دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین، عا لمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر اور سینئر صحافی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف دہلی پولیس نے بغاوت کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ ان پرتین روز قبل ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں "اشتعال انگیز" تبصرہ کرنے کا الزام عائد کیا گیاہے۔دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر نیرج کمار کا کہنا ہے کہ مسٹر خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ124 A(بغاوت) اور 153A (دوفرقوں کے درمیان منافرت پھیلانا)کے تحت وسنت کنج کے ایک باشندے کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسٹرخان کے خلاف یہ مقدمہ عین اسی روز درج کیا گیا ہے، جس روز دہلی میں بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کرکے انھیں اقلیتی کمیشن کی صدارت سے برخاست کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ بی جے پی ممبران اسمبلی نے ڈاکٹرظفرالاسلام خان پر ملک کی یکجہتی اور اتحاد کو خطرے میں ڈالنے، دنیا میں ہندوستان کی سیکولر امیج کو داغدار کرنے اور ہندو، مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کے الزامات لگائے تھے۔
واضح رہے کہ اسی قسم کے الزامات ڈاکٹر خان کے خلاف میڈیا اور خاص طور پر نیوزچینلوں پراسی وقت سے لگائے جارہے ہیں جب سے انھوں نے اپنی ایک پوسٹ میں شمال مشرقی دہلی کے فساد کے سلسلہ میں کویت کی حکومت کی طرف سے آواز اٹھانے پر اس کا شکریہ ادا کیا تھا اور اس معاملہ میں ہندتوا عناصر کو متنبہ کیا تھا۔اس پوسٹ کے منظر عام پر آنے کے بعدسوشل میڈیا پر ان کی شبیہ داغدار کرنے کی ایک انتہائی منظم مہم شروع کی گئی، جس میں گودی میڈیا اورسنگھ پریوار کی واٹس ایپ یونیورسٹی پیش پیش تھے۔حالانکہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنی اس پوسٹ پر تنازعہ کھڑا ہونے کے بعد نہ صرف یہ کہ معافی مانگتے ہوئے کہا یہ پوسٹ ایک ایسے غیر مناسب وقت جاری کی گئی جب ملک ایک طبی ایمرجنسی سے جوجھ رہا ہے بلکہ انھوں نے اپنے تفصیلی بیان میں ملک کے سیکولر آئین اور جمہوری نظام پر اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہےکہ نہ پہلے اور نہ اب اپنے ملک کے خلاف عرب یا مسلم ممالک سے شکایت کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ادارے ہمارے لئے کافی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ڈاکٹر خان کے معافی مانگنے کے بعد اس باب کو بند کردیا جاتا، لیکن اس کے برعکس انھیں بدنام کرنے اوروطن دشمن قرار دے کر کسی قانونی کارروائی کے بغیر سولی پر چڑھانے کی پرزور وکالت کی جارہی ہے۔ عرصہ دراز سے اس ملک میں یہی ہورہا ہے کہ پہلے میڈیا کسی مسلم شخصیت کا خوفناک ٹرائل کرتا ہے اور اس کے بعد اسے 'بدی کی قوت' قرار د ے کرملیا میٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی کردار کشی کاآغاز اسی گودی میڈیا نے کیا ہے جو اس وقت بری طرح سے مسلمانوں کے پیچھے پڑاہواہے اور انھیں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ یہ میڈیا پہلے سیدھے سادے لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے اورپھران کا ٹرائل شروع کرکے حکومت پر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا دباؤ ڈالتا ہے۔ ظفر الاسلام خان کے معاملے میں بھی بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔جب انھوں نے اپنے سہو کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ لی ہے تو پھر اس معاملہ کو طول دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
انھیں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئر مین کے عہدے سے برطرف کرنے کا مطالبہ اتنے زوروشور سے کیا جارہا ہے گویا یہ عہدہ ان کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہو۔ سبھی جانتے ہیں کہ جب سے ڈاکٹر خان نے دہلی اقلیتی کمیشن کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، تب سے اس بے جان کمیشن میں جان پڑگئی ہے۔ ورنہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ پورے ملک میں اقلیتی کمیشنوں کی حیثیت ایک قسم کے نمائشی اداروں کی سی ہے۔ حکومت نے انھیں دستوری حیثیت دے کر قایم تو ضرور کیا ہے لیکن اس کی سفارشات ہمیشہ سردخانے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ اسی لئے اقلیتی کمیشن کی چیئرمین شپ اور اس کی رکنیت حکمراں جماعت کے ایسے کارکنوں کی بے روزگاری دور کرنے کے لئے دی جاتی ہے جو گردن ڈال کر پڑے رہیں اور سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔دہلی اقلیتی کمیشن میں بھی عرصے سے یہی سب ہورہا تھا۔لیکن جب سے ڈاکٹر خان نے اس کی ذمہ داری سنبھالی ہے، تب سے اس کمیشن کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ظفرالاسلام خان ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں اور ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔انھوں نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے پوری جرات اور دیانت داری کے ساتھ کام کیا ہے۔ان کی قیادت میں دہلی اقلیتی کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو تو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔گذشتہ فروری میں شمال مشرقی دہلی کے فسادمیں تباہ برباد ہونے والے مسلمانوں کی جتنی دادرسی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کی ہے اتنی کسی اور نے نہیں کی۔ وہ بار بار ان علاقوں میں گئے اور مصیبت زدگان کو بھرپور راحت پہنچائی۔ انھوں نے دہلی کے مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں بار بار دہلی سرکار کو متوجہ کیا اور کئی اہم مسائل کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ نظم ونسق سے متعلق امور پرمسلسل دہلی پولیس کو متوجہ کرتے رہے۔ پچھلے دنوں دہلی کی مسجدوں میں رمضان کےدوران اذان پر پابندی کی کوششوں کو ناکام بنایا۔
حال ہی میں جب کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم چل رہی تھی اور دہلی و مرکزی سرکار کا محکمہ صحت کورونا سے متاثرہ مریضوں کے بارے میں اپنی یومیہ پریس ریلیز میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کی الگ درجہ بندی کررہا تھا تو یہ ظفرالاسلام خان ہی تھے، جنھوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس سلسلے کو بند کروایا، جس کے لئے سوشل میڈیا پر ان کو سراہا گیا۔ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جس میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اقلیتی کمیشن جیسے بے فیض اور نمائشی ادارے کو بامقصد بنانے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کیااور اپنی ذمہ داریوں کو پوری دیانت داری سے نبھایا۔ ظفرالاسلام خان کی زندگی اور کارنامے ایسے ہیں کہ ان کے سامنے اقلیتی کمیشن کی چیئرمین شپ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ بین الاقوامی سطح کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اسلامی اسکالرہیں۔ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں پر یکساں عبوررکھنے کی وجہ سے انھیں عرب دنیا میں بڑی قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔انھوں نے برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کرنے سے قبل مصر کی شہرہ آفاق یونیورسٹی جامعۃ الازہر اور قاہرہ یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔وہ اب تک عربی، انگریزی اور اردو میں پچاس سے زیادہ کتابیں تحریر یا ترجمہ کر چکے ہیں۔ سترہ سال تک انھوں نے انگریزی اخبار’ملی گزٹ’ شائع کیا جس نے بیباکی سے مسلم مسائل کی رپورٹنگ کی۔وہ چیرٹی الائنس نامی ایک سرگرم رفاہی ادارے کے سربراہ بھی ہیں، جو غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی مدد میں پیش پیش رہتا ہے۔ اس ادارے کی طرف سے مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع میں غریب بچوں کا ایک اسکول بھی چلایا جاتا ہے اور شاملی ضلع میں مظفرنگر فسادات کے مظلومین کے لئے 32 گھروں کی کالونی بھی بنائی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان جیسی صلاحیتوں کے افراد ہندوستانی مسلمانوں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ انھوں نے تین میقات آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر کی حیثیت سے اس تنظیم کوبہت فعال بنایااوراس کا گولڈن جوبلی اجلاس منعقد کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔مشاورت کی اہم ترین دستاویزوں کو مرتب کرکے شائع کیا۔ افسوس کہ ایک ایسے وقت میں جب ملت کے ایک اہم فرد کی کردار کشی کی جارہی ہے تو ہماری ملی جماعتیں پوری طرح خاموش ہیں۔ کاش وہ اس سازش کو سمجھ پاتیں جو ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو بدنام کرنے کے پیچھے کارفرما ہے۔اس موقع پر ہر انصاف پسند شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اس آزمائش کی گھڑی میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو اخلاقی حمایت دے، ورنہ مستقبل میں کوئی بھی ایماندار اور جری شخص مسلمانوں کے حق میں آوازبلند کرنے کی ہمت نہیں کرسکے گا۔
معصوم مرادآبادی |
How justified is FIR against Dr. Zafarul Islam Khan? - Article: Masoom moradabadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں