شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ - شدید مالی بحران کا شکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-21

شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ - شدید مالی بحران کا شکار

shibli-academy-azamgarh-1914

وطن عزیزمیں ہمارے آبا و اجداد نے جو اہم ترین علمی، ادبی اورتحقیقی ادارے قایم کئے ہیں، ان کے بارے میں ہم میں سے بیشتر لوگوں کی معلومات بہت محدود ہیں۔
نہ ہمیں ان اداروں کی سرگرمیوں کا کوئی علم ہے اور نہ ان کی موجودہ حالت کے بارے میں کوئی جانکاری ہے۔ ہمارے ان ہی قابل قدر اور قابل فخر اداروں میں علامہ شبلی نعمانی کی یادگار "دارالمصنفین، اعظم گڑھ" بھی ہے، جسے "شبلی اکیڈمی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اس عظیم الشان ادارے نے چند سال پہلے ہی اپنے قیام کے 100 سال مکمل کئے ہیں۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ بے مثال علمی اور تحقیقی ادارہ آج اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے تو شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ لیکن یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ آج یہ ادارہ ایسی مالی مشکلات کا شکار ہے کہ اس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ کسی بندہ خدا نے مجھے اس ادارے کے ڈائرکٹر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی کا ایک مکتوب روانہ کیا ہے۔
اس خط کو پڑھ کر میں شروع میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ کسی کی کارستانی ہے اور ایک وقیع ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر اس قسم کی فرضی چیزیں اکثر گشت کرتی رہتی ہیں۔ لیکن جب مجھے اس مکتوب کے اصل ہونے کا علم ہوا تو سخت تشویش ہوئی، کیونکہ میں خود بھی اس ادارے کے خوشہ چینوں میں شامل رہا ہوں اور یہاں سے شائع ہونے والے انتہائی وقیع جریدے 'معارف' نے میری ذہنی تربیت میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔
اس وقت میرے ناتواں ہاتھوں میں اس ادارے کے حق میں یہ چند سطریں لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا میں ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ذریعہ آپ کو اس ادارے کی غیر معمولی علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات سے متعارف کروا رہا ہوں۔ حالانکہ آپ مجھ سے بہتر طور پر اس عظیم الشان ادارے کی خدمات سے واقف ہیں۔

پورے جنوبی ایشاء میں ایسا کون سا مسلم مفکر ہے جو دارالمصنفین کے لازوال علمی کارناموں سے استفادہ کئے بغیر کسی مقام کو پہنچا ہو۔ اصل معنوں میں کسی ادارے کو اگر تھنک ٹینک ہونے کا حق حاصل تھا تو وہ دارالمصنفین ہی تھا۔ اپنے محدود وسائل سے ہندوستان میں مسلمانوں کی زندہ جاوید تاریخ کو مرتب کرنے کا بے مثال کارنامہ انجام دینے والا یہ ادارہ آج اپنے اسکالرز کو تنخواہ دینے کے لئے آپ کے سامنے سوال بن کر کھڑا ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟

اب آئیے اس کھلے خط کی طرف جو دارالمصنفین کے ڈائریکٹر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے گزشتہ 6/جون/2020 کو ملت کے بہی خواہوں کے نام لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"مجھے دکھ ہے کہ ان سخت حالات میں آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔ ایسا حد درجہ مجبوری کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ دارالمصنفین کی مالی مشکلات سے آپ واقف ہیں۔ گزشتہ دنوں مختلف اسباب کی وجہ سے ان میں بہت اضافہ ہو گیا اور اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے صورتحال نہایت سنگین ہو چکی ہے۔ اپریل کی تنخواہ آدھا مہینہ گزر جانے کے بعد آج بمشکل ادا کی جا سکی ہے۔ آئندہ کیا ہوگا یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی دعاؤں اور مشوروں کی ضرورت ہے۔ یہ یقین ہے کہ اگر آپ اس سلسلہ میں کچھ کر سکتے ہوں تو دریغ نہ فرمائیں۔ "

دارالمصنفین کے ڈائریکٹر کے اس خط سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ادارہ کس طرح مالی بحران کا شکار ہے۔ ایک ایسا عظیم الشان ادارہ جس نے ہماری دانشورانہ روایت کو پروان چڑھایا ہو اور جس کے علمی کارناموں کا اعتراف بڑی بڑی شخصیات نے کیا ہو۔ جسے مولانا ابوالکلام آزاد جیسی نابغہ روزگار ہستی عزیز رکھتی ہو اور جس نے علامہ سید سلیمان ندوی جیسا گوہر نایاب پیدا کیا ہو، وہ ادارہ آج اپنے وجود کو بچانے کی جنگ لڑ رہا ہے تو ہماری قومی اور ملی حمیت بیدار کیوں نہیں ہو رہی ہے؟؟
یہ ہمارا المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جس قوم کے افراد اپنی ذاتی نام و نمود پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہوں۔ جہاں شادی کی تقریبات پر دولت پانی کی طرح بہائی جاتی ہو، جہاں اونچے اونچے مکان تعمیر کرنے کے لئے بے تحاشہ دولت لٹائی جاتی ہو اور ذاتی نام و نمود کے لیے سب کچھ قربان کیا جاتا ہو ،اس قوم کی تہذیبی اور علمی وراثت کا امین ایک ادارہ آج ایڑیاں رگڑنے پر کیوں مجبور ہے؟

دراصل ہماری ملت نے اپنی علمی اور تہذیبی وراثت سے منہ موڑنے اور اپنا رشتہ زمانے کی لغویات سے جوڑنے کی جو روش اختیارکی ہے، وہ ہماری اجتماعی بےحسی کا ثبوت منہ بولتا ثبوت ہے۔
دارالمصنفین بلاشبہ ہمارا ایک ایسا قومی اورملی ورثہ ہے جس پر ہمیں بجا طور پر فخر ہونا چاہیے۔ اس ادارے نے اسلامی تاریخ اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کو مرتب کرنے کا شاندار کام ہی انجام نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کو یہ احساس بھی دلایا کہ اس ملک میں مسلمان تاریخی اور تہذیبی طور پر کتنے مالا مال ہیں۔
آج کے دور میں بھلے ہی ان کی خدمات اور وجود کو مٹانے کی سازشیں رچی جارہی ہوں، لیکن مسلمانوں نے اس ملک کی تاریخ اور تہذیب کو جتنا مالا مال کیا ہے، اتنا کسی اور قوم نے نہیں کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی صاحب خیر اس انداز میں اس ادارے کی مدد کے لئے پیش قدمی کرتا کہ ایک ہاتھ سے کی ہوئی مدد کا پتہ دوسرے ہاتھ کو نہیں چلتا، لیکن افسوس کہ اس ادارے کے سربراہ کو اپنے ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کے لئے عوامی اپیل جاری کرنی پڑی اور اس دردمندانہ اپیل کے دس روز گزرنے کے بعد بھی ابھی تک کوئی معقول انتظام نہیں ہو سکا ہے۔

مولانا آزاد کا شمار اس ادارے کے بانیوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اس ادارے کے قیام کی تجویز کو پہلے پہل انھوں نے ہی اپنے اخبار 'الہلال' میں شائع کیا تھا۔ اپنی اس تجویز کو اخوان الصفاء کا عنوان دے کر انھوں نے ملک کے ذی علم اور باشعور حلقوں سے اس کام میں تعاون کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد بھی مولانا آزاد کو اس ادارے سے دلچسپی قائم رہی۔ آزادی کے بعد بھی مولانا نے اس کی دست گیری میں جوکردار ادا کیا، اس کا اندازہ اس خط سے بھی ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے انتقال سے چار برس قبل 23/نومبر/1954 کو حکومت کو اس کی امداد جاری رکھنے کے لئے لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

"مائی ڈئیر ڈاکٹر کاٹجو
'دارالمصنفین' اعظم گڑھ کو جو 'شبلی اکیڈمی' کے نام سے بھی پکاری جاتی ہے، ریاست بھوپال سے دوہزار ایک سو ساٹھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ ملتی تھی جو اسٹیٹ کے نئے انٹی گریشن کے بعد بھی جاری رہی کیونکہ انٹی گریشن کی کنڈیشنز میں یہ بات تسلیم کرلی گئی تھی کہ ملک کے علمی اور لٹریری کاموں کے لئے اسٹیٹ جو گرانٹ دیتا رہا ہے، اسے بدستور جاری رکھا جائے گا، لیکن اب اچانک اس سال اس گرانٹ کا روپیہ شبلی اکیڈمی کو نہیں ملا۔ اس پر انھوں نے گورنمنٹ بھوپال کو لکھا۔ بھوپال سے انھیں یہ جواب ملا کہ یہ معاملہ اب سنٹرل گورنمنٹ کے سامنے گیا ہے اور وہاں غور ہو رہا ہے۔
میں اس خط وکتابت کے کاغذات اس چٹھی کے ساتھ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ میں شکر گزار ہوں گا اگر آپ اس بارے میں انکوائری کرکے حالات معلوم کر لیں گے۔ شبلی اکیڈمی ملک کی ایک اہم اکیڈمی ہے اور نہایت قیمتی لٹریری خدمات انجام دے رہی ہے۔ اگر بھوپال کی یہ گرانٹ بند ہوگئی تو اسے نقصان پہنچے گا، علاوہ بریں یہ اس معاہدے کے بھی خلاف ہوگا جو بھوپال کے انٹیگریشن کے وقت ہم کر چکے ہیں۔ "

دارالمصنفین کا قیام 1914 میں عمل میں آیا تھا اور یہ علامہ شبلی نعمانی کا آخری کارنامہ تھا۔ یہ بے مثال ادارہ مختلف اور متنوع نشیب و فراز سے گزر کر اپنے بامعنی اور بامقصد بارآور سفر کی ایک صدی سے زیادہ کا سفر پورا کر چکا ہے۔ یہ اکلوتا تصنیفی ادارہ ہے جس نے اپنے منفرد اسلوب، فکری سلامتی اور تعمیری نقطہ نظر کے ساتھ اردو زبان و ادب کو غیر افسانوی نثر کا اتنا بیش قیمت سرمایہ عطا کیا ہے اور اپنے عظیم بانی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا ہے۔
علامہ شبلی مرحوم کے جانشینوں کا بے لوث جذبہ، قلندرانہ صفت صاحبان علم و قلم کی قربانیوں اور اپنے مشن کے ساتھ ان کا عشق بھی اس طویل عرصہ میں ان کے زاد سفر کا کام دیتا رہا ہے۔ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد ان کے عظیم شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی کی قیادت میں شبلی کے جانشینوں نے تمام تر بےسر و سامانی کے ساتھ یہ سفر شروع کیا تھا۔ اس ادارے کی باقاعدہ تعمیر و تشکیل کے لئے انھیں کسی حکومت یا تجارتی گھرانے کی کوئی گرانٹ نہیں ملی تھی۔ انھوں نے اپنا ذاتی اور مختصر سرمایہ اس عظیم الشان کام کے لئے صرف کیا۔ ادیب اور اسکالر بھی ایسے ملے جو کم سے کم یافت سے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی صلاحیتیں رکھتے تھے۔
لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ کسی بھی ادارے کی بقا اور تسلسل کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ اس کی ایک مستقل آمدنی ہو اور یہ نوبت کبھی نہ آئے کہ کسی بحرانی دور میں اس ادارے کوکسی کے آگے سوال کرنا پڑے۔
یہ ہمارے اہل علم وذکا کے لئے یوں بھی مناسب اور موزوں نہیں ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت کے اہل ثروت حضرات سر جوڑکر بیٹھیں اور دارالمصنفین کی مستقل یافت اور اس کے تسلسل کی تدبیر کریں۔
کیونکہ اگر ہمارے علمی، ادبی اور تحقیقی ادارے اس طرح حالات کی بھینٹ چڑھیں گے تو یہ ملت کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Darul Musannefin Shibli Academy, Azamgarh at the verge of severe financial crisis - Column: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں