی) ایضاً ، ص: 95
٭"کہاں میری (وقار لطیف) کھانسی اور کہاں عسکری کی کھانسی ! میں نے کہا "یار! اس میں اتنا سنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے کھبی کھبی کھانسی میں تواردبھی ہوسکتا
ہے۔"بولا "یار! یہ توارد نہیں ۔ کھانسی کا سرقہ۔ " (وقار لطیف) ایضاً ، ص : 121
خاکوں کے اس مجموعہ میں آخری خاکہ "اپنی یاد میں " خود ان کا اپنا ہے۔ اسکا شمار نہ صرف مجتبیٰ حسین کے نمائندہ خاکو ں میں ہوتا ہے بلکہ اردو کے اچھے خاکوں میں بھی۔ اس میں مصنف نے اپنی ذات اور حیات کو قلم کا ہدف بنایا ہے۔ اور اپنے مزاج و افتادِ طبع کے بارے میں بڑی دلچسپ اور انوکھی باتیں لکھی ہیں۔ تکنیک اور اندازِ بیان کے لحاظ سے یہ خاکہ نگار کی تخلیقی قوت کی عجیب و غریب جھلک پیش کرتا ہے۔ اس میں مزاح اور الم کبھی کبھی ایک دوسرے میں اسطرح جذب ہو جاتے ہیں کہ ان کی جداگانہ پہچان ممکن نہیں ہوتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ تبسم کے پردے میں ایک ایسے الم کو چھپانے کی مستقل کوشش کر رہے ہیں جو ایک شخص کا نہیں اس جیسے ہزاروں اشخاص کا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں آخری وقت کا ایک دلگداز لیکن دلگیر منظر :۔
٭" بچوں نے انہیں بہت جگایا مگر مرحوم جاگنے پر راضی نہ ہوئے ۔ جاگ کر بھی کیا کرتے۔ اب دنیا میں ان کے لیے کوئی کام بھی تو باقی نہیں رہ گیا تھا۔ لتا منگیشکر کا گانا وہ سن چکے تھے، غالبؔ اور شکیسپیر کو پڑھ چکے تھے۔ بڑے غلام علی خان اور بھیم سین جوشی کو بھی نپٹا چکے تھے۔ اور تو اور ، انہیں ایک ہزار روپئے بھی واپس مل گئے تھے جنہیں وہ ایک کتاب میں رکھ کر بھول چکے تھے۔ بھلا اور جی کر کیا کرتے۔" (اپنی یاد میں) بحوالہ:چہرہ در چہرہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 151
اس خاکہ کے بارے میں مخمور سعیدیؔ لکھتے ہیں:۔
"عیسائیت کی مشہور رسم ہے کہ مرنے والے زندگی کے آخری لمحوں میں پادری کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ خدا مجتبیٰ حسین کو عمر خضر عطا کرے لیکن انہوں نے یہ خاکہ لکھ کر اپنے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے اور اب انہیں عقبیٰ میں کسی مواخذ ے کے اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔"
بحوالہ :مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ، مخمور سعیدی ، ص: 63۔ 64، ماہنامہ کتاب نما دہلی (مجتبیٰ حسین نمبر)
مجتبیٰ حسین کے بیشتر خاکے اس اِدعا کے شاہد ِ عادل ہیں کہ مجتبیٰ حسین مزاح پیدا کرنے کے لیے مزاحیہ الفاظ اور نہ مزاحیہ سچویشن (situation )سے لوگوں کو مسکراتے ہیں بلکہ وہ سیدھی بات کا سیدھے انداز میں کچھ اس طور سے کہتا کہ اس سے خود بخود مزاح ، ظرافت ، شوخی اور خوش طبعی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ان کے اسلوب اور فن کی نمایاں خوبی ہے ۔ اس میں تصنع و تکلف اور آرائش و زیبائش کا پتہ بھی نہیں ‘ بلکہ صفائی ، سلاست ، روانی، سادگی ، شگفتگی اور رعنائی ہے۔ جس سے خود زبان کی وسعت ، ہمہ گیری ، پھیلاؤ اور قوت و توانائی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ ان کے اسلوب کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے مخمور سعیدی لکھتے ہیں:۔
" مجتبیٰ حسین کے خاکوں کی زبان صاف ، سلیس ، اور رواں دواں ہے، تکلف اور تصنع سے دور ایک فطری بہاؤ کا انداز جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور خوشگوار احساسات و تاثرات کے اس کنارے اُسے جا لگاتا ہے جہاں مجتبیٰ حسین اسکی وارفتگی کا نظارہ اور اندازہ کرنے کے لیے تبسم بہ لب کھڑے ہوتے ہیں۔"
بحوالہ: مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ، مخمور سعیدی ، ص: 65، ماہنامہ کتاب نما دہلی (مجتبیٰ حسین نمبر)
1999 ؁ء میں سترہ شخصی خاکوں پر مشتمل مجتبیٰ حسین کی ایک اور مایہ ناز اور بیش بہا کتاب "ہوئے ہم دوست جس کے" کے نام سے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی تھی۔ اس کتاب میں مجتبیٰ حسین کے بزرگوں کے علاوہ دورِ جدید کے مقتدرناقد ، بلند پایہ ادیب اور معزز شاعربھی ہیں۔ اس کتاب کا تقریباً ہر خاکہ متوجہ ہی نہیں بلکہ مسحور اور مسرور بھی کرتا ہے۔ یہ خاکے بھرپور مزاح ، معیاری ظرافت اور لطیف طنز سے مملو ہے۔ بقول ڈاکٹر شفیع شیخ:۔
"ان کا کوئی بھی مضمون اٹھا کر دیکھ لیجئے ، طنز کی چٹکیاں اور مزاح کے شگوفے دونوں اس میں نظر آئیں گے، صرف موضوع کے اعتبار سے طنز و مزاح کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔ کالم نگاری کے بعد انہوں نے خاکہ نگاری اور سفر ناموں کے میدان میں قدم رنجہ فرمایا اور ان اصناف میں بھی طنز و مزاح کے اسلوب کو سمو کر ایک نیا طرز ایجاد کردیا۔"
بحوالہ :مجتبیٰ حسین …… ایساکہا ں سے لاؤں ، شفیع شیخ ، ص: 7
اس روشنی میں دیکھیں تو مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری سُبک مزاح اور لطیف طنز کے حسین امتزاج سے عبارت ہے۔ وہ جس شخص کو دیکھتے، بھالتے ، ٹٹولتے ، پرکھتے ، سمجھتے اور اس کے دورن میں جھانک کر اس کی شخصیت کے مخفی گوشوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ تب تک ان کو یہ یقین نہ آجائے کہ انہوں نے جو دیکھا، پرکھا اور سمجھا ہے، وہ صحیح ہے یا نہیں۔ وہ صاحبِ خاکہ کے اندر جھانک کر جو کچھ دیکھ لیتے ہیں اسے من و عن صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں کہ قاری و سامع ہی پر موقوف نہیں بلکہ خود صاحبِ خاکہ دنگ ہو کے رہ جاتا ہے۔ یہی وہ وصف اور خاصیت ہے جو ان کے خاکوں کو وقیع ، اعلیٰ اور منفرد بنا دیتی ہے۔
مجتبیٰ حسین اپنے معاصرین اور دوستوں کے خاکے جس بے تکلفی، بے خوفی اور مزے لے لے کر تسوید کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے بزرگوں کے خاکے قلمبند نہیں کرتے ہیں۔ یہاں وہ ادب و احترام اور تعلقِ خاطر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ اس پہلو کی تصدیق ڈاکٹر راج بہادر گاڑ، پروفیسر شکیل الرحمٰن ، پروفیسر رشید الدین خان اور رشید قریسی وغیرہ کے خاکوں میں خود بخود ہو جاتی ہے۔ البتہ جو بات تمام خاکوں میں مشترکہ ہے وہ یہ ہے کہ مجتبیٰ حسین اپنے موضوع سے بھر پور انصاف کرتے ہیں۔ یعنی ان کے خاکوں میں کہیں بھی کسی بھی شخصیت کے متعلق عقیدت نظر نہیں آتی۔ یہ مذکورہ خاکوں کے علاوہ ان خاکوں کی بھی خوبی ہے جو انھوں نے اپنے قربیی دوستوں کے بارے میں لکھے ہیں۔ خواہ وہ کسی کے بارے میں لکھیں، شخصیت نگاری کا بھرپور حق ادا کردیتے ہیں۔ جس سے ایک طرف ان کی شخصیت کے معتدل ہونے کا پتہ چلتا ہے تو دوسری جانب ان کے تبسم آفرین مزاج اور شگفتہ اسلوب کا بھی۔ دراصل انہیں زبان پر کامل عبور ہیں۔ اس لیے وہ صاحبِ خاکہ کی شخصیت کا بھر پور نقشہ کھینچ کر قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اس کی خاکہ نگاری کے درج ذیل نمونے میرے مدعا کو زیادہ و ضاحت سے بیان کر سکتے ہیں:۔
٭"ڈاکٹر گوڑ نے آج سے پچاس پچپن برس پہلے جس عقیدہ اور مسلک کو اپنایا تھا اس پر آج تک اسی طرح قائم ہیں۔
انسان دوستی، محبت ، پیار اور رواداری کا مسلک ……دنیا میں کیا نہیں ہوا۔ لیکن یہ بدستور اپنے مسلک کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ دامن بھلے ہی چاک ہو گیا ہو لیکن انہوں نے اپنے مسلک کو چاک نہیں ہونے دیا۔" (ڈاکٹر راج بہادر گوڑ) ہوئے ہم دوست جس کے ، مجتبیٰ حسین ، ص: 18
دورِ حاضر کے متقدر نقاد شمس الرحمٰن فاروقیؔ کے بارے میں یہ جملہ ان کی شخصیت کو آئینہ کر دیتا ہے۔
٭"لوگ جیسے فاروقیؔ کا غرور سمجھتے ہیں وہ اصل میں اُن کے وسیع المطالعہ ہونے کا اعتماد ہے۔" (شمس الرحمٰن فاروقیؔ) ایضاً، ص: 20
وحید اختر کے خاکے میں مجتبیٰ حسین نے معروضی انداز اختیار کر کے غیرجانبداری اور حقیقت نگاری کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہاں ان کا لہجہ اور اسلوب بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن وحید اختر کی شخصیت اور مزاج کی بھر پور عکاسی کے لیے یہ انداز ، یہ لہجہ اور یہ اسلوب متوازن نظر آتا ہے۔ اس نوع کے خاکوں کو زمانہ دیر تک یاد رکھتا ہے ۔ ملاحظہ ہو:۔
٭"علمی اور ادبی حلقوں میں ان کی بڑی عزت تھی لیکن ان کے مزاج کی تلخی کی وجہ سے لوگ ان سے ملتے ہوئے کتراتے تھے۔ علی گڑھ میں رہ کر بھی وہ الگ تھلگ ہی رہتے تھے …… ان کی راست گوئی بلکہ تلخ گوئی کی وجہ سے یونیورسٹی کے ارباب بھی پریشا ن رہتے تھے……وحید اختر سے بہت سے لوگوں کو "اختلاف " تھا لیکن سب ان کی بے پناہ ذہانت اور علمیت کے بارے میں "متفق" نظر آتے تھے۔ وہ اپنی وضع کے اکیلے آدمی تھے۔" (وحید اختر) ایضاً، ص: 43۔ 44
پروفیسر شکیل الرحمٰن کو جب متھیلا یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سے ہٹایا گیا تھا ۔ تو اُن کے دوستوں ، احبابوں اور بہی خواہوں میں غم و غصّہ کی لہر دوڈ گئی۔ انفرادی طور پر نہ صرف اس کے دوست اور چاہنے والے بلکہ ارباب حل و عقد بھی کہتے تھے کہ یہ غلط ہوا ہے لیکن اجماعتی طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرتے ہیں ۔ اس بات کو مجتبیٰ حسین نے اپنے انداز میں اسطرح ادا کیا ہے:۔
٭" انفرادی سچ ایک منزل پر پہنچ کر جب اجتماعی جھوٹ میں بدل جاتا ہے تو یہ وقت بہت بُرا ہوتا ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمٰن کے ساتھ یہی ہوا۔" (پروفیسرشکیل الرحمٰن) بحوالہ :ہوئے ہم دوست جس کے ، مجتبیٰ حسین ، ص: 46
نام نہاد پروفیسروں کا حال مجتبیٰ حسین کے اس جملہ میں دیکھئے:۔
٭" آدمی زندگی میں ایک بار پروفیسر بن جائے تو زندگی بھر پروفیسر ہی کہلاتا ہے چاہے بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگ جائے۔"
(پروفیسر رشید الدین خان) ایضاً،ص:68
ان کے خاکوں میں پائے جانے والے مزاح کے نئی نئی چیزوں نے مزید چند اقتباسات نقل کرنے کے لیے مجبور کر دیا:۔
٭" کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں لیکن اب اردو میں کتابیں ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہیں۔" (عوض سعید) ایضاً،ص:83
٭"ایک قاری پہلے تصویر کا مطالعہ کرتا ہے اور بعد میں حسبِ توفیق غزل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اگر معاملہ کسی خاتون کی غزل اور تصویر کا ہو تو وہ تصویر کے مطالعہ کو ہی کافی سمجھتا ہے۔" (سیدہ شانِ معراج) ایضاً،ص: 101
٭ "ادیب بھی اپنی ذاتی غلطیوں کو کاتب کی غلطی کے کھاتہ میں ڈال کر باعزت بری ہو جاتے ہیں۔" (استاد محمود مرزا) ایضاً،ص: 110
جس طرح مجتبیٰ حسین نے کنہیا لال کپور کے خاکے میں ان کے قد کی لمبائی کو مرکزی نقطہ بنا کر ایسے واقعے اور ایسی باتیں بیان کی، جس سے کوئی بھی شحص لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اسطرح وہاب عندلیب کے خاکے میں ان کے پستہ قد کو نقطہ پرکار بنا کر ایسا مزاحیہ پہلو نکالا ہے جس سے بے ساختہ ہنسی پھوٹ پڑتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں اقتباس:۔
٭" وہاب عندلیب نے حلیہ ہی کچھ ایسا پایا ہے کہ وہ ہمیشہ خود اپنے چھوٹے بھائی دکھائی دیتے ہیں۔ پستہ قد، معصوم چہرہ ، مختصر سے ہاتھ پاؤں ، اسی تناسب کے کان ، ناک اور آنکھیں ۔ بالکل آدمی کا پاکٹ ایڈیشن معلوم ہوتے ہیں۔" (وہاب عندلیب) بحوالہ :ہوئے ہم دوست جس کے ، مجتبیٰ حسین ، ص: 134
مجتبیٰ حسین بلاشبہ ظریف ہیں۔ اس لیے ان کے طرز تحریر میں شوخی اور ظرافت کے علاوہ ایسی روانی اور فطری بہاؤ ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔ اور اس منفرد اندازِ بیان کے باعث ان کے خاکے نہ صرف دلچسپ اور دلآویز ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ بعض اوقات متعلقہ شخصیت اور قاری کے مابین خاکہ نگاری کی غیر موجود گی کا یقین ہوتا ہے اور شخصیت قاری کے روبرو اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہی خاکہ نگاری کی سب سے نمایاں خوبی ہے اور مجتبیٰ حسین کے خاکے اسی خوبی سے معمور ہیں۔
مجتبیٰ حسین کے شخصی خاکوں کے انتخاب پر مشتمل ایک ضخیم مجموعہ "مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریرین"(جلدودم ) 2002؁ء میں منصہ شہود پر آچکا ہے۔ اس کتاب میں اکتالیس (41) مختلف شخصیتوں کے خاکے شامل ہیں۔ جن کا مطالعہ ماسوائے پروفیسر علی محمد خسرو ، مظہر امام ، مغنی تبسم اور کنہیا لال نندی ہم پہلے ہی کر چکے تھے۔ لیکن اب وہ قند مکرر کا مزہ دے رہے ہیں۔ اس کتاب کے مرتب ممتاز ادیب حسن چشتی ہے۔ حسن چشتی مجتبیٰ حسین کا بہترین دوست اور سچا مداح ہیں۔ اس لئے انہوں نے جس عرق ریزی ، محنت ، لگن اور بہترین طباعت کے ساتھ یہ انتخاب شائع کیا ہے۔ وہ ان کی دیدہ وری کی نظیر ہے۔
مجتبیٰ حسین کی تحریروں سے اردو زبان بالخصوص اردو خاکہ نگاری کو جو وسعت ، ہمہ گیری اور توانائی ملی، اسے کسی کو انکار نہیں۔ ان کی تحریروں میں ابتدائی شگفتگی اور خوش دلی آخر تک قائم رہتی ہے۔ ان کے اسلوب میں پھکڑپن، ابتذال ، مسخراپن ، طعن اور تشنیع کے بجائے لطافت و ظرافت ، فصاحت و بلاغت اور دلکشی و دلنشینی ہے۔ بقول حسن چشتی:۔
"مجتبیٰ کے اسلوب ِ نثر میں کسی طرح کا تکلف یا ادعا، بناوٹ یا تکرار نہیں ہے ‘ وہ نہایت سہولیت سے اپنی بات کہتے ہیں جو دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔ ان کی قوت مشاہدہ بہت تیز ہے اور کسی کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی چھٹی حس بھی کام کرتی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نہ پھکڑ پن ہے نہ دل آزاری ، توازن ‘ تناسب ‘ وقار’ شائستگی اور تہذیب ان کے اسلوب کے بنیادی عناصر ہیں۔"
بحوالہ:مجتبیٰ حسین اپنی تحریر کے آئینے میں ، حسن چشتی ، ص: 131، ماہنامہ کتاب نما دہلی (مجتبیٰ حسین نمبر)
اس طرح کی مثالوں سے "مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں " (جلد دوم) پُر ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:۔
٭" استاد اور طالب علم کی عمروں میں کم از کم پندرہ برس کا فرق ضرور ہونا چاہیے ورنہ تعلیم خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ جو ان عورت کو بوڑھا شوہر جتنا بھلا لگتا ہے اتنا ہی ایک طالب علم کو جوان استاد بُرا لگتا ہے۔" (پروفیسر علی محمد خسرو) بحوالہ :مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں (جلد دوم) مرتب : حسن چشتی ، ص: 274
٭"مظہر امام ہمارے عہد کے بے حد ممتاز شاعر ‘ ادیب’ دانشور اور نقاد وغیرہ ہیں اور اُن کا شمار اردو کے مستند اور سینئر ترین شعراء کی صف میں ہوتا ہے لیکن میں جب بھی انہیں بڑے شعراء کی صف میں بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں تو کوفت ہوتی ہے کہ یہ غفلت میں کہاں جاکر بیٹھ گئے۔ انہیں تو اصولاً مارکونی ‘ ایڈیسن ‘ رائٹ برادران’ نیوٹن وغیرہ کی صف میں ہونا چاہیے کیوں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ آزاد غزل کے موجد ہیں۔" (مظہر امام ) ایضاً،ص: 286
٭"ان کی تیسری خدمت یہ ہے کہ مصلحت پسندی’ جوڑ توڑ ‘ ادبی ریشہ دوانیوں ‘ کینہ پروری اور شہرت طلبی وغیرہ سے ہمیشہ اپنے آپ کو دور رکھا۔ حالانکہ آج کے زمانہ میں پنپنے کی یہی تو باتیں ہیں۔" (مغنی تبسم) ایضاً، ص: 304
٭"میں نے ایک دن انہیں بتایا "نندن جی ! سابق ریاست حیدر آباد میں عہدیدواروں کو عجیب و غریب ذمے داریاں سونپی جاتی تھیں۔ ایک صاحب انجینئر تھے تو انہیں تحصیلدار بنا دیا۔ کچھ دن تحصیلداری کی تو انہیں علاج حیوانات کا ڈاکٹر بنا دیا گیا۔ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا ‘ مگر کچھ دن بعد انہیں انسانوں کا ڈاکٹر بنا دیا گیا اور ایک دن پانی اُن کے سرسے اُس وقت اونچا ہوا جب انہیں ایک زنانہ اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر مقرر کر دیاگیا۔ بیچارے اپنی آبرو بچانے کے لیے استعفٰی دے کر گھر بیٹھ گئے ۔ لگتا ہے آپ مجھے ‘لیڈی ڈاکٹر " بنا دینا چاہتے ہیں ۔ ہنس کر بولے " بندھو! ضرورت پیش آئے تو میں تمہیں لیڈی ڈاکٹر بنانے سے باز نہیں آؤں گا۔" (کنہیا لال نندن) ایضاً ، ص: 317
مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا ایک اور مجموعہ "آپ کی تعریف"2005ء میں سید امتیاز الدین نے مرتب کرکے شائع کیا۔ اس مجموعہ میں پچپن (55) خاکے ہیں۔ جس میں "تم کیا گئے کہ……" کے عنوان سے مرحومین پر ستائیس (27 ) خاکے اور "تم سلامت رہو…… "کے عنوان سے اٹھائیس (28) خاکے شامل ہیں۔ اس کتا ب کے دیباچہ میں مرتب نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ کہ حسن چشتی کی مرتب کردہ کتاب"مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں " (جلد دوم) کا کوئی خاکہ اس کتاب میں شامل نہ رہے۔ مرتب نے نہ صرف محض دعویٰ کیا ہے بلکہ عملی طور پر یہ کر کے دکھایا ہے۔ یعنی "آپ کی تعریف " اور "مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں " (جلد دوم ) میں ایک بھی خاکہ ایسا نہیں ہے جو دونوں کتابوں میں شامل ہے۔ لیکن یہاں میں اور ایک بات کی ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ سید امیتاز الدین کی مرتب کردہ کتاب "آپ کی تعریف " میں تقریباً ایک درجن خاکے ایسے ہیں جو مجتبیٰ حسین کی شائع شدہ تصانیف میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قتیل شفائی اور مخمور سعید ی کے خاکوں میں کچھ اضافہ کرکے اس میں شائع کیے۔ جبکہ نثار احمد فاروقی اور مشفق خواجہ کی وفات سے قبل لکھے گئے خاکے "ہوئے ہم دوست جس کے" میں اور ان کی وفات کے بعد قلمبند کیے گئے خاکے اس کتاب میں شائع کیے۔ اس لئے پہلے دو خاکے بعد کے دو خاکوں سے مختلف ہیں۔ سید امتیاز الدین اس اقسام کے خاکوں کے بارے میں رقمطراز ہیں:۔
"مجتبیٰ حسین نے بعض شخصیتوں پر ایک سے زیادہ خاکے لکھے ہیں۔ ایک خاکہ اُس شخصیت کی زندگی میں اور دوسرا بعد وفات بطور خراج ِ عقیدت ‘ جگن ناتھ آزاد ‘ قتیل شفائی ‘ نثار احمد فاروقی’ مشفق خواجہ وغیرہ کے خاکے اسی نوعیت کے ہیں۔ ایسے خاکوں کو تھوڑا سا فصل دے کر جوڑ دیا گیا ہے۔ اگر آپ کو ان خاکوں میں کہیں واقعات کا اعادہ محسوس ہو تو اس کا سبب بس اتنا ہے کہ جب شخصیت ایک ہے تو اُس کے حالات و واقعات بھی وہی رہیں گے۔ ایسے میں اُسے یاد کرتے ہوئے بعض باتیں دہرا دی جائیں تو تعجب کی بات نہیں۔’ ‘ بحوالہ :آپ کی تعریف (خاکے )مرتب: سید امتیاز الدین ، ص: 11
چند خاکوں سے قطع نظر کرکے باقی 39 خاکے ایسے ہیں جو مجتبیٰ حسین کی کسی بھی تصنیف میں شامل نہیں ہے۔ سید امتیاز الدین نے جس محنت ‘ محبت اور دلچسپی سے یہ کام انجام دیا ہے وہ قابل ِ تحسین ہے۔ حالانکہ دیباچہ میں انہوں نے جن نکات اور امور کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ ان کی دیدہ وری ، بے لوث اور سچا ادیب ہونے کی زندہ علامت ہے۔ لکھتے ہیں:۔
"اُن (مجتبیٰ حسین ) کے خاکے اتنے عمدہ ہیں کہ مرتب (سید امتیاز الدین) کی حیثیت بالکل ثانوی اور غیر اہم ہے۔ کتاب بہر حال ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ جس طرح نکاح کے بعد کوئی قاضی کو نہیں پوچھتا بالکل اسی طرح کتاب شروع کرنے کے بعد مرتب کو کوئی یاد نہیں رکھے گا۔"
ایضاً ، ص: 9؂
مسبوق الذکر تصنیف کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے سے یہ اندازہ لگانا بالکل آسان ہے کہ مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا انداز منفرد اور انوکھا ہے۔ وہ نہ کسی بات کو زیادہ پھیلاتے ہیں اور نہ اُس کو تشنہ چھوڑتے ہیں۔ بلکہ جیسی شخصیت ہوتی ہے ویسا ہی وہ موضوع کو اس کے معیار و مقدار کے لحاظ سے کھینچتے ہیں۔ غرض انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اسکے ساتھ مکمل انصاف کیا۔
زیر بحث کتاب میں انہوں نے نہ صرف ادیبوں، فنکاروں ، شاعروں ، محققوں ، نقادوں ، وائس چانسلروں ، سیاستدانوں ، ہم مشربوں اور ادب نوازوں کے خاکے تسوید کیے ہیں بلکہ آرٹسٹ ، موسیقار ، کارٹونسٹ ، ڈاکٹر اور منتظم جیسی شخصیتوں کے مرقعے بھی ترمیم کیے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مجتبیٰ حسین نے تقریباً سماج کے ہر طبقے کے ہر فرد سے اپنا ناتا جوڑا ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں مذہب و مسلک ، ذات و پات، رنگ و نسل ، امیر و غریب ، پست و اعلیٰ اور معروف و غیر معروف کی کوئی قید نہیں ۔ سید امتیاز الدین رقمطراز ہیں:۔
"اِن خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مجتبیٰ حسین کے نگار خانے میں بڑے چھوٹے ، معروف اور غیر معروف کی تخصیص نہیں ہے وہ ہر ایک کی خوبی پر نظر کرتے ہیں اور اُس کو پہلے دل میں جگہ دیتے ہیں پھر کاغذ پر۔" ایضاً، ص: 10
مجتبیٰ حسین کے شخصی خاکوں کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ وہ صاحبِ خاکہ کی شخصیت کا کوئی نمایاں پہلو پکڑ لیتے ہیں اور پھر اس کے گردونواح خاکے کا جال بھی بُنتے ہیں اور اسکی شخصیت کی پرتیں بھی کھولتے ہیں ۔ بلکہ بعض اوقات یہی کلیدی لفظ یا نکتہ شخصیت کی پہچان بھی بن جاتی ہے۔ مثلاً کرشن چندر کی چٹخارے دار زبان اور سلمٰی سے ڈرنا ‘ رشید احمد صدیقی کی علی گڑھ سے محبت ‘ سلام مچھلی شہری کا نام ‘ نثار احمد فاروقی کی علمیت ‘ مشفق خواجہ کی باخبری ‘ عابد علی خان کا سرپرستانہ رویہ’ محبوب حسین جگر کی شفقت ، ظفر پیامی کا سیکولرزم بانی کی نرگسیت ‘ ہاشم علی اختر کی منتظمانہ صلاحیت ، پروین شاکر کی انفرادیت ، قاضی سلیم کی غریب پروری، دلیپ سنگھ کی دوستی، کنول پرشاد کنول کی مربیانہ معصومیت ، شکیلہ بانو بھوپالی کا مجسم شعر ہوجانا’ روڈ امستری کی صفائی پسندی’ سلیمان خطیب کی وطن پرستی، سید حامد کی بردباری، خورشید الاسلام کی عالمانہ بے نیازی’ گوپی چند نارنگ کی شائستگی’ قمر رئیس کی پٹھانیت ‘ شان الحق حقی کی غائب دماغی ،باقر مہدی کی فقرے بازی’ کشور ناہید کا فیمنزم’ رشید حسن خان کی املا نویسی ‘ یوسف ناظم کی بردارانہ خفتگی ، محمد علوی کی کم سخنی ، مخمور سعیدی کی انکساری ، رفعت سروش کی بسیار نویسی و سلیقہ مندی’ شاہد علی خان کا انہماک ‘ محمود مرزا کی موسیقی’ راشد آزر کی خود ساختہ اصول پسندی’ حمایت اللہ کا تعمیری مزاج’ انجم عثمانی کی جذباتیت’ وہاب عندلیب کی دوست نوازی’ کمال الدین احمد کی نماز کی پابندی ‘ حسن چشتی کا تصویر چھپوانے کا شوق’ ڈاکٹر رام پرشاد کی اردو’ عزیز آرٹسٹ کی تٹہیر بے زاری اور آخر میں اپنے خاندان کی ادبی خدمات کا اعادہ ایسے کلیدی اور اہم نکتے ہیں جن کی بنیاد پر خاکوں کی عمارت بھی کھڑی کی گئی ہے اور جن کی بدولت زیرِ تبصرہ شخصیات کے اوصاف و کردار کو سہل ‘ آسان اور شگفتہ انداز میں نمایاں کر دیاہے۔
اس کتاب میں شامل تقریباً تمام شخصیات کا مطالعہ مجتبیٰ حسین نے گہرائی و گیرائی مگرہمدردی اور دوستی کی نظر سے کیا ہے۔ ہمدردی اور دوستی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کی انہوں نے ان کی کمزوریوں کو پسِ منظر میں ڈال کر ان کی خوبیوں کو پیش نظر میں لایا ہیں ۔ بلکہ دونوں کا تذکرہ ایمانداری اور غیر جانبداری سے کیا ہے۔ جہاں خوبیوں کو برہنہ ابھارا ہے وہی خامیوں کو مزاح کے پردے میں بیان کیا ہے۔ تاکہ کسی کے دل کو ٹھیس نہ پہنچ جائیے ۔ کیونکہ سچے، وفادار اور ہمدرد ادیب ہمیشہ اپنا خیال رکھنے سے قبل دوسروں کا خیال رکھتے ہیں۔ یہی ان کا اختصاص ہوتا ہے۔ جو انہیں دوسروں سے ممتاز و مہمیز کرتے ہیں۔ دیکھیں چند اقتباسات جو میرے اس قول کی حمایت میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں۔
٭"آزادؔ صاحب کینسر اور علامہ اقبالؔ دونوں کا ذکر یونہی سرسری اور غیر اہم انداز میں کرتے ہیں۔" (جگن ناتھ آزاد)
بحوالہ :آپ کی تعریف (خاکے ) مرتب سید امتیاز الدین ، ص: 23
٭"کسی شاعر کی صفات گنانی ہوں تو وہ ان ساری صفات کو زحمت دیں گے جن کی تلاش عموماً پیغمبروں میں کی جاتی ہے …… شاعرکا کلام اتنا بڑا نہیں ہوتا جتنی کہ ان کی تمہید ہوتی ہے۔ غرض مونچھوں کو داڑھی سے بڑھا دیتے ہیں۔" (رضیہ سجاد ظہیر) ایضاً، ص:28
٭"جس دن اخبار میں انہیں پدم شری ملنے کی خبر شائع ہوئی’ اس دن میرے ایک پنجابی دوست نے’ جو اردو شاعری سے واقف نہیں ہے’ مجھ سے کہا تھا "یار! اس بار حکومت نے کسی مچھلی کو بھی پدم شری ا عزاز دیا ہے۔ آخر ایسی کیا بات ہوگی اس مچھلی میں ؟" (سلام مچھلی شہری) ایضاً، ص: 55
٭"سیکولرزم کی بات ہر کوئی کرتا ہے لیکن محمد علی صاحب سیکولرزم کا جیتا جاگتا پیکر تھے ۔ ان کے عمل کو دیکھ کر سیکولرزم کے معنی سمجھ میں آتے تھے۔" (محمد علی)
ایضاً ، ص105
٭"ہماری اکثر شاعرات ترنّم سے کلام نہیں سناتیں بلکہ اپنے کلام سے ترنّم سناتی ہیں۔" (پروین ؔ شاکر) ایضاً، ص: 107
٭"پیشہ کے اعتبار سے وہ وکیل تھے لیکن ہم نے اُنہیں کبھی قانون کی پریکٹس کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ انہوں نے قانون کی تعلیم غالباً اس لیے حاصل کی تھی کہ خود کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کر سکیں۔ نتیجہ میں ساری عمر قانون کے دائرے میں رہے۔" (قاضی سلیم) ایضاً، ص:116
٭"ہمارے یہاں اکثریت ایسے شاعروں و فنکاروں کی ہے جن کے مرنے سے ادب میں اتنا خلا پیدا نہیں ہوتا جتنا کہ ان کے زندہ رہنے سے پیدا ہوتا ہے…… ہمارے ہاں ادب میں خلا پیدا کرنے کو ہمیشہ ادب پیدا کرنے سے کہیں زیادہ اہم، ضروری اور مستحسن کام سمجھا گیا ہے۔" (دلاور فگار) ایضاً ص: 130
٭"دو مہینوں سے آپ کا نمک کھا رہا ہوں اور آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ نمک کتنی بُری چیز ہے۔ یہ اتنی بُری چیز ہے کہ مجھے آپ کے شعر بھی اچھے لگنے لگے ہیں۔ میں اپنی ادبی دیانت داری کومجروح نہیں کرنا چاہتا۔" (راج نارائن رازؔ) ایضاً، ص: 135
٭"تبسّم کو قہقہے میں تبدیل نہیں ہونے دیتے کیونکہ ہنسی کے معاملہ میں وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے کے قائل نہیں ہیں ۔ کبھی غفلت میں خلاف ورزی ہو جائے تو یہ ایک الگ بات ہے۔" (سیّد حامد) ایضاً، ص:156
٭"موجودہ دور میں مادری زبان کا مطلب بدل گیا ہے۔ اب مادری زبان اس کو کہتے ہیں جو ماں کو تو آئے لیکن بیٹے کو نہ آئے"(گوپی چند نارنگ )
ایضاً،ص: 177
٭"رشید حسن خان کی علمیت خود ایک ایسا عہدہ ہے جس کے آگے بڑے بڑے بھی پانی بھرتے ہیں۔" (رشید حسن خان) ایضاً، ص: 211
٭"ایک بار میں نے ایک بزرگ خاتون کے سامنے وٹھل راؤ کے گانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا "وٹھل راؤ کے گلے میں بڑا سوز اور بڑا درد ہے۔ "خاتون نے با ساختہ کہا " بیٹا ! یہ وٹھل راؤ کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنا علاج کیوں نہیں کراتا ۔گلے کا درد کوئی اچھی چیز تھوڑا ہی ہوتا ہے۔" (حمایت اللہ ) ایضاً ، ص: 265
٭"جو لوگ حسن چشتی کی تصویروں کی اشاعت پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں انہوں نے یا تو حسن چشتی کو نہیں دیکھا یا پھر خود آئینہ میں اپنی شکل نہیں دیکھی۔ وہ ان شاعروں میں سے ہیں جن کا نہ صرف کلام قابلِ اشاعت ہوتا ہے بلکہ تصویر بھی قابلِ اشاعت ہوتی ہے۔" (حسن چشتی ) ایضاً، ص:293
اقتباسات کا یہ سلسلہ موقوف کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ "آپ کی تعریف" کے ہر صفحے اور ہر خاکے سے کوئی نہ کوئی جملہ ، فقرہ اور واقعہ نقل کرنے کے لیے منتخب کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مجتبیٰ حسین کے مزاحیہ خاکوں کا تعلق ہے اُن میں آمد ہی آمد ہے ۔ اسلئے ان کی تحریر سے قاری و سامع کو اکتاہٹ کبھی نہیں ہوئی اور نہ ہی آپ ان کی تحریر کو کسی بھی صورت میں پھکڑ پن کے زمرے میں شامل کرسکتے ہیں۔ بلکہ ابتدائی شگفتگی اور خوش دلی نیز شوخی آخر تک قائم رہتی ہے۔ ان کے موضوعات میں بوقلمونی ہے اور ان کو بڑھ کر مسکرانے کے بعد اکثر غور و فکر بھی کرنا پڑتا ہے۔
مجتبیٰ حسین دراصل اپنے خاکوں میں آزادہ روی کے قائل ہیں ۔ اس لئے ان کے خاکوں میں نہ بوجھل پن کا احساس ہوتا ہے اور نہ واقعات کے توافق کا ۔ بلکہ ہر خاکہ اپنے انداز ، اپنی لطافت ، اپنے اسلوب ، اپنی مٹھاس ، اپنی طرز اور اپنے رنگ ڈھنگ کے اعتبار سے دوسرے خاکوں سے مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔ بقول ڈاکٹر مظفر حنفی:۔
" وہ اپنے خاکوں میں آزادہ روی کے قائل ہیں’ ان کا خاکہ اپنے فطری انداز میں آگے بڑھتا اور متعلقہ شخصیت کی کم و پیش تمام بنیاد ی خصوصیات کا احاطہ کرتا ہے اور یہی سبب ہے کہ کوئی خاکہ کسی دوسرے خاکے سے مماثل نہیں ہے ۔ ظرافت مجتبیٰ کی گھٹی میں پڑی ہے اس لیے اندازِ بیان کو شگفتہ ہونا ہی چاہیے ۔ عام طور پر مزاح نگار سنجیدہ مسائل کو اپنی طرزِ ادا سے سطحی بنا دیتے ہیں۔ مجتبیٰ کا معاملہ دوسرا ہے۔ ان کی شگفتگی بات کو زیادہ پہلودار اور بلیغ بناتی ہے۔" بحوالہ: مجتبیٰ حسین بحیثیت خاکہ نگار ، ڈاکٹر مظفر حنفی ، ص: 92 ، ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر) جلد نمبر20
مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں پائے جانے والے مزاح اور ظرافت کے نئے نئے چیزوں نے مزید خامہ فرسائی پر مجبور کردیا۔ ان کے خاکوں کے مزاحیہ اسلوب میں تشبیہ ، استعارہ، تجنیس ، تضاد اور مبالغہ وغیرہ کی پُر کیف اور دلآویز شکلیں ملتی ہیں۔ اس کے علاو ہ محاوروں ، کہاوتوں ، مصرعوں اور شعروں میں تحریف و تضمین بھی کرتے ہیں۔ لیکن اسکا انداز اتنا دلچسپ ، پیارا اور نرالہ ہوتا ہے جو نہ تو بے معنی اور نہ ہی گراں گذرتا ہے بلکہ اس سے پُر لطف شوخی، معیاری ظرافت اور اعلیٰ مزاج پیدا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے بعض جگہ مشہور و معروف فلموں کے ڈائیلاگ اور گیتوں کے مکھڑے / ٹکڑے بھی داخل کرکے اپنی تحریر میں چار چاند لگا دیئے ۔
جہاں تک اردو محاورں کا تعلق ہے اگر انہیں پتھر کی لکیر بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ بظاہر ان میں کسی تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اور اگر ان میں ردوبدل کیا جائے تو تحریر کو ادب سے خارج ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ لیکن مجتبیٰ حسین پتھر کی لکیروں کو بھی نہ صرف توڑ پھوڑ کے رکھ دیتے ہیں بلکہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً:۔
٭"……ہر کوشش میں کسی حسینہ سے آنکھیں "تین "ہوگئیں ۔ چار اس لیے نہیں ہوئیں کہ نظریں ملتے ہی حسینہ کی ایک آنکھ بند ہو جاتی تھی۔"
(اعجاز صدیقی ۔ اردو کا آدمی) بحوالہ : آدمی نامہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 33
"آنکھیں چار ہونا" اصلی محاورہ ہے۔ اس کے معنی : ایک دوسرے کے سامنے ہونا ۔ مقابل ہونا۔ رو برو ہونا ۔ دوچار ہونا ۔ ملاقی ہونا ۔ محبت ہونا (فیروز الغات ۔ ص: 42)۔ لیکن مجتبیٰ حسین نے اپنی ضرورت کے مطابق اس محاورے کو دلچسپ اور دلکش انداز میں استعمال کر کے مزاح بھی پیدا کیا اور اپنی بات بھی واضح کی ہے دوسری مثال: ۔
٭"کمار پاشی اپنی آوارگیوں اور بے اعتدالیوں کے لمبے سفر کے بعد پھر اپنے گھر آنگن میں واپس آئے ہیں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے بلکہ کمار پاشی کہتے ہیں۔" (کمار پاشی) بحوالہ :چہرہ در چہرہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 92
"صبح کا بھولا شام کو آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے " اس محاورہ کے معنی : اگر آدمی خرابی اُٹھا کر جلد سنور جائے یا ایک وقت کے کام کو دوسرے وقت میں کرے تو وہ قابلِ مواخذہ نہیں ہے۔ (فیروزالغات ۔ص: 858)
مجتبیٰ حسین نے اس محاورے کی تحریف جس دلکش اور دلفریب انداز میں کی۔ اس سے نہ صرف محاورے کی سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس میں ایک موثر مضمک پہلو بھی اُبھر آیا ہے۔
محاوروں کے ظریفانہ استعمال کی ایک اور موثر مثال مخمور سعیدیؔ کے خاکے میں ملتی ہے۔ ان کے خاکے میں "ہاتھی جھولنا" (معنی: دروازے پر ہاتھی بندھا ہونا ۔ کنایتاً بہت دولت مند ہونا۔ فیروز الغات ۔ ص: 1427) کے محاورے کو کچھ اسطرح استعمال کیا ہے۔ جس سے بے ساختہ ہنسی پھوٹ پڑتی ہے۔ مثال:۔
٭"میں مخمور کے ماضی سے واقف نہیں ہوں ۔ سنا ہے کہ ٹونک میں ان کے گھر پر ہاتھی جھولا کرتے تھے۔ اب ان کے اشعار پر سامعین جھوما کرتے ہیں ۔ مگر مخمور ؔ کو ہاتھی اور سامعین کے فرق کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ہاتھی سوچ سمجھ کر جھولتاہے۔ اور سامعین سوچے سمجھے بغیر ہی جھومتے ہیں۔ " آدمی نامہ ، مجتبیٰ حسین ، ص: 162
(اس اقتباس میں "ہاتھی جھومنا " کے محاورے کا استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی : کسی کے پاس ہاتھی ہونا ، گھر میں کنواری لڑکی کا شادی کے لائق ہونا …… فیروز الغات ، ص: 1427)
(مخمور سعیدی۔ بحیثیت مجموعی آدمی)
محاورں کے علاوہ مجتبیٰ حسین کے مزاحیہ خاکوں میں تشبیہات کے بر محل استعمال کی وافر مثالیں ملتی ہیں۔ کبھی وہ کسی غیر مرئی چیز سے تشبیہ دے کرکسی داخلی احساس یا تجربے کی تجسیم کر دیتے ہیں اور کبھی تشبیہ کو اتنا پھیلا دیتے ہیں کہ وہ تمثیل بن جاتی ہے۔ چند متفرق فقرے میں تشبیہ کے نمونے ملاحظہ فرمائیں:۔
٭"انہوں نے مجھ سے کچھ اس طرح مصافحہ کیا جیسے بجلی کے تار کو چھونے جا رہے ہوں۔" (عمیق حنفی۔ آدمی در آدمی) بحوالہ :آدمی نامہ ، مجتبیٰ حسین ، ص:89
٭"باقہر مہدی اپنی پسندیدہ کتابوں کے درمیان ایک جزیرے کی طرح بیٹھے ہیں۔" (باقہر مہدی)
بحوالہ :آپ کی تعریف (خاکے) مرتب: سید امتیاز الدین ، ص: 204
٭"اس دن پتہ چلا کہ ان کا غصّہ جھاگ کی طرح ہے کہ اِدھر اُبل پڑا اور اُدھر دیکھتے ہی دیکھتے دب گیا۔" (کنور مہندر سنگھ بیدی سحر)
بحوالہ:سو ہے وہ بھی آدمی ، مجتبیٰ حسین ، ص: 49
اس کے علاوہ نہ صرف مجتبیٰ حسین نے بلکہ تقریباً اردو کے تمام طنز و مزاح نگاروں نے اردو کے شعروں اور مصرعوں میں تحریف اور تضمین کر کے بڑے لطیف مفاہیم پیدا کیے ہیں۔ لیکن یہاں بھی مجتبیٰ حسین نے ایک الگ راستہ اختیار کر کے اپنی دیدہ وری ، زبان دانی اور وسیع مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے مصرعوں اور شعروں کو نثری شکل دے کے اس طرح کھپا دیاکہ وہ شہد و شکر ہوگئے ۔ حالانکہ یہ بڑا مشکل اور نازک کام ہے مگر مجتبیٰ حسین نے اپنی ذہانت سے اسکو آسان بنا دیا۔ ملاحظہ فرمائیں چند مثالیں:۔
٭"اقبالؔ کے وہ سچے عاشق ہیں’ تبھی تو ہر دم اپنی خودی کو اتنا بلند کیے رکھتے ہیں کہ ہم جیسوں کو اُن سے گڑ گڑاکر پوچھنا پڑتا ہے کہ آخر ان کی رضا کیا ہے۔" (جگن ناتھ آزاد) بحوالہ :آپ کی تعریف (خاکے) مرتب: سید امتیازالدین ، ص: 22
٭"قاضی سلیم بولے۔ "تمہیں اب بھی مذاق سوجھ رہا ہے۔ تم ان دونوں کو سنبھالو میں اتنی دیر میں دروازے کھڑکیاں بند کر تا ہوں تاکہ رونے کی آواز باہر نہ جائے ۔ "خیر بڑی دیر بعد دونوں قابو میں آئے جب یہ ٹک روتے روتے سوگئے تو میں رات کے پچھلے پہر اپنے گھر چلا گیا۔" (مغنی تبسم)
بحوالہ: مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں (جلد دوم) مرتب: حسن چشتی ، ص: 300
فیضؔ کے شعروں اور مصرعوں کو مجتبیٰ حسین نثری روپ دے کر فیضؔ کا تذکرہ اسطرح کرتے ہیں:۔
٭"پھر وہ لڑکی وہاں سے غائب ہوئی تو کہیں نظر نہیں آئی اور میں کوئے یار سے پھر سوئے دار چلا آیا۔ " (فیض احمد فیضؔ)
بحوالہ:سو ہے وہ بھی آدمی ، مجتبیٰ حسین ، ص: 11
٭"فیض ؔ سے پہلے درِ قفس پر صبا پیغام لے لر کہاں کھڑی ہوتی تھی اور تو اور اپنی محبوب کو پہلی سی محبت نہ دینے کا خیال کسے آتا تھا۔ کسے پتہ تھا کہ وصل کی راحت کے سوا زمانے میں اور بھی راحتیں ہیں۔" (فیض احمد فیضؔ) ایضاً، ص: 12
مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کی یہ چند مثالیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ انہوں نے اپنے خاکوں میں مزاحیوں کے ایسے حربوں سے کام لیا ہے جن سے خوش طبعی اور شگفتگی کی ایک ہموار کیفیت ابتداء سے آخر تک قائم رہتی ہے۔ مجتبیٰ حسین کے خاکوں کی اِن خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے احمد جمال پاشا لکھتے ہیں:۔
"واہ! واہ! کیا تشبیہیں ، استعارے ، رعایتیں ، کنائے، اور تلمیحات استعمال کی ہیں۔ میری جانب سے اس فنکارانہ ، قہقہہ بار، شاہکار پر بھرپور ، مبارکباد قبول کرو ۔ "کمار پاشی "اگر اپنی شاعری سے زندہ نہ رہ سکے تب بھی مجتبیٰ حسین کے خاکے سے زندہ رہیں گے۔"
بحوالہ :خط ، احمد جمال پاشا ، ص: 424، مطبوعہ ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد (مجتبیٰ حسین نمبر ) جلد نمبر: 20
شخصی خاکوں کے علاوہ مجتبیٰ حسین نے کچھ غیر شخصی خاکے بھی تحریر کیے ہیں۔ جن مین "حیدر آباد کا جو ذکر کیا" (الغرض 1987ء) او ر "یونیسکو کی چھتری" (جاپاں چلو، جاپاں چلو 1983ء) بہت عمدہ ہے۔ جن کی مثال شاید ہی اردو ادب میں ملے گی۔ ان دونوں خاکوں میں مجتبیٰ حسین نے لفظوں کے ذریعے ایسی چلتی پھرتی اور منہ بولتی تصویر کھینچی ہے جو مصّور اور بُت گر دونوں کو مات دے سکتی ہے۔ بقول میر انیسؔ ؂
قلمِ فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ شمعِ تصویر پہ گرنے لگیں آآ کے پتنگ
صاف حیرت زدہ مانی ہو تو بہزاد ہو دنگ خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں صفِ جنگ
ایسی جاندار اور متحرک تصویریں واقعی غیر شخصی خاکوں کے وسیع امکانات کا پتہ دیتے ہیں۔ "حیدر آباد کا جو ذکر کیا" سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:۔
٭"اِدھر چند برسوں سے جب بھی ہم حیدر آباد آتے ہیں تو حضرت جگر مراد آبادی کی طرح ہمیں بھی یہاں کی ہر شئے میں کسی شے کی کمی نظر آتی ہے۔ حیدر آباد وہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اب حیدر آباد میں ہمیں خود حیدر آباد کی کمی نظر آتی ہے۔" بحوالہ :الغرض ، مجتبیٰ حسین ، ص: 59
"حیدر آبادکا جو ذکر کیا " بھی اپنی نظیر آپ ہے۔ لیکن " یونیسکو کی چھتری " اس سے بھی زیادہ عمدہ ، جاندار اور جاذبِ نظر ہے۔ اس کی شروعات ان جملوں سے ہوتی ہے:۔
٭"وہ ہمیں ٹوکیو میں دوسرے دن ملی اور ہم نے اسی دن اپنی بیوی کو خط لکھا "وہ ہمیں آج ملی ہے۔ دیکھنے میں کچھ خاص نہیں مگر پھر بھی اچھی ہے۔ اب ہمیں اسی کی رفاقت میں ٹوکیو کے شب وروز گزارنے ہیں اور اسی کے سائے میں رہنا ہے۔" بحوالہ : مجتبیٰ حسین کے سفر نامے ، مرتب: حسن چشتی ، ص: 69
یہ خط پڑھ کر ان کی بیوی نہ صرف حیران و پریشان ہوئی ۔ بلکہ مجتبیٰ حسین کو اس کی سزا بھی بھگتنا پڑا۔ کیونکہ انہوں نے اس خط میں "چھتری" کا لفظ نہ لکھ کر غلط فہمی پیدا کردی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بیوی نے اس کا رشتہ "چھتری"کے بجائے کسی "حسینہ " سے جوڑ لیا۔ اور مجتبیٰ حسین سے بہت ناراض ہو کر کہتی ہے:۔
٭"اے ہے کچھ تو اپنی عمر کا لحاظ کرو۔ اب تمہیں کون سی غیر مستعمل چیز ملے گی۔ مرد کی ذات ہی ایسی ہوتی ہے۔ رسّی جل جاتی ہے پر بل نہیں جاتا" پھر اپنے لہجے میں غمگینی اور رقت طاری کرتے ہوئے بولیں" خدا کے لیے راہِ راست پر آجاؤ ۔ تمہاری اولاد اب شادی کے قابل ہو رہی ہے اور تمہیں اب بھی نئی نئی چھتریوں کی تلاش ہے۔" تم نے کہا" تمہارا الزام بالکل غلط ہے۔ یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے خط میں جس کا ذکر کیا ہے وہ سچ مچ چھتری ہے۔ کہو تو تمہارے سر کی قسم کھاتا ہوں جسے میں نے ہمیشہ عزیز رکھا ہے۔"
بولیں " اچھا تو تم میرے سر کی عزت کرتے ہو۔ تبھی تو میرے سر پر ایک نئی چھتری لا رہے ہو۔" بحوالہ :مجتبیٰ حسین کے سفر نامے ، مرتب: حسن چشتی ، ص: 70۔ 71
مجتبیٰ حسین نے ایک لفظ نہ لکھنے سے کتنا مزاح پیدا کیا ہے۔ اور سماج کے اُس پہلو پر روشنی ڈالی ہے جب میاں بیوی کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ مجتبیٰ حسین کہتے ہیں کہ چھتری نے خواہ مخواہ ہمارے درمیان دراڑ پیدا کردی۔ ورنہ ہمیں اپنی بیوی سے اپنے وطن ، اپنے شہر اور اپنے گھر کا حال پوچھنا تھا۔ لیکن معمولی سی غلط فہمی سے بیوی نے دھڑ سے فون رکھدیا، اور میں کچھ کہنے سے قاصر رہا۔ بیوی کے رویہ پر مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں:۔
"بیوی پر سخت غصہ بھی آیا کہ محترمہ کی اولاد اب شادی کے قابل ہوگئی ہے لیکن ا ب تک ہم پر شک کرنے کی عاد ت نہیں گئی۔" ایضاً، ص:71
یہ چھتری مجتبیٰ حسین کی یونیسکو کے سمینار میں مس جو نے سوپنی تھی اور کہا کہ یہاں کا موسم بڑا غیر یقینی یعنی کسی بھی وقت بارش ہو سکتی ہے۔ اس لئے چھتری کو اپنے پاس رکھیئے۔ حالانکہ مجتبیٰ حسین نے چھتری لینے سے انکار کیا۔ لکھتے ہیں:۔
"چھتری کو ہر جگہ اپنے ساتھ ٹنگائے پھرنا ہمیں پسند نہیں ۔ چھتری تو پھر چھتری ہے ہم تو اپنی بیوی کو کبھی اپنے ساتھ لے جانے کے روادار نہیں ہیں۔’ ‘
مس جو نے ہنس کر کہا" 35 دن اس چھتری کو اپنے ساتھ رکھئے ۔ ہندوستا ن جانے کے بعد آپ شاید اپنی بیوی کو چھتری کے نعم البدل کے طور پر رکھنے لگ جائیں گے۔
ہم نے کہا" آگے کا حال ہم نہیں جانتے ۔ چونکہ یہ یونیسکو کی ملکیت ہے اسی لیے اس چھتری کی حفاظت کرنے کی پوری کوشش کریں گے ۔ بیوی کی طرح نہیں محبوبہ کی طرح دل و جان سے عزیز رکھیں گے۔" ایضاً، ص: 72
اس چھتری کی وجہ سے مجتبیٰ حسین کو نہ صرف مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑا بلکہ انہیں بہت وقت بھی ضائع ہوا۔ لیکن اس کے توسط سے انہیں ایک ہی مقام کو دو مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی دفعہ اس مقام کو دیکھنے جاتے تھے اور دوسری مرتبہ اس مقام سے اپنی بھولی ہوئی چھتری کو واپس لانے جاتے تھے۔ ہر جگہ انہیں چھتری بھول جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جاپان کی زنانہ یونیورسٹی میں بھی اس کی خاطر گئے:۔
"زنانہ یونیورسٹی سے اپنی بھولی ہوئی چھتری کو واپس لانے کے لئے ہم جس قدر خوشی خوشی گئے تھے کہیں اور نہیں گئے۔"
بحوالہ: مجتبیٰ حسین کے سفر نامے ، مرتب: حسن چشتی ، ص:73۔ 74
مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں کہ مجھے اپنی غائب دماغی اور کمزور حافظے کے باعث بہت زیاں اٹھانا پڑا ۔ لیکن مجھ پر ہی کیا موقوف ایک بزرگ بھی اپنی چھتری کو "ہالی ڈے" کمرے میں بھول چکے تھے اور جب چھتر ی کو واپس حاصل کرنے کے لیے وہاں دوبارہ گئے۔ تو دیکھا کہ ان کے سابقہ کمرے پر ایک نوجوان جوڑی نے قبضہ کر لیا ہے۔ لیکن بزرگ بہت چالاک اور دیدہ ور تھے۔ اسی لئے اپنے سابقہ کمرے کے دروازے پر کان رکھ کر جوڑی کی گفتگو سنتے رہے۔ اس وقت لڑکا لڑکی سے پوچھ رہا تھا:
"ڈارلنگ! یہ گھنیری زلفیں کس کی ہیں؟"
لڑکی بولی"تمہاری ہیں"
"اور یہ ہرنی جیسی آنکھیں کس کی ہیں؟
لڑکی بولی "یہ بھی تمہاری ہیں "
"اور یہ موتی جیسے دانت؟"
لڑکی بولی "یہ بھی تمہارے ہیں"
ان مکالموں کو سن کر بڑے میاں پریشان ہوگئے اور چیخ کر بولے "میاں برخوددار! جب معاملہ چھتری تک پہنچے تو خیال رہے کہ یہ تمہاری نہیں میری ہے۔" ایضاً، ص: 74
غرض اس بے جان چیز کا مجتبیٰ حسین نے اتنا جاندارا ور متحرک خاکہ کھینچا ہے کہ قاری کے درمیان خاکہ نگار کی شخصیت حائل نہیں رہتی بلکہ قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ خود اس چھتری کو ان جگہوں پر بھول گیا تھا۔ اس خاکے میں جگہ جگہ پر مجتبیٰ حسین کی شوخ طبعی اور گل افشانی نے ظرافت کے زعفران زار کھلائے ہیں۔ اس خاکے میں ایک جملہ کیا ایک لفظ بھی بیکار نہیں’ ابتداء سے اختتام تک شوخی’ شگفتگی ‘ تازگی اورلطافت برقرار رہتی ہے۔ مجتبیٰ حسین کی مزاحیہ خاکہ نگاری ‘ جیسے بسیط موضوع پر خامہ فرسائی کرنے کے بعد جب میں اس مضمون کو پلٹ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اسمیں بہت سے طویل اقتباسات آگئے ہیں ۔ انہیں کم کرنا چاہتا ہوں تو قلم نہ صرف کسی جملے یا اقتباس کو کاٹنے سے انکار کرتا ہے بلکہ دوسرے متعدد اقتباسات بھی میری طرف ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں بھی کہیں نہ کہیں کھپا دو’ مگر میں ان سے چشم پوشی کر کے گذر جاتا ہوں۔
بحیثیت مجموعی مجتبیٰ حسین ایسے فنکار اور تخلیق کار ہیں۔ جنہوں نے بیس ، تیس یا پچاس ہی نہیں بلکہ سینکڑوں شخصیات کے خاکے لکھے ۔ ان سینکڑوں شخصیات کے خاکے تسوید کرتے وقت اپنے قلم کو کینہ، بغض، عناد ، پھکڑپن ، ابتذال ، مسخراپن، طعن ، بدنیتی ، جانبداری ، بے ایمانی اور دل آزاری جیسے رکیک اور ادنیٰ جذبوں سے مبرا و منزہ رکھنا مجتبیٰ حسین کا ایسا عمدہ کارنامہ ہیں۔ جو دنیا ئے ادب میں اپنی نظیر آپ ہے۔ کیونکہ یہ فن توازن’سنجیدگی’ ایمانداری اورغیرجانبداری کا متقا ضی ہے۔ ان کی ایک اور صفت یہ ہے کہ وہ نہ کبھی پابند موضوع رہے اور نہ انہیں موضوعات کا قحط پڑھ گیا۔ بلکہ ان کے یہاں تنوع و بوقلمونی ہے، جدت و ندرت ہے، رنگارنگی و دلآویزی ہے۔ یہی ان کی انفرادی شان اور قلندرانہ آن بان ہے۔ وہ چلتی پھرتی زندگی کی ہر بات ، ہر ادا، ہر بانکپن اور ہر کیفیت کو اپنے زد میں لے لیتے ہیں اور بات سے بات پیدا کرتے ہیں۔ اُن کے خاکے ایک بہتے ہوئے آبشار اور ایک چلتی ہوئی فلم کی ریل (Reel ) کی مانند ہیں۔ مختصراً مجتبیٰ حسین اردو ادب کے اعلیٰ فنکار اور تخلیق کار اور عظیم ترین مزاحیہ خاکہ نگار ہیں۔ وہ دنیائے ادب میں ایک ایسے بلند و بر تر منصب پر پہنچ چکے ہیں۔ کہ ان کے فن ااور شخصیت کو قومی و بین الاقوامی سطح پر روشناس اور متعارف ہونے کے لیے قطعی اورکسی سہارے کی ضرورت باقی نہیں ۔ بقول پروفیسر یوسف سر مست :۔
"علاء الدین خلجی اور مجتبیٰ حسین میں بڑی مماثلت ہے۔ خلجی نے بزو رشمشیر دکن کو فتح کر لیا تھا اور مجتبیٰ نے بزور قلم شمالی ہند کو فتح کر لیا ہے۔ مگر مزاح نگاری کے اس بے تاج بادشاہ کا پایہ تخت دہلی بھی ہے اور حیدر آباد بھی۔ مزاح نگاری کی جگہ خاکہ نگاری کا بھی انہیں بے تاج بادشاہ کہنا چاہیے اس لئے کہ ہمارے اس خاکہ نگار کی "قلمرو " جتنی وسیع ہے اتنی کسی بھی اردو کے خاکہ نگار کی نہیں ہے۔"
بحوالہ: مجتبیٰ حسین کی تعریف ، پروفیسر یوسف سرمت ، ص: 55، ماہنامہ کتاب نما دہلی ، جلد نمبر: 46 ، شمارہ نمبر5

***
Irshad Afaqui
Assistant Professor, Deptt. of Urdu, Govt. Degree College Sopore
Kashmir-193201
Mob.: 09622746499
ارشاد آفاقی

Khaka-nigari by Mujtaba Hussain. Article: Irshad Afaqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں