اب جن کے دیکھنے کو - خاکے از انیس قدوائی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-01

اب جن کے دیکھنے کو - خاکے از انیس قدوائی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ab-jinke-dekhne-ko-anees-qidwai

بیگم انیس قدوائی (پ: 1906 ، بارہ بنکی - م: 16/جولائی 1982)
اردو کے مشہور ادیب، مزاح نگار و انشائیہ نگار ولایت علی بمبوق (اودھ) کی دختر تھیں جن کی شادی تحریک آزادئ ہند کے مشہور سیاسی رہنما رفیع احمد قدوائی کے چھوٹے بھائی شفیع احمد قدوائی سے انجام پائی تھی۔ فسادات میں شوہر کی وفات کے بعد انہیں آل انڈیا کانگریس پارٹی کی طرف سے 1956 تا 1962 کے دوران راجیہ سبھا میں رکن پارلیمان کے عہدہ پر فائز کیا گیا تھا۔ سیاسی و سماجی میدان میں سوبھدرا جوشی اور مریدولا سارا بائی جیسی اہم خاتون رہنماؤں کے انہوں نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا جو تقسیم ملک کا زخم جھیل رہیں خواتین کو راحت پہنچانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ کارہائے نمایاں کے سبب انہیں 'انیس آپا' کہا جاتا تھا۔ انیس قدوائی کو طنز و مزاح اور انشائیہ نگاری سے دلچسپی اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھیں۔ ان کی تصنیفات میں "آزادی کی چھاؤں میں" ، نظرے خوش گزرے" اور "اب جن کے دیکھنے کو" شامل ہیں۔ ادبی میدان میں اپنی متاثر کن خدمات کے لیے حکومت ہند کی طرف سے انہیں "ساہتیہ کلا پریشد ایوارڈ" سے نوازا گیا تھا۔
بیگم انیس قدوائی کے تحریر کردہ 13 دلچسپ اور یادگار خاکوں کا مجموعہ "اب جن کے دیکھنے کو" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

انیس قدوائی مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھیں۔ اسی طرح مہاتما گاندھی بھی ان کے لئے فکر مند رہتے تھے۔ انیس کے شوہر (شفیع احمد قدوائی) کی موت (اکتوبر-1947) پر گاندھی جی نے انہیں خط میں لکھا تھا کہ:
"تمہارا درد اتنا وزنی ہے کہ اس کو سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے، یہ درد بانٹنا مشکل ہے لیکن تم تو انیس ہو، تم ان کیمپوں میں جاؤ، جہاں ایسے ہی مایوس دلوں کی بھیڑ لگی ہے۔ جاؤ اور انہیں دلاسہ دو۔ کیوں کہ تم ہی ایسا کرسکتی ہو۔"
بیگم انیس قدوائی اپنی کتاب "آزادی کی چھاؤں میں" کے دیباچہ میں لکھتی ہیں ۔۔۔
1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی۔ تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔ اقبال کا شعر پڑھا تو بہت مرتبہ تھا مگر اس کے صحیح معنی سمجھ میں آنے کا شاید یہی وقت مقرر تھا اور میں قائل ہو گئی کہ واقعی ع
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
دہلی میں لاکھوں آدمی دیکھے مگر ان میں اور ہندوستان کے اس قدیم مایہ ناز انسان میں کوئی مناسبت نہ تھی۔ یہ ایک نیا دور تھا جس میں ہماری شجاعت اور سورمائی بچہ کو قتل کر کے بھی اتنی ہی مطمئن اور خوش ہو سکتی تھی جتنا کہ کسی بڑے دشمن کو ختم کر کے ہوتی۔ مسلمان بےتحاشا بھاگ کر کسی کونے میں چھپ کر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتا تھا جیسے کوئی میدان مار کر آیا ہو۔ ایک دوسرا کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر خوشی سے ناچ جاتا تھا کہ وہ پورا سپاہی بن گیا ہے۔ ملیح چہروں والے نوجوان لڑکے کالج اور اسکولوں کو چھوڑ کر دیاسلائی، مٹی کا تیل، اینٹیں اور چاقو اکٹھا کرنا تحصیل علم سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ اور پھر:
"گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا"
یہ تھا 1947-48 کا ہندوستان جس کی تصویر میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ پڑھنے والے لطف اندوز ہوں بلکہ اس لیے کہ
تازہ خواہی داشتن گرد اغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

اس کتاب کے پیش لفظ میں مصنفہ انیس قدوائی لکھتی ہیں ۔۔۔
انیسویں صدی کا صعوبت، افلاس اور افراتفری سے بھرپور دَور اپنی دکھ بھری کہانیوں کی بدولت جہاں تاریخ کا جزو بنا، وہیں اس مردم خیز زمانے نے ایسی ایسی شخصیتیں بھی ہندوستان کو تفویض کیں جنہوں نے تاریخ، صحافت، علم، سیاست اور شعر و ادب کی دنیا کو بھی مالا مال کر دیا۔
اگلے صفحات میں آپ جن قابل قدر ہستیوں سے روشناس ہوں گے، وہ سب انیسویں صدی کی پیداوار اور بیسویں صدی کی تاریخ ساز شخصیتیں تھیں۔ ان کی علمی قابلیت، اخلاقی کردار، تدبر، خوش ذوقی، دنیا سے محبت بھرا لگاؤ اور دینی خوش عقیدگی موجودہ دور میں شاید عجیب معلوم ہو، لیکن وہ اس وقت ہمیں آئیڈیل، موزوں اور خالص ہندوستانی پیداوار کی حیثیت سے بہت محبوب تھے۔
شاید راہ کے نشیب و فراز کی پیچیدگیاں نئی نسلوں کو اس شاہراہ سے ہٹا دیں، مگر کبھی نہ کبھی منزل کی نشاندہی کے لیے وہ نقشِ قدم ہمیں ڈھونڈنا ہی پڑیں گے۔
لکھنے کا کوئی مقصد ہونا چاہیے، لیکن ماضی کو دہراتے وقت اکثر مقصد نگاہ سے اوجھل ہو کر صرف خاکہ یا افسانہ رہ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ قارئین اس میں سے اپنی پسند کی یا ضرورت کی کوئی بات چن لیں۔ صفحاتِ کاغذ پر اجاگر ہونے والوں کی خاک مٹی میں مل چکی۔ بس یہ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ویرانے دیوانوں کا تختۂ مشق نہ بن جائیں۔ بقول صفی لکھنوی:
آج دیوانہ اڑاتا ہے جو ویرانے کی خاک
کل اڑائے گا یونہی ویرانہ دیوانے کی خاک
اس لیے اس خاک کو سمیٹ، عزت و احترام کے ساتھ نذرِ گلستاں کر رہی ہوں۔
- انیس قدوائی

یہ بھی پڑھیے:
رفیع احمد قدوائی - ایک عظیم انسان
انیس بیگم قدوائی: انجام سے بے پروا مجاہدۂ آزادی (مضمون: طاہر علی)

***
نام کتاب: اب جن کے دیکھنے کو (خاکے)
مصنف: انیس قدوائی
تعداد صفحات: 120
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Ab jinke dekhne ko by Anees Qidwai.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

اب جن کے دیکھنے کو - خاکے از انیس قدوائی :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1ولایت علی بمبوق7
2رفیع احمد قدوائی17
3مولانا محمد علی29
4شفیق الرحمن قدوائی39
5چودھری محمد علی ردولوی53
6مرزا ابوالفضل63
7ڈاکٹر کچلو67
8اجتماعِ ضدین75
9مردولا سارا بھائی85
10جواہر لال نہرو92
11قدسیہ زیدی102
12حافظ جمن108
13ڈاکٹر سید عابد حسین117

Ab jinke dekhne ko by Anees Qidwai, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں