غیبت سوسائٹی - انشائیہ از نسیمہ تراب الحسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-23

غیبت سوسائٹی - انشائیہ از نسیمہ تراب الحسن

gheebat-society

نسیمہ تراب الحسن، کا شمار حیدرآباد کی ممتاز نثرنگار خواتین میں ہوتا ہے۔ ان کے قلم میں روانی ہے اور طرز بیان میں سادگی، تجزیاتی انداز فکر اور خوش طبعی کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ ان کی تصنیف کردہ مقبول کتب میں مزاحیہ مضامین کا مجموعہ "باتیں کہنے سننے کی" اور خاکوں کا مجموعہ "نقوشِ دل" شامل ہیں۔ ذیل میں ان کا ایک دلچسپ انشائیہ ملاحظہ کیجیے۔

آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہماری ایک غیبت سوسائٹی ہے جس میں ہم لوگ اپنے رشتے داروں ، دوستوں اور ملنے والوں کی حرکات و سکنات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تعریف یا اچھائیاں تو مقابل بیٹھ کر کرنے سے ہی سننے والے کو خوش کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی کے طرز تکلم پر یا ان کے عادات و اطوار پر اعتراض کریں تو صاحب موصوف کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور بفرض محال وہ آپ کی باتوں کا منہ توڑ جواب نہ دیں جو ان کی انسانیت کو ظاہر کرے گا، لیکن اس میں شک نہیں کہ مستقبل میں وہ آپ سے ملنے سے کترانے لگیں گے اور اگر رشتے ناطے کی ایسی ڈور آپ کے بیچ ہے کہ میل ملاقات قطع نہیں کی جا سکتی تو بادل نخواستہ آداب سلام کی رواداری کا سلسلہ بنا رہے گا۔ آپسی محبت و خلوص آپ کی کڑوی سچائی کے زہر میں گھل جائے گا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے ہم کو نیبت سوسائٹی بنانے کی ترغیب دی۔

یہ تو انسانی فطرت ہے کہ دنیا میں، چاہے دینوی معاملہ ہو یا دنیاوی سب کا ہم خیال ہونا ضروری نہیں۔ ہر فرد کسی بھی مسئلے پر جداگانہ طریقے سے غور کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک اپنی بات کو صحیح تصور کرتا ہے اور دوسروں سے منوانا چاہتا ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ جس دلیل پر اختلاف رائے ہو یا ہم اوروں کو اپنی رائے سے متفق کرنا چاہیں تو ناخوشگوار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
بات چاہے تیری با سہولت سے کی جائے۔ ادب سے کی جائے آپ کے مخالف اس اعتراض کو غلط اور مضر سمجھ کر اس کی مزاحمت کرتے ہیں۔ چونکہ انہیں اپنی بات اور اپنے افعال پر یقین کامل رہتا ہے وہ آپ کی بات ماننے کے لئے کسی صورت تیار ہیں ہوتے۔
پہلے زمانے میں جب چھوٹے بڑے کا لحاظ تھا، رشتے ناطوں کا دلوں میں احترام تھا تو ایسی صورت میں سننے والے ادباً خاموشی اختیار کر لیتے لیکن آج کل پاس و لحاظ کی فرسودہ رسم ناپید ہو گئی ہے۔ ادھر آپ نے کچھ کہا ادھر فوراً جواب حاضر۔ آپ ٹھہرے دقیانوسی۔ خلاف توقع جواب سن کر ششدر رہ جاتے ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے دل کہتا ہے کہ بیکار ہی کچھ کہا۔ کاش پہلے خیال آ جاتا تو ایسا جواب نہ سننا پڑتا مگر اب تو فضا مکدر ہو چکی ہوتی ہے۔ خاموشی حالات بگڑنے کو روک سکتی ہے ورنہ شکوہ جواب شکوہ کا سلسلہ چل سکتا ہے۔

بس ان باتوں سے دل و دماغ میں کچھڑی پکنے لگی اور طے پایا کہ چند ہم خیال لوگ جن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے ایک چھتری کے نیچے جمع ہو کر ایسے مسئلوں پر بات چیت کر لیا کریں جو عام طور پر کچھ لوگوں کے لئے رنجش کا سبب بن جاتے ہیں، اگر یہی باتیں ان افراد سے دور الگ بیٹھ کر کی جائیں جن سے یہ سب قصے کہانیاں تعلق رکھتی ہیں تو انھیں تکلیف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب یہ منطق کہ ایسی باتیں ہی کیوں کی جائیں جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں؟ یوں تو مذہب کی رو سے کسی کی برائی کرنا گناہ مانا جاتا ہے مگر مذہب کی ہر بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جیسے اس کو لیجیے کہ غیبت کرنا برا ہی نہیں بلکہ گناہ ہے اور دوسری طرف کسی کا دل دکھانے سے بھی منع کیا گیا ہے لیکن اگر کوئی سفید کو سفید اور کالے کو کالا مانے کے لئے تیار نہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے؟
آدھا دروازہ کھلا ہے اور آ دھا دروازہ بند ہے پر بحث کرنے کے بجائے زیادہ اچھا ہے کہ ہم بعد میں بات کر لیں کہ فلاں شخص کو الٹی بحث کی عادت ہے۔ لیجیے ایک طرف آپ نے کسی کا دل دکھانے سے اپنے آپ کو باز رکھا تو دوسری طرف غیبت کے زمرے میں داخل ہو گئے۔

اب آج کل کے مذہبی رہنماؤں کے پاس وقت کہاں جو ان معمولی باتوں پر روشنی ڈالیں، یہ تو آپ کو خود سوچنا چاہیے کہ کون سا گناہ زیادہ مسائل پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ہماری دانست میں غیبت کرنے میں زیادہ فائدے ہیں۔ مخالف پارٹی کا دل دکھنے سے بچ جاتا ہے۔ آپ کی ان سے راہ و رسم بنی رہتی ہے۔ اور آپ اپنے دل کا غبار نکال کر ہلکے ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہم کو روز مرہ زندگی میں آسانی سے دکھائی دیتی ہیں۔
لیجیے مصلحت میرا دامن تھام رہی ہے کہ کہیں میں مثالیں دوں اور پڑھنے والے دل پر لے کر برا مان جائیں۔ ارے بھائی میرا مقصد ہرگز کسی کی برائی طشت از بام کرنا نہیں، صرف اپنی بات سمجھانے کے لئے لکھ رہی ہوں کہ جیسے کسی کو چپڑ چپڑ کر کے کھانے کی عادت ہوتی ہے، ساتھ کھانے والے بےچین کہ کیا میوزک نج رہی ہے۔ برا ماننے کے خیال سے کہہ بھی نہیں سکتے کہ پلیز منہ بند کر کے کھائیں آواز نہیں آتی۔ اور اگر ہمت کر کے آپ کہہ بھی دیں یا شال میں لپیٹ کر اظہار کریں تو وہ اپنی برسوں پرانی عادت کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ لیجیے "بات بھی کھوئی التجا کر کے" والا معاملہ ہو گیا۔
اسی طرح بعض لوگوں کو اپنی اولاد کی بدتہذیبی کا احساس نہیں رہتا لیکن دوسرے کے بچوں کی ہر حرکت قابل اعتراض دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کہہ دیں کہ خود آپ کے بچے بھی تو ایسا کرتے ہیں تو بس قیامت کی گھڑی آ جاتی ہے۔ بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔
اسی لئے تو غیبت سوسائٹی کا سہارا بہت غنیمت رہتا ہے۔ یہاں آپ کسی سے متعلق اظہار رائے کرتے ہیں اس پر شریک محفل اپنے خیالات کی روشنی میں تبصرہ کرتے ہیں۔ مانا کہ نتیجہ کچھ نہ نکلے لیکن دلوں کو سکون مل جاتا ہے۔ ادھر وہ خوش ادھر ہم اور کسی طرح بدمزگی نہیں ہوتی۔
مجھے یاد آیا کہ ایک بار ہماری غیبت سوسائٹی سے انحراف کرتے ہوئے ایک صاحب کہنے لگے کہ غیبت اور جھوٹ گناہ ہے۔ لوگوں کی خوشی کے لئے دونوں کا سہارا غلط ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ ان دونوں کو مصلحت کے تحت اپنایا جائے تو حالات خوشگوار رہتے ہیں۔ اگر ہماری بات صحیح نہیں سمجھتے ہیں تو آزما کر دیکھ لیجئے تو جناب انہوں نے دل میں ٹھان لی کہ ایک دن صبح سے شام تک میں سچ اور صاف گوئی سے کام لے کر دیکھوں گا۔
صبح ہوئی بیوی مسکراتی چائے لے کر آئی، انہوں نے ایک گھونٹ لیا ہوگا کہ اس نے اٹھلا کر پوچھا: "اچھی ہے نا؟"
اور انہوں نے منہ بنا کر کہا: بالکل بیکار، گرم پانی کی طرح۔
بیوی کا چہرہ اتر گیا اس کی خدمت گزاری پر اوس پڑ گئی اور وہ وہاں سے چلی گئی۔
پھر یہ صاحب دفتر پہنچے۔ اپنے سینئر آفیسر سے مڈبھیڑ ہوئی، صاحب سلامت کے بعد انہوں نے اپنی ٹائی کے متعلق پوچھا کیسی ہے؟ انہوں نے کہا کوئی خاص نہیں، آپ کی شرٹ پر تو مناسب نہیں لگتی۔ وہ اپنی ڈریسنگ کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر ٹھنڈے پڑ گئے مگر تمام دن ان صاحب کے ساتھ گرما گرمی کا برتاؤ جاری رکھا۔
ابھی دن گزرنے میں بہت وقت باقی تھا مگر ان کے ارادے اٹل کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور منہ پر کہوں گا۔ کھانے کا وقت آ گیا۔ روز کی طرح سب اکھٹے ہوئے اور ایک ساتھی نے جو خود توشہ نہیں لایا تھا ان کی خاطر شروع کی تو یہ بول اٹھے: خوب جناب، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ؟ اور وہ جو محبت سے ان کا خیال کر رہا تھا یکدم خاموش ہو گیا۔ اسی طرح گھر واپس آنے تک مختلف ملنے والوں سے ان کے کام کے بارے میں گل فشانی رہی۔ شام کو اسے احساس ہوا کہ اس کے اطراف اترے چہرے یا خقگی بھرا ماحول چھایا ہے، تب ہی اس کو احساس ہوا کہ کسی کے سامنے اس پر اعتراض سے کشیدگی یا بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم غیبت کے بنیادی نکتوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہم خیال لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ گفتگو میں لطف پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا سلسلہ طویل ہوتا ہے۔

غیبت سے بھی ہوتا ہے کہ کسی کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات غیبت کرنے میں یہ ہے کہ انسان میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا جائزہ لینے اور اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کا جذ بہ جاگ اٹھتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کی بری باتوں کا ذکر کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ان کی خصلت، ان کے طور طریقہ اور ان کے برتاؤ پر تنقید کرتے ہیں تو ڈھکے چھپے طریقے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ برائیاں آپ کی شخصیت میں نہیں۔ اتفاقاً اگر دوسروں کی کچھ قابل اعتراض باتیں جنہیں غیبت سوسائٹی میں زیر بحث رکھا گیا ہو، اپنے حالات سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں، تو اس سوسائٹی کے ممبران سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینک سکتے۔
کیوں کیا خیال ہے آپ کا؟

ماخوذ از کتاب:
حیدرآباد کی طنز و مزاح نگار خواتین
تصنیف: پروفیسر حبیب ضیا (اشاعت: 2005)

Gheebat (Backbiting) Society. Satiric Essay by: Nasima TurabulHasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں