معروف ادبی رسالہ "افکار" (مدیر: صہبا لکھنوی) نے اپنا 133 واں شمارہ (اپریل-1981) بطور خاص نمبر "برطانیہ میں اردو - ایڈیشن" کے زیرعنوان شائع کیا تھا، جس میں برطانیہ میں اردو کے حوالے سے لسانیات، تحقیق و تنقید، کتب خانے و مخطوطات جیسے موضوعات شامل تھے۔ تقریباً 600 صفحات پر مشتمل یہ شمارہ پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش کیا جا چکا ہے۔ اسی خاص شمارے کا ایک اہم مضمون "برٹش میوزیم لائبریری" ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
برٹش میوزیم لائبریری، جس میں پچاس لاکھ سے بھی زیادہ کتابیں ہیں، دنیا کے چار بڑے کتب خانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ برٹش میوزیم ، قدیم قومی نوادر اور قومی کتب خانے کے مجموعہ کا نام ہے۔ آج کل 'لائبریری' چار صیغوں میں منقسم ہے۔ طبع شدہ کتب، قلمی نسخے، مشرقی طبع شدہ کتب اور قلمی نسخے ، اور فنون لطیفہ و نقش و نگار۔
عام طور سے طبع شدہ کتب ہی کو 'لائبریری' کہا جاتا ہے۔ گو یہ دنیا کے چار سب سے بڑے کتب خانوں میں سے ایک ہے ، لیکن مختلف زبانوں کی کتابوں کی کثرت اور کتب بیں اشخاص کے ساتھ وہاں کے ملازمین کے پرخلوص رویہ کی وجہ سے اس کی پرانی شہرت، جس نے کہ اس کو اولیت کا مرتبہ بخشا اور جس کی کہ وہ مستحق تھی، اب تک قایم ہے۔
بقیہ تین بڑے کتب خانے یہ ہیں: پیرس کی ببلیوتھیک نیشنل [Bibliotheque Nationale de France]، واشنگٹن کی 'کانگریس لائبریری' اور ماسکو کی 'لینن لائبریری'۔
اگر کتابوں کی سب الماریوں کو ایک قطار میں رکھا جائے تو وہ اٹھاسی میل تک پہنچ سکتی ہیں۔ زمانہ امن میں ان کا اضافہ ایک میل سالانہ تھا۔ کتابوں کی تعداد پچاس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن سب بلومبری میں برٹش میوزیم ہی کے اندر نہیں رکھی ہوئی ہیں۔ کیونکہ 1906ء سے اخبارات لندن کی شمال-مغربی سمت کے مضافات میں ہینڈن کے ہوائی مستقر سے متصل ایک علیحدہ عمارت میں رکھ دئے گئے ہیں۔
کتابیں حاصل کرنے کا قانونی طریقہ
ان کتابوں کے وسیع ذخیرہ کا ایک بڑا حصہ گزشتہ صدی کے دوران میں حق تصنیف و تالیف کے قوانین کے ماتحت حاصل کیا گیا ہے۔ اس سلسلے مین پہلا قانون 1942ء میں نافذ کیا گیا تھا۔ اور سب سے آخری علاوہ ایک یا دو تفصیلی ترمیمات کے، 1941ء میں۔ پارلیمنٹ کے ان قوانین کی رو سے برطانیہ عظمی کی ہر طبع شدہ کتاب کے ناشر کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس کی ایک جلد میوزیم کو پیش کرے۔ ذاتی طور پر چھپوائی ہوئی کتابیں اس قانون سے مستثنیٰ ہیں اور وہ یا تو تحفہ کے طور پر یا خریدکر حاصل کی جاتی ہیں۔
بسا اوقات س امر پر زور دیا گیا ہے کہ غیر ضروری اور بےکار کتابوں کے انبار کو رکھنے سے ملازمین کے وقت اور کمروں کو برباد کرنا ہے۔ لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کون سی کتابیں غیر ضروری اور بے کار ہیں ، ناممکن ہے ، اور یہ طے کرنا کہ ایک صدی کے بعد ان کتابوں کے متعلق کیا خیال ہوگا؟ اور بھی ناممکن ہے۔ انتخاب کا کوئی بھی طریقہ اختیار کیاجائے کتابوں کا اخراج ضروری ہے اور اس طرح سے بہت سی کتابوں کا وجود ختم ہو جائے گا جو اخلاف کے نزدیک نہایت اہم اور ناگزیر ہوں گی۔ کسی انتخاب کرنے والے نے بلیک رمباڈ، بوہیم، اور بہت سے دیگر مصنفین کی تصنیفات کو منتخب کر کے حفاظت سے رکھا ہوگا؟ لیکن جو درحقیقت بے کار ہے وہ بھی مجموعی حیثیت سے اگلے مورخین کے لئے بہت زیادہ قابل قدر ہے کیونکہ اس سے اس زمانے کے عام خیالات اور مذاق کی رفتار پر روشنی پڑتی ہے۔ "آج کی مٹی کل کا سونا ہے"۔
بیرونی ممالک کی کتابیں
بیرونی ممالک کی کتابیں اور حق تصنیف و تالیف کے قوانین سے پہلے کی برطانوی کتابیں ہمیشہ خرید کر یا تحفہ کے طور پر حاصل کی گئی ہیں اور کی جاتی ہیں۔ میوزیم، کا مستقل سرمایہ معمولی ہے اور منتظمین کو اپنے تمام اخراجات کے لئے پارلیمنٹ کی سالانہ امداد پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے اور اہم مواقع پر خاص امداد کا جیسے کہ 1933ء میں انجیل مقدس کے دو سب سے قدیم قلمی نسخوں سے ایک کو ڈکس سینے، ٹیکس کی خریداری پر دی گئی تھی۔ لائبریری کی پوری تاریخ کے دوران میں نہ صرف اہمیت کے لحاظ سے ہردرجہ کی لاتعداد مختلف جلدیں، حقیقی قدر و قیمت سے لے کر وقتی قدروقیمت تک کی، حاصل کی گئی ہیں بلکہ نادر ذخیرے سے بھی ہیں۔ جو معطیان کے ناموں کے ساتھ ایک ہی جگہ رکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر طبع شدہ کتب میں حسب ذیل ذخیرے شامل ہیں:
دی کنگس (شاہ جارج سویم کی کتابوں کا ذخیرہ جو 1833ء میں شاہ جارج چہارم نے عنایت کیا)
دی گرین ول (مسٹر ٹامس گرین ول کی کتابوں کا ذخیرہ جو 1847ء میں ان کی وصیت کے مطابق حاصل ہوا)
اور
دی ہتھ (پچاس غیر معمولی طور پر نادر اور قیمتی جلدیں جو 1901ء میں مسٹر اے۔ ایچ ہتھ نے اپنی مرضی سے میوزیم کے لئے چھوڑیں۔)
لائبریری کے ذیلی شعبے و نقشہ جات، اور 'تحریر نغمہ' کے ہیں۔ دوسرے شعبہ میں شاہ جارج پنجم ک عاریتاً دیا ہوا شاہی ذخیرہ رکھا ہوا ہے۔ یہ ہینڈل کی ان قلمی تحریرات نغمہ کی وجہ سے بہت گراں بہا ہے جو اس نے شاہ جارج سویم اور اس کی ملکہ کے لئے تصنیف کئے تھے۔ فن طباعت کے ابتدائی زمانے کی کتابیں (1500ء سے پہلے کی چھپی ہوئی) جن کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے (یعنی میونخ کی، اسٹیٹ لائبری سے کچھ ہی کم، اگر درحقیقت وہ نقصان سے بچ گئی ہے) رابرٹ پراکٹر کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق لائبریری میں ان شہروں اور مطبعوں کے ناموں کے ساتھ جہاں پر وہ شائع ہوئی ہیں ایک ہی جگہ رکھی ہوئی ہیں۔
لائبریری کے ابتدائی زمانے میں طبع شدہ حصہ قلمی نسخوں کے مقابلے میں بہت کم حیثیت کا خیال کیاجاتا تھا ۔1823ء میں بادشاہ کا کتب خانہ ملنے سے لائبریری، کی کتابوں کی تعداد میں پچاس فی صد کا اضافہ ہو گیا۔ اور اس کی حقیقی قدر و قیمت اس سے بھی کہیں زیادہ ہو گئی۔ کیونکہ شاہ جارج سویم نے اپنے کتب خانہ کو قاعدے میں ترتیب دیا تھا اور اس کا مہتمم کتب خانہ ڈاکٹر جانسن سے مشورہ لیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں میوزیم کا ذخیرہ نہایت بے ترتیبی کے ساتھ جمع کیا گیا تھا۔ چند سال بعد ایک اطالوی سیاسی پناہ گزین کے عملے میں شامل ہونے سے میوزیم کو اس سے بھی بڑا ایک اور ذخیرہ حاصل ہوا۔
انٹینیو پینیزی [Sir Antonio Genesio Maria Panizzi]
یہ اطالوی انٹینیو پنیزی تھا۔
یہ دور وہ تھا جب انسانیت نے اپنے خیمے گاڑ دئیے تھے اور ترقی کی جانب گامزن تھی۔انیٹینیو پنیزیکی دوررس نگاہوں نے مستقبل کی دنیا کو دیکھ لیا تھا اور وہ اس پر انے خیالات کے ادارے میں بھی ایک عظیم انقلاب پیدا کرنا چاہتا تھا۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ جمود پیدا کرنے والی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہوا اور جب وہ مہتمم اعلیٰ کے عہدے سے سبک دوش ہوا تو میوزیم کو دنیا کے کتب خانوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ بنادیا تھا۔ اس نے 1836ء میں پارلیمنٹری کمیٹی کے سامنے اپنا نصب العین ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔۔۔
"میں چاہتا ہوں کہ ایک غریب طالب علم کو اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے وہی ذرائع حاصل ہوں، اسی طرح اپنے ادبی مشاغل جاری رکھ سکے ، اسی طرح مستند اسناد سے مدد لے سکے، اور دقیق نکات کو حل کرسکے۔ جس طرح کہ ملک کا سب سے دولت مند آدمی کرسکتا ہے۔"اس مقصد کی تکمیل کے لئے انیٹینیو پنیزی نے میوزیم کی ضرورتوں پر غائرانہ نظر ڈالنے کے بعد کتابوں کی خریداری کے لئے حکومت سے معقول امداد حاصل کی، لیکن اس لائبریری سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانا تھا تو ضرورت اس امر کی تھی کہ کتابوں کو مناسب جگہ پر رکھاجائے ، معقول ترتیب دی جائے۔ اور ان کی فہرست تیار کی جائے۔ ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ عمارت کو کشادہ کیا جائے تاکہ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ مطالعہ کرسکیں۔
پنیزی پہلا تھا جس نے کہ ان صریح حقائق کو دیکھا، اس نے کتب خانے کی عمارت کا ایک نئی قسم کا نقشہ بنایا۔ ایک بڑا گنبد دار مطالعہ کا کمرہ جس کے اندر سب طرف لاکھوں کتابیں رکھنے کے لئے الماریاں لگی ہوں۔ یہ میوزیم زیادہ سے زیادہ گنجائش نکالنے کے فن عمارت کے ان اصولوں پر بنایا گیا تھا جو اس زمانے میں 1851ء کی عظیم الشان نمائش کے لئے بنوائے ہوئے 'کرسٹل پیلس' کی وجہ سے بہت زیادہ مقبول ہو رہے تھے۔
دارالمطالعہ جس میں کہ ایک ہی وقت میں تقریباً 450 آدمی بیٹھ سکتے ہیں، 1857ء میں کھولا گیا۔ یہ اب تک استعمال میں ہے اور جتنا کہ مشہور ہے اتنا ہی مفید بھی ہے۔ "فولادی لائبریری" (جیسا کہ عام طور سے کتابوں کی الماریوں کو کہا جاتا ہے) کو بدل کر ایک نئی طرز کی اور زمانہ حال کے مطابق عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ پنیزی نے یہ بھی محسوس کیا کہ کتابوں کے اس عظیم الشان ڈھیر کی سائنٹفک اصولوں پر ایک مناسب فہرست تیار کی جائے اور اس قسم کی پہلی فہرست اسی کی کوششوں کی رہین منت ہے۔
عالموں کا اجتماع
یہ دارالمطالعہ 1935ء تا 1945ء کی جنگ میں دشمن کے ہوائی حملے سے صدمہ پہنچنے کی وجہ سے مرمت کرنے کے بعد 3/جون 1946ء کو دوبارہ کھولا گیا ہے۔ دنیا کے بین الاقوامی مقامات اجتماع میں سے ہے جہاں پر ہر ملک کے عالم و فاضل نظر آتے ہیں۔ داخلے کی اجازت نامے (جس کی ہر چھ مہینے بعد تجدید کرانی پڑتی ہے) کے لئے اس کے علاوہ کسی شرط کی ضرورت نہیں ہے کہ عمر اکیس سال کی ہو۔ ایک قابل یقین وجہ کا اظہار کہ اس کو صرف اسی کتب خانے کی ضرورت ہے نہ کہ دیگر کتب خانوں کی جن میں کہ اب آسانی سے داخلہ مل سکتا ہے، اور کسی معزز اور ذمہ دار شخص کا ایک خط جس میں درخواست کنندگان کے اچھے چال چلن کی تصدیق کی گئی ہو۔ ان شرائط سے صرف کتابوں کی حفاظت مد نظر ہے۔ دارالمطالعہ کو اس شہرت کی سزا یہ ملی ہے کہ بہت سے اشخاص بغیر کسی ضرورت اور اہلیت کے اس کو استعمال کرنے کے لئے درخواست کرتے ہیں۔ ناظم کتب خانہ ایسے لوگوں کو بہت مسرت کے ساتھ مناسب مشورہ دیتا ہے۔
اگر نقش و نگار اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں ان کی پرانے زمانے کی انگریزی آب رنگ تصاویر، سادی تصاویر اور نیم رنگ تصاویر کے عدیم المثال ذخیرہ اور فرانس، ہالینڈ، جرمنی ، اطالیہ اور دیگر بیرونی دبستانوں کے شان دار ذخائر کی خوبیوں اور دلچسپیوں کا مناسب تذکرہ کیاجائے تو ایک ضخیم کتاب درکار ہوگی۔ یہی حال مشرقی کتب خانے کا ہے جس میں عہد عتیق کے عبرانی اور شامی نوشتے اور اس سے بھی زیادہ پرانی چینی اور وسطی ایشیائی تحریرات جو ٹن ہاگن میں سر آریل اسٹین کو ملے تھے اور خوبصورت ایرانی اور عربی نقش و نگار موجود ہیں۔
میوزیم کا مایۂ فخر
مغربی قلمی نسخوں کا ذخیرہ مع یونانی نمونہ ہائے سنگ تراشی، میوزیم کا مایۂ فخر تصور کیاجاتا ہے۔ یونانی نمونہ ہائے سنگ تراشی کو چھوڑتے ہوئے لائبریری ، اور میوزیم کی تخلیق کا اصلی سبب یہی مغربی نسخوں کا ذخیرہ ہے۔
انگلستان میں 1335ھ سے 1540ء کے زمانے کی تحریک تجدید مسیحیت کے دوران میں ضبط شدہ خانقاہوں کے کتب خانوں کو ختم کردیا گیا تھا۔ اور ان کی زیادہ تعداد بالکل برباد کردی گئی تھی۔ صرف گنتی کے اشخاص نے جو کچھ کہ بچ رہا تھا اس کی قدروقیمت بحیثیت قوم اور مذہب کی یادگار کے محسوس کی اور جو کچھ ان کو مل سکا جمع کر لیا۔ ان میں سے ایک شخص سر رابرٹ کاٹن کا جمع کیا ہوا ذخیرہ 1707ء میں حکومت کو مل گیا۔ اس کو 1731ء میں آگ سے سخت نقصان پہنچا اور یہ ظاہر ہے کہ یہی قومی کتب خانے کی بنا ثابت ہوا۔
1753ء میں ایک بہت زیادہ کتابیں جمع کرنے والے سر ہنیس سلون نے جس کو خصوصاً پچھلی دو صدی کے اکتشافاتِ سائنس میں بہت زیادہ دلچسپی تھی اپنے ذخائر کو، جس میں ایک عام بڑا کتب خانہ بھی شامل تھا ، بہت کم قیمت پر حکومت کو پیش کر دیا۔ بعد ازاں تمام مشکلات پر قابو پا لیا گیا اور ایک سرمایہ فراہم کر کے مانٹیگ ہاؤس تعمیر کیا گیا۔
پارلیمنٹ کے فاؤنڈیشن ایکٹ کے ماتحت ابتدائی سرمائے میں سے کاٹن اور سلون کے کتب خانوں میں ایک بڑے کتب خانہ کا جو کاٹن کے اصولوں پر آکسفورڈ کے پہلے لارڈ رابرٹ ہارلے نے جمع کیا تھا، اضافہ کیا گیا۔ ان میں شاہ جارج دویم نے (جو گوٹنجن یونیورسٹی اور اس کے مشہور کتب خانے کا بھی بانی تھا)، اپنے کتب خانہ کے عطیہ سے جو قرون وسطی تک کے انگلستان کے فرماں رواؤں کے قلمی نسخون کے لئے خاص طور پر مشہور تھا، اور اضافہ کیا۔
British Museum Library. by: Masood Hussain
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں