مثنوی زہرِ عشق - از مرزا شوق لکھنوی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-30

مثنوی زہرِ عشق - از مرزا شوق لکھنوی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ


نواب مرزا شوق لکھنوی (اصل نام: تصدق حسین) (پ: 1783ء ، م: 30/جون 1871ء)
تاریخِ اردو ادب کی تین مشہور مثنویوں میں سے ایک مثنوی "زہرِ عشق" کے خالق ہیں۔ مرزا شوق اپنی اس مقبول عام مثنوی کے علاوہ اپنی دیگر دو مثنویوں "بہار عشق" اور فریبِ عشق" کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں۔
مرزا شوق کی برسی پر ان کی یہی یادگار مثنوی زہرِ عشق پیش خدمت ہے۔ تعمیرنیوز کی جانب سے مرتب شدہ اس مختصر کتاب میں اس مثنوی کے علاوہ فاضل مقالہ نگاروں (انوار منیر اور ڈاکٹر عطیہ نشاط) کے دو سیر حاصل مقدمے اور نواب مرزا شوق لکھنوی کی حیات و شخصیت پر تحریرکردہ ڈاکٹر رابعہ مبین کا ایک طویل مضمون بھی شامل ہے۔ تقریباً ایک سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 4 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اردو زبان میں سینکڑوں مثنویاں لکھی گئیں مگر قبول عام کی سند صرف تین مثنویوں کو حاصل ہوا:
1) میر حسن کی "سحر البیان"
2) دیا شنکر نسیم کی "گلزار نسیم"
3) نواب مرزا شوق کی "زہر عشق"

اردو ادب کی تاریخ میں شوق کی مثنوی "زہر عشق" کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ مرزا شوق نے مثنوی زہر عشق 1277ھ مطابق 1860ء میں لکھی تھی۔ اس میں 566 اشعار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرصہ دراز تک اس مثنوی پر پابندی عائد رہی۔ عبدالماجد دریابادی پابندی کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لکھنؤ میں تھیٹر کا جب رواج شروع ہوا تو کسی کمپنی نے اس مثنوی کو ڈرامے کی شکل میں اسٹیج پر پیش کیا جسے لکھنؤ کا نزاکت آمیز ماحول برداشت نہ کر سکا اور تماشا گاہ ایک بزم عزا بن گئی، جس پر تماشا دکھانا قانوناً ممنوع ہو گیا اور اس مثنوی پر بھی عرصہ تک پابندی عائد رہی۔
ویسے یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ یہ مثنوی واجد علی شاہ کے بےخودی اور سرمستی کے اس زمانہ میں تحریر کی گئی جب لکھنؤ رنگینیوں میں ڈوبا ہوا تھا اور وہ لکھنؤ کی تاریخ کا سب سے رنگین زمانہ تھا۔ شراب و شباب کی سرمستیاں، رقص و سرود کی محفلیں اور طوائفوں کے ڈیرے لکھنؤ کی تہذیب کا جزولاینفک بن چکے تھے۔
نواب مرزا شوق نے اپنے عہد کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور متوسط طبقہ کی روزمرہ زندگی کی ایسی تصویر پیش کی جس میں حقیقی زندگی کی دھڑکن موجود ہے، جو بھی قاری اسے پڑھتا ہے، اسے کہانی کے ہیرو اور ہیروئین کے جذبات و واقعات اپنے ارد گرد کے واقعات سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تاثیر دوسری مثنویوں سے کہیں زیادہ ہے۔

زہر عشق، مرزا شوق کی زندگی کی آخری تحریرکردہ مثنوی ہے۔ انداز بیان کی روانی، محاوروں کی خوبی اور دوسری فنی خصوصیات کی وجہ سے اس کا شمار اردو کی چند بہترین مثنویوں میں کیا جاتا ہے۔ مشہور ناقدین نے اس مثنوی کی تعریفیں کی ہیں۔

الطاف حسین حالی اپنے مشہور مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
اگر شاعری کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ایک خاص حد تک شوق کی مثنوی کو مثنوی سحرالبیان پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ وہ قدیم الفاظ اور محاوروں سے جو اب متروک ہو گئے ہیں اور حشو اور بھرتی کے الفاظ سے پاک ہیں۔ زبان کی گھلاوٹ، روزمرہ کی صفائی، قافیوں کی نشست اور مصرعوں کی برجستگی کے لحاظ بدرمنیر کے مقابلے میں بہت بڑھا ہوا ہے۔ مرزا شوق نے زنانے اور مردانے محاوروں کو اس طرح برتا ہے کہ نثر میں بھی اس بےتکلفی سے آج تک کسی نے نہیں برتا۔

مجنوں گورکھپوری تو مرزا شوق اور گوئٹے کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔
زہر عشق کو اردو ادب میں وہی مرتبہ دینا چاہیے جو جرمن ادب میں فلسفی افسانہ نگار گوئٹے [Goethe] کے [The Sorrows of Young Werther] کو ملا ہے۔واقعات اور ترتیب واقعات کے لحاظ سے زہر عشق اور "آلام ورتھر" میں کوئی مناسبت نہیں سوائے اس کے کہ دونوں میں زندگی کا انجام یکساں ہے۔ 'زہر عشق' میں دنیا اور دنیا کی آزمائشوں سے بےخبر ایک لڑکی اپنے جذبات عشقیہ سے مغلوب ہو کر خودکشی کرتی ہے اور 'آلام ورتھر' میں ایک نوجوان مرد جو علاوہ عشق کی مایوسیوں اور طرح طرح کی ناکامیوں اور محرومیوں کے ہاتھوں زندگی سے بیزار ہو جاتا ہے اور آخرکار جان دے کر تمام جھگڑوں سے نجات حاصل کرتا ہے۔ لیکن اثر کے اعتبار سے زہر عشق اور آلام ورتھر دونوں ایک پایہ کی چیزیں ہیں۔ دونوں کے پڑھنے سے کم از کم وقتی طور پر انسان زندگی اور موت کی تفریق بھول جاتا ہے۔ موت کا ہول نہ صرف دل سے نکل جاتا ہے بلکہ دار و رسن کا اشتیاق پیدا ہو جاتا ہے۔

مثنوی زہر عشق پر عریاں نگاری کا اعتراض بھی کیا گیا ہے حالانکہ اس میں جن مناظر کی تفصیلات پر اعتراض کیا گیا ہے وہ باتیں اردو غزل میں عام ہیں۔ اسی لیے عطا اللہ پالوی نے شوق کی مثنویوں کو عریاں اور بداخلاق ٹھہرانے کے بجائے اخلاقی تعلیم کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
سب سے اہم خوبی شوق کی مثنویوں کی یہ ہے کہ وہ معلم اخلاق اور مصلح معاشرت ہیں۔ انہوں نے اپنی مثنویوں میں اپنے عہد کا کچا چٹھا اسی لیے پیش کیا ہے کہ اپنے عہد کے لکھنؤ کی عیاشیانہ معاشرت کو مطعون کر کے اس کی درستی کی جانب لوگوں کو متوجہ کریں۔ اپنے یہاں کی فرسودہ تہذیب کی تنقیص کر کے اس کی اصلاح کی طرف لوگوں کو مائل کریں۔ یہ خوبی بجز شوق کی مثنویوں کے، اردو زبان کی اور کسی مثنوی میں نہیں پائی جاتی ہے۔

***
نام کتاب: مثنوی زہرِ عشق
از: مرزا شوق لکھنوی
تعداد صفحات: 105
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Masnawi Zahr-e-Ishq.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

مثنوی زہرِ عشق - از مرزا شوق لکھنوی :: فہرست
نمبر شمارعنوانتخلیق کارصفحہ نمبر
1مرزا شوق لکھنؤی - حیات اور فنڈاکٹر رابعہ مبین3
2مقدمہ مثنوی زہرِ عشق - 1انوار منیر48
3مقدمہ مثنوی زہرِ عشق - 2ڈاکٹر عطیہ نشاط61
4مثنوی زہرِ عشقنواب مرزا شوق لکھنوی75

Masnawi Zahr-e-Ishq, by Dr Mirza Shauq Lakhnavi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں