میری بیوی میری زندگی کا محور ہے - رشی کپور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-30

میری بیوی میری زندگی کا محور ہے - رشی کپور

rishi-kapoor

رشی کپور (پیدائش: 4/ستمبر 1952 ، بمبئی)
بالی ووڈ کے معروف و مقبول اداکار اور فلمساز، ہدایتکار و اداکار راج کپور کے منجھلے فرزند تھے جو آج بروز جمعرات 30/اپریل 2020 کو ممبئی میں خون کے کینسر کے سبب انتقال کر گئے۔
بی۔بی۔سی کی تفصیلی خبر یہاں
رشی کپور کو خراج عقیدت کے طور پر ان کا ایک قدیم انٹرویو یہاں پیش ہے۔
اپنی مقبول اور یادگار فلم "نگینہ" (ریلیز: نومبر-1986) کے ہٹ ہونے پر دئے گئے اس انٹرویو میں انہوں نے اپنے خیالات و نظریات سے واقف کرایا تھا، جو ممتاز فلمی/ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ ستمبر-1987 میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ وہی انٹرویو یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

کافی عرصے تک نیک دل، نیک خو رول کے لیے فلم میکرز رشی کو اولیت کا درجہ دیتے رہے۔ ان کی یہ ترجیح بےسبب نہیں ہوتی تھی۔ رشی واقعی ایسے رول کو ایک خاص قسم کا وقار عطا کر دیتا ہے۔ اور اس میں آسمانی فیصلے کی جھلک کے ساتھ انسانی خامیوں کا رنگ بھی بھر دیتا ہے۔ اس طرح رشی کی بدولت وہ رول زیادہ فطری، زیادہ جاندار معلوم ہونے لگتا ہے۔
رشی کپور سے پہلا ہی سوال یہ کیا گیا:

سوال:
کیا تمہیں کوئی لت بھی لگی ہوئی ہے؟
جواب:
جی ہاں۔ ہے تو سہی۔ مجھے مونگ پھلی کے مکھن کی ایسی لت پڑی ہے کہ چھوٹتی ہی نہیں۔ اس نعمت کو دیکھتے ہی مجھے خود پر قابو نہیں رہتا۔ تاہم میرا خیال ہے کہ جس شخص کو یہ مکھن پسند ہو وہ بہت برا کبھی نہیں بن سکتا۔

شاید رشی کپور مذاق کر رہا تھا۔ کیونکہ اس کے دوست اور فلم "ساگر" میں اس کے ساتھی اداکار کمل ہاسن نے ایک بار کہا تھا:
"اس شخص (رشی کپور) کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے۔ اگر اس نے احتیاط نہ برتی تو اداکاروں کی پوری برادری کو 'نیک نام' کر جائے گا۔"
تاہم اس میں شک نہیں کہ اسکینڈل کا غبار رشی کو کبھی نہیں گھیرتا۔ اس کے یہاں نہ طلاق کا گزر ہے، نہ نشے میں دھینگا مشتی کا۔ وہ ایک ہی بیوی (نیتو سنگھ) پر قناعت کیے ہوئے ہے اور اپنے حال میں مگن ہے۔

سوال:
جو ستارے نجی زندگی میں اتھل پتھل اور ہنگاموں سے دور رہتے ہیں، کیا تمہارے خیال میں تماشائی ان کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟
جواب:
جی نہیں، معاملہ اس کے برعکس ہے۔ تماشائیوں کو تو ایسے ستاروں سے زیادہ لگاؤ ہوتا ہے جو انہیں غمزدہ نظر آئیں۔ جو پیار میں مایوسی سے دوچار ہوں، جو ہمیشہ کسی نہ کسی تباہی کی کگر پر کھڑے دکھائی دیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں ایسے ستاروں میں سے نہیں ہوں اور نہ ایسا بننا چاہتا ہوں۔ پرستاروں کی بھیڑ بڑھانے کی خاطر مجھے اپنا گھر برباد کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ نیتو سے میری شادی چٹان کی طرح مستحکم ہے اور اس مضبوط بنیاد پر اداکار کے طور پر میرا مقام بھی بنا ہے۔ اگر نیتو نہ ہو تو مجھے بالکل ایسا لگے گا جیسے زمین میرے قدموں تلے سے کھسک گئی ہو۔

سوال:
ویسے نیتو کی کون سی ادا تمہیں سے زیادہ پسند ہے؟
جواب:
ہر ادا۔ سب سے بڑی خصوصیت اس میں یہ ہے کہ وہ الٹرا ماڈرن نہیں ہے۔ مجھے ایسی عورتیں زیادہ اچھی لگتی ہیں جو عورت کی حیثیت سے اپنے آپ میں خوش اور مطمئن ہوں۔ اور نیتو ان انتہائی مطمئن عورتوں میں سے ایک ہے جن کو میں جانتا ہوں۔

سوال:
یہ تو کچھ زیادہ ہی تعریف ہو گئی؟
جواب:
زیادہ؟ یہ تو کم تعریف ہوئی۔ ایک ایسے پروفیشن میں جہاں شادی کے رشتے آئے دن ٹوٹتے بکھرتے رہتے ہیں، ہماری شادی کا اتنے لمبے عرصے تک قائم رہنا بلاشبہ دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک ہے۔ پھر مجھے اپنی قسمت پر ناز کیوں نہ ہو؟

سوال:
تو کیا تمہاری شادہ شدہ زندگی میں کھنچاؤ اور ناخوشگواری کے لمحے کبھی نہیں آئے؟
جواب:
میں نے یہ کب کہا ہے؟ اگر میں یہ دعویٰ کرنے لگوں کہ ہمارے درمیان ہر پل ہم آہنگی رہتی ہے اور سکھ کی برکھا ہر آن ہم پر ہوتی ہے تو یہ دعویٰ حقیقت سے قریب نہ ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسا کھٹ پٹ سے بالکل پاک تال میل کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن بات بڑھائی نہ جائے تو زیادہ کبھی نہیں بگڑتی۔ مثلاً تکرار کے وقت اس طرح کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ اف بھگوان! اب میں مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر اس طرح کی سوجھ بوجھ موجود ہو تو چھوٹے موٹے گھریلو جھگڑے چاہت کے رشتے کو اور بھی مضبوط کر جاتے ہیں۔

سوال:
اچھا تو اختلاف اور تکرار کی نوبت تمہارے یہاں بھی آتی رہتی ہے؟
جواب:
جی ہاں۔ لیکن اصل اہمیت جھگڑوں کی نہیں، سوجھ بوجھ کی ہے۔ آدمی میں اتنی عقل ضرور ہونی چاہیے کہ جذباتی ٹکراؤ کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ جذباتی اتار چڑھاؤ کو زندگی کا معمول سمجھ کر قبول کرے۔ یہ سوچے کہ دوسرا فریق جان بوجھ کر جھگڑا نہیں کر رہا ہے، بلکہ وہ اپنے خیال میں برحق ہے۔ پھر اسے خود کو دوسرے فریق کی جگہ تصور کر کے اس کے رویے کے لیے اسی طرح جواز ڈھونڈنا چاہیے جیسے وہ اپنے رویہ کے لیے جواز ڈھونڈا کرتا ہے۔ یہ عمل محنت طلب بھی ہے اور صبر آزما بھی، لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے۔ شادی یوں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھنے، ایک دوسرے کو وقت اور توجہ دینے کی مانگ کرتی ہے۔ خاص طور سے ایسی صورت میں جب شادی زیادہ عمر میں نہ کی گئی ہو، جیسے میری اور نیتو کی شادی (جنوری-1980) ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں یہی تصور کرنا چاہیے کہ ایک لمبے ہنی مون کا دور شروع ہو رہا ہے۔

سوال:
تم ایک اچھے اداکار کے طور پر کیسے ابھرے؟
جواب:
فن کی راہ پر میں نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ شروع کے دنوں میں (مثلاً: "میرا نام جوکر" میں) مجھے بھی ایسے فرسٹریشن سے دوچار ہونا پڑتا تھا جس کا سامنا ہر نوجوان اداکار کو کرنا پڑتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد نیتو نے مجھے بہت سنبھالا، بہت حوصلہ بخشا۔ میرا خیال ہے، اس طرح ہمت بندھانا ہر بیوی اور ہر شوہر کے بنیادی فرائض میں سے ایک ہے۔ آدمی چاہے کار کے کل پرزے جوڑ کر کار بناتا ہو یا سمفنی [symphony] (راگ) پیش کرتا ہو، جیون ساتھی کو اس کی مدد کے لیے ہر دم آمادہ رہنا چاہیے۔ جب نیتو نے مجھ سے شادی کرنے کے بعد ایکٹنگ کیرئر چھوڑ دیا تو میرے کام میں مدد کرنے کو اس نے اپنا ایک فرض سمجھ لیا۔ یہ اس کی سوجھ بوجھ کی دلیل ہے۔ میں نے بھی بدلے میں اسے بساط بھر آرام کی زندگی دی۔ میرے خیال میں اس بات کی وہ تردید نہیں کرے گی۔

سوال:
یعنی تم نیتو کو اپنی زندگی کا محور مانتے ہو۔ ہے نا یہی بات؟
جواب:
آپ نے درست کہا۔ نیتو سچ مچ میری زندگی کا محور ہے۔ ہر قدم پر اس نے میرا ساتھ دیا ہے۔ ہر مشکل وقت میں وہ میرے لیے حوصلے کا سرچشمہ بنی ہے۔ اب تو میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اگر میں کنوارا رہتا تو میری زندگی یا میرا کیرئر کس رخ پر جاتا؟ لیکن یہ طے ہے کہ اس زندگی میں سنسان اکیلے پن، بےاطمینانی اور فکروں کا ہی دور دورہ ہوتا۔

سوال:
فلم "نگینہ" کی بےپناہ کامیابی کے بعد اب تو تم اپنے کیرئر سے خوش اور مطمئن ہوگے؟
جواب:
میں صرف وہ کام کرتے وقت خوش اور مطمئن ہوتا ہوں جو مجھے پسند ہے۔ اداکاری مجھے جان سے زیادہ پیاری ہے، اس لیے جب میں کام کرتا ہوتا ہوں تو لازماً خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ اگر مجھے دو رولز میں سے ایک کو چننے کا موقع دیا جائے تو میری خوشی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں زیادہ فکرمند بھی نہیں رہتا۔ یہ اور بات ہے کہ فلموں کے دھندے میں کسی بھی شخص کو مکمل چین اور سکون میسر نہیں آ سکتا۔ بےیقینی سب کو گھیرے رہتی ہے۔ محفوظ یہاں کوئی بھی نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہم اتنے ہی اچھے (یا برے) ہیں جتنی ہماری آخری فلم۔ آج کل میں بہت کم فلمیں سائن کر رہا ہوں۔ مگر مجھے اس کی بھی کوئی خاص پروا نہیں۔ تاہم اگر بہت سی فلمیں ہوں تو مجھے خوشی ضرور ہوگی۔ بنیادی طور پر میں خود کو ایک اداکار ہی سمجھتا ہوں۔ اس لیے میں نے یہ سبق بھی سیکھ رکھا ہے کہ یہاں مجھے بہت زیادہ توقع کبھی نہیں کرنا ہے۔ مجھے بار بار کھوج کر نکالا جاتا ہے اور بار بار نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی مجموعی اعتبار سے اب تک میں خوش قسمت ہی رہا ہوں۔ مجھے طرح طرح کے، ایک دوسرے کے بالکل برعکس رولز ملتے رہتے ہیں۔ ایک اداکار کی قدر اس سے بڑھ کر اور کس طرح ہو سکتی ہے؟

سوال:
کیا تمہارے خیال میں اداکاری کے میدان میں بہت زیادہ اور بہت کڑا مقابلہ نہیں ہے؟
جواب:
ہوگا۔ میں بہرحال اس دوڑ میں شریک نہیں ہوں۔ ایک اعتبار سے میں زندگی کے سفر میں اکیلا راہی ہوں۔ میں خود کو کسی کے بھی خلاف مقابلے پر کھڑا نہیں کرتا۔ ایکٹنگ کے معاملے میں بھی میرا یہی رویہ ہے۔

سوال:
کوئی رول قبول کرنے کے بعد تم اسے ادا کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہو؟
جواب:
کوئی خاص نہیں۔ میں رول کو مانگے کے لباس کی طرح پہننے کے خلاف ہوں۔ کسی بھی کردار کو مصنوی ناک کی طرح چپکا لینا مجھے گوارا نہیں۔ ارادہ کر کے رول طاری کرنا مجھے نہیں آتا۔ میں خود وہ رول بن جاتا ہوں، اپنے آپ کو پوری طرح اس رول میں سمو دیتا ہوں۔ موقع ڈھونڈنے کی جگہ میں اپنا سب کچھ پہلے ہی رول کو سونپ دیتا ہوں۔ کبھی کبھی میں رول کو بڑھانے کو ترجیح دیتا ہوں، تاکہ میرے اندر جو کچھ ہے، رول میں سما جائے اور رول کے ذریعے میری پوری ذات کا اظہار کر سکے۔

سوال:
کیا اپنے ڈیڈی کی طرح تمہیں بھی ڈائرکٹر بننے کا ارمان ہے؟
جواب:
نہیں۔ مجھے ایسا کوئی ارمان نہیں۔ اس کام میں محنت بہت زیادہ ہے۔ لوکیشن کی تلاش میں مارے مارے پھرنا، لوگوں کو جمع کرنا، ان سے بات چیت کرنا، معاملات طے کرنا، یہ سوچنا کہ کون سے آرٹسٹ فلم کے لیے موزوں رہیں گے؟ یہ سب بکھیڑے کون لے؟ اس لیے میں اداکاری کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتا ہوں۔ ڈائرکٹر بن کر میں اس لطف سے بھی محروم ہو جاؤں گا جو کام کرتے وقت مجھے آج میسر آتا ہے۔ میں اپنی زندگی میں اس لطف کو باقی رکھنا چاہتا ہوں جو اداکار کے طور پر مجھے حاصل ہوتا ہے۔

سوال:
دوسرے ستاروں کے برعکس تم عام طور پر زیادہ مار دھاڑ کے رول کیوں نہیں کرتے؟
جواب:
مار دھاڑ کے رول میں خود کو اکھڑا اکھڑا سا محسوس کرتا ہوں۔ یہ میدان میرے لیے نہیں ہے۔ شاید مزاج کا یہ رنگ بیتے دنوں کی دین ہے۔ ویسے میں پردے پر برہمی کے اظہار کے خلاف نہیں۔ غصہ ایک صحت مند جذبہ ہے۔ یہ تخلیقی امنگ اور اپج کو دبائے جانے کا ردعمل ہے۔ یہ احتجاج ہے، جواب طلب کرنے کا انداز ہے، حالات کو بدلنے کی تڑپ ہے۔

سوال:
تم نے ایسی بہت سی غیراہم فلموں میں کام کیا ہے جو ذرا بھی نہیں چلیں، آخر کیوں؟
جواب:
مجبوری میں۔ ہم لوگ کمرشیل فلموں کی دنیا میں ہیں اور اس دنیا کی ریت سے بچ نہیں سکتے۔ اگر ہمیں روپیہ حاصل کرنا ہے تو اس دنیا کے قاعدوں، قوانین کے آگے سر جھکانا ہی پڑے گا۔ ایک بار فلم قبول کرنے کے بعد وہ جیسی بھی بنے، ہمیں اسے قبول کرنا ہوگا۔ فلم کی کسی خرابی کے لیے ہم اپنے سوا کسی کو بھی خطاوار نہیں ٹھہرا سکتے۔

سوال:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنی فلموں کی کامیابی یا ناکامی کو تم زیادہ خوش یا زیادہ اداس ہوئے بغیر قبول کر لیتے ہوگے؟
جواب:
جی ہاں۔ اب میں نے ہر اس دباؤ، مایوسی، کامیابی یا ناکامی کے مرحلے سے مردانہ وار گزرنے کا گر سیکھ لیا ہے، جو ایک فلم اسٹار کے دشوار گزار جنگل کا لازمی حصہ ہے۔

سوال:
تم رول چنتے وقت کون کون سی باتوں پر دھیان دیتے ہو؟
جواب:
سب سے پہلے تو پروڈیوسر اور ڈائرکٹر میری پسند کا ہونا چاہیے۔ اسکرپٹ کی بھی کافی اہمیت ہے۔ لیکن آپ تو جانتے ہی ہوں گے، فلم میکنگ میں بچارے رائٹر کو ہی سب سے زیادہ اور آسانی سے پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ اگر پروڈیوسر اور ڈائرکٹر کسی سین کے بارے میں کہیں کہ بات جمی نہیں تو رائٹر کو سین بدلنا ہی پڑتا ہے۔ اگر وہ سین بدلنے کو تیار نہ ہو تو اس کی جگہ سین کو دوبارہ لکھنے کے لیے کسی اور کی خدمات حاصل کر لی جاتی ہیں۔

سوال:
ہماری فلموں کا معیار روز بروز گرتا کیوں جا رہا ہے؟
جواب:
مجھے آپ کی بات سے اختلاف ہے۔ فلمیں عوام کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ میں بناوٹ کے سخت خلاف ہوں۔ مجھے ایسے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے جو خواہ مخواہ اپنے کام کو فنکارانہ کوشش کا درجہ دیں، جبکہ حقیقت میں ان کی نظر صرف باکس آفس سے حاصل ہونے والی دولت پر ہوتی ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی کی نظر باکس آفس پر ہے تو اس مہم کو سر کرنے کی دھن میں رہے اور اس کی کاوش ایسی ہو کہ اس سے عوام کو تفریح میسر آئے۔ ہمارے یہاں طرح طرح کے لوگ ہیں، مگر سب کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ کوئی عظیم ترین فلم بنا رہے ہیں۔ لیکن اصلیت یہ نہیں ہوتی۔ تاہم ہم لوگ عوام کو تفریح تو فراہم کر ہی سکتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ آج عوام کو ہم اس سے بہتر تفریح مہیا کر سکتے ہیں جیسی پہلے کی جاتی رہی ہے۔

سوال:
ایک اداکار کی زندگی میں کیا تم قسمت کے رول کے بھی قائل ہو؟
جواب:
میں سمجھتا ہوں کہ پہلے سے طے شدہ مواقع سب ہی لوگوں کو ملتے ہیں۔ کامیابی ان کے حصے میں آتی ہے جو ان مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہیں اور اتنے باہمت (یا اتنے خود غرض) ہوں کہ اس منزل کو سر کرنے کے لیے باقی ہر شے (اور ہر شخص) کو بھول جائیں، تج دیں، قربان کر دیں۔

سوال:
کچھ اداکار دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی رول کرنے سے پہلے وہ حقیقی زندگی میں اس رول سے ملتے جلتے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں، تاکہ ان کے طور طریقوں کا جائزہ لے سکیں۔ مثلاً شبانہ اعظمی فلم "منڈی" میں اپنا رول کرنے سے پہلے جسم بیچنے والی عورتوں کے علاقے میں گئی تھیں۔ کیا تمہارا بھی یہی معمول رہا ہے؟
جواب:
جی نہیں۔ میں سرے سے کسی بھی کیرکٹر سے ملنے کا قائل نہیں۔ اس کی وجہ خود وہ ڈراما ہے جو رائٹر نے لکھ رکھا ہے۔ اسکرپٹ بہرحال اسکرپٹ ہے، خواہ اس کی بنیاد حقیقت ہو یا خیال۔ رول سے ملتا جلتا شخص اگر جیتے جاگتے روپ میں کہیں ملے گا بھی تو بہت مشکل سے ملے گا۔ یوں بھی ایسی کوشش سے رول کرنے میں مدد کم ملے گی، رکاوٹیں زیادہ سامنے آئیں گی۔ ہمیں تو رول کی روح کو پیش کرنا ہوتا ہے، اس کے جسم کو نہیں۔ مان لیجیے اصل زندگی میں رول سے ملتا جلتا شخص لمبے قد کا، لحیم شحیم، بڑی بڑی آنکھوں والا نکلتا ہے، جبکہ میرا قد چھوٹا ہے، جسم اوسط اور آنکھیں سکڑی ہوئی۔ تو ایسی صورت میں کیا اس کا جائزہ لینا رول کو ادا کرنے میں مشکلیں کھڑی نہیں کرے گا؟

سوال:
اسٹار کے طور پر ہر جگہ پہچانے جانے اور شہرت پانے پر تمہارا دل مگن تو ہوتا ہوگا؟
جواب:
کچھ زیادہ نہیں۔ اسٹار کا رتبہ اداکار خود حاصل نہیں کرتا۔ یہ رتبہ تو لوگ اس پر لادتے ہیں۔ اسی لیے میں اس پر ناز کرنے سے کتراتا ہوں۔ اور شاید کچھ زیادہ ہی کتراتا ہوں۔ لیکن کیا کیا جائے، حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے۔ فلم کے میڈیم کی طرف اگر میں آیا ہوں تو اس لیے کہ لینس کے سامنے کام کرنے کا میلان اپنے اندر پاتا ہوں۔ لیکن میرے اندر واقعی یہ میلان ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ کرنے کا حق مجھے نہیں پہنچتا۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ کیمرے کے سامنے کام کرنا مجھے بالکل نہیں آتا۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر میں کوئی کام بہتر طور پر کر سکتا ہوں تو فلموں میں ہی کر سکتا ہوں۔ اور شاید ان ہی لوگوں کا خیال درست بھی ہے۔ مجھے بہرطور اپنے کام سے کام ہے۔ میں اس فکر میں کیوں جان کھپاؤں کہ مجھے اسٹار کا رتبہ حاصل ہے یا نہیں؟ اور اگر حاصل ہے تو کتنے بڑے اسٹار کا رتبہ حاصل ہے؟

سوال:
کیا تم خود کو بہت باصلاحیت اداکار سمجھتے ہو؟
جواب:
لن ترانی ہانکنا مجھے نہیں آتا۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ہر فلم ایک نئی مہم کی طرح ہوتی ہے اور صلاحیت گویا سونے کا ٹکڑا ہے۔ آپ اس سونے کے ٹکڑے سے ایک ٹائی پن کو پگھلانے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اگلی بار کچھ اور بنانے کے لیے سونے کا ٹکڑا آپ کو پھر حاصل ہو جائے۔ لیکن یہ صرف ایک عام کلیہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سب اسی کلیہ کے پابند رہیں۔ ہالی ووڈ تک میں ایسے لوگ ملیں گے جو اداکاری اس لیے کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح ایسے اسٹار بھی ہوتے ہیں جنہیں اداکاری کرنے کا ارمان ہوتا ہے، لیکن برٹ رینالڈس [Burt Reynolds] کی مثال لیں تو ایک اور رخ سامنے آتا ہے۔ وہ ہمیشہ اسکرین پر کام کرتے رہنے کا آرزومند رہتا تھا۔ میرا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

رشی کپور کے چند یادگار فلمی نغمے:
سوچیں گے تمہیں پیار کریں کہ نہیں (فلم: دیوانہ)
تم کو میرے دل نے پکارا ہے (فلم: رفوچکر)
بچنا اے حسینو ، لو میں آ گیا (فلم: ہم کسی سے کم نہیں)
دردِ دل دردِ جگر، دل میں جگایا آپ نے (فلم: قرض)
پردہ ہے پردہ، پردے کے پیچھے، پردہ نشیں ہے (فلم: امر اکبر انتھونی)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: ستمبر 1987

Rishi Kapoor, Evergreen Heartthrob, Dies At 67.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں