مجتبیٰ حسین کی رپورتاژ نگاری - از ارشاد آفاقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-14

مجتبیٰ حسین کی رپورتاژ نگاری - از ارشاد آفاقی

reportage-by-mujtaba-hussain

عالمی سطح پر جہاں جہاں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں سحر بیان مزاح نگارپدم شری مجتبیٰ حسین کے نام، کام اور مقام سے ہرخاص وعام واقف ہیں۔ انھوں نے اپنے کالم، انشائیے، خاکے، سفرنامے اور رپورتاژ سے اردو کے مزاحیہ ادب کو اعتبار وافتحار بخشا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنے جادو بیانی، زبان کی سادگی اور اسلوب کی روانی کی بدولت میدانِ ظرافت میں نہ صرف غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئے ہیں، بلکہ اردو دنیا کے لاکھوں دلوں پر راج کر رہے ہیں۔

مجتبیٰ حسین کی طبع شدہ تصانیف کی تعداد دو درجن ہیں اور انھیں دو درجن اہم ترین سرکاری اور غیر سرکاری انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا ہیں۔ ان کی فکروفن، حیات وخدمات پر مختلف یونیورسیٹیوں میں متعدد مقالے لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کی مختلف جہات اور پہلوؤں پر تادمِ تحریر چودہ 14) (کتابیں منظرِعام پر آ چکی ہیں۔ ان کتب کے علاوہ ماہنامہ رسائل کے پانچ خصوصی شمارے، آٹھ ماہنامہ اور پانچ روزناموں میں خصوصی گوشے بھی شائع ہو چکے۔ علاوہ برین مختلف رسائل و جرائد میں متفرق مضامین اور کتابوں میں مختلف باب بھی ان کی فکر و فن کے حوالے سے ملتے ہیں۔ گویا ان کی پہلودار شخصیت اور ناقابلِ فراموش ادبی خدمات کے کثیرالابعاد گوشوں پر متذکر کتابیں اور رسائل منظرِ عام پر آنے کے باوجود ان کی رپورتاژنگاری کے حوالے سے ایک مضمون بھی نظر سے نہیں گزرا۔ اس سے عیاں ہوتا کہ ناقدین، محقیقین اور اسکالرس نے ان کی کالم نگاری، خاکہ نگاری، انشائیہ نگاری اور سفر نامہ نگاری پر جتنا زور قلم لگایا اس کا عشیرِعَشیر حصہ بھی ان کی رپورتاژنگاری پر صرف نہیں کیا گیا۔ اس طرح ان کی تخلیقی صلاحیت اورشخصیت کا ایک روشن پہلو مشاہیر ادب کی نظرالتفات سے محروم رہا ہے اور اس بے التفاتی کے ذمہ دار ناقدین، محقیقین اور اسکالرس یکساں ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ایک ہمدم دیرینہ جناب اسد رضا نے اپنے خاکہ نما مضموں میں مجتبیٰ حسین کو طنزومزاح کا چار مینار کہہ کر انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ان کے بقول شہر حیدر آباد کے چار مینار ہی کی طرح مجتبیٰ حسین کی شخصیت کے بھی چار مینار ہیں۔ یعنی پہلا مینار ان کی کالم نگاری، دوسرا مینار انشاء پردازی اور طنزومزاح، تیسرا مینار خاکہ نگاری اور چوتھا سفرنامہ نگاری ہے۔ مگر طنزومزاح کا یہ شہنشاہ چار مینار سے آگے نکل چکے ہیں۔ تاکہ ان کی شخصیت اور اس کا فن تشبہیہ کا مختاج نہ رہے۔ بقول احمد علی برقیؔ اعظمی ؂
طنز ومزاح میں نہیں جن کی کوئی مثال
اس صنف میں ہیں سب سے جدامجتبیٰ حسین
اردو ادب کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز
عصری ادب کی ہیں وہ نوا مجتبیٰ حسین

مجتبیٰ حسین کی رپورتاژ نگاری پر خامہ فرسائی کرنے سے قبل اردو میں رپورتاژ کے مفہوم اور نمائندہ رپورتاژ نگاروں پر مختصراً روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ تاکہ اس صنف کا ایک ہلکا پھکا خاکہ سامنے آ جائیں۔
اردو کی غیر افسانوی اصناف میں رپورتاژ نگاری کو ایک اہم ادبی صنف کا درجہ حاصل ہے۔ رپورتاژفرانسیسی زبان کا لفظ ہے۔ انگریزی میں اس کو "رپورٹارج" (Reportage) کہتے ہیں۔ انگریزی میں رائج ہونے والے اس لفظ کو اردو کے ادیبوں نے رپورتاژ کی حیثیت سے قبول کیا۔ جس کے معنی رپورٹ یا روداد کے ہیں، جس میں مُحرر خود شریک ہو یا عینی شاید ہو۔ اس میں مصنف چشم دید واقعات و حادثات آنکھوں دیکھی مستند تفصیلات، بینی ہوئی باتوں کو صداقت بیان کے ساتھ قلم بند کرتا ہے اور اپنے جذبات واحساسات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ گویا یہ فن خارجیت اور داخلیت کا متضاضی ہے اس لیے اس میں خارجیت اور داخلیت کا حسین وجمیل امتزاج پایا جاتا ہے۔ جس میں شنیدہ کے بَود مانند دیدہ کا انداز اپنا یا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں طلعت گل لکھتی ہے۔
" رپورتاژ نگار اپنے کانوں پر بھروسہ نہیں کرتا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور دل سے محسوس کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آنکھوں دیکھے واقعات کے علاوہ سنے سنائے واقعات وحادثات پر بھی رپورتاژلکھا جا سکتا ہے۔ یہ درست نہیں کیونکہ رپورتاژ میں مصنف کا موضوع سے براہِ راست تعلق بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور رپورتاژ نگار کا بیان مستند مانا جاتا ہے۔ رپورتاژکے ذریعے کسی فرقے، معاشرے یا ماحول کے صحیح خدوخال بھی منعکس کئے جا سکتے ہیں۔ " 1؂

اس اقتباس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اس میں واقعات سچے، کردار حقیقی اور منظر اصلی ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف کا بذات خود شامل، شریک اور شاہد ہونا لازمی ہے۔ گویا اس کی بنیادی لازماً حقیقت، صداقت، سچائی پر مبنی ہے کیونکہ یہ چشم دیدواقعات کا بیان ہے نہ کہ سنے سنانے واقعات کا اظہار ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر قمر رئیس رقمطراز ہیں: ۔
" یہاں گزرے ہوئے واقعات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی واقعیت یا استناد پر حرف نہ آئے۔ دوسری طرف لکھنے والا اسے بھی یکسان اہمیت دیتا ہے کہ قاری دلچسپی اور انہماک سے پڑھے اور محسوس کرے جیسے وہ ان واقعات کا عینی شاہد ہے سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے " ؂2

رپورتاژ ایک ایسی بیانیہ صنف ہے جس میں رپورتاژ نگار عینی شاہد کے طور پر ٹھوس اور صحیح واقعات اور گزرے ہوئے حادثات کا بیان اس فنکار انہ انداز میں کرتا ہے کہ یہ روپورتاژ خشک اور سپاٹ رپورٹ بننے کے بجائے ایک ادبی دستاویز کی شکل اور شناخت احتیار کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر رپورتاژ کو اس انداز میں تخلیق کرنا کہ بیانیہ میں تمام تر جزئیات، تفصیلات اور منظر کو بروئے کار لاکر قاری کے سامنے متحرک تصویر پیش کرے۔ تاکہ عام قاری اس کے تجزیے اور مشاہدے میں شریک ہو سکے اور اس واقعے کی معنویت کو سمجھ سکے۔ اس لیے پروفیسر اعجاز حسین نے رپورتاژ نگار میں درج ذیل خوبیوں کا ہونا لازمی قرار دیا، تاکہ اس کی لکھی ہوئی تحریر میں ادبی رنگ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد اور زمانے کا عکاس بھی بن جائے۔ بقول ان کے: ۔
" رپورتاژ کا تیار کرنا ایسا مشکل کام ہے جس کے لئے فنکار کے دماغ کی ضرورت ہے اس کو مورخ کا قلم، ادیب کا دماغ اور مصور کی نظر چاہئے" ؂3

رپورتاژ نگار کو موضوعی طور پر کوئی پابندی یا قید نہیں۔ وہ کسی بھی ادبی وتہذیبی جلسے، محفل، مشاعرے، تقریب کے علاوہ معاشرتی حالات، سیروسیاحت، مذہبی اورتہذیبی تہوار، فسادات، ہنگامی حالات، جنگ اور قحط وغیرہ کو اپنا موضوع بنا کر اس پر کامیاب، دلچسپ اور موثر رپورتاژ تحریرکر سکتا ہے۔ بشرطیکہ مصنف کوزبان و بیان پر قدرت ہواورزندگی کا باریک بینی اور گہرائی سے مطالعہ کرنے کا عادی بھی ہواور اسے اپنے جذبات اوراحساسات کی شدت کو حسن اور سیلقے سے پیش کرنے کا گُر بھی آتا ہو۔ اس لئے اردو کے عظیم تخلیق کاروں نے ادبی و تہذیبی جلسے سے لے کر جنگ عظیم کی تباہیوں اور ہو لناکیوں کے علاوہ تقسیم ہند کے نتیجہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات، ظلم وجبر اور تبادلہ آبادی پر بھی رپورتاژ تحریر کئے ہیں۔ رپورتاژکی موضوعی ہمہ گیری کے سلسلے میں طلعت گل کا مندرذیل اقتباس نقل کرنا لازمی سمجھتا ہوں۔ تاکہ میرے خیال کی مزید وضاحت اور توسیع ہو سکے۔ بقول ان کے: ۔ "رپورتاژ میں زندگی کے ہرپہلو، واقعہ یا حادثہ کے متعلق گفتگو کی جا سکتی ہے۔ لیکن کسی منظر، واقعے یاحادثے یا سانحے کا آنکھوں دیکھا حال اس طرح منظر کشی کے ساتھ بیان کرنا، کہ جذبات کی ترجمانی بھی ہو جائے اور منظر یا ماحول کانقشہ دلکش انداز میں سامنے آ جائے۔ زندگی کے اور مختلف موضوعات کے علاوہ انسانی تاریخ میں جنگ ایک ایسا موضوع ہے جس میں مختلف نوعیت کے واقعات رپورتاژکا موضوع بن سکتے ہیں۔ " ؂4

فنی اعتبار سے رپورتاژ قطعی ادبی ہے اور ادبیت اس کا جزواعظیم ہے۔ مگر حقیقت کو دلکش پیرایہ اورصداقت کو دلنشین اندا زمیں قاری تک پہہنچانا رپورتاژ نگار کے لئے بڑی آزمائش ہے۔ اس ٹھوس حقیقت کو دلچسپ اور پُر کشش بنانے کے لئے رپورتاژ نگار کس حد تک تخیل کا سہارا لے سکتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی تحریر کو موثر اور دلچسپ بنا کر دل جیت سکیں۔ اس حوالے سے عبدالعزیز کی رائے معتبر ہے۔ بقول ان کے: ۔
"رپورتاژ نگار کو تخلیقی اور تخیلی آزادی اس قدرہوتی ہے جس قدر ایک فوٹو گرافر کو تصویر کے نقوش ابھارنے کے لئے حاصل ہے " ؂5

رپورتاژ کا مفہوم واضح کرنے کے بعد اردو میں نمائیدہ رپورتاژ نگاروں پر سرسری نظر ڈالیں۔ تاکہ یہ واضح ہو جائیں کہ اس صنف میں کن تخلیق کاروں نے رنگ بھر کر اس کے سمت و رفتار میں نمایاں رول ادا کر کے اسے فروغ بخشا اور وسعت دی۔ یہاں میرا مقصود یہ نہیں کہ اردو میں کس قلمکار نے پہلا رپورتاژلکھا، کب لکھا اور کس پر لکھا۔ بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اردو رپورتاژ نگاروں کے ابتدائی نقوش شعراء اور ادبا ء کی خود نوشتوں یا سفر ناموں میں، روزنامچوں یا سوانح عمروں میں، ڈائرئیوں یا بیاضوں میں، مکتوبات یا خاکوں میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ اس صنف کی باضابط داغ بیل ترقی پسند ادبی تحریک کے روح رواں سجاد ظہیر نے "یادیں " (1940) تحریر کر کے ڈالی۔ اس کے بعد اس تحریک سے وابستہ ادیبوں کی ایک کل ہند کانفرنس اکتوبر 1945ء میں حیدرآباد میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی مکمل روداد کرشن چندر نے "پودے "(1945) کے عنواں سے تحریر کی ہے۔ یہ رپورتاژ ممبئی کے ہفتہ وار اخبار "نظام" میں بالاقساط شائع ہواپھرکتابی شکل میں بھی۔ اس کے علاوہ کرشن چندرنے 1950ء میں " صبح ہوتی ہے "۔
عادل رشید نے "خزاں کے پھول" (1948) کے عنواں سے کامیاب رپورتاژ لکھے۔ اس تحریک سے منسلک ادیبوں نے اردو زبان و ادب کو زندگی کی حقیقتوں، عصری تہذیب کی کروٹوں وغیرہ سے ہم آہنگ کرنے اور ان کا آیئنہ دار بنانے کی جو کامیاب جد و جہد کی ہے رپورتاژاس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے بعد تقسیم ہند کے خوانچکاں واقعات پیش آئے تھے اس حادثاتی دور میں مصنیفیں نے باوجود پا بندیوں کے جو کچھ محسوس کیا۔ اس کو رپورتاژ کی شکل میں تحریر کر دیا۔ ان فسادات کے نتیجے میں فکر تونسوی نے "چھٹادریا"(1948ء)، ابراہیم جلیس نے "دوملک ایک کہانی"(1948ء)، تاجورسامری نے " حب بندھن ٹوٹے "(1949ء)، شاہد احمد دہلوی نے "دلی کی بپتا"(1949ء)، خدیجہ مستور نے "پوپھٹے "(1953ء) اورجمنا داس اخترنے "اور خدا دیکھتارہا" بڑے معیاری اوردلکش رپورتاژ سامنے آئے ہیں۔ اس طرح اس صنف نے ترقی کے کئی منازل طے کیے اور اس کے ذخیرہ میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔

ان کے بعد جن قلمکاروں نے اس صنف کو اظہار کا وسیلہ بنا دیا، اور اس کی سمت ورفتار میں سرعت لائی۔ ان میں قراۃالعین حیدر "ستمبر کا چاند "(1952)، گلگشت"(1974)، عصمت چغتائی "بمبئی سے بھوپال تک"، صفیہ اختر "ایک ہنگامہ"، انورعظیم"پھول کی پتی ہیرے کا جگر"، عبداللہ ملک "مستقبل ہمارا ہے " رضیہ سجاد ظہیر "امن کا کا رواں "شاہد مہدی "شہرطرب"، زہرہ جمال "5؍دسمبر کی ایک رات" قدرت اللہ شہاب"اے بنی اسرائیل"، منظور الٰہیٰ "قوس وقزح سے فرار تک "اجمل اجملی "ایک رات گزری ہے، ایک صدی گزری ہے "، محمد طفیل"یاترا " رام لعل " احساس کی یاترا"، ممتاز مفتی "لبیک"، عائق شاہ "خالی ہاتھ" اور اظہار اثر"ترقی پند مصنفین کی کل ہند کانفرنس" وغیرہ نے اس صنف کو کیفت و کمیت یعنی ہر دو اعتبار سے متمول بنا دیا۔ اس کارواں کے ساتھ 1966ء میں مجتبیٰ حسین بھی اس وقت شامل ہو گئے۔ جب انھوں نے اپنا پہلا رپورتاژ بعنوان"ایک پلیٹ تخلص بھوپائی' لکھا، یہ رپورتاژ ان کی پہلی تصنیف"تکلف برطرف" (1966ء)میں شامل ہے۔ مجتبیٰ حسین کوقدرت نے ایسا زرخیر، ذہین اور ایسا توانا و طاقتور قلم عطا کیا ہے۔ جس کی نوک سے ہزاروں کالم، سیکڑوں انشائیے، دوسو سے زائد خاکے اور کئی سفر نامے معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ مگر ان کے لکھے ہوئے رپورتاژ کے حوالے سے کوئی خاص واقفیت نہیں تھی۔ بھلا ہو محترم رحیل صدیقی کا، کہ انھوں نے 2011ء میں "اردو کے شہر اردو کے لوگ"کے عنوان سے ان کے 28 رپورتاژ، 4مختصر سفرنامے اور 21 خاکے منظرِعام پر لائیں۔ یہ رپورتاژ، سفرنامے اور خاکے پہلی بار کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ حالانکہ اس سے قبل یہ تحریرات روزنامہ " سیاست" کی زینت بن چکے تھے جس کا حوالہ فاضل مرتب نے مع تاریخ دیا ہے۔ مگرعام قارئین کی رسائی سے دور تھے۔ اب ذہین میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا مجتبیٰ حسین صرف 28 رپورتاژ لکھئے۔ اگر چہ ان کی تعداد کسی بھی رپورتاژنگار کے رپورتاژوں سے زیادہ ہی یعنی مقدار اور معیار بھی کسی سے کم نہیں۔ پھر بھی ذہین میں یہ سوال رقص کرتا ہے کہ مجتبیٰ حسین جیسے اعلیٰ پایہ کے تخلیق کار اتنے کم رپورتاژلکھ کر مطمئن نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں رحیل صدیقی کا ایک اقتباس درج کرتا ہوں: ۔
"ابھی تک مجتبیٰ حسین کے رپورتاژوں کی کوئی جلد شائع نہیں ہوئی تھی، مگر ان کے خاکوں، سفرناموں، کالم اور طنزومزاح پر مبنی ان کی تحریروں کے بہت سے نمونے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ مذکورہ بالا اصناف کا زیادہ تذکرہ ہونے کی وجہ سے مجتبیٰ حسین کے یہ رپورتاژ پس منظر میں چلے گئے تھے، جو سیکڑوں کی تعداد میں ادھر اُدھر اخبارات میں بکھرے پڑے ہیں۔ ان رپورتاژوں کی کتابی شکل میں اشاعت سے مجتبیٰ حسین کی ادبی زندگی کا ایک اور پہلو سامنے آ سکے گا۔ ہم نے اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف پندرہ اہم شہروں اور ان میں منعقد ادبی تقاریب پر لکھے گئے رپور تاژ کو شامل کیا ہے۔ " ؂6

اس اقتباس سے یہ بات مترشح ہوئی کہ مجتبیٰ حسین نے سیکڑوں کی تعداد میں رپوتاژ لکھے ہیں۔ جن میں مٹھی بھر رپورتاژ اس کتاب میں شامل ہیں۔ ان رپورتاژ کو رحیل صدیقی نے شہروں کےؒ لحاظ سے ترتیب وار رکھا۔ یعنی کس شہر میں مجتبیٰ حسین نے کتنی ادبی تقاریب یا محفلوں میں شرکت فرمائیں تھی۔ پھر ان کی روائدادقلمبند کی۔ اسی اعتبار سے ان کی ترتیب کا خیال مرتب نے رکھا۔ جو اپنی جگہ درست ہے۔ اس ترتیب کے بجائے اگر ان رپورتاژوں کی ترتیب زمانی اعتبار سے کی جائے گی۔ تو ان کی ترتیب اس طرح ہو گی۔ ایک پلیٹ تخلص بھوپالی ………… حیدرآباد(1966ء)، اُڑیہ ادیبوں کے درمیان…………کٹک (16 اپریل 1995 ء)، اُڑیسہ میں دو دن …………کٹک (23 اپریل 1995ء)، ایک صدارتی خطبہ…………بدایوں (16 مارچ 2001ء)، ذکر پھر بدایوں کا…………بدایوں (21 مارچ1999ء)، حیدرآباد میں دو ہفتے …………حیدرآباد (11مارچ 2001ء)، دہلی کی ایک ادبی محفل …………دہلی (یکم اپریل 2001ء)، بنگلور میں تین دن …………بنگلور (16 جون 2002ء)، انجمن ترقی اردو کے سوسال…………دہلی (16 مارچ 2003ء)، لکھئنو میں چاردن…………لکھئنو (21اگست 2005ء)، طنزمزاح کی راجدھانی ………… حیدرآباد (5 فروری 2006ء)کچھ ذکر چینائی کا…………چینائی (14 جنوری 2007ء)، کچھ اور ذکر چینائی کا…………چینائی(21 جنوری 2007ء)، چندروزدہلی میں …………دہلی (22اپریل 2007ء)، کچھ انڈیا اسلامک کلچر سنٹرکے بارے میں …………دہلی (29اپریل 2007ء)، کے بی این ٹائمزکا اجراء…………گلبرگہ (16نومبر 2007ء)، مخدوم صدی تقاریب …………حیدرآباد (24فروری 2008ء)، مرہٹواڑہ میں چاردن اردو کی ساتھ…………اورنگ آباد (9 مارچ 2008ء)، اک ْذرابیگوسرائے تک………… بہار (11 اپریل 2008ء)، بمبئی جو ایک شہر تھا………… بمبئی (25 مئی 2008ء)، دہلی کے نوجواں ضعیفوں کی محفل میں …………دہلی (18جنوری 2009ء)، کلکتہ کا جو ذکر کیا…………کولکتہ(15 مارچ2009ء)، ہدایت نامہ برائے انعام دہندگان………… کولکتہ (3اپریل 2009ء)، پٹنہ میں چار دن …………پٹنہ(13 دسمبر 2009ء)، خدا بخش لائبریری میں …………پٹنہ (10 جنوری 2010ء)، بنگلور میں تین دن اور ایک شام …………بنگلور (4اپریل 2010ء)، دہلی جو ایک ڈرائنگ روم ہے …………دہلی (18 اپریل 2010ء)،۔
یہ اٹھائیس (28) رپورتاژ اس کتاب میں شامل ہے۔ جن کے بارے میں مرتب کا دعویٰ ہے: ۔
"یہ رپورتاژ شہروں کے بارے میں نہیں ہیں اور نہ ہی یہ شہروں کا مکمل حال بیان کرتے ہیں بلکہ تقربیاً پندرہ اہم شہروں کی مختلف ادبی تقاریب کی روداد کو واقعاتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہ رپورتاژ روداد سفر کے ساتھ ساتھ وہاں کی ادبی و تہذیبی فضا پر مبنی ہوتے ہیں "۔ ؂7

مجتبیٰ حسین کے رپورتاژوں کا مطالعہ کرنے سے بھی یہ بات اظہرالشمس ہو جاتی ہے کہ یہ تمام رپورتاژ ماسوائے " حیدرآباد میں دو ہفتے " خالص ادبی ہے۔ ان میں کتب، رسائل اور اخبارات کی رسمِ اجزاء کی داستانیں بیان کی گئی ہے اور ادبی کانفرنسیوں، سمیناروں اور انعامات کے احوال پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک بھی کسی سیاسی تقریب، مذہبی تہوار، کھیل تماشوں، نمائشں یا پکنک، سیر وسیاحت، حادثات، سانحات، قحط یا جنگ کے متعلق نہیں ہے۔ در اصل مجتبیٰ حسین کا تعلق ادب سے ہے۔ اس لئے انھوں نے اپنے رپورتاژوں کو ادب کے میدان تک محدود رکھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انھیں بطور خاص صرف مختلف ادبی پیروگراموں میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس لیے روداد بھی انہی تقاریب کی بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ بقول شمیم احمد: ۔
" اردو میں ان موضوعات پر کثرت سے رپورتاژ لکھے جانے کی وجہ سے اکثر رپورتاژ کی صنف کو انھیں تک مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ پورتاژ زندگی کے اور بھی بہت سے پہلووں کا احاطہ کرتا ہے۔ رپورتاژ کو ادبی جلسوں، کانفرنسوں یا مشاعروں کی روئدادوں تک ہی مخصوص کر دینے سے اس صنف کے مفہوم میں محدودیت پیدا ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اس لیے اس بات کو سمجھ لینا چائیے کہ رپورتاژ کسی ادبی جلسہ یا مشاعرہ کی افسانوی زبان میں روئداد پیش کر دینے کو نہیں کہتے، بلکہ جس طرح افسانہ اور ناول میں زندگی کے بے شمار واقعات کو موضوع بنایا جاتا ہے اسی طرح زندگی کا کوئی بھی سچا اور غیر معمولی واقعہ رپورتاژ کا موضوع بن سکتا ہے۔ " 8؂

مجتبیٰ حسین نے بہت اور بہترین رپورتاژ لکھئے ہیں۔ ان کا ہر رپورتاژ ایک الگ رنگ و ڈھنگ کا ہے۔ یہ رپورتاژ ادب اردو کے سمندر میں منیارہ نور کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ مجتبیٰ حسین کے فن کی انفرادیت ان کا مزاحیہ اور شگفتہ اسلوب ہے۔ رواں دواں، شیرین، شستہ اور شائستہ اسلوب جو ہر طرح کے مضامین کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کے فن کا یہ حصہ (یعنی رپورتاژ)بھی ان کے زور قلم اور زبان پر دسترس کی غمازی کرتا ہے۔ جومجتبیٰ حسین کے فن کی پختگی کا آئینہ ہے جس میں چستی ہی نہیں تہہ داری بھی ہے۔ ان کے رپورتاژ سفر سے شروع ہوتے ہیں اور سفر پر اختتام۔ کیونکہ جب بھی وہ کسی ادبی تقاریب کے لئے رخت سفر باندھ لیتے ہیں تب سے ان کا رپورتاژ جنم لیتا ہے اور جب سفر ختم ہو جاتا ہے تب ان کا رپورتاژ بھی اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس کے درمیان جتنے بھی واقعات و حالات پیش آتے ہیں یعنی سفر کی آسانیاں یا دشواریاں، سفر میں شریک مسافر، دورانِ سفر دوسروں کے ساتھ محو گفتگو ہونا، استقبالہ کیلئے جو حضرات ان کے لئے معمور ہوتے ہیں، ان کے حال واحوال، طعام وقیام کے حالات، تقریب کی روائداد، اس تقریب کے مندوبین، ان کے کیفیات و حالات، ادیبوں، دانشوروں اور تخلیق کاروں کامزاج ومنہاج، ادبی و ثقافتی فضا کی صورت حال، شہروں کے مختلف مقامات اور مناظر قدرت کے دلفریب نظاروں کی عکاسی وغیرہ غرض لفظوں کا ایک چلتا پھرتا البم تیار کرتے ہیں۔ جس میں قاری تمام کچھ اس انداز میں پاتا ہے جیسے کہ وہ اس تقریب کا حصّہ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے یہ تمام واقعات رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو رپورتاژ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ بقول رحیل صدیقی: ۔
" یہ رپورتاژ شہروں کے بارے میں نہیں ہیں اور نہ ہی یہ شہروں کا مکمل حال بیان کرتے ہیں بلکہ تقربیاً پندرہ اہم شہروں کی مختلف ادبی تقاریب کی روداد کو واقعاتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہ رپورتاژ روداد سفر کے ساتھ ساتھ وہاں کی ادبی وتہذیبی فضا پر مبنی ہوتے ہیں۔ …………مجتبیٰ حسین کے رپورتاژ کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی واقعہ کو فنی و ادبی جامہ پہنا دیتے ہیں اور واقعہ کو بیانیہ انداز میں قاری کے روبرو پیش کر دیتے ہیں "۔ ؂9

مجتبیٰ حسین کا پہلا رپورتاژ ان کی پہلی تصنیف " تکلف برطرف" کے آخر میں شامل ہے۔ یہ مزاحیہ رپورتاژ بعنواں " ایک پلیٹ تخلص بھوپالی" 1966ء میں شائع ہوا۔ اس میں مجتبیٰ حسین نے سہ روزہ (13 تا15مئی 1966ء) کل ہند مزاحیہ کانفرنس کی تیاریوں سے لے کر اختتام تک پیش آنے والے تمام احوال اور واقعات کو دلچسپ اور مزاحیہ انداز میں بیان کیے ہیں۔ مزاح نگاروں کی اس مزاحیہ کانفرنس کے مزاحیہ رپورتاژ کے مزاحیہ عنواں کا وجہ تسمیہ بقول مجتبیٰ حسین یہ ہے: ۔
" تخلص صاحب گرانڈٹر نک اکسپریس کو لے کر دندناتے ہوئے پلیٹ فارم پر آ گئے۔ ہم حمایت کا منہ دیکھنے لگے۔ اس نے فوراًاپنا حلیہ بگاڑا، چہرے کے اتارچڑھاؤ میں تبدیلی پیدا کی اور ہر ڈبے ّ کے سامنے پکار نے لگا "تخلص بھوپالی- تخلص بھوپالی-" وہ تخلص صاحب کا نام ٹھیک اسی انداز میں پکار رہا تھا جس انداز میں اسٹیشنوں پر چائے بیچنے والے چائے گرم-چائے گرم- پان بیڑی سگریٹ -کی آواز لگاتے ہیں۔ ہم لوگ اس کی حرکت پر ہنس ہی رہے تھے کہ اچانک ایک ڈبے میں سے کسی مسافر کی آواز آئی۔ "اومیاں !تخلص بھوپالی والے ایک پلٹ تخلص بھوپالی ہمیں بھی دینا۔ " ص23

اس کانفرنس میں ملک بھر کے انتیس (29) مزاح نگاروں نے شرکت کی تھی۔ مخدوم محی الدین نے اس کانفرنس کا افتتاح کیا اور صدارت کرشن چندر نے فرمائی۔ اس کانفرنس میں سملیٰ آپا، یوسف ناظم، احمد جمال پاشا، سرور جمال، دلاورفگار، مائل لکھنؤی، غلام احمد فرقت، شفیقہ فرحت، تخلص بھوپالی، ڈاکٹر مسعود حسین خان، ڈاکٹر انور معظم وغیرہ کے علاوہ حیدرآباد کے تقربیاً تمام ادیب اور قلمکار شامل؂؂؂؂؂ تھے۔ اس مزاحیہ کانفرنس میں بزنس سیشن کے علاوہ سمپوزیم اور مزاحیہ مشاعرہ بھی منعقد ہوا تھا۔ غرض کانفرنس اور مزاحیہ مشاعرے میں ہزاروں کے تعداد میں سامعین نے شرکت کی تھی۔ ان تین دنوں تک حیدرآباد قہقہقہ سے گونجتا رہا۔ یہ کانفرنس کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی اور معززمہمانان اپنے شہروں کا راستہ اختیار کرنے لگے۔ اس وقت کانقشہ مجتبیٰ حسین اس طرح کھینچے ہیں۔
"اب بچھڑنے کا وقت قریب آنے لگا تھا۔ قہقہوں کا کاروبار کرنے والوں کے دل بیٹھے جا رہے تھے۔ 18 مئی کو نا مپلی اسٹیشن پر پھر ایک بار منتظمین کانفرنس جمع تھے۔ مگر اس بار ان میں وہ ولولہ نہیں تھا جو 13 مئی کو دیکھنے میں آیا تھا۔ ان کے چہرے اُترے ہوئے تھے، پژمردہ اور نڈھال۔ ان کے قہقہے نہ جانے کہاں دب گئے تھے۔ انھیں یہ احساس ہونے لگا کہ زندگی میں انسان خوش رہنے کی لاکھ کوشش کرے مگر اسے قدم قدم پر رنجیدہ ہو جانا پڑتا ہے۔" ص 39

مجتبیٰ حسین کالکھا ہوا رپورتاژ "حیدر آباد میں دو ہفتے " انفرادی نوعیت ہونے کے باوجود اجتماعی زندگی کے ہلکے پھلکے واقعات کا عکاس ہے۔ اس میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کر کے جذبے، احساس کی شدت اور محبت کی فراوانی نظر آتی ہے۔ جو مجتبیٰ حسین کو اپنے بڑے بھائی محبوب حسین جگر اور عابد علی خان کے ساتھ تھی۔ اس کا مرکزی کرداد جگرؔ کی ذات اور اس کے واقعات ہیں۔ انھوں نے عابد علی خان کے ساتھ ملکر 1949 ء میں روزنامہ "سیاست"اجراء کیا۔ اس کی ترویج اور کثیرالاشاعت کے لیے جگرؔ شب وروز محنت کرتے تھے۔ بالآخر مرنے سے قبل اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تھے۔ بقول مجتبیٰ حسین: ۔
"عابد علی خان صاحب اور محبوب حسین جگر کی دوستی حیدرآباد میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان دونوں نے مل کر 1949ء میں جب "سیاست" کے اجزاء کا فیصلہ کیا تو ہو سکتا ہے، اس وقت تک یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ہوں، لیکن 15 اگست 1949 ء کو "سیاست " کے پہلے شمارے کے اجزاء کے ساتھ ہی دونوں شخصیتیں "سیاست" میں ضم ہو کر ایک ہی شخصیت میں تبدیل ہو گئیں۔ …………ان کے انتقال سے آٹھ دس دن پہلے جب زاہد علی خان نے میڈی سٹی اسپتال میں انھیں یہ اطلاع دی کہ اے بی سی کے صداقت نامہ کے مطابق"سیاست" اب ہندوستان کا سب سے کثیرالاشاعت اردو روزنامہ بن گیا ہے توصحت کی خرابی کے باوجود ان کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ خداکا شکر ادا کرتے رہے کہ اس نے بالآخر ایک مشن کو کامیاب بنایا اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔" ص 48

محبوب حسین جگر کے انتقال کے بعد ان کی قبر پرمجتبیٰ حسین کا فاتحہ خوانی کرنا ان کا معمول بن گیا تھا۔ پھر مجتبیٰ حسین شہرِ دہلی کی مصروف ترین زندگی کے چنگل میں پھنس گئے۔ تو بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے علاوہ ان کی اور عابدعلی خان کی باتیں، شفقتیں اور عنایتں یاد آتی رہتی تھی۔ ان کی دائمی جدائی نہ صرف ستاتی اور تڑپاتی بلکہ آنکھوں کو پُرنم اور طعبیت کو افسردہ کر دیتی ہے۔ کیونکہ ان کے بغیر آرام اور سکون ہی میں کمی محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہر منظر ادھورا اور ہر محلہ ویران لگتا ہے۔ واقعی مجتبیٰ حسین کے رپورتاژکی شکل میں ایک نوحہ رقم کیا ہے۔ یہ رپورتاژدلدوز ہے۔ اس میں خودنوشت کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے اور روز نامہ سیاست کی داستان بھی۔ جگراور عابد کے تعلقات و متعلقات اور واقعات بھی۔ مجموعی طور پر یہ رپورتاژ آنسوؤں اور آہٹوں سے تربتر موثر مرقع ہے۔ ملا حظ فرمائیں: ۔
"ہم یوں ہی حیدرآباد کی سڑکوں اور محلوں کی سیر کو نکل جاتے تھے۔ جدھر سے گزرتے تھے ان بچھڑے ہوئے دوستوں کی یاد آ جاتی تھی جن کی وجہ سے یہ محلے ہمیں آباد اور بھرے پرے نظر آتے تھے۔ اب یہ دوست یہاں نہیں رہے تو یہ محلے ہمیں ویران سے لگتے ہیں، حالانکہ زندگی کی ہماہمی اب یہاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر حیدرآباد اب بہت پھیل گیا ہے، بہت زیادہ آباد ہو گیا ہے، لیکن ہم جیسوں کے لئے یہ دن بہ دن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ " ص50

مجتبیٰ حسین نے جہاں رودادِسفر کے واقعات کو دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ اُسی طرح انھوں نے اپنے رپورتاژ کے کرداروں کو موقع ومحل کے لحاظ سے پیش کیا ہے۔ کیونکہ رپورتاژ نگار واقعات اور حالات کو نہ کردار اور ماحول کو گڑھ سکتا ہے۔ البتہ واقعات کوسلیقہ مندی اور کرداروں کو عقل مندی سے پیش کرنے کی مہلت اور گنجائش ہے۔ ان کرداروں کا واقعات سے براہ راست تعلق رہتا ہے اس لئے ان کرداروں کے ظاہری رنگ ڈھنگ، چال چلن اورشکل و صورت کے ساتھ ان کے باطن کا بھی بڑی صاف اورواضح تصویریں کھینچی ہیں۔ کیونکہ رپورتاژ کے کرداد جیتے جاگتے اوربولتے چالتے ہوتے ہیں۔ ان کرداروں میں رپورتاژنگار کے مزاج کا عمل دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی پیش کش میں۔ مجتبیٰ حسین بہترین خاکہ نگار ہونے کی بنا پر خاکہ نگاری سے فائدہ اٹھایا اور جا بجا خاکہ نگاری کے فن کو برتتے ہوئے رپورتاژ میں جان ڈال دی۔ اس لیے ان کے تحریر کردہ رپورتاژوں میں بیسوں شخصی اور غیر شخصی خاکے ملتے ہیں۔ شخصی خاکہ کانمونہ ملا حظ فرمائیں: ۔
"خدا کا کرنا یوں ہوا کہ اسی اثناء میں جاوید لطیفی پلیٹ فارم پر آ گئے۔ انھوں نے آتے ہی پلیٹ فارم کے دوسرے کنارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "وہ دیکھے سگنل کے بازو جو سب سے اونچی شئے نظر آ رہی ہے، وہی تخلص بھوپالی ہیں۔ "
اور ہم نے دیکھا کہ پلیٹ فارم پر ایک پہاڑ کھڑا ہوا ہے اور ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ ہم لوگ پہاڑ کی جانب دوڑ پڑے۔ پھر جاوید لطیفی نے ہم سب کا تعارف 'پہاڑ' سے کروایا۔ پہاڑ آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور ہم پہاڑ سے باتیں کر رہے تھے۔ تخلص بھوپالی نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا: "بھئی ! میں تو آپ کو ایک بزرگ آدمی سمجھتا تھا مگر آپ تو بالکل بچے نکلے !"
اور میں نے کہا: " جی ! یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ ویسے میں بھی آپ کو ایک آدمی سمجھتا تھا، مگر آپ تو بہ اعتبار جسامت پانچ چھ آدمی نکلے " ص 23

مجتبیٰ حسین زندہ دلانِ حیدر آباد کے مزاحیہ موٹر کا خاکہ یوں کھینچتے ہیں: ۔
"اس موٹر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی کوئی چھت نہیں ہے، نشستوں کی جگہ اینٹوں اور گارے کی مدد سے چبوترے بنا دئیے گئے ہیں جن پر شطرنجیاں اور چادریں بچھائی جاتی ہیں۔ یہ جب اسٹارٹ ہوتی ہے تو رُکنے کا نام نہیں لیتی اور جب رکتی ہے اسٹارٹ ہونے سے قطعاً انکار کر دیتی ہے۔ کبھی دُ لکی چال چلتی ہے کبھی چوکڑیاں بھرنے لگتی ہے۔ اسے کھانسی کے دورے بڑے شدت سے پڑتے ہیں۔ پھر اچانک یہ کھانسی کم ہو جاتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے انجن کی روح پرواز کر گئی ہو۔ جب بھی اس موٹر پر کھانسی کا دورہ پڑتا ہے تو حمایت انجن کے منہ میں ایسپروکی دو گولیاں ڈال دیتا ہے۔ یہ موٹر حمایت کے سوائے کسی اور کے قابو میں نہیں آتی۔ اسے موٹرگیریج میں نہیں بلکہ اصطبل میں رکھا جاتا ہے۔ حمایت اسے چلانے سے پہلے موٹر میں بیٹھنے والوں سے پوچھتا ہے: "حضرات! کیا آپ لوگوں نے وصیتیں لکھ ڈالی ہیں اور کیا اپنی ماؤں سے دودھ بخشوالیا ہے ؟"
اور جب اثبات میں جواب ملتا ہے تو اچانک انجن کی پیٹھ پر ایک چابک رسید کرتا ہے اور موٹر ایک دولتی جھاڑ کر چل پڑتی ہے۔
اس موٹر کو چلانے میں صرف"جاکی" ہی حصہ نہیں لیتا بلکہ اس میں بیٹھنے والوں کو بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہنا پڑتا ہے۔ ایک صاحب کے ہاتھ میں بریلیں ہوتی ہیں، دوسرے صاحب کے ہاتھ میں ہارن ہوتا ہے، تیسرے صاحب کے ذمے یہ کام ہوتا ہے کہ وہ وقفے وقفے سے اس موٹر کے بار بار کھُلنے والے دروازوں کو بند کرتے رہیں۔ 'اجتماعی کاشت' کی طرح اس موٹر کی اجتماعی ڈرائیونگ ہوتی ہے "۔ ص37۔ 38

مجتبیٰ حسین اپنے بعض رپورتاژ میں سمینار کے احوال سے قبل سمینار کے ہال کا بیان کرتے ہیں۔ نیز شرکاء سمینار، سامعین کی بھیڑ اور صنف سامعین میں بیٹھے معتبرشخصیات کا بھی ذکرکرتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ مجتبیٰ حسین مختصراً اور ضمناً پیش کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ زور صرف مقصد پر ہوتا ہے۔ در اصل مجتبیٰ حسین کم سے کم الفاظ میں حالات وواقعات کی سچی، مکمل اورموثر تصویر کھینچنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اس لیے ان کے رپورتاروں میں مختلف شہروں، علاقوں، سٹرکوں، عمارتوں یا شب وروز کے دلکش اور دلفریب منظر نگاری کے نمونے ملتے ہیں۔ نیزعہداروں اورفرمابرداروں، ادیبوں اور قلمکاروں، امیروں اور رئیسوں، مفلسوں اور ناداروں، بچوں اور نوجواں کے ساتھ ساتھ بوڑھوں اور ضعیفوں کے بھی بڑے دلچسپ مرقعے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے جادوئی قلم اور سحرالبیانی کا نتیجہ ہے۔

رپورتاژ میں موضوع کی کوئی تخصیص نہیں اور نہ طوالت یا اختصار کی کوئی قید ہے یہ واقعے اور زور بیان پر منحصرہے۔ البتہ جس موضوع پر لکھا جائے۔ اس کے واقعات وحالات کی مکمل عکاسی اس انداز میں کی جانے چاہیے کہ قاری کے سامنے اس کا نقشہ اور تصویر من وعن سامنے آ جائے اور دورانِ مطالعہ یہ محسوس کرے کہ وہ ان حالات وواقعات، حادثات ولمحات کا عینی شاہد ہے۔ اس لیے رپورتاژ کا تعلق ماضی اور مستقبل کے بجائے حال سے ہوتا ہے۔ یہاں نہ ماضی میں کھو جانے کی اجازت ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنے کا حق ہے صرف حال کے چشم دیدہ واقعات، آنکھوں دیکھی تفصیلات اور بیتی باتوں کو سادگی، سچائی اور خلوص کے ساتھ پیش کرنے کی مکمل گنجائش اور آزادی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو زیرِمطالعہ کتاب میں شامل "بنگلور میں تین دن اور ایک شام" رپورتاژ نگاری کے فن پر کھرا نہیں اُترتا ہے۔ کیونکہ اس میں مصنف نے فلیش بیک تکنیک کا سہارا لے کر واقعات کو بیان کیا ہے مگر وہ ماضی ہی میں کھو گئے۔ جس کا اعتراف مصنف نے کیا ہے۔ بقول ان کے:
"معاف کیجئے ذکر خلیل مامون کا ہو رہا تھا، اور ہم ماضی کی یادوں میں کھوگئے "ص 135

اسی طرح انھوں نے "انجمن ترقی اردو ہند کے سوسال"، "کچھ انڈیا اسلامک کلچر سنٹرکے بارے میں " اور"خدا بخش لائبریری میں " میں بلترتیب چار زروذہ سیمنار، تہینتی تقریب اور توسیعی خطبہ کی روئیداد قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی داغ بیل، تاریخی پس منظر اور بنیاد گذاروں کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ جس کے مطالعے سے قاری کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ضرور ہوتا ہے مگر فن رپورتاژ نگاری ایسے تاریخی احوال اور ماضی کے حالات کو مفصل اندازمیں بیان کرنے کا زیب نہیں دیتا۔ جیسا کہ ڈاکٹر اس ایم زیڈ گوہر نے لکھا ہے۔
"یہ بات مسلم ہے کہ واقعات رفتہ یا گزشتہ حالات کو یاداشت کے زور پر قلمبند کر دینے سے رپورتاژ نگاری کے فنی تقاضے کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ رپورتاژ کے واقعات زمانہ حال میں بیان کیے جاتے ہیں اور زمانہ حال ہی سے تعلق رکھتے ہیں "۔ ؂10

ان کے ایک اور رپورتاژ "طنزومزاح کی راجدھانی --حیدرآباد" میں انھوں نے ابتدائیہ میں اپنی مزاح نگاری اور ظرافت کے میدان میں حیدرآباد اور حیدرآبادیوں کی بالادستی کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس کے بعد 1966ء کی سہ روزہ طنزومزاح نگاروں کی کل ہند کانفرنس کے مختصر احوال بیان کیے ہیں۔ پھر اس رپورتاژ کے بنیادی موضوع یعنی عالمی مزاح کانفرنس 1985ء کے واقعات اور تفصیلات بیان کرنے کے بجائے اندا گاندھی پر قاتلانہ حملے کی روائیداد بیان کی ہے۔ مگر کانفرنس، کانفرنس میں ملنے والوں اور شریک ہونے والوں کے بارے میں مجتبیٰ حسین کے تاثرات کی کمی خصوصیت سے محسوس ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں "اڑیہ ادیبوں کے درمیان" اور"ایک صدارتی خطبہ" میں بھی فن رپورتاژ نگاری کے اصول و ضوابط کا پورا پورا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اس باب میں مجتبیٰ حسین کو چھوٹ مل سکتی ہے۔ کیونکہ انھوں نے خود اپنے رپورتاژ کو کتابی شکل میں منصۂ شہود پر نہیں لایا ہے بلکہ یہ کارِ خیر رحیل صدیقی نے انجام دیا۔ مرتب نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کتاب رپورتاژاور شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ پھر اس میں کالم، تقریر یا خطبے شامل کرنے کا کیا جواز ہے۔ حالانکہ مجتبیٰ حسین اپنے "ایک صدارتی خطبہ" کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"ہم نے بدایوں کے دو روزہ دلاور فگار سمینار کے افتتاحی اجلاس میں پڑھی تھی۔ یہ تحریر ہم نے بدایوں جانے سے پہلے ہی لکھ لی تھی۔ اب بدایوں سے واپس آئے ہیں۔
ص158(ذکر پھر بدایوں کا)

دوسری جگہ وہ "اڑیہ ادیبوں کے درمیان" کے بارے میں اپنے رپورتاژ "اڑیسہ میں دودن " میں رقمطراز ہیں۔
"پچھلے ہفتہ آپ نے اس کالم میں ہماری وہ تقریر پڑھی ہو گی جو ہم نے اڑیسہ کے ادیبوں کی کانفرنس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے کی تھی"ص172

مصنف مندرجہ بالا تحریرات کو رپورتاژ نہیں مانتے ہیں۔ پھر مرتب نے کیوں ان نگارشات کو رپورتاژ کے کھاتے میں ڈال کر اس کتاب میں کھپا دئیے۔ اگر مرتب پیش لفظ میں ان باتوں اور امور کی وضاحت کرتے تھے، تو بہتر رہتا۔ مگر انھوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں لکھا۔ بلکہ فیصلہ قاری پر ہی چھوڑ دیا۔
مجتبیٰ حسین کے رپورتاژ کے مطالعے سے ان کے سوانحی حالات، ادبی اسفار اور ادبی سرگرمیوں کے کئی گوشے وا ہوتے ہیں، اور مختلف ادباء، شعراء، شہروں، انجمنوں اور اداروں کے حوالے سے واقفیت بھی ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے ایوارڈ، انعامات اور اعزازات پر بھی روشنی ڈالی ہیں۔ خاصکر 2009ء میں اپنے ایک انعام "صوفی جمیل ایوارڈ" کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے، اس بات کی بھی لب کشائی کی۔ کہ آجکل انعامات دیئے نہیں جاتے بلکہ انھیں حاصل کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اپنے طنزیہ انداز میں یوں رقمطراز ہیں۔

"میاں فہیم اختر !ہم اردو والے اتفاق بھی کچھ اس زور وشور سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے اختلاف کر رہے ہیں۔ یوں بھی ہمارے ہاں اتفاق اور نفاق میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔ رہی ایوارڈ کو قبول کرنے کی بات تو ہم نے زندگی میں ہر وہ چیز قبول کی ہے جو ہمیں محبت سے مل جائے …………آپ توجانتے ہیں کی ان دنوں اردو میں ایوارڈ دئیے نہیں جاتے بلکہ انھیں حاصل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اردو کے بیشتر ایوارڈ جو کسی زمانہ میں باوقار سمجھے جاتے تھے اب بے توقیر ہو چکے ہیں جنہیں پانے کے بعد ادیب انعام یافتہ کم اور سزایافتہ زیادہ نظر آنے لگتا ہے اورلوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے "ص 98
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ۔
" ان دنوں کئی معتبر اداروں کے لاکھوں کی مالیت کے ایوارڈ دو کوڑی کے ہو گئے ہیں کیونکہ یہ ایوارڈ دئے نہیں جاتے بلکہ انہیں حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جنہوں نے ایسے ہی ایک ادارے کے پچاس ہزار روئپے والے انعام کو حاصل کرنے کے لیے ستر ہزار روپے خرچ کر دئیے تھے۔ ایسے انعام حاصل کرنے والا بعد میں انعام کے علاوہ خود اپنا منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہ جاتا۔ ص105

رپورتاژ میں مجتبیٰ حسین نے اس فن سے بھر پور فائدہ ارٹھا یا ہے اور انھوں نے مختلف سماجی اور ادبی بُرائیوں پر طنز کے تیر برسائے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مختلف رحجانات اور تحریکات کی خوبیوں اور خامیوں کا بھی احاط کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
"ہم مزاح نگار ہیں اور نہ صرف اپنی بلکہ حضرت انسان کی اصلیت کو بھی پہچانتے ہیں اس لئے کوئی لاکھ ہماری تعریف کرے ہم گمراہ نہیں ہوتے۔ اگرخدا نخواستہ ہماری جگہ کوئی سنجیدہ شاعر یا ادیب ہوتا تو بہکی بہکی باتیں کرتا ہوا جنگل کی طرف نکل جاتا اور ناقد اس کی بہکی بہکی باتوں کو جدے دیت اور مابعد جدے دیت کے خانوں میں ڈالنے کی جتن کرتے۔ "ص101

غرض مجتبیٰ حسین کے رپورتاژ ماسوائے چند فنی اصول و ضوابط پر پورے اُترے ہیں کیونکہ ان میں رپورتاژ نگاری کی بنیادی خصوصیت پائی جاتی ہیں۔ نیز ان میں واقعہ نگاری، جذبات نگاری، کرداد نگاری، منظرنگاری، جزئیات نگاری، حقیقتِ بیان اور صحت واقعہ سبھی کچھ بدراُتم نظر آتے ہیں۔ مزید برآں شگفتہ اور مزاحیہ اندازِبیان رپورتاژ کو مزیددلچسپ بناتے ہیں۔ واقعی ان کے رپورتاژ معلومات کا مخزن ہے اور ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مختصراًان کے رپورتاژ میں کئی شہروں کے ادبی و تہذیبی فضا کی جانکاری ملتی ہے اور کئی نامور فنکار وں اور قلمکاروں کے دلچسپ حالات پاتے جاتے ہیں، کئی انجموں اور اداروں کی ادبی رفتار اور کئی شہروں کی ادبی صورتحال ملتی ہیں، کئی اپنے ذاتی حالات پیش کیے ہیں اور کئی اجتماعی شعور کی کارفرمائی ملتی ہے۔ الغرض ان رپورتاژ میں آپ بیتی، جگ بیتی، سفرنامے، یاداشت، خاکہ نگاری وغیرہ کا رنگ و آہنگ پایا جاتا ہے اور تمام واقعات اور کردار اپنے حقیقی رنگ وروپ میں پیش کئے گئے ہیں جو رپورتاژ نگاری کا بنیادی وصف ہے۔

حوالہ جات:
1؂۔ اردو میں رپورتاژ کی روایت از طلعت گل، ناشر: مصنف، اپریل 1992ء صفحہ 27
2؂۔ پیش لفظ ازڈاکٹر قمر رئیس، مشمولہ: اردو میں رپورتاژ نگاری از عبدالعزیز، مکتبہ مشاہراہ اردو بازار، دہلی، اگست 1977ء صفحہ 7۔ 8
3 ؂۔ بحوالہ: اردو میں رپورتاژ نگاری از عبدالعزیز، مکتبہ مشاہراہ اردو بازار، دہلی، اگست 1977ء صفحہ 49
4 ؂۔ اردو میں رپورتاژکی روایت از طلعت گل، ناشر: مصنف، اپریل 1992ء صفحہ 12۔ 13
5؂۔ اردو میں رپورتاژ نگاری از عبدالعزیز، مکتبہ مشاہراہ اردو بازار، دہلی، اگست 1977ء صفحہ43
؂6۔ اردو کے شہر اُردو کے لوگ (رپورتاژ اور شخصی خاکوں کا مجموعہ) مرتب رحیل صدیقی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، 2011ء صفحہ 12
؂7۔ اردو کے شہر اُردو کے لوگ (رپورتاژ اور شخصی خاکوں کا مجموعہ) مرتب رحیل صدیقی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، 2011ء صفحہ 12
؂8۔ رپورتاژ اور اس کا موضوع از شمیم احمد، مشمولہ: اردو نثر کا فنی ارتقاء مرتب ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی 2017ء صفحہ 414۔ 415
؂9۔ اردو کے شہر اُردو کے لوگ (رپورتاژ اور شخصی خاکوں کا مجموعہ) مرتب رحیل صدیقی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، 2011ء صفحہ 12
10؂۔ اردو میں رپورتاژ نگاری فن اور ارتقاء از ڈاکٹر اِس اِم زیڈگوہر، سرشٹی پبلیکشنز، محلہ کمرہ چندوارہ، مظفر پور، بہار، جنوری 2003ء صفحہ 68

***
Irshad Afaqui
Assistant Professor, Deptt. of Urdu, Govt. Degree College Sopore
Kashmir-193201
Mob.: 09622746499
ارشاد آفاقی

Reportage by Mujtaba Hussain. Article: Irshad Afaqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں