راہل دیو برمن - بالی ووڈ فلمی صنعت کا لاجواب موسیقار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-28

راہل دیو برمن - بالی ووڈ فلمی صنعت کا لاجواب موسیقار

r-d-burman

راہل دیو برمن (پ: 27/جون 1939، کولکاتا - م: 4/جنوری 1994 ، بمبئی)
بالی ووڈ فلمی صنعت کے ایسے لازوال موسیقار رہے ہیں جو اپنے فن کے ذریعے 33 برسوں تک موسیقی کے شائقین کے ذہنوں پر چھائے رہے۔ ان کے 81 ویں یوم پیدائش پر کتاب "ہندوستانی فلموں کا آغاز و ارتقا" سے ماخوذ ایک مضمون پیش خدمت ہے۔

یہ غالباً 1956ء کے بعد کی بات ہوگی جب پیڈر روڈ پر واقع پربھو کنج میں اکثر آشا بھوسلے سے ملاقات کرنے جانا ہوتا تھا تب اکثر بالکنی میں جھولتے ہنڈولے میں، چائے کا کپ لیے راہل دیو برمن بیٹھے ہوئے نظر آ جاتے تھے۔ بلند آواز میں اس وقت آشا بھوسلے کہتی تھیں صبح صبح یہ پنچم آجاتا ہے۔ اب سارے بچے اس کے ساتھ گھر میں دھماکہ کریں گے۔
میں ان دنوں آشا بھوسلے پر مضمون لکھ رہا تھا جس کا عنوان "کوکن کنتھی کی کرون کتھا" تھا۔ جب وہ مضمون شائع ہوا اور ایک ریکارڈنگ میں راہل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پرجوش طریقہ سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولے:
''آشا جی کے بارے میں بہت اچھا لکھا"۔
پہلی بار "دیدی" کے بجائے "آشا جی" جیسے الفاظ سے ان کا مخاطب کر نا دال میں کچھ کالا جیسا لگا۔ بعد میں دال کا یہ کالا اپنے آپ سفید ہو گیا، جب دونوں نے شادی کر لی۔

اس جوڑی کی بے حد سریلی کرامات نے پورے ملک کے سامعین کو مسحور کر دیا جب فلم "ہرے راما ہرے کرشنا" کے گیت 'دم مارو دم ۔۔۔" سے پورا ملک گونج اٹھا۔ یہ گیت غیرملکی پاپ سنگیت اور ہندوستانی سروں میں ڈھلا ہوا ایسا سریلا اور نایاب تجربہ تھا جس نے رابل دیو برمن کی طرز موسیقی اور آشا بھوسلے کی نشیلی آواز کو نئی بلندیوں کے ساتھ نئی توسیع دیا تھا۔ ساتھ ہی اس وقت کی فلمی موسیقی کی دھارا کو نئی طرز پر اتارا تھا۔ اس کے علاوہ اسی سال یعنی 1971 میں راہل نے لتا منگیشکر کے سروں کو ایک اور جادو بھری دھن میں ڈھال کر سامعین کو حیران کر دیا۔ وہ گیت تھا:
"رینا بیتی جائے ، شیام نہ آئے"۔۔۔

ایسا چمتکار راہل نے دس سال پہلے یعنی 1961 میں بھی کر کے دکھایا تھا۔ جب انہوں نے اپنی پہلی فلم "چھوٹے نواب" میں لتا منگیشکر سے "گھر آجا گھر آئے" ۔۔۔ جیسا لاجواب گیت گوایا تھا۔ بعد میں لتا اور راہل کے والد سچن دیو برمن میں کھٹ پٹ ہو گئی تو رابل لتا کو منانے کے بہانے آشا کے یہاں آنے لگے کیونکہ دونوں بہنیں مشترکہ کنبہ کے ماتحت اپنے اپنے وسیع فلیٹ میں آس پاس رہتی تھیں۔

راپل دیو کا "پنچم" نام اس لیے پڑا کیونکہ جب وہ روتے تھے تو پانچویں ہفتے تک جا پہنچتے تھے۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اپنے والد کے اسسٹنٹ بن گئے۔ پھر مزاحیہ اداکار محمود سے دوستی ہو گئی۔ ان دنوں محمود کہتے تھے:
"بھائی! پنچم کو پکچر دینا اس لیے بھی ضروری ہو گیا کہ اس نے دھنیں سنا سنا کر میری ناک میں دم کر دیا۔ کار کا دروازہ نہ ہوا ڈرم ہو گیا ہے جسے وہ مار مار کر بری طرح پچکا دیتا تھا۔ پھر میں یہ بھی جانتا تھا وہ ایرا غیرا نہیں، ایس ڈی برمن کا بیٹا ہے۔
لیکن فلم "چھوٹے نواب" کے بعد بھی پنچم کو کہیں کام نہیں ملا اور وہ اپنے والد کے ساتھ ہی کام کرتے رہے۔ تب یہ بات بھی پھیلی کہ راجیش کھنہ کی پہلی ہٹ فلم 'آرادهنا' کے ہٹ گیت "میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو ۔۔۔" کی دھن پنچم نے بنائی ہے۔

پانچ سال بعد مزاحیہ اداکار محمود نے جب فلم "بھوت بنگلہ" ان کے حوالہ کی تو وہاں بھی پنچم نہ بکنے والے میوزک ڈائریکٹر بنے رہے۔ لیکن 1967ء میں جب قلم "پڑوسن" میں محمود نے دوبارہ انہیں موسیقی کی ذمہ داری دی تو "میرے سامنے والی کھڑکی میں ایک چاند سا ٹکڑا رہتا ہے ۔۔۔" گیت کو عوام نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ قلم پڑوسن کے ایک اور گیت "ایک چتر نار ۔۔۔" نے بھی کم اثر نہیں جمایا اور دیکھتے ہی دیکھتے راہل برمن ایک فروخت ہونے کے لائق موسیقار ہو گئے۔
اب جتنے بڑے بینر تھے وہ سب راہل کو سائن کرنے کے چکر میں رہنے لگے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب 1947ء کے بعد آئی موسیقاروں کی نسل بڑھتی جا رہی تھی۔ او۔پی۔ نیر شنکر جے کشن، رام چندر، نوشاد، مدن موہن جیسے موسیقار فلمی موسیقی کی مین اسٹریم سے کٹتے جا رہے تھے یا ان کی زندگی کے دن پورے ہو گئے تھے۔ راہل کے لیے یہ ان کی جدوجہد کا وقت تھا۔ گلوکار کشور کمار کے ساتھ وہ اپنی سریلی دھنوں کا جادو بکھیر رہے تھے۔ اپنی بیوی آشا کی آواز کو بھی نئے طرز دے رہے تھے۔ مگر لتا منگیشکر کے تئیں ان کا یقین پہلے جیسا ہی برقرار تھا۔ وہ کہتے تھے :
"مجھے فخر ہے جو میں لتا دیدی جیسی گلوکارہ کے دور میں رہ رہا ہوں۔"

1970 کی دہائی پوری طرح سے راہل کے نام تھی۔ وہ راجیش کھنہ کے سپر اسٹار ہونے کا دور تھا۔ کٹی پتنگ ، نمک حرام، امر پریم کی موسیقی نے جہاں ملک بھر میں دھوم مچا دی تھی وہیں "ہرے راما ہرے کرشنا" اور "جوانی دیوانی" جیسی فلموں نے انہیں ملک کی نئی نسل کا چہیتا موسیقار بنا دیا۔ "آندھی" اور "کنارہ" جیسی سنجیدہ فلموں میں نغمہ نگار گزار کے ساتھ انہوں نے "تم آگئے ہو۔۔۔۔۔" اور "نام گم جائے گا۔۔۔" ہے یادگار گیت دیے۔
راہل نے ہندوستانی شاستریہ سنگیت اور غیرملکی موسیقی کا جو دلکش سنگم کیا بعد میں وہ روایت بن گیا۔
دیوار، شعلے، ہم کسی سے کم نہیں، جیسی بڑی فلموں کو، جو اتنی ہڑی سطح کا موسیقار چاہیے تھا، وہ راہل کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔
70ء کی دہائی میں بالی ووڈ کی فلمی موسیقی کو اپنی مٹھی میں سمیٹے والے راہل نے 80ء کی دہائی میں بھی لو اسٹوری، بےتاب اور راکی جیسی جوانی کے عشق پر مبنی فلموں میں ہٹ گیت دئے۔

مگر تب تک ان کے اسٹائل کی نقل کرنے والے اور انہی کی دھنوں کو خرد برد کرنے والے موسیقاروں کے آنے سے فلم ساز سستے داموں میں راہل ٹائپ میوزک خریدنے لگے۔ ساگر اور اجازت جیسی فلموں کے بعد راہل اچانک فلمی منظرنامے سے غائب ہو گئے۔
اپنے آخری دور میں راہل بڑے پیمانے پر بننے والی فلم "1942 اے لو اسٹوری" میں موسیقی دے رہے تھے۔ 1994ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم گزشتہ صدی کی آخری میوزیکل ہٹ فلم تھی۔ گیت چاہے "ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا" ہو یا "رم جھم رم جھم۔۔" ہو، راہل نے ہر دھن میں ایسا جادو انڈیلا تھا جو برسوں بعد بھی نہیں ٹوٹا۔ شاید وہ زمانہ دوبارہ آنے والا تھا جب راہل دیو برمن کو فلم صنعت سر پر بٹھا لیتی مگر وہ اس سے پہلے ہی اس دنیا سے وہ کنارہ کر گئے۔

راہل دیو برمن کے مقبول نغمے:
آپ کی آنکھوں میں کچھ مہکے ہوئے سے راز ہیں
قسمیں وعدے نبھائیں گے ہم
جب ہم جواں ہونگے جانے کہاں ہونگے
بھیگی بھیگی راتوں میں، میٹھی میٹھی باتوں میں
پربتوں سے آج میں ٹکرا گیا

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا
مولف: ڈاکٹر الف انصاری

R.D.Burman, Bollywood's great musician.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں