بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-29

بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش


ارباب اقتدار نے یہ شاطرانہ حکمت عملی اختیار کر لی ہے کہ عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لیے کوئی ایسا موضوع چھیڑ دیتے ہیں کہ عوام اس میں الجھ کر دیگر مسائل بھول جاتے ہیں۔ مثلاً چین معاملے پر عوام کی ناراضگی سے بچنے کے لیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اس تیزی سے اضافہ کیا جا رہا ہے کہ چین سے متعلق سوالات پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسی طرح کورونا معاملے کو چین سے تنازعہ کے بعد دبا دیا گیا اور اپوزیشن پارٹیاں کورونا سے متعلق حکومت کی پالیسیوں کو بھول کر چین کے موضوع پر سوال کرنے لگیں۔ ملک کی سالمیت سے متعلق معاملہ ہونے کے سبب کئی سیاسی پارٹیوں نے تو کل جماعتی میٹنگ میں اس معاملے پر سوال اٹھانے تک سے اس لیے گریز کر لیا کہیں ان پر ملک سے غداری کا الزام نہ لگ جائے۔ کئی اپوزیشن پارٹیوں نے راجیہ سبھا الیکشن میں بی جے پی امیدواروں کو ووٹ دے کر حکمرانوں کے سامنے اس طرح گھٹنے ٹیک دیے کہ اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا وجود بھی کہیں خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اتر پردیش کی دو اہم اپوزیشن پارٹیوں نے مدھیہ پردیش میں راجیہ سبھا الیکشن کے لیے ووٹنگ کے دوران جس طرح بی جے پی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیکولرزم کے دعویدار کہاں کھڑے ہیں۔
بہرحال چین کے مسئلے پر اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک طرف تو فرضی حب الوطنی کا ڈرامہ کیا گیا اور حکومت و ملک کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی گئی، دوسری طرف بی جے پی نے اس معاملے میں سب سے زیادہ سوال کرنے والی کانگریس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ پرانے دستاویز نکال لیے کہ جن میں کانگریس کی سابقہ مرکزی حکومت کے دور میں راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو چین کے ذریعہ چندہ دیے جانے کی بات ہے۔
یہ عجیب حکمت عملی ہے کہ بی جے پی حکومتیں اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لیے روز اول سے ہی کانگریس کے گڑے مردے اکھاڑنے کا کام کر رہی ہیں اور اس طرح عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے اور کانگریس قیادت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حالانکہ کسی کی کوتاہی صرف اس لیے نظر انداز نہیں کی جا سکتی یا اس لیے قابل معافی نہیں ہو سکتی کہ ماضی میں دوسروں نے بھی ایسا ہی کیا یا اس سے زیادہ غلطیاں کی ہیں۔

بی جے پی نے کانگریس پر دوسرا حملہ ایمرجنسی کی برسی کے بہانے کیا ہے اور کہا ہے کہ 45 سال قبل ملک پر ایمرجنسی تھوپ دی گئی تھی۔ وزیراعظم سمیت بی جے پی اور اس کی حکومت کے تمام اہم ذمہ داروں نے ایمرجنسی کے دوران جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں کو یہ کہ کر یاد کیا کہ ملک ان کی قربانیاں کبھی نہیں بھولے گا۔
ایسا کہنے والوں کے پاس اس بات کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے کہ جو کچھ ایمرجنسی کے دوران اعلانیہ طور پر کیا گیا وہی سب کچھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اور بہت زیادہ غیر اعلانیہ طور پر آج کیا جا رہا ہے۔ حکومت اور ملک کو خلط ملط کرنے کی کوشش کس طرح کی جا رہی ہے اس کی تفصیل سے اب ملک کا ہر شہری واقف ہے۔
ان سب حقائق سے قطع نظر عوام کے مفادات کو نظر انداز کرنے اور ملک کی معیشت پر سرمایہ داروں کو مسلط کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں اس کے دیرپا نقصانات سے بچنے کی صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ ان مسائل پر چند ایک سیاسی پارٹیوں کے علاوہ کوئی پارٹی لب کشائی کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ راقم الحروف نے اپنے گزشتہ کالم میں اس سلسلے کے چند حقائق کا ذکر کیا تھا۔ صورتحال اب بھی وہی ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کا حکومت کے تعلق سے مجرمانہ بے تعلقی کا رویہ حالات کو مزید بدتر بنا رہا ہے۔ اس سے جمہوریت کے وجود کے لیے بھی سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

چند روز قبل ہی ایک مرتبہ پھر اتر پردیش کانگریس نے ریاست کی یوگی حکومت اور مرکز کی مودی حکومت کے خلاف ریاستی راجدھانی لکھنؤ میں مظاہرہ کیا۔ اس میں ریاستی کانگریس صدر اجے کمار للو کو گرفتار کر کے تھوڑی دیر میں ہی چھوڑ دیا گیا۔ یہ مظاہرہ ڈیزل اور پٹرول کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف کیا گیا تھا۔ قیمتوں میں اس اضافے نے مرکزی حکومت کی چین سے متعلق پالیسیوں اور ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹا کر انھیں برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متعلق سوالوں میں الجھا دیا ہے۔ ظاہر ہے چین اور کورونا کے مسائل شکم کی آگ پر حاوی نہیں ہو سکتے۔
اپوزیشن پارٹیوں میں سے بیشتر کی دوغلی پالیسیوں کے باوجود عوام کے پاس دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اسے عیار سیاست واں بخوبی سمجھتے ہیں اور اس کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ حکومت سے نالاں عوام کے لیے یہ بات شائد معنی نہیں رکھتی کہ ان اپوزیشن پارٹیوں کے نمائیندے کس طرح حکمرانوں کی نیلام گاہ پر راست یا بالواسطہ طور پر فروخت ہو رہے ہیں اور مہنگائی سے مرتے ہوئے عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
اپوزیشن کی اس منافقانہ پالیسی کا ایک تازہ ثبوت اتر پردیش کی اہم اپوزیشن پارٹی سماجوادی پارٹی کے قومی صدر اور سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کی وہ اپیل ہے جو انھوں نے اپنی پارٹی کے ورکروں کے نام جاری کی ہے۔ اس اپیل میں اکھلیش یادو نے پارٹی کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ ریاست اور مرکز کی ہے جے پی حکومتوں کی ناقابل معافی غلطیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کو اجاگر کریں۔ اسمبلی نے پارٹی ورکروں سے عوام کے درمیان جانے کی اپیل بھی کی ہے۔ اکھلیش کا کہنا ہے کہ کسان لٹ رہا ہے۔ مزدور بھوک سے مر رہے ہیں۔ بے روزگاری بے تحاشہ بڑھ رہی ہے۔ نوکریوں کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ ملک کی سرحدیں سکڑ رہی ہیں۔ کورونا کی وبا سے پورا ملک خوفزدہ ہے اور لاک ڈاؤن کے سبب ملک کی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور ملک معاشی افراتفری، کساد بازاری اور آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے، لہذا پارٹی ورکروں کو اس کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اکھلیش نے جن عوامی مسائل کو پارٹی ورکروں سے عوامی سطح پر اٹھانے کے لیے کہا ہے وہ بیحد اہم ہیں۔ یہ تمام مسائل ہماری جمہوریت، معیشت، ترقی، خوشحالی اور ایک پرامن سماج کے لیے جزو لازم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ اہم ضرورت وہ امن ہے جو کسی سماج کو اتحاد و یکجہتی کی ڈور میں باندھنے کے لیے ضروری ہے اور جو سماج کے مختلف طبقات میں نفرت پھیلا کر نہیں بلکہ آپسی محبت و بھائی چارے کے ذریعہ ہی حاصل کی جاتی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں نے مرگھٹ اور قبرستانوں کے سناٹوں کو امن مان لیا ہے اور نفرت کو قومیت کے پردے میں چھپا کر ایک خاص ایجنڈے پر عمل کیا جا رہا ہے، لیکن اپوزیشن پارٹیاں اس پر خاموش اور ڈری سہمی نظر آتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ بی جے پی جس ایمرجنسی کو کانگریس کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اس کا سب سے قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ایمرجنسی نے تمام اپوزیشن کو متحد کر دیا تھا اور تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر کانگریس حکومت کے خلاف بیان جاری کرنے کی بجائے جیلوں کو بھر دیا تھا۔ لیکن آج کی اپوزیشن پارٹیاں حکمرانوں کی جوتیاں سیدھی کر کے جمہوریت بچانے کی احمقانہ غلط فہمی کی شکار ہیں۔
اکھلیش یادو جو مشورہ اپنی پارٹی کے ورکروں کو دے رہے ہیں اس کی سنجیدگی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ خود جیل جانے سے خوفزدہ ہونے کی بجائے میدان عمل میں اتر کر حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کریں۔ ان کی اور کانگریس، بی ایس پی و دیگر پارٹیوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پارٹی مفادات اور سیاسی خرید و فروخت کے حکمرانوں کے جال میں پھنسنے کی بجائے متحد ہو کر تمام عوام مخالف ایشوز پرسخت اور زمینی جدوجہد کے لیے خود کو اسی طرح آمادہ کریں جس طرح ایمرجنسی کے دور میں کیا گیا تھا۔
البتہ حالات میں ایک فرق یہ ہے کہ اب سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو ساتھ رکھنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ حکومت ایک مسئلے سے جان چھڑانے کے لیے دوسرا مسئلہ کھڑا کر کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتی رہے گی اور عوام اپوزیشن کے ناکارہ پن کے سبب ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن، 28/جون 2020۔

Centre attempts to divert attention from basic issues. Column: Siraj Naqvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں