ہر دور اور ہر زمانے میں مسلم سلاطین اور فرمانرواؤں نے علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ جگہ جگہ تعلیمی ادارے، درسگاہیں اور کتب خانے تعمیر کئے جہاں سے ہر فن کے ممتاز علماء، محفقین اور ریسرچ اسکالرز پیدا ہوئے جنہوں نے ایسی ایسی معرکۃ الآرا کتابیں تصنیف و تالیف کیں جن کے اصول و مبادی پر عمل کر کے مغربی ملکوں نے ترقی حاصل کی۔
مورخین کا کہنا ہے کہ خلافت عباسیہ میں سب سے پہلے کتب خانہ قائم کیا گیا تھا جہاں ہزاروں کی تعداد میں نادر و نایاب کتابیں موجود تھیں۔ جب مامون نے خلافت و سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے اس لائبریری کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی۔ یہ بڑے علم دوست حکمراں تھے۔ علماء و فضلاء کی بڑی قدر کرتے ، ان کی خدمات کو سراہتے۔
انہوں نے یونانی اور سریانی زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرانے کا حکم صادر کیا۔ اس کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور ملک کے طول وعرض سے تجربہ کار مترجمین کو جمع کر کے غیر ملکی زبانوں سے عربی میں اہم کتابوں کا ترجمہ کروایا۔ اس طرح "بیت الحکمہ" میں نادر و نایاب کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا اور محققین و ریسرچ اسکالروں کا مرکز بن گیا۔ اندرون و بیرون ملک کے محققین و ریسرچ اسکالروں کے علاوہ اساتذہ و طلبہ یہاں آتے اور اس لائبریری سے استفادہ کرتے۔ چوتھی صدی ہجری کے اواخر تک یہ لائبریری مرجع کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس کے بعد فاطی حکمرانوں نے مصر میں عظیم الشان لائبریری تعمیر کی، جس کا نام "خزانہ الكتب" رکھا گیا۔ اس وقت مسلم ملکوں میں اس سے بڑا کتب خانہ موجود نہیں تھا۔ اس میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں موجود تھیں۔ فاطمی حکومت کے سقوط اور ایوبی سلطنت کے قیام کے بعد یہ لائبریری فروخت کر دی گئی تھی تاہم فروخت ہونے سے قبل معروف ادیب ومورخ القاضی الفاضل نے تقریباً ایک لاکھ کتابیں لائبریری سے حاصل کر کے اپنے مدرسہ "الفاضلیہ" کے کتب خانہ میں منتقل کر دی تھیں۔
ایوبی اور مملوکی دور میں شام و مصر کے بیشتر علاقوں میں تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ کتب خانے تعمیر کئے گئے۔ کتب خانوں کی دیکھ بھال کیلئے علیحدہ شعبے قائم کئے گئے۔ ملازمین کا تقرر کیا گیا، کتابوں سے استفادہ کیلئے قواعد و ضوابط وضع کئے گئے اور اخراجات کیلئے اراضی وقف کی گئیں۔ تاہم 18 ویں صدی عیسوی کے اواخر میں جب فرانس نے مصر پر حملہ کیا تو اس کی افواج یہاں کے کتب خانوں سے بے شمار مخطوطات چراکر پیرس لے گئیں جس سے مصری اسکالروں کو کافی تشویش لاحق ہوئی۔
ان لوگوں نے حکمرانوں سے احتجاج کیا اور نادر و نایاب کتابوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا پرزور مطالبہ کیا۔ اس وقت مصر میں کاپی رائٹ کا کوئی نظام نہیں تھا۔ غیرملکی تاجر آتے اور کتب خانوں کے مالکوں سے رابطہ کر کے نادر و نایاب کتابیں خرید کر اپنے ملک لے جاتے۔ یہ صورتحال دیکھ کر محمد علی پاشا نے کاپی رائٹ کا نظام قائم کیا اور الخدیوی بادشاہ اسماعیل سے مل کر ایک عظیم الشان لائبریری تعمیر کرنے کا پروگرام بنایا جسے 1265ھ مطابق 1849ء میں مکمل کر لیا گیا۔ اس کا نام "دار الكتب المصریہ" رکھا گیا۔ (موجودہ نام: دار الكتب والوثائق القومية)
ملک کے طول و عرض سے نادر و نایاب کتابیں جمع کر کے اس میں رکھی گئیں۔ اس طرح اس کی کتابوں کی تعداد 20 ہزار تک بہنچ گئی تھی جس میں تین ہزار 458 مخطوطات اور نادر کتابیں تھیں۔
جمادی الاول 1287ھ مطابق 30/جون 1870ء میں اس کتب خانے سے استفادہ کرنے کا مکمل نظام مرتب کیا گیا، جبکہ اسی سال ماہ رجب میں افادہ عام کیلئے اسے کھول دیا گیا جس سے لوگوں کو استفادہ کرنے میں کافی سہولت ہو گئی۔ بعد میں اس عظیم کتب خانے میں توسیع کی گئی اور متعدد کتب خانوں کو اس میں ضم کر دیا گیا۔
اس وقت اس کتب خانے میں 60 ہزار مخطوطات، قدیم زمانے کے بے شمار اسلامی سکے اور کتبات کے علاوہ سونے کے پانی سے آراستہ مشہور خطاطوں کے ہاتھوں سے تحریر شدہ متعدد کلام پاک موجود ہیں۔
اس کتب خانے کے تحت 1329 ھ مطابق 1911ء میں کئی مخطوطہ کتابوں کو ایڈٹ کر کے شائع کیا ہے جس میں:
- الاصنام لابن الکلبی
- التاج للجاحظ
- مسالک الابصار لابن فضل اللہ العمری
نیز القلقشندی کی صبح الاعشی ، النویری کی نہایۃ الادب، ابن تغری بردی کی النجوم الزاہرة ، ابوالفرج الاصبہانی کی الاغانی اور تفسیر القرطبی بھی شائع کی گئی ہے۔
***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 23/مئی 2008۔
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 23/مئی 2008۔
Library - the center of attention of Muslim Empires
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں