دو ملک ایک جذبہ - ابراہیم جلیس سے آمنہ ابوالحسن کی ملاقات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-18

دو ملک ایک جذبہ - ابراہیم جلیس سے آمنہ ابوالحسن کی ملاقات

ibrahim-jalees-amina-abulhasan

آمنہ ابوالحسن (پ: 10/مئی 1941 ، م: 9/اپریل 2005)، حیدرآباد کی افسانہ/ناول نگار خواتین میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ انہوں نے اردو ناول کو شعور کی رو کی تکنیک سے باقاعدہ طور پر روشناس کروایا ہے۔ گوگل سرچنگ میں ان کی تخلیقات بہت کم نظر آتی ہیں، اسی سبب ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ "بائی فوکل" پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش کیا گیا۔ اور اب ان کے تخلیقی فن سے روشناس کرانے کی خاطر اردو دنیا کے مقبول ادیب، صحافی و طنز نگار ابراہیم جلیس (پ: 22/ستمبر 1923، م: 26/اکتوبر 1977) پر تحریرکردہ ان کا خاکہ "دو ملک ایک جذبہ" ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے جو ماہنامہ 'شگوفہ' حیدرآباد کے شمارہ: مئی 1978 (ابراہیم جلیس نمبر) میں شائع ہوا تھا۔

سب سے پہلے میں نے ابراہیم جلیس کی آواز دکن ریڈیو سے سنی۔
اور اس آواز کے جوش و خروش نے مجھ سے کہا: "یہ ضرور کوئی خاص شخصیت ہے"۔ تب تک میں نے ان کی کہانیاں نہیں پڑھی تھیں۔ نہ ہی ان کی شکل سے متعارف تھی۔ میں اس وقت اتنی باشعور بھی نہ تھی کہ اس جوش و خروش کا صحیح صحیح مفہوم اور دردناکی بھانپ لیتی۔ پھر بھی ایک خواہش میرے ذہن میں جاگ گئی کہ اس آواز کی بابت ضرور پوچھ تاچھ کروں۔ اور جب مجھے پتہ چلا کہ وہ 'ابراہیم جلیس' کی آواز ہے جو کہانی کار بھی ہیں تو میں نے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان کی کہانیاں پڑھیں۔
پھر تو یہ ہوا کہ جہاں اور جس رسالے میں ان کا نام نظر آیا میں نے کبھی نظر انداز نہ کیا اور ان کی ہر ہر تحریر پڑھ ڈالی۔ یوں زندگی کے وہ بہت سے روپ جو اس وقت تک میرے ذہن کی نظروں سے اوجھل تھے، ان کی کہانیوں اور ناولوں کے کرداروں کے ذریعے اجاگر ہونے لگے۔ ان کی سچائیاں، ان کا تیکھا پن میرے اندرون میں محفوظ ہوتا گیا۔ میرا جی چاہا کہ میں جلیس صاحب سے فوراً ملوں لیکن اس زمانے کے اپنے گھرانے کے دستور کے مطابق میرا ان سے مل لینا آسان نہ تھا۔ میں کسی مناسب موقعے کا انتظار کرنے لگی مگر اس موقعے کے آنے سے پہلے ہی معلوم ہوا کہ جلیس صاحب ترکِ وطن کر گئے۔ بہت رنج بہت افسوس ہوا۔ میری ایک خواہش ناتمام رہ گئی۔
بہت سا وقت گزر گیا مگر وہ آرزو مری نہیں میرے اندر برابر سانس لیتی رہی۔ پھر عرصے بعد جیسے ہی میں نے سنا کہ جلیس صاحب پاکستان سے حیدرآباد آئے ہوئے ہیں تو میں خود کو روک نہ سکی ، اس وقت تک میرا بیاہ ہو چکا تھا اور ایک کنواری لڑکی کے لئے جو بندشیں ہوا کرتی تھیں وہ بہت کچھ کم ہو چکی تھیں۔ چنانچہ میں اپنے اشتیاق سے مغلوب ان سے ملنے چل پڑی۔جب میں اخبار "سیاست" کے سابق دفتر میں داخل ہوئی تو جگر صاحب نے فوراً پوچھا:
"جلیس سے ملنے آئی ہو؟"
میں نے کہا: "جی ہاں"
جگر صاحب نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا:
"اس کمرے میں چلی جاؤ۔"

اور میں بے اختیار کمرے میں داخل ہو گئی۔ کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے، پھر بھی میں نے جلیس صاحب کو فوراً پہچان لیا۔ ذکی چہرا، ڈوبی ہوئی آنکھیں، کھوئے ہوئے لیکن محتاط طور پر جاگتے ہوئے انداز۔ میں نے بلا تکلف سلام کیا اور بیٹھ رہی۔ مجھے لگا اس چھوٹے سے کمرے میں اس وقت کتنی وسعت اور کشادگی پیدا ہو گئی تھی جیسے احساسات سے لبریز صرف دو انسان نہیں بلکہ دو ملک اس ننھے سے کمرے میں سما گئے تھے اور درمیان میں کوئی دیوار نہ تھی۔ خوشی سے میری آنکھوں میں تھوڑی سی نمی تیری۔ مجھے ہندوستان اور پاکستان کے دل وسعت کے جسم میں دھڑکتے محسوس ہوئے۔
میں نے چپکے سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور میرے سوال کے جواب میں جلیس صاحب نے بتایاکہ کہانیوں اور ناولوں کے لئے اب ان کے پاس وقت نہیں۔ صحافت اور ادب میں بہت فرق اور فاصلہ ہوتا ہے اور میں ہنس پڑی۔ کتنا سفید جھوٹ۔۔ ہو سکتا ہے کہ جلیس صاحب نے عرصہ سے کوئی کہانی نہ لکھی ہو اور آئندہ عرصے تک نہ لکھ سکیں۔ لیکن دیکھنے والی آنکھیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں کہ جلیس صاحب کی ڈوبی ہوئی آنکھوں میں ایک دو نہیں ہزاروں کہانیاں کروٹیں لے رہی ہیں۔
ان کی خاموشی، ان کی گویائی، ان کا تخاطب، ان کے لہجے کا تلاطم سب کچھ کسی کہانی سے کم نہیں۔ اگرچہ ان کی افسانہ نگار شخصیت پر ایک صحافی حاوی ہو چکا تھا، پھر بھی یہ صداقت کہیں نہ کہیں سے رہ رہ کے ضرور جھانک پڑتی تھی کہ ہم سب کے درمیان ایک ادیب برابر دل کی طرح دھڑک رہا ہے۔

کمرہ باتوں کی پھلجھڑیوں سے دمک رہا تھا۔ ہم سب کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے، سن رہے تھے۔ ہنس رہے تھے ، مسکرا رہے تھے، شادماں تھے، تاہم ایک خوف ہم ہندوستانی ساتھیوں کے چہروں پر سائے کی طرح علانیہ لرز رہا تھا۔ اس بات کا خوف کہ شادمانی کی یہ گھڑیاں مختصر ہیں۔ چند ہی روز بعد جلیس صاحب پھر بچھڑ جائیں گے اور مسکراتے مسکراتے میں نے یکلخت بڑی کڑواہٹ اور خلش محسوس کی۔ میں نے کہنا چاہا:
جلیس صاحب ! آخر آپ یہاں سے چلے کیوں گئے؟ مانا کہ آپ کے حق میں حالات اس وقت نازک تھے، مگر جن صعوبتوں سے ایک فن کار اپنے ذہنی سفر میں زندگی بھر گزرتا ہے ، کیا وہ عملی سفر میں ان سے نہ گزر پاتا؟

مگر میں نے کچھ نہ کہا اور اٹھ آئی۔ اپنے چھپے ہوئے خوف اور خلش کے باوجود مجھے لگا کہ ایک روشنی سی آس پاس جگمگا رہی ہے اور جب روشنی پھیلتی ہے تو کھلے میدانوں کی طرح تاریک تہہ خانوں اور حابس زندانوں کو بھی جگمگائے بغیر نہیں رہتی۔ فاصلہ محض وجود کا، دیس کا نہیں، دل اور محسوسات کا ہوتا ہے۔ کوئی پرواہ نہیں اگر جلیس صاحب سر زمین ہند سے پھر میلوں دور چلے جائیں، اونچی اونچی دیواریں درمیان میں اٹھ جائیں۔
سچ تو یہ ہے کہ وہ ہمارے ذہنوں اور دلوں سے کبھی نہ جا سکیں گے کہ جو ادمی گزرے ہوئے نقوش اکٹھا کرتا ہے ، آنے والے واقعات کی تصویر بناتا ہے ، لگی ہوئی ٹھوکروں پر پچھتاتا اور جتن سے حاصل کی ہوئی مسرتوں کا شمار کرتا ہے، اس کا غم خود ایک فکر ایک طاقت بن جاتا ہے۔
اور میں مسکرا پڑی۔

جدائی ناگزیر سہی مگر ہم سب یقیناً پھر اکٹھے ہوں گے اور اپنی اگلی ملاقاتوں سے زندگی کے حسن و تازگی کے لئے پھر ترو تازہ گلستانوں کی آبیاری کریں گے۔
لیکن 27/اکتوبر کی صبح کو یہ پرجوش امید ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دم توڑ گئی۔ جب میں نے صبح ہی صبح اخبار میں یہ اندوہناک خبر پڑھی کہ ابراہیم جلیس اس دنیا ہی سے گزر گئے۔ اس خبر کو پڑھ کر میں تھوڑی دیرکے لئے اپنی جگہ بالکل خاموش سی بیٹھی رہ گئی۔
میرے اندر ہندوستانی تہذیب اور پاکستانی صحافت کا ایک گوشہ ڈانواں ڈول ہوا۔ ایشیائی ادب کی آنکھوں میں ایک آنسو لرزا اور میں نے اپنی سوکھی سوکھی آنکھوں سے کہا:
رو، تم بھی رو، آخر تم روتی کیوں نہیں ہو؟
مگر اس وقت میری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلا۔ مجھے یوں لگا، اسی گھڑی میرے اندر ایک ننھی سی قبر بن گئی ہے جس پر اس وقت نہ سہی، شدتِ غم کی کمی کے بعد، عمر بھر ہی رونا اور تازہ پھول چڑھانے ہیں کہ اس لحد میں اس شخص کی یاد خوابیدہ ہے جو صرف ہمارا محبوب فن کار ہی نہیں، عالمگیر انسانیت کا حامی اور بہی خواہ تھا۔ جو نہ صرف جسمانی طور پر قدآور تھا بلکہ ادب اور صحافت میں بھی ہمیشہ بلند قامت رہا۔ جو مصلحتوں کے آگے کبھی نہ جھکا، بلکہ بڑے بڑے آفروں کو ہمیشہ خود اپنے آگے جھکایا اور یوں اپنے کردار کی استقامت سے نامِ دکن کو ہمیشہ سرفراز رکھا۔

تب میں نے کچھ جھنجھلا کر سوچا۔
جلیس صاحب ہندوستان سے پاکستان چلے گئے، ان کی مرضی، مگر آخر انہیں دنیا ہی سے چلے جانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ مانا کہ جانا ضروری ہے مگر کچھ رک کر بھی تو جا سکتے تھے۔ لیکن جیسا کہ آپ ہم سب جانتے ہیں وہ بڑے عجلت پسند رہے۔ ہر کام فوراً اور ہمیشہ وقت و عمر سے پہلے سر انجام دے دیا۔ شاید ایسی عادت کے تحت اپنا آخری پروگرام بھی طے کر لیا۔
اور میں نے دکھ کو، جھلاہٹ کو دبا کر سوچا ٹھیک ہے۔۔۔
زرد چہرے، تکونا دیس، چالیس کروڑ بھکاری، چور بازار، دو ملک ایک کہانی، اجالے سے پہلے، جیل کے دن جیل کی راتیں، اور 'دیوارِ چین' کا مصنف، جنگ کا کالمسٹ، 'مساوات' کا ایڈیٹر اب ہم میں نہیں کہ پیدائش اور موت دو اٹل حقیقتیں ہیں۔
ان کا گزر جانا بلاشبہ ایک بڑا المیہ ہے لیکن یہ حقیقت بھی اتنی ہی اٹل اور ناقابال فراموش کہ:
جو زندگیاں بڑھیا مقاصد کے لئے جیتی اور جان دیتی ہیں وہ کبھی مر یا مٹ نہیں سکتیں، ایک ایسا درد بن جاتی ہیں جو زندگی کے سینے میں ہمیشہ جاگتا رہتا ہے اور زندگی کو دولتِ احساس سے مالا مال رکھتا ہے۔

وہ ہمارا ایسا زخم ہیں جسکا اندر مال خود ہمیں منظور نہیں۔
جلیس صاحب!
آپ کہیں بھی چلے جائیے ، ہم آپ کا پیچھا نہ چھوڑیں گے۔ دیر سویر آپ کو آ ہی لیں گے اور تب آپ سے ضرور یہ پوچھیں گے کہ:
اب ہم سے بچ کر کہاں جائیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Ibrahim Jalees in Hyderabad by: Amina AbulHasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں