کشمیر جنت نظیر - گر فردوس بہ روئے زمیں است - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-13

کشمیر جنت نظیر - گر فردوس بہ روئے زمیں است

kashmir a paradise lost

ذیل میں ایک مراسلے کا، جو اردو ہفتہ وار کو لکھا گیا تھا، اقتباس درج کیا جا رہا ہے۔ اس مراسلے میں مراسلہ نگار نے کشمیریوں پر مظالم کا ذکر کیا اور اس ضرب المثل کا بھی ذکر کیا جو یوں ہے:
"میں نے اسے اتنا مارا اتنا مارا کہ کوئی کسی کشمیری کو بھی نہیں مارے گا"
مراسلہ نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اسے کشمیریوں پر ظلم اور مندرجہ بالا ضرب المثل سے بہت تکلیف پہنچتی تھی۔ اس نے مراسلے میں لکھا:
۔۔۔ نہ جانے کیوں میری مظلوم کشمیری قوم کو ہر کوئی ہدف ستم بناتا ہے؟ کیا ہمارا کشمیری ہونا گناہ ہے کہ ہر کوئی ہم پر ظلم ڈھاتا ہے؟
اس علی گڑھ کے کشمیری طالب علم کو حالات کے بدلنے کا انتظار تھا جب کشمیری قوم ظلم کا جواب ظالم کو برابر کا بدلہ پہنچا کر دے۔

یہ مراسلہ سن 1980 کے پہلے کا ہے۔ لیکن غالباً اس کشمیری طالب علم کی مراد بر آئی اور 1980 سے کشمیر میں MILITANCY ، شورش اور بغاوت کے آثار پیدا ہونے لگے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پے در پے کئی حکومتیں آئیں لیکن کشمیری نوجوانوں، طلباء اور کشمیری مجاہدین کی اس جدوجہد کو مکمل طور سے کبھی بھی کچلا نہیں جا سکا۔

کشمیریوں پر مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آیئے ایک جائزہ لیا جائے کہ اس کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟ اور اب تک کیوں جاری ہے؟ ان میں کشمیریوں کے حقوق کی تلفی آرٹیکل 370 اور 35A کی گذشتہ سال والی برخاستگی کو بھی شامل کر لیجیے اور تازہ ترین بی جے پی کے حکمنامے یعنی 15 سال کے کشمیری مقیمین کو شہریت اور جائیداد کی خرید وغیرہ کی سہولتوں کو بھی شامل کر لیجیے۔

دراصل انگریزوں نے 1846 میں ساڑھے سات (7.5) ملین روپوں کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ [Maharaja Gulab Singh Jamwal] کو کشمیر بیچ دیا تھا اور گلاب سنگھ، ڈوگرہ راج [Dogra dynasty] کے اولین راجہ کشمیر بنے۔ یہیں سے ڈوگرہ راج کشمیر میں چلنے لگا۔ کشمیریوں پر اور بالخصوص مسلم کشمیریوں پر مظالم کا آغاز گلاب سنگھ کے دور سے ہی شروع ہوا اور عام کشمیری ڈوگروں کے آگے بے بس رہتا تھا۔ ڈوگروں کو تمام حقوق حاصل تھے اور اہم عہدوں پر بھی ڈوگرہ افراد فائز تھے۔ عام کشمیری غربت، افلاس اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتا تھا۔ گلاب سنگھ کے بعد 1925 میں ان کے بیٹے ہری سنگھ نے مہاراجہ کشمیر کی گدی سنبھالی۔ ہری سنگھ کے دور میں بھی ڈوگرہ برتری برقرار رہی اور عام کشمیری مظالم کا شکار رہا۔ در اصل ڈوگرہ راج اتنی مضبوطی کے ساتھ قائم تھا کہ عام کشمیری کو نہ شخصی آزادی حاصل تھی اور نہ ہی حقوق۔ مہاراجہ ہری سنگھ بالکل مطلق العنانی سے کشمیر پر حکومت کرتے رہے حتی کہ برصغیر میں دو ممالک ہندوستان اور پاکستان وجود میں آ گئے۔ یہاں انگریزوں نے آزادی دینے دیتے ایک ایسی چال چلی جس نے دیسی والیان ریاست کو ان کی وفاداری کا صلہ بھی انگریز بتلاتے ہوئے چلے گئے۔ یعنی برطانوی حکومت نے دیسی والیان ریاست کو اپنی ریاست کو ہندوستان یا پاکستان میں ضم کرنے کی آزادی دے دی۔ ایک اور مراعات انگریزوں نے دیسی والیان ریاست کو یہ دی کہ وہ چاہیں تو اپنی ریاست کو دونوں ممالک سے الحاق کئے بغیر آزاد رکھیں۔
ان مراعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نظام دکن نے حیدرآباد ریاست کو آزاد ڈکلیر کر دیا۔ ریاست جونا گڑھ نے بھی حیدرآباد کے نقش قدم پر چل کر جونا گڑھ کو آزاد ریاست قرار دے دیا۔ مگر دونوں ریاستوں پر سردار پٹیل نے فوج کشی کر کے ان ریاستوں کو ہند یونین میں شامل کروا لیا۔
مہاراجہ ہری سنگھ بھی چاہتے تھے کہ ریاست کشمیر آزاد رہے۔ الحاق کے معاملے میں مہاراجہ ہری سنگھ کی نیت بھی ڈانوا ڈول تھی لیکن پشتون قبائیلیوں کا کشمیریوں کے ساتھ کر مل کر شورش بپا کرنا اور سری نگر اور کشمیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لینا، ان سب مسائل نے مہاراجہ ہری سنگھ کو بوکھلا دیا اور وہ بھاگ کر دہلی چلے آئے اور ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔
26/اکتوبر 1947 کو الحاق پر دستخط کرنے کے بعد اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے یہ تیقن دیا تھا کہ کشمیر جیسے ہی حملہ آوروں سے خالی ہوتا ہے تو پھر الحاق کا مسئلہ عوامی رائے شماری [Plebiscite / Referendum] کے ذریعے طئے کیا جائے گا۔ اس معاہدے پر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن گورنر جنرل کے بھی دستخط ہیں۔ اس معاہدے کی شق (8) کے مطابق یہ وضاحت بھی موجود تھی کہ کشمیر کی خود مختاری کو کوئی دھکہ نہ پہنچے۔
مہاراجہ کو صدر ریاست کا درجہ دیا گیا اور چیف منسٹر کشمیر کے لئے وزیراعظم کا درجہ بھی تھا۔ ریاست کا علیحدہ دستور، پرچم [Flag] اور اندرون ریاست نظم و نسق پر کنٹرول کی یہ ساری مراعاتیں الحاق کے وقت مہارجہ کو دی گئی تھیں۔ اکتوبر 1947 ہی میں پاکستان سے ملحق کشمیر جس پر قبائیلیوں نے قبضہ کر کے اسے مرکزی کشمیر سے علیحدہ کر دیا تھا، وہ "آزاد کشمیر" کہلایا اور یہ علاقہ ہنوز پاکستان کی فوج تائید سے آزاد ہے اور کشمیر سے علیحدہ ہے۔
اکتوبر 1949 کے دوران قبائلی شورش اس بات پر ختم ہوئی کہ ان کے مقبوضہ علاقے کو ریفرینڈم یا رائے شماری کے ذریعے تسلیم کیا جائے اور رائے شماری
کے ذریعے پورے کشمیر علاقے کا فیصلہ کیا جائے۔ اس کے بعد جنگ بندی اکتوبر 1949 میں ہی ہوئی۔ مگر ہنوز خط قبضہ کے اس طرف آزاد کشمیر کا علاقہ ہے اور مشرق میں جموں اور سری نگر کا علاقہ ہے، لداخ بھی اس میں شامل رہا۔
مئی 1951 میں دستور ساز اسمبلی کشمیر میں قائم ہوئی اور 1957 میں اس اسمبلی نے خود کو تحلیل کر دیا۔
اس دوران جتنی بھی حکوتیں آئیں چاہے وہ کانگریس کی ہو یا جنتا پارٹی کی یا بی جے پی کی، کسی نے بھی کشمیری عوام کے حقوق، امنگوں اور آزادئ تحریر و تقریر کا لحاظ نہیں کیا بلکہ بہ جبر کشمیریوں سے اس بات کی بیگار لی جاتی تھی کہ وہ ہندوستان سے وفاداری کا اظہار کریں۔
نام نہاد انتخابات کرائے جاتے رہے اور ان انتخابات میں کشمیریوں کو (ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح) آزادانہ انتخاب لڑنے کا کبھی موقع نہیں دیا گیا۔ پولنگ بوتھس سے لے کر ہر مقام پر فوج تعینات رہی۔ یہ واضح رہے کہ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں کہیں بھی سات لاکھ فوج متعین نہیں ہے۔ حتی کہ شورش زدہ ناگالینڈ اور میزورم میں بھی نہیں۔ فوج کی زیادتیوں کے واقعات تو عام ہیں اور بین الاقوامی ادارے بھی کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

عبدالله خاندان کا کشمیر کی سیاست پر اثر
صدر کشمیر مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں ظلم و ستم کو برداشت نہ کرتے ہوئے شیخ محمد عبدالله نے ہری سنگھ کے خلاف مورچہ کھول لیا۔ مہاراجہ کے دور میں ابتدا میں شیخ عبداللہ کی پارٹی کا نام "مسلم کانفرنس" تھا جسے بعد میں بدل کر "نیشنل کانفرنس" کر دیا گیا اور اب بھی عبدالله خاندان نیشنل کانفرنس سے وابستہ ہے۔
نیشنل کانفرنس کی قیادت شیخ عبداللہ کے بعد ان کے فرزند فاروق عبداللہ کرتے رہے اور بعد ازاں فاروق عبداللہ کے فرزند عمر عبدالله بھی نیشنل کانفرنس کے ذریعے مرکزی وزیر بنے۔ عمر عبداللہ بھی نیشنل کانفرنس کے اہم قائدین میں شمار ہوتے ہیں (جنہیں اگست 2019 سے گھر پر نظر بند رکھا گیا ہے) عبدالله خاندان کی کشمیر کی سیاست پر اہم گرفت ہے۔
مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف مورچہ کھولنے میں شیخ محمد عبدالله نے کوئی دیری نہیں کی تھی۔ انہیں اپنے دوست جواہر لال نہرو کی بھی مکمل تائید حاصل تھی۔ جواہر لال نہرو بھی کشمیری عوام کو آزادی دینے اور ان کے حقوق کی جدوجہد میں شامل رہنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ شیخ عبدالله کو ہری سنگھ نے گرفتار کروا دیا۔ جواہر لال نہرو جب احتجاج کرنے کشمیر پہنچے تو شیخ عبدالله کی تائید کی پاداش میں سری نگر میں جواہر لال نہرو کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

شیخ محمد عبدالله بہ نعرہ لگا کر جدوجہد (مہاراجہ کے خلاف) کرتے رہے کہ:
سرداری عوام کا حق ہے!
شیخ صاحب نے 1965 میں اپنی طویل نظر بندی کے اختتام پر نئی دہلی کے "شبستان اردو ڈائجسٹ" کو طویل انٹرویو دیا۔ جسے شبستان اردو ڈائجسٹ نے
کتابی شکل دے کر "شیخ عبدالله نمبر" بنا دیا۔
یہ ایک تاریخی دستاویز ہے جس میں شیخ محمد عبدالله نے کشمیر کے تعلق سے کئی انکشافات کئے۔ شیخ صاحب نے نہرو کی بے وفائی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ:
بغیر کسی معقول وجہ کے، نہرو نے مجھے معزول کر کے بخشی غلام محمد کو وزیراعظم کشمیر بنا دیا۔ 1953 سے 1965 تک میں نظر بند رہا۔ میری زندگی کا ہر چھٹواں دن حراست میں گزرا۔
نہرو کی اس بے وفائی نے، نہرو کی دوستی کو شیخ عبدالله کے نزدیک مشکوک بنا دیا تھا۔ بہرکیف شیخ عبد الله نے ان باتوں کو کسی طرح بھلا دیا اور اندرا گاندھی کے دور میں جب رہائی ملی تو وہ کشمیر کی سیاست میں دوبارہ سرگرم ہونے پر راضی ہو گئے۔ شیخ عبدالله اور ان کے قریبی ساتھی مرزا افضل بیگ نے پہلی بار ہونے والے آزادانہ انتخابات 1977 میں حصہ لیا اور نیشنل کانفرنس، کشمیر میں برسر اقتدار آ گئی۔ اس دوران ریاست جموں و کشمیر کے صدر ریاست، مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ ہوئے۔ مہاراجہ کرن سنگھ اس وقت صدر ریاست کے ٹائٹل سے محروم ہو گئے جب اندرا گاندھی نے والیان ریاست کے جیب خاص [Privy Purses] ، خطابات اور مراعات کو ختم کر دیا۔ کرن سنگھ تب سے کانگریس میں شامل ہیں اور اب بھی کشمیر کی سیاست میں ان کا ایک خاموش رول ہے۔

عبدالله خاندان اب بھی شیخ محمد عبدالله کے اس نعرے [SLOGAN] کا قائل ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہے کہ :
سرداری عوام کا حق ہے!
خود عمر عبدالله نے بی جے پی کے مجوزہ شہریت کے نئے قوانین پر کہا کہ:
ڈومسائل [DOMICILE] قانون نے زخم کو ہرا کر دیا ہے!!

بی جے پی نے جو نیا قانون کشمیر پر مسلط کیا ہے، اسے عام کشمیری تو کیا ہندوستان کا ہر سیکولر ترقی پسند سیاست داں نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے، کیونکہ چاہے عبدالله خاندان ہو یا مفتی سعید با پھر محبوبہ مفتی، ہر ایک نے مرکزی حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور تعاون دیا ہے۔ مگر بی جے پی اپنے اس ایجنڈہ [AGENDA] پر آ گئی ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست پر بیرونی افراد کی آبادی کو مسلط کر دیا جائے۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ کشمیر کے ابتدائی شورش زدہ ایام میں گورنر جگموہن (کشمیریوں پر جن کے مظالم آج بھی یاد کئے جاتے ہیں) نے راجیو گاندھی کو صورتحال سے واقف کروایا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اسرائیل کے سفیر کو جموں و کشمیر کا دورہ بھی کروایا۔ تب ہی (غالباً 1985 میں) اسرائیلی سفیر نے حکومت ہند کو مشورہ دیا کہ آپ تبادلہ آبادی کی پالیسی اپنائیے اور مسلم اکثریتی کشمیر میں ہندو آبادی بڑھایئے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے۔
آج مودی - امیت شاہ کی پالیسیاں کچھ ایسی بن رہی ہیں کہ کشمیر میں کشمیری عوام بے بس ہو کر رہ جائیں اور اس قابل بھی نہ رہیں کہ اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر سکیں۔

گر فردوس بہ روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

آج اس فردوس پہ روئے زمین کشمیر پر بی جے پی مظالم کا نیا سلسلہ شروع کرنے جا رہی ہے اور کشمیر جنت نظیر کے عوام اس کا شکار ہونے جا رہے ہیں۔
گو کہ سنا یہ بھی گیا ہے کہ عبد الله خاندان کے موجودہ وارث عمر عبدالله کو پھر سے چیف منسٹری دے کر بی جے پی اپنا ایجنڈہ ختم کرے۔
خدا کرے کہ کشمیریوں پر مظالم اور حقوق تلفی کا سلسلہ ختم ہو۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن، 12/اپریل 2020۔

Kashmir, a paradise on earth. Column by: Qutubuddin Khan (Dallas, USA).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں