مجتبی حسین کی زندہ دلان حیدرآباد سے وابستگی کے چند حقائق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-01

مجتبی حسین کی زندہ دلان حیدرآباد سے وابستگی کے چند حقائق

mujtaba-hussain-zinda-dilan-hyderabad

زیر نظر مضمون، زندہ دلان حیدرآباد سے مرحوم مجتبی حسین کی وابستگی سے متعلق چند اہم وضاحتوں پر مشتمل ہے۔ ان وضاحتوں کی تصدیق راقم نے براہ راست سوالات کے ذریعے، متعلقہ شخصیات بشمول ڈاکٹر مصطفی کمال، مرحوم مجتبیٰ حسین، مرحوم رشید انصاری اور والد مرحوم رؤف خلش سے دو سال قبل کی تھی اور اس سلسلے کی دستاویزات بھی ملاحظہ کیں۔ یہ مضمون حیدرآباد کی ادبی تاریخ کے کچھ حقائق کو سائبر دنیا میں محفوظ رکھنے کی خاطر شائع کیا جا رہا ہے۔
از طرف: مکرم نیاز، مدیر اعزازی 'تعمیرنیوز'۔

مرحوم مجتبی حسین صاحب کے قلمی کارناموں سے کوئی ادب دوست ایسا نہیں جو واقف نہ ہو۔ لوگ ادب میں ان کے مقام کو پدم شری کے ایوارڈ سے متعین کرتے ہیں لیکن ان کے لئے میں پدم شری سے بھی بڑا ایوارڈ یہ سمجھتا ہوں کہ خامہ بگوش {مشفق خواجہ} نے اپنی دو کتابوں کا انتساب مجتبی حسین کے نام کیا ہے۔ سفارش یا کسی اور طریقے سے ایوارڈ حاصل کرنا تو ممکن ہے لیکن مشفق خواجہ جیسی عظیم شخصیت کے پاس اتنا بڑا مقام حاصل کر لینا، نہ کسی سفارش سے ممکن ہے نہ رشوت سے۔ مشفق خواجہ کو اس حد تک متاثر کرنے والا شخص کتنی عظیم ادبی صلاحیتوں کا مالک ہوگا، آپ اسی سے اندازہ کر سکتے ہیں۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مجتبی حسین مرحوم کو شائد یہ خبر نہیں تھی کہ ان میں اتنا بڑا ادیب موجود ہے، وہ تو اعلی تعلیم کے لئے گلبرگہ سے حیدرآباد آئے تھے، اور اس کے بعد انتخاب پریس میں نوکری سے لگ گئے۔ سیاست اخبار کے معروف کالم نویس شاہد صدیقی صاحب کے اتنقال کے بعد یہ ایک اتفاق تھا کہ سیاست کے دفتر میں محبوب حسین جگر تھے، جو ان کے بڑے بھائی تھے۔ جگرصاحب کو یہ خیال آیا کہ مجتبی حسین سے بھی کالم لکھوانے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے انہیں ایک کالم لکھنے کا موقع دیا، اس طرح وہ کالم لکھنے لگے، پھر مرحوم کو مزاحیہ مضامین لکھنے کا شوق ہوا اور اور پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے پدم شری ایوارڈ ملنے پر بھی ختم نہیں ہوا۔
ساری دنیا کے ادبی حلقوں میں دکن کے اس قلمکار کا تذکرہ ہونے لگا۔ مرحوم کے کئی مزاحیہ مضامین تو شہرہ آفاق ہیں ہی، لیکن مکہ مسجد دھماکہ پر انہوں نے ایک ایسا مضمون لکھا جو ہے تو مزاحیہ لیکن اس میں دلوں اور دماغوں کو جھنجھوڑ دینے والا طنز ہندوستان میں ہندو دہشت گردی کا ایک بدترین رخ پیش کرتا ہے۔ ایسے کئی تاریخی مضامین ہیں جو سیاسی نہ ہوتے ہوئے عصری سیاسی تبصرے کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ اسی طرح چاہے معاشرتی، سماجی اور معاشی مسائل ہوں کہ ادبی تبصرے اور تنقیدیں، شخصی خاکے ہوں کہ سفرنامے، جس موضوع کو بھی انہوں نے اٹھایا امر کر دیا۔ انہیں نوازے جانے والے ایوارڈز، کیسہ زر، اور غیرممالک کے اسفار کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جو ہند و پاک کے صرف چند ایک ادیبوں کے نصیب میں آئے ہیں۔

مگر اِس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ مرحوم بہرحال ایک انسان ہی تھے۔ ہر انسان میں جہاں سچائی، امانت داری، انسانیت، عفو و درگزر اور ایثار وغیرہ کے چند اچھے عناصر ہوتے ہیں وہیں ہر انسان میں جھوٹ، حسد، غصہ ، خودغرضی وغیرہ کے بھی چند خراب عناصر موجود ہوتے ہیں۔ ہر انسان انہی دو صفات کا مرکب ہوتا ہے۔ کسی کے اچھے کارناموں کی وجہ سے اس کو صرف اعلی صفات کا حامل اور تمام غلطیوں سے پاک قرار دے دینا اسے پیغمبر قرار دے دینا ہے، پیغمبروں کے علاوہ کوئی انسان ایسا نہِیں پیدا ہوا، جو انسانی کمزوریوں سے مکمل پاک ہو۔

اس لئے چاہے مرحوم ہوں یا کوئی اور، ان کے اچھےکاموں کی قدردانی کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے لیکن اندھی عقیدت اور کم علمی کی بنا پر ان کو فرشتوں کا درجہ دے دینا غلط ہے۔ ایک دو باتیں جو مرحوم سے غلط منسوب کی جا رہی ہیں ان کے خلاصہ کا اظہار بھی ضروری ہے۔
فرد چاہے کتنا بلند ہو جائے وہ تنظیم سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ "زندہ دلان (حیدرآباد)" اور "شگوفہ (حیدرآباد)" کے پلیٹ فارم سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔ چونکہ انہیں تنظیمی امور سے کبھی دلچسپی نہیں رہی اس لئے زندہ دلان یا کسی بھی تنظیم سے انہوں نے عملی طور پر کبھی بھی زیادہ وابستگی نہیں رکھی۔ اسی لئے "زندہ دلان" کو قائم کرنے سے لے کر آج تک اٹھاون سال کے سفر میں زندہ دلان کے لئے ان کا قابلِ ذکر نمایاں عملی تعاون کبھی نہیں رہا۔

زندہ دلان 1962 میں فائن آرٹس اکیڈیمی کے ایک ادبی شعبہ کے طور پر قائم ہوا، 1973 میں ڈاکڑ مصطفی کمال نے فائن آرٹس کے سینئر ارکان کی رضامندی سے اسے رجسٹر کروایا اور بانی ارکان کے طور پر پانچ حضرات نے رجسٹریشن فارم پر دستخط کئے جن میں مرحوم حمایت اللہ، وٹھل راؤ، سعادت علی خان اور ممتاز احمد صاحبان تھے۔ مجتبی حسین، سنہ 1972 یعنی زندہ دلان کے رجسٹریشن سے ایک سال قبل دہلی جا چکے تھے۔ بعض حضرات بشمول خود مجتبی حسین صاحب کے ، انہیں زندہ دلان کا بانی باور کرواتے ہیں، یہ سراسر غلط ہے۔
مرحوم مجتبیٰ حسین زندہ دلان کے نہ بانی تھے اور نہ ان کا بانیوں میں شمار تھا۔۔ روزِ اول سے انہوں نے ہر پروگرام میں باہر سے آنے والے مہمان ادیبوں اور شاعروں کے برابر معقول معاوضہ اور سواری خرچ وصول کیا۔ اپنی کتابوں، مضامین، اور ایوارڈز کے پروموشن کے سلسلے میں زندہ دلان ان کے لئے ہمیشہ ایک حوالہ بنی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپنے حوالے سے انہوں نے 'زندہ دلان' کے لئے کوئی فنڈنگ یا کوئی اور مدد کروائی ہو۔

مرحوم مجتبیٰ حسین نے 1966 میں فائن آرٹس اکیڈیمی اور زندہ دلان کی مدد سے جشنِ مزاح کا انعقاد کیا۔ یہ تجربہ بے انتہا کامیاب رہا۔ اگلے سال اسی طرز پر انہوں نے بجائے زندہ دلان کے، حلقہ ارباب ذوق کے زیرِ اہتمام جشنِ مزاح منعقد کیا۔ اس کے باوجود بھی شگوفہ اور زندہ دلان نے ان کی بھرپور ہمت افزائی جاری رکھی۔ 1968 میں انہیں زندہ دلان کی اڈہاک کمیٹی کا معتمد بھی بنایا گیا۔ لیکن ان کے دہلی جانے کے بعد فائن آرٹس اور زندہ دلان سے ان کا عملی تعلق ختم ہو گیا۔

زندہ دلان جو ایک مضبوط تحریک بن چکی تھی، اس کے سالانہ پروگراموں میں شرکت کرنے کو پورے ہندوستان کے ادیب اور شعرا ایک اعزاز سمجھتے تھے، ان کاموں میں مزید وسعتیں پیدا کرنے کی توقعات کے ساتھ انہیں حیدرآباد مستقل واپسی پر صدارت سونپی گئی۔ لیکن یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ اور ایک دن اچانک سیاست اخبار میں یہ کہہ کر استغفی دے دیا کہ مزاح کے لکھنے والوں کا فقدان ہو چکا ہے۔ پھر پتہ نہیں کیوں انہیں اچانک زندہ دلان کو ہائی جیک کرنے کی سوجھی۔ انہوں نے جو بھی طریقہ اختیار کیا وہ مکمل غیر قانونی اور غیراخلاقی تھا جس کی وجہ سے چند معصوم لوگوں کو جیل جانا پڑا۔

ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب مرحوم مجتبی حسین سے بغض و عناد رکھنے والے چندحضرات نے ان کے دو مضامین کی بنیاد پر ان کی تکفیرکرنی شروع کر دی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ نصرت ظہیر اور مدیر شگوفہ کے خلاف تجدیدِ ایمان کے فتوے لانے کی بھی کوششیں کیں۔ اس موقع پر زندہ دلان نے مجتبی حسین صاحب کی تائید میں سخت موقف اختیار کیا۔ راقم الحروف نے بھی اس زمانے میں جب یہ ساری جنگیں یاہو اور ہاٹ میل گروپس پر لڑی جاتی تھیں، مجتبی حسین صاحب کی دفاع میں لکھتے ہوئے بے شمار گھنٹے صرف کیئے۔ آج حیرت ہوتی ہے کہ مجتبی حسین صاحب کی تکفیر کرنے والے اور ان سے تجدیدِ ایمان کا مطالبہ کرنے والے حضرات مرحوم کے حامی بن کر زندہ دلان کے خلاف غلط فہمیاں اور افواہیں پھیلا رہے ہیں۔

بہرحال، مرحوم کے انتقال پر چونکہ سوشل میڈیا کے مختلف گروپس پر ایسے مراسلات آ رہے ہیں کہ کچھ لوگ عقیدت مندی میں یہ چاہتے ہیں کہ مرحوم کو ایک فرشتے کا درجہ دے دیا جائے کیونکہ مرحوم ایک عظیم مصنّف تھے، دوسری طرف کچھ حضرات مرحوم کی شخصی غلطیوں کی وجہ سے اس قدر نالاں ہیں کہ چاہتے ہیں کہ مرحوم کے قلمی کارناموں کو مکمل طور پررد کر دیا جائے۔
یہ دونوں رویّے غلط ہیں۔
اردو ادب اور بالخصوص طنز و مزاح کے اس انحطاط کے دور میں مرحوم نے اپنے قلم کے ذریعے مزاحیہ ادب کے اعلی معیار کو قائم رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا جو ہمارے ادب کی ایک تاریخ بنے گا۔ ہاں یہ بھی صحیح ہے کہ شخصی طور پر وہ شہرت پسندی کا شکار تھے جس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو تکلیف پہنچی۔ چونکہ اب وہ دنیا میں نہیں رہے اس لئے تمام اختلافات کو بھلا کر ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے کا شریعت میں ہمیں حکم ملتا ہے، لہذا مرحوم کے حامیان و مخالفین دونوں سے درخواست ہے کہ اب اعتراض اور اعتراض علی اعتراض کا سلسلہ بند کر کے دعا کی جائے کہ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے۔
ہم سب سے بھی بے شمار غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اللہ تعالی ہمیں بھی معاف فرمائے۔

***
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

Mujtaba Hussain and his contribution to Zinda Dilan-e-Hyderabad. Article by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں