دل میں ایک خلش سی باقی ہے - ابرار علوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-01

دل میں ایک خلش سی باقی ہے - ابرار علوی

abrar-alvi

ابرار علوی (پ: یکم/جولائی 1927 - م: 18/نومبر 2009)
بالی ووڈ فلمی صنعت کے ایسے فلم اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نگار، ہدایتکار اور اداکار رہے ہیں جو آنجہانی گرودت کی ٹیم کا ایک اہم حصہ تھے۔ گرودت کی تاریخی فلمیں پیاسا، کاغذ کے پھول، صاحب بی بی اور غلام اور آرپار ابرار علوی کے ہی سحر انگیز قلم کا کمال تھیں۔ اپنے اس سوانحی مضمون میں انہوں نے چند انکشافات کیے ہیں، جو ابرار علوی کے 93 ویں یوم پیدائش پر نذرِ قارئین ہیں۔

ویسے تو اجودھیا (فیض آباد) کے رہنے والے میرے والد اس وقت کے یوت مال ضلع میں پولیس پروزیکیوٹر تھے اور ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ میری پیدائش تو اجودھیا میں ہوئی لیکن والد کی نوکری کے دوران بچپن کا زیادہ تر وقت ہوشنگ آباد، اکولا جیسے شہروں میں گزرا۔ ناگپور میں تعلیم حاصل کی جہاں شوقیہ بطور اسکرپٹ رائٹر اور اداکار میں ریڈیو، ڈراموں سے منسلک رہا اور کالج کے لیے بھی کئی ڈرامے لکھے۔ ایم اے ایل ایل بی کرنے کے بعد 1951ء میں اداکار بننے کے لیے میں ممبئی چلا آیا اور کالج کے اپنے سینئر اور مشہور اسٹیج ماسٹر حبیب تنویر سے متاثر ہو کر "اپٹا" [IPTA] سے جڑ گیا۔ اس طرح تقریباً چار مہینے بغیر کسی ٹھکانے کے گزارے، پھر ایک روز اچانک سگے چچازاد بھائی ارشاد حسین سے ملاقات ہو گئی جو مجھے اپنے گھر لے گئے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ بھی ممبئی میں ہیں اور فلموں میں اداکاری کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنا فلمی نام "جسونت" رکھ لیا تھا اور ان دنوں وہ گرودت کی ہدایت میں فلم "بازی" میں بطور معاون اداکار کام کر رہے تھے۔ مجھے ڈرائیونگ کا بہت شوق تھا اس لیے جسونت کے ساتھ میں بطور ڈرائیور "بازی" کی شوٹنگ پر جانے لگا تھا۔
اسی دوران اس فلم میں بطور معاون اداکار کام کر رہے راج کھوسلہ سے میری اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ ایک دن میری بات سے متاثر ہو کر گرودت نے جسونت سے میرے بارے میں کچھ پوچھ تاچھ کی اور جب انہیں میری سرزمین کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھ پر اپنی اگلی فلم "آر پار" کے مکالمے لکھنے کی ذمہ داری ڈال دی۔ "آر پار" بہت کامیاب رہی جس کے بعد میں گرودت کے ساتھ پوری طرح جڑ گیا۔

کالج کے دنوں میں میرے ذریعہ لکھا ایک مزاحیہ ڈرامہ "ماڈرن میرج" کافی کامیاب رہا تھا۔ گرودت نے جب اس ڈرامہ کا اسکرپٹ پڑھا تو انہیں اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اگلی فلم "مسٹر اینڈ مسز پچپن" بنائی۔ یہ فلم بھی بے حد کامیاب رہی اور اس فلم میں میرا نام صرف بطور مکالمہ نگار دیا گیا۔ اس فلم کے کریڈٹ میں اسکرپٹ رائٹر اور منظر نگار کا نام ہی نہیں تھا۔

حیدرآباد کے ایک زمیندار ریڈی گھرانے کا لڑکا میرا ساتھی تھا، اس کے ذریعہ میری ملاقات ایک طوائف سے ہوئی تھی جو گجرات کے کسی مندر کے پجاری کی بیٹی تھی اور اپنے محبوب کے ساتھ گھر سے بھاگ آئی تھی اور آخر میں دھوکہ کھا کرجسم فروشی کے دلدل میں آ پھنسی تھی۔ اس لڑکی کی اقدار اور بات چیت کے انداز نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ گرودت کی فلم "پیاسا" میں گلابو کا کردار میں نے اسی کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا تھا۔

میرے سلسلے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ میں جو کچھ بنا صرف گرودت کی وجہ سے۔ ایک حد تک یہ بات سچ ہو سکتی ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ تصویر کے دوسرے پہلو پر کسی نے توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ فلم "مسٹر اینڈ مسز پچپن" کی ہی طرح "پیاسا" کے کریڈٹ میں میرا نام صرف مکالم نگار کی حیثیت سے ہی دیا گیا جبکہ اس فلم کی کہانی اور کرداروں کو تیار کرنے میں بھی میں برابر کا شریک تھا۔
ادیب کے علاوہ میں ہمیشہ سیٹ پر موجود رہ کر اداکاروں کی زبان اور تلفظ پر نظر رکھتا تھا۔ فلم پیاسا کی شوٹنگ کے دوران میں کچھ وقت تک سیٹ پر نہیں جا پایا تھا۔ اداکار رادھے شیام اور محمود اس فلم میں ہیرو گرودت کے بڑے بھائیوں کے کردار میں تھے۔ شوٹنگ کے اپنے پہلے ہی دن محمود نے گرودت سے گزارش کی کہ انہیں بنگالی لہجہ میں مکالمے بولنے دئے جائیں جسے قبول کر لیا گیا۔ اگر میں اس وقت وہاں ہوتا تو ایسا ہرگز نہیں ہونے دیتا کیونکہ "پیاسا" کا یہ گھرانہ بنارس کا رہنے والا ایک ایسا بنگالی گھرانہ تھا جس میں والدہ سمیت سبھی ممبران بھوجپوری ملی ہندی میں بات چیت کرتے ہیں اور چھوٹا بھائی ہیرو گرودت ہندی و اردو کا شاعر ہے۔ ایسے میں صرف ایک ممبر کا بنگالی لہجے میں مکالمے بولنا ہے تکا سا لگتا ہے۔

فلم "کاغذ کے پھول" میں پہلی مرتبہ میرا نام مکالمہ نگار کے ساتھ ساتھ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر بھی دیا گیا، لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ہو گئی۔ ایشین فلمز کے مالک اور نورجہاں کے شوہر شوکت حسین رضوی نے مکالموں سمیت ایک اسکرپٹ تیار کر رکھی تھی جسے وہ "ایک جھلک" کے نام سے بنانا چاہتے تھے لیکن تقسیم ہند کے بعد انہیں پاکستان جانا پڑا تھا۔ یہ اسکرپٹ گرودت کے پاس رکھی تھی جس پر انہوں نے اگلی فلم بنائی لیکن اس میں میری خدمت صرف نیا نام "چودھویں کا چاند" کے مشورے تک ہی محدود رہی۔ اس فلم کی کامیابی کے سبب مجھ سے "صاحب بی بی اور غلام" فلم کی اسکرپٹ، مکالمے سمیت لکھوائی گئی۔ گرودت اس فلم کی ہدایت خود کرنا چاہتے تھے لیکن میں باہر کی کچھ فلموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے شوٹنگ پر موجود رہنے سے قاصر تھا۔ نتیجتاً میری آواز میں چار گھنٹے کی اسکرپٹ "اسپول" پر ریکارڈ کرائی گئی تاکہ ضرورت پڑنے پر گرودت کو کہانی اور کرداروں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ ادھر گھریلو حالات کی وجہ سے ان دنوں وہ شدید ذہنی کشیدگی سے گزر رہے تھے۔ اس لیے انہوں نے خود ہدایت کاری کا خیال ترک کر کے ستین بوس اور نتین ہوس وغیرہ سے بات کی اور جب کہیں بات نہیں بنی تو ذمہ داری پھر مجھے سونپ دی گئی۔ میری پچکچاہٹ کو سمجھتے ہوئے انہوں نے کہا :
"جیسا کہ میں نے بول کر ریکارڈ کرایا ہے بس ہو بہو پردے پر لے آؤ"
فلم بنی، کامیاب ہوئی اور اسے ڈاکٹر رادھا کرشنن کے ہاتھوں صدر جمہوریہ اعزاز سے نوازا گیا۔ پھر نیو تھیٹرس کی فلم "پریسیڈنٹ" کا ری میک بنانے کی بات چلی۔ میری مصروفیت اور موضوع سے متعلق ناپسندیدگی کی وجہ
سے عصمت چغتائی سے اس کی اسکرپٹ لکھوائی گئی اور ان کے کہنے پر ہدایت کاری کی ذمہ داری ان کے شوہر شاہد لطیف کو سونپ دی گئی لیکن تین ریل بننے کے بعد "بہاریں پھر بھی آئیں گی" بند ہوگئی۔ نتیجتاً گرودت نے ہدایت کاری کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔ کولکاتا سے فلم پریسیڈنٹ کے مصنف بنیو چٹرجی کو بلایا گیا جس کے ساتھ بیٹھ کر میں نے اسکرپٹ میں تبدیلی کروا دی۔ شاہد لطیف نے کے۔آصف سے دباؤ ڈلوایا تو گرو دت نے کہا کہ ہدایت کاری میں خود کروں گا، شاہد چاہے سیٹ پر آ کر بیٹھے رہے۔ انہیں معاہدے کے مطابق پیسے ملتے رہیں گے۔ شاہد اس کے لیے تیار ہو گئے لیکن بارہ تیرہ ریل بنانے کے بعد گرودت نے خودکشی کر لی۔
فائنانسر بیایم شاہ اور گرودت کے بھائی آتمارام سمیت کمپنی سے جڑے سبھی لوگوں کی فکر کو دیکھتے ہوئے فلم "بہاریں پھر بھی آئیں گی" میں نے پوری کی جس کے لیے مجھے فلم "تیسری قسم" اور فلمساز آر۔ڈی بنسل کی لیکھ ٹنڈن کے ذریعہ ہدایت کی گئی فلم "جھک گیا آسمان" کے مکالمے لکھنے کا کام چھوڑنا پڑا۔ معاہدے کے مطابق ہدایت کاری میں ڈمی ہدایتکار شاہد لطیف کا ہی نام دیا گیا۔

گرودت کیمپ کے باہر میں نے ۔۔۔
ساتھی، سورج، شکار، پرنس، پروفیسر، چھوٹی سی ملاقات، بیراگ، لیلی مجنوں، دو چھول، سب سے بڑا رو پیا، منورنجن اور سنگھرش ۔۔۔
جیسی تقریباً چالیس فلمیں لکھیں جن میں سے زیادہ تر کامیاب رہیں۔ آج بھی میرے پاس کئی کہانی اور اسکرپٹ تیار پڑی ہیں۔

ہر فنکار چاہتا ہے کہ اس کے فن کو پوری عزت ملے۔ اس کی شخصیت کو کم کر کے نہ تولا جائے۔ فنکاری کے میدان میں اس کی خدمات کو نظرانداز نہ کیا جائے اور میں بھی اس سے باہر نہیں ہوں۔

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا
مولف: ڈاکٹر الف انصاری

Abrar Alvi, An integral part of the Guru Dutt team.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں